ایک ہفتے میں تین سانحات

آج کی بات: گزشتہ ایک ہفتے سے افغانستان کے مظلوم عوام پر کفار کے مظالم کا سلسلہ تیز ہوگیا ہے۔ ایک ہفتے میں کفار کی جانب سے مختلف دردناک مظالم کے پہاڑ ڈھائے گئے ہیں۔ ہر سانحے میں درجنوں معصوم شہری، خواتین اور بچے شہید ہوئے ہیں۔ آئے دن کفار اور ان کے کاسہ لیسوں […]

آج کی بات:

گزشتہ ایک ہفتے سے افغانستان کے مظلوم عوام پر کفار کے مظالم کا سلسلہ تیز ہوگیا ہے۔ ایک ہفتے میں کفار کی جانب سے مختلف دردناک مظالم کے پہاڑ ڈھائے گئے ہیں۔ ہر سانحے میں درجنوں معصوم شہری، خواتین اور بچے شہید ہوئے ہیں۔ آئے دن کفار اور ان کے کاسہ لیسوں کی جانب سے شہری آبادی اور عوامی تنصیات، کھیتوں اور مارکیٹوں پر بمباری کی جاتی ہے۔ راکٹ برسائے جاتے ہیں۔ عوام کا ہر لمحہ اس قسم کے ظالمانہ حملوں کے خوف میں گزرتا ہے۔

حالیہ ایک خبر کے مطابق گزشتہ رات غیرملکی کفار اور ان کی کٹھ پتلیوں نے مشترکہ طور پر قندوز کے علاقے  “بزکندہاری” میں چھاپے کے بعد اندھی بمباری کی،  جس کے نتیجے میں 50 گھر تباہ اور درجنوں افراد ملبے تلے دب شہید ہوگئے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق ابھی تک 35 شہداء کی لاشیں ملبے سے نکالی جا چکی ہیں، جب کہ کئی افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور زخمیوں اور شہداء کو نکال رہے ہیں۔

4 دن قبل صوبہ اروزگان کے مرکز  ترین کوٹ سے ملحق درویشان کے علاقے میں بھی غیرملکی جارحیت پسندوں کی بمباری میں بچوں اور بزرگ افراد سمیت 30 افراد شہید ہوئے تھے۔ یہ بمباری اس وقت کی گئی، جب واقعے سے صرف ایک دن قبل درویشان فوجی یونٹ کے تمام کٹھ پتلی اہل کاروں نے مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ جب کہ یہ مرکز مجاہدین کے قبضے میں آگیا تھا۔ جب مجاہدین نے فوجی عملے اور وہاں سے ملنے والے اسلحے کو محفوظ مقام پر منتقل کیا تو لوگ صبح اس مرکز کو دیکھنے کے لیے جمع تھے، جن پر کفار کے طیاروں نے انہیں نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔

اسی طرح درویشان کے سانحے سے صرف 2 دن قبل غیرملکی جارحیت پسندوں نے نائٹ آپریشن کے دوران صوبہ ننگرہار کے ضلع شیرزاد کے علاقے مرکی خیل میں چھاپے کے بعد علاقے پر شدید بمباری کی، جس میں عینی شاہدین کے مطابق 30 افراد شہید اور زخمی ہوئے۔

انتہائی افسوس کی بات ہے کہ مذکورہ تینوں سانحات کے بارے میں ابھی تک انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں نے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ معلوم نہیں کہ اس کے بعد وہ کس منہ سے افغانستان میں انسانی حقوق کی حفاظت کا نعرہ لگائیں گے؟!

عوام خون میں لت پت ہیں۔ گھر ویران ہو رہے ہیں۔ خواتین، بچے اور بوڑھے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ کئی ایک تو نکال لیے گئے ہیں، جب کہ بہت سے اب بھی منوں مٹی تلے دفن ہیں۔ باپ کو بیٹے کی خبر نہیں۔ بیوی کو شوہر کا علم  نہیں۔ بہن کو بھائی کا پتا نہیں۔ بالکل قیامت کا منظر ہے۔ آہوں اور سسکیوں کی بہتات نے ہر طرف صف ماتم بچھا دی ہے، لیکن انسانی حقوق کے ٹھیکے دار اور آزادی اظہار رائے کا دعوے دار دجالی میڈیا اب بھی کابل کی کٹھ پتلیوں کے بیانات کا منتظر ہے کہ ان کے منہ سے غلامی کی آلودگی میں لتھڑے ہوئے الفاظ نکلیں، تاکہ وہی اس واقعے کی حقیقی تصویر کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر دیں۔ چاہے وہ حقائق کو کسی بھی طرح مسخ کیوں نہ کر دیں۔

اگر انسانی حقوق کی تنظیم اور غیرجانب داری کا ڈھول پیٹنٹ والا میڈیا واقعی اپنی ذمہ داری اچھی طرح ادا کرنے کے لیے تیار ہے تو گزشتہ ایک ہفتے کے دوران تینوں سانحات سمیت قندوز کے تازہ سانحے کے بارے میں رکھا ہوا چپ کاروزہ توڑ ڈالے۔ ان گھناؤنے جرائم میں ملوث بدمعاشوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرے۔ ورنہ جہاں وہ بدمعاش قابل مذمت اور قابل گردن زدنی ہیں، وہیں اس دجالی میڈیا کا انجام بھی ایسا ہونا چاہیے۔