برسلز میں کٹھ پتلی حکومت کو کونسی کامیابی ملی؟

آج کی بات: چند دن قبل کابل کی کٹھ پتلی حکومت کے اعلی ٰ حکام  جس میں وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے ارکان ، سیکورٹی سربراہ حنیف اتمر اور افغانستان میں نیٹّ فورسز کے سربراہ جنرل جان نیکولسن نے قندوز کا دورہ کیا تھا۔ یہاں انہوں نے ایک اجلاس کے دوران حکومت کی ناکامیوں […]

آج کی بات:

چند دن قبل کابل کی کٹھ پتلی حکومت کے اعلی ٰ حکام  جس میں وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے ارکان ، سیکورٹی سربراہ حنیف اتمر اور افغانستان میں نیٹّ فورسز کے سربراہ جنرل جان نیکولسن نے قندوز کا دورہ کیا تھا۔ یہاں انہوں نے ایک اجلاس کے دوران حکومت کی ناکامیوں پر اور مسائل پر بحث کی  اور کہا کہ قندوز شہر کی سیکورٹی پر اطمینان کا اظہار کیاتھا۔ان کا کہنا تھا کہ  قندوز کی حفاظت کے لیے نیٹو فورسز سمیت افغان فورسز کے 12 ہزار مسلح  اہل کار خدمات انجام دے رہے ہیں اور طالبان پچھلے سال کی طرح اس سال قندوز پر بڑے پیمانے پر حملہ نہیں کر سکیں گے۔

لیکن اللہ تعالیٰ کی خصوصی  نصرت  سے امارت اسلامی کے سر بکف مجاہدین نے قندوز کے عوام کے مکمل تعاون سے غیرملکی جارحیت پسندوں اور ان کے کٹھ پتلیوں کے مذکورہ منصوبے خاک میں ملادئیے اور انہیں ایک بار پھر قندوز میں شکست اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ تین چار گھنٹوں کی مزاحمت سے 12 ہزار مسلح دجالی لشکر قندوز شہر سے بھاگنے پر مجبور ہوئے مجاہدین نے شہر کے تمام دفاعی اور سیکورٹی چوکیوں اور مراکز کو فتح کرلیا ہے اور تادم تحریر مجاہدین پیش قدمی کی حالت میں ہیں۔

اب تک جو مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان کے مطابق قندوز شہرکے اندر تمام حکومتی مراکز پر مجاہدین کاقبضہ ہے اور دشمن کے اہل کار فرار ہو گئے ہیں۔ اور اب مجاہدین دشمن کی آخری پناہ گاہ قندوز ائیر پورٹ پر اللہ رب العزت کی مدد سے حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

قندوز کی دوسری بار فتح ایسے حال میں ہورہی ہے جہاں کابل کے کٹھ پتلی حکمران برسلز میں سب وہ یہ کارنامہ بتانے جارہے تھے کہ انہوں نے اس سال قندوز کو مجاہدین کے حملوں سے بچایا تھا اور انہوں نے ہلمند کا دفاع کیا تھا۔

اللہ تعالیٰ کی حکمت دیکھئے کہ اشرف غنی اور عبداللہ ایسے حال میں برسلز میں پہنچے جب قندوز میں مجاہدین نے چار اطراف سے حملہ کر کے شہر کو ایک بار پھر دشمن سے آزاد کر وایا، ہلمند کے صدر مقام لشکر گاہ کے علاوہ پورے ہلمند پر امارت اسلامی کا پرچم لہرا رہاہے، اروزگان کے زیادہ تر اضلاع پر مجاہدین کا کنٹرول ہے جبکہ ترینکوٹ مجاہدین کے محاصرے میں ہے۔

ہم نہیں جانتے کہ کابل کی کٹھ پتلی  حکام نے برسلزکانفرنس میں اپنے آقا وّں کو کس کارنامے کی یاد دہانی کروائی ہوگی۔  کٹھ پتلی فورسز کی عسکری قوت کا اندازہ قندوز، ہلمند، بغلان اور اروزگان میں ان کی مجاہدین کے خلاف سرنڈر ہونے اور علاقہ چھوڑ کر بھاگ جانے سے اچھی طرح لگایا جاسکتا ہے۔

حکومت کے اندر بے انتہا کرپشن سے تو پوری دنیا واقف ہے۔ عوام کے ساتھ ان کے سلوک کا جائزہ لینا ہو تو ننگرہار  کے ضلع شینوار میں حج کی ادائیگی کے بعد گھر آنے والے حاجی  کے گھر پر ڈرون حملے سے ہی لگایا جاسکتاہے جس میں 30 شہری شہید ہوئے۔ یاد رہے کہ اس گھر پر حملہ کابل کی کٹھ پتلی انٹیلی جنس ادارے کے اہل کاروں کی نشاندہی پر کیا گیا۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ قندوز اور ہلمند کی طرح افغانستان کے تمام علاقوں میں امن و آشتی  اور اسلام کا پرچم  لہرائے اور امریکا اور اس کے کٹھ پتلی  ہمیشہ کے لیے ہماری سرزمین سے نیست و نابود ہوجائیں۔ اور اسلام ، انسانیت اور افغانیت کے دشمنوں کا مکروہ  چہرہ پوری دنیا کے سامنے  ذلت کی تصویر بن جائے۔ آمین یا رب العٰلمین