ایک اور اہم قدم اٹھایا گیا

ہفتہ وار تبصرہ آج سنیچر 12 ستمبر مملکت قطر کے صدر مقام دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کی افتتاحی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ بات واضح ہے کہ افغان مسئلہ کے دو جہت ہیں، ایک بیرونی اور دوسرا اندرونی پہلو ہے۔ بیرونی جہت میں امارت اسلامیہ نے ریاستہائے متحدہ کےساتھ کامیاب مذاکرات کیے اور الحمدللہ […]

ہفتہ وار تبصرہ

آج سنیچر 12 ستمبر مملکت قطر کے صدر مقام دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کی افتتاحی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ بات واضح ہے کہ افغان مسئلہ کے دو جہت ہیں، ایک بیرونی اور دوسرا اندرونی پہلو ہے۔ بیرونی جہت میں امارت اسلامیہ نے ریاستہائے متحدہ کےساتھ کامیاب مذاکرات کیے اور الحمدللہ تمام مسائل گیارہ مراحل میں مذکرات کے دوران حل اور بعد میں ایک معاہدے پر دستخط سے یہی سلسلہ اختتام کو پہنچا۔

مسئلہ کے اندرونی پہلو کے متعلق بین الافغان مذاکرات کے  آغاز کے لیے اعتماد سازی کی خاطر چند شرائط رکھے  گئے تھے،جس میں اہم ہزاروں قیدیوں کا تبادلہ تھا۔  اگرچہ قیدیوں کا تبادلہ تاخیر اور بار بار توقف سے اختتام پذیر ہوا، مگر یہ ایک بڑی پیشرفت تھی۔ فریقین کے جیلوں سے 6000 چھ ہزار کے لگ بھگ قیدی رہا ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چھ ہزار افغان خاندانوں کے بچھڑے ہوئے رشتہ داروں کے آمد سے ہر کنبہ خوشی اور  سلامتی سے  لطف اندوز ہوا۔

اب چوں کہ ہزاروں قیدیوں کی رہائی کے بعد بین الافغان مذاکرات عملی طور پر شروع ہوچکے ہیں،  جو ہمارے ملک کے لیے عظیم خوشخبری ہے اور  تمام فریق اور معاشرے کے طبقات کو چاہیےکہ مذاکرات کو نیک شگون سے تعبیر کریں۔

جتنا بین الافغان مذاکرات کا افتتاحی اجلاس شاندار تھا، افغان فریقین کے علاوہ خطے اور دنیا کے ممالک کے وزراء خارجہ، اقوام متحدہ، اسلامی ممالک اور مختلف تنظیموں کے نمائندوں کی تقریریں، نیز پورے مرحلے میں  اسے خصوصی اہمیت حاصل رہی۔

اس مرحلے میں ہمارے ملک کے مستقبل کا انتخاب ہوگا۔ چالیس سالہ بحران کے حل اور اختتام پذیر ہونے کے طورطریقے ڈھونڈےجائینگے۔ ایک  اسلامی، خودمختار اور سربلند  افغانستان کے لیے ہماری قوم کی چالیس سالہ قربانی، ہجرت اور تکالیف کا ثمرہ اکٹھا کیا جا‏ئیگا۔

چوں کہ امارت اسلامیہ اس مرحلے کو بہت اہمیت دیتی ہے اور اس کے لیے ایک اعلی اور ہر لحاظ سے بااختیار وفد کا انتخاب کیا ہے۔ نیز مسئلہ کے دیگر فریق کو بھی اس نازک مرحلے میں ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ امارت اسلامیہ کو یقین ہے کہ تنازعہ کے بیرونی جہت کے حل کے بعد اب اس کا امکان ہے کہ افغانی ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوکر ایک اسلامی اور خودمختار نظام کے زیرسایہ اپنی زندگی بسر کریں۔

جیساکہ افغان قوم ایک مذہب، ایک نظریہ اور مشترکہ اقدار کا مالک ہے۔اسی لیے بحران کو طول دینے کی خاطر بہانے ڈھونڈنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جس طرح امارت اسلامیہ نے امریکا کیساتھ مذاکرات میں مفاہمت کا ثبوت دیاکہ غاصب دشمن کیساتھ بھی بات چیت کے ذریعے نتیجے تک پہنچ سکتی ہے۔ اسی طرح اندرونی سطح پر بھی مسائل کے پرامن حل کا پابند ہے۔

ہمارے خیال میں بین الافغان مذاکرات اس وقت کامیابی کی جانب سے بڑھ سکتے ہیں،جب تمام فریق مسائل کے حل کے لیے اپنے اسلامی اور قومی معیارات کو اصل کےطور پر تعین  کریں۔ چوں کہ مذاکرات بین الافغان ہیں،  اسی لیے اسے اجنبی مداخلت، اجنبی نظریات اور اجنبی معیارات سے پاک رکھنے چاہیے۔ ہماری اپنی مذہبی اور قومی اقدار پر افغان ملت کا یقین ہے، اسے اجنبی درآمد شدہ نظریات کی قربانی نہیں کرنے چاہیے۔