اندوہناک قتل و غارت کس لیے ؟

ہفتہ وار تبصرہ جب سے دوحہ میں طے شدہ معاہدے کی رو سے افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلا کا موضوع سامنے آیا ہے،تب سے کابل میں اشرف غنی انتظامیہ کوشاں ہے، تاکہ بیرونی افواج کے انخلا کے عمل کو  رکاوٹ اور تاخیر سے روبرو کریں اور اس مقصد کے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں۔ ایک […]

ہفتہ وار تبصرہ

جب سے دوحہ میں طے شدہ معاہدے کی رو سے افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلا کا موضوع سامنے آیا ہے،تب سے کابل میں اشرف غنی انتظامیہ کوشاں ہے، تاکہ بیرونی افواج کے انخلا کے عمل کو  رکاوٹ اور تاخیر سے روبرو کریں اور اس مقصد کے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں۔

ایک جانب کابل انتظامیہ کے عہدیدار  دوحہ معاہدے کے نفاذ کی راہ میں  رخنہ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے اور اس ضمن قیدیوں کے موضوع ، ریڈلائن کا اعلان، جنگ میں تیزی لانے وغیرہ مختلف طریقوں سے نمٹنے کی کوشش کی،تاکہ پرامن حل کے مجوزہ روڈ میپ کو باطل کریں۔ دوسری طرف  افغانستان کی صورتحال کو دنیا کے سامنے غلط انداز میں پیش کرنے کی جدوجہد کررہا ہے، تاکہ افغانستان میں تعینات مغربی ممالک کو  اپنی افواج  کے قیام میں توسیع کرنے پر رضامند کریں۔

حالیہ چند مہینوں کے دوران کابل انتظامیہ مسلسل طور پر دعوہ کررہی ہے کہ کاروائیوں میں القاعدہ یا  دیگر گروہوں کے غیرملکی مسلح افراد قتل ہوئے ہیں۔ جبکہ گذشتہ 10 سالوں کے دوران انتظامیہ نے ایسا کوئی دعوہ نہیں کی۔ایسے دعوؤں کو اچانک منظرعام پر لانے  سے ظاہر ہورہا ہے کہ کابل انتظامیہ دنیا کو  بے بنیاد اور من گھڑت معلومات فراہم کرتے ہوئے  افغانستان کو القاعدہ اور دیگر گروہوں کے جھوٹے پناہ گاہ کے طور پر پیش کریں۔

ایک اور بات یہ ہے کہ  کابل انتظامیہ کے خفیہ ایجنسی  پراسرار حملوں اور دل خراش ہلاکتوں کو ایک عمل سمجھتا  ہے۔ کبھی ہسپتال، زچہ وبچہ مرکز، تعلیمی اداروں، میڈیا اور کبھی شہر کے وسط میں خواتین اور بچوں کو نشانہ بناتے ہیں اور پھر زخمی ماں کے پاس روتے ہوئے بچوں کی تصاویر کھینچتے ہیں۔ اسی طرح حالیہ دنوں میں ننگرہار میں خواتین صحافیوں کا اجتماعی قتل اور اس کے بعد ان کی تصاویر کو میڈیا  پر شائع کرنے سے ظاہر ہورہا ہے  کہ یہ دل خراش ہلاکتیں اور پھر اسے منظرعام پر لانا ایک منظم اور ترتیب شدہ منصوبے کے تحت انجام ہورہے ہیں۔

کابل انتظامیہ کوشش کررہی ہے کہ اس طرح اندوہناک مناظر کو پیش کرنے سے دنیا کو افغانستان کی صورتحال انتہائی خطرناک اور خوفناک دکھادیں۔  افغانستان کو دنیا کے سامنےمعصوم خواتین، بچوں اور عام شہریوں کا قتل گاہ پیش کریں۔  تاکہ دنیا اور یہاں ملوث ممالک افغانستان کے حوالے سے عقلمندانہ مؤقف اپنانے کی جگہ جذباتی ردعمل پر مجبور کریں۔

امارت اسلامیہ نے جس طرح  کابل انتظامیہ کے اس وحشت ناک اعمال اور ہلاکتوں کی  بروقت مذمت کی ہے، ایک بار پھر ہموطنوں اور عالمی برادری کو یہ بات بتلاتی ہے کہ  پراسرار اور  دل خراش ہلاکتوں کا حالیہ سلسلہ کابل انتظامیہ کی خفیہ ایجنسی کی سرگرمیاں  ہیں۔  جو اپنی سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر ملت کا خون بہانا چاہتا ہے۔ ہموطن اور عالمی برادری کو  اس طرح وحشیانہ سرگرمیوں کے خلاف آواز اٹھانی  چاہیے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو ان حملوں کی تحقیقات کرنی چاہیں  اور صرف میڈیا کے ذریعے کیے جانے والے ردعمل پر اکتفا نہ کریں۔