بغلان کے گورنر ملا محمد اسمعیل سے گفتگو

عزم آپریشن نے بغلان میں انقلاب برپا کردیا ہے ۔ انٹرویو: أبوعابد محترم قارئین! صوبہ بغلان افغانستان کے شمال میں واقع ہے ۔ اس کے شمال میں قندوز ، مشرق میں تخار اور پنج شیر، جنوب میں پروان اور مغرب میں بامیان اور سمنگان کےصوبے واقع ہیں ۔ صوبہ بغلان کا کل رقبہ 21112 مربع […]

عزم آپریشن نے بغلان میں انقلاب برپا کردیا ہے ۔

انٹرویو: أبوعابد

محترم قارئین!

صوبہ بغلان افغانستان کے شمال میں واقع ہے ۔ اس کے شمال میں قندوز ، مشرق میں تخار اور پنج شیر، جنوب میں پروان اور مغرب میں بامیان اور سمنگان کےصوبے واقع ہیں ۔ صوبہ بغلان کا کل رقبہ 21112 مربع کلومیٹر ہے ۔ آبادی حالیہ اعداد وشمار کے مطابق تقریبا ساڑھے سات لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ۔ صوبہ بغلان کا مرکز پل خمری شہر ہے ۔ اس میں شامل اضلاع اندراب ، دوشی ، خنجان ، بورکہ ، جلگہ ، دھنہ غوری ، خوست وفرنگ ، تالہ وبرفک ، ڈنڈ غوری ، نہرین ، بغلان جدید، گذرگاہ نور اور صلاح ہیں ۔

بغلان جو محل وقوع کے اعتبار سے افغانستان کے اہم صوبوں میں سے ہے کیوں کہ افغانستان کے تمام شمالی صوبوں کے راستے بغلان کے راستے افغانستان کے مرکز سے ملتے ہیں ۔ اس صوبے میں رواں سال ایک بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی ۔ ماضی میں یہاں جارحیت پسندوں ، نیشنل آرمی ، اربکی اور کرائے کے مسلح گروپ انتہائی فعال رہے ۔عزم آپریشن کے آغاز کے ساتھ امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے یہاں بڑی کارروائیوں میں حصہ لینا شروع کردیا جس سے اس صوبے کے اکثر علاقے دشمن کے وجود سے پاک ہوگئے ۔ بغلان میں اس بڑی تبدیلی کے حوالے سے ہم نے اس صوبے کے جہادی ذمہ دار /گورنر ملا محمد اسمعیل سے گفتگو کی ہے جو قارئین کے نذر کی جارہی ہے ۔

سوال :

مولوی صاحب ! آپ کی خدمت میں سلام اور احترامات پیش کرتے ہیں ۔ سب سے پہلےہمارے قارئین سے اپنا تعارف کرائیں ؟

جواب :

الحمد لله رب العلمین والصلوة والسلام علی سیدنا محمد و علی آله و اصحابه اجمعین و بعد :

میرانام محمد اسماعیل ہے ۔ صوبہ بلخ کے ضلع چمتال کا رہائشی ہوں اور فی الحال امارت اسلامیہ کی تشکیلات میں صوبہ بغلان کے جہادی امور کی ذمہ داریاں نبھارہاہوں ۔

سوال :

صوبہ بغلان کے موجودہ حالات کے حوالے سے اگر کچھ معلومات دی جائیں کہ اس صوبے میں مختلف علاقوں پر حاکمیت کی تصویر کیا ہے؟

جواب :

بغلان میں 15 انتظامی اکائیاں ہیں ۔ ان تمام انتظامی اکائیوں یعنی مرکز اور اضلاع میں امارت اسلامیہ کے مجاہدین موجود ہیں اور ان کی عسکری تشکیلات فعال ہیں ۔اضلاع کے درمیان فرق ہے کہ کچھ اضلاع میں بنسبت دیگر مجاہدین وسیع پیمانے پر موجود ہیں ۔

مثلا : مرکزی بغلان میں دو چھوٹے شہروں شہر کہنہ اور شہر جدید کے علاوہ تمام علاقوں پر مجاہدین کا مکمل کنٹرول ہے ۔ جو اس ضلعے کا 80 فیصد علاقہ بنتا ہے ۔ ڈنڈ غوری میں مجاہدین اسی فیصد علاقوں پر کنٹرول رکھتے ہیں ۔ تالہ وبرفک کے اضلاع میں جو بامیان سے ملے ہوئے علاقے ہیں مجاہدین 90 فیصد علاقوں پر قابض ہیں ۔ کیوں کہ یہاں صرف ضلع مرکز دشمن کے ہاتھ میں ہے ۔ دھنہ غوری اور بورکہ کے اضلاع میں بھی آدھے سے زیادہ علاقے مجاہدین کے کنٹرول میں ہیں ۔ اس کے علاوہ دوشی اور پل خمری میں بھی مجاہدین طاقتور حیثیت سے موجود ہیں ۔ اور بہت سے علاقے اب مجاہدین کے کنٹرول میں ہیں ۔ یاد رہے دھنہ غوری اور ڈنڈغوری کی حالیہ فتوحات کے بعد اب مجاہدین بغلان مرکز کے دروازے پر پہنچ گئے ہیں ۔ اس طرح کہ مجاہدین کی جنگی لائن پل خمری شہر کے چار کلومیٹر کے علاقے میں واقع ہے اور اگر وہ چاہیں تو صوبائی مرکز کو بآسانی بند کرسکتے ہیں ۔

ان علاقوں کے علاوہ اندراب ، خنجان ، نہرین ، جلگہ ، خوست وفرنگ اور دیگر تمام علاقوں میں بھی مجاہدین موجود ہیں اور دشمن پر کارروائیاں کرتے ہیں ۔ مجموعی طورپر بغلان میں تمام علاقوں اور مواصلاتی مراکز پر کنٹرول موجود ہے اور صوبے کے بہت سے علاقے مجاہدین کے ہاتھ میں ہیں ۔

سوال :

مولوی صاحب جیسا کہ آپ بہتر جانتے ہیں کہ بغلان میں حالیہ چند سالوں میں جہادی کارروائیوں کی صورت حال بہت کمزور تھی مگر اس سال اچانک ایک بڑی تبدیلی آگئی اور مجاہدین نے بہت سے علاقوں پر قبضہ کرلیا ۔ اس تبدیلی کی وجوہات پر روشنی ڈالیں اور اس حوالے سے معلومات ہم سے شریک کریں ۔

جواب :

جی ہاں ! جیسا کہ آپ نے کہا اس سال خصوصا عزم آپریشن کے آغاز کے ساتھ بغلان میں ایک بے مثال تبدیلی آگئی ۔ اور حالات نے خلاف توقع پلٹا کھایا ۔ وہ یہ کہ جارحیت پسندوں اور ان کی کٹھ پتلیوں کی حکومت اور طاقت مجاہدین کی جانب سے مشکلات کا شکار ہوگئیں ۔ مگر الحمد للہ اس سال بہت سے علاقے دشمن کے وجود سے پاک ہوگئے ہیں اور دشمن بہت بری حالت تک پہنچ گیا ہے۔

اس تبدیلی کے حوالے سے بتاتاہوں کہ عزم آپریشن کے آغاز کے ساتھ قندوز اور بدخشان کی فتوحات کے علاوہ مجاہدین نے بغلان میں بھی بڑے گروپ حملوں کا آغاز کردیا جس کے نتیجے میں مرکزی بغلان ، ڈنڈ غوری ،دھنہ غوری ، دوشی اور بورکی کے اضلاع میں بہت سے علاقے دشمن سے پاک کردیے ۔

مرکزی بغلان میں 30 تک کے بڑے علاقے جیسے زدران ، نورزئی ، سردار خیل ، پاوکم ، داود کلی ، نوآباد ، ہمت خیل ، چغان تیپہ ، انارخیل ، گرداب ، طاہریان ، شاہی خیل ، صافیان، مٹہ خیل ، علاوالدین ، خدایداد خیل ، پشہ یان ، وکیل نظام کلی ، خوستیان اور اس طرح کے دیگر بڑے علاقے دشمن کے وجود سے پاک ہوگئے ہیں ۔ ان تمام علاقوں میں پہلے اربکیوں ، نظم عامہ اور پولیس کی درجنوں چیک پوسٹیں قائم تھیں ۔ اسی طرح ان علاقوں میں دشمن کے 4 بڑے کیمپ بھی تھے جو سب کے سب اللہ تعالی کی نصرت سے فتح ہوگئے اور علاقہ مجاہدین کے قبضے میں آگیا ۔

مرکزی بغلان کی جنگ میں جو ایک ماہ تک جاری رہی دشمن کے 93 فوجی اور اربکی اہلکار ہلاک اور 110 زخمی ہوگئے ۔ اسی طرح دشمن کے 15 ٹینک اور 6 رینجر گاڑیاں بھی تباہ ہوگئیں ۔ ان جنگوں میں مجاہدین نے بہت سا اسلحہ اور اہم وسائل غنیمت میں حاصل کیے ۔

مرکزی بغلان کی طرح دوسرا علاقہ بھی جہاں بڑی تبدیلی آئی وہ ڈنڈہ غوری کا علاقہ ہے ۔ ڈنڈہ غوری بغلان مرکز کے پل خمری سے متصل واقع ہے ۔ ان اضلاع میں بھی مجاہدین نے اکثر علاقے جیسے گورگن ، گوڈان ، نیاز اللہ کلی ، غنچہ پل ، قلعہ خواجہ ، اسلام آباد ، لوگریان ، مہاجرین ،سیزو کلی ، ناقلو کلی ، انار خیل ، تاجکیل ، سپید خان کلی اور اس طرح کے دیگر علاقے اربکیوں کے وجود سے صاف کردیے ہیں جس میں 2 رینجر گاڑیوں سمیت بہت سے اسلحےاور اہم وسائل غنیمت میں حاصل کیے ہیں ۔ ان اضلاع میں دشمن کے 35 اربکی اور فوجی قتل اور 28 دیگر زخمی ہوگئے ۔

دھنہ غوری میں بھی مجاہدین نے اقسائی اور منگلو کے علاقوں میں دشمن کے دو بڑے ائیر بیس فتح کیے ۔ اسی طرح بہت سے علاقوں سے اربکیوں کو فرار ہونے پر مجبور کردیا ہے ۔ اسی طرح بورکہ اور دوشی میں بھی بہت سے علاقے دشمن کے وجود سے پاک ہوگئے ہیں ۔

بغلان کی موجودہ تبدیلیوں اور جہادی پیش رفت نے دشمن کو شدید گھبراہٹ کا شکار کردیا ہے اس لیے اس صوبے کے کنٹرول کے لیے کیے جانے والے ان کے تمام پروگرامات ناکارہ ہوگئے ۔ کہ اربکی سازی جیسے مختلف طریقوں سے جہادی تحریک کے خلاف رکاوٹیں پیدا کی گئیں ۔

سوال :

آپ کے خیال میں صوبہ بغلان میں موجودہ تبدیلیوں اور جہادی فتوحات کی اہمیت کی وجہ کیا ہے ؟ ان حملوں نے دشمن کو اتنی گھبراہٹ کا شکار کیوں کردیا ہے کہ بیک وقت شاہین فوجی چھاونی کی فوج اور کابل سے وزارت داخلہ کا خاص دستہ بغلان بھیج دے تاکہ مجاہدین کو مفتوحہ علاقوں سے پسپا کردیں ۔ اس کے لیے بہت کوششیں کی گئیں مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا ۔ آپ کےخیال میں دشمن کیوں بغلان کی تبدیلیوں سے گھبراگیا ہے ؟

جواب :

آپ بہتر جانتے ہیں کہ افغانستان کے شمالی اور شمال مشرقی صوبےہندوکش کے پہاڑوں یا سالنگ کی وجہ سے مرکز سے کٹے ہوئے علاقے ہیں ۔ ان صوبوں کے لیے مرکز سے واحد راستہ سالنگ ٹنل ہے ۔ یہ راستہ بغلان سے گذرتا ہے اور بغلان کے ذریعے بدخشان ، تخار ، قندوز اسی طرح سمنگان ، بلخ اور جوزجان سے ملتا ہے ۔بغلان میں حالیہ فتوحات کے سلسلے میں اس راستے پر دو مقامات پر مجاہدین کا قبضہ ہوگیا ہے ۔ بدخشان اور قندوز کی جانب پھیلے ہوئے سڑک پر مرکزی بغلان میں مجاہدین نے قبضہ کیا۔ بلخ کی جانب جانے والا راستہ جو ڈنڈ غوری کے درمیان سے گذرتا ہے وہ مجاہدین کے تصرف میں ہے ۔ اس پیش رفت نے ایک جانب بدخشان اور قندوز میں دشمن کی افواج کے حوصلے پر انتہائی برا اثر ڈالا ہے اور دشمن کے آپریشن کے منصوبے خاک میں مل گئے ہیں تو دوسری جانب حیرتان کی بندرگاہ سے جارحیت پسندوں کو فراہم ہونے والی رسد کا راستہ روک دیا ہے ۔

اب مجاہدین جب بھی چاہیں یہ راستے دشمن کے لیے بند اوردشمن کی افواج اور کانوائے کا راستہ روک سکتے ہیں ۔ اس پیش رفت کی وجہ سے دشمن شدید گھبراہٹ کا شکار ہے ۔ اور وہ اس کوشش میں ہے کہ ایک بارپھر ان راستوں پر اپنا تسلط قائم کرکےاسے اپنے لئے پرامن بنادے ۔ اسی لیے حال ہی میں بغلان میں بڑے پیمانے پر آپریشن کا بھی آغاز کیا گیا ۔ مگر چند دن قبل بلاکسی کامیابی کے اس کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا اور اپنی اکثر فوج علاقے سے باہر کردی ۔ دشمن کے اس ناکام جوابی آپریشن میں قابل توجہ بات دشمن کے پروپیگنڈہ چینلز کے جھوٹے دعوے تھے ۔ مثلا ایک مرتبہ انہوں نے اعلان کیا کہ ہم نے 131 مجاہدین کوشہید کردیا ۔ اس آپریشن کے آخری دنوں میں اعلان کیا کہ ہم نے 70 مجاہدین شہید اور 50 کوزخمی کیاہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بغلان کی حالیہ ماہانہ جنگ میں ہمارے 5 مجاہدین شہید ہوگئے اور 15 سے 20 تک مجاہدین زخمی ہوگئے جن میں سے اکثر اب واپس صحتیاب ہوگئے ہیں ۔

سوال :

محترم مولوی صاحب آپ کے خیال میں حالیہ فتوحات اور تبدیلیوں کی وجہ کیا تھی ؟

جواب:

بغلان میں حالیہ تبدیلی کی پہلی اور بنیادی وجہ اللہ تعالی کی نصرت تھی ۔ اللہ تعالی نے مجاہدین کے دلوں میں بڑی جرأت اور ہمت رکھی ۔ عام لوگ مجاہدین سے مل گئے اور اللہ پر توکل کرکے دشمن کے خلاف آپریشن کیا اور اسے شدید شکست دی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب اللہ تعالی کی نصرت آتی ہے پھر کوئی دشمن قدم نہیں جماسکتا ۔ بغلان کے مجاہدین کا کہنا ہے کہ یہاں زمان خیلو کے علاقے میں جہاں دشمن کی مضبوط بیس تھی گذشتہ سات آٹھ سالوں میں یہاں چالیس سے زیادہ مجاہدین شہید ہوچکے ہیں مگر یہ فتح نہ ہوسکا ۔ اس بار اللہ تعالی جل جلالہ نے دشمن کے دل پر رعب ڈالا اور مجاہدین نے بہت آسانی سے اس پر قبضہ کیا۔

بغلان کے حالیہ آپریشن میں عوام نے وسیع پیمانے پر مجاہدین کی مدد کی اور پورے خلوص سےان کا ساتھ دیا ۔ عام لوگ دشمن سے اس قدر رنجیدہ تھے کہ انہوں نے دشمن کے بیس کیمپ کی دفاعی رکاوٹیں بیلچوں اور کلہاڑیوں سے گرادیں اور جنگ میں بھی مجاہدین کے ساتھ ہمہ پہلو تعاون کیا ۔ اس لیے مجاہدین جہاں بھی چاہیں فتوحات حاصل کرسکتے ہیں ۔ مجاہدین اللہ تعالی سے مزید نصرت مانگیں ، خود کو الہی نصرت کا مستحق بنائیں اور عام لوگوں کی دلاسائی اور انہیں اپنے قریب کرنے کے لیے ہر ممکن طریقے سے کوششیں کریں ۔ جب عوام مجاہدین کے ساتھ ہوں تو پھر مجھے یقین ہے کوئی دشمن ہمارے خلاف نہیں ٹھہر سکے گا۔ ان شاءاللہ۔

سوال :

آخر میں صوبہ بغلان کے شہریوں اور عام لوگوں کے لیے کوئی پیغام ہو تو ہمارے ساتھ شریک کریں ۔

جواب :

میں بغلان میں امارت اسلامیہ کے ذمہ دار کی حیثیت سے بغلان کے تمام شہریوں کو اطمینان دلاتاہوں کہ مجاہدین ان کے ہی بھائی اور فرزند ہیں ۔ مجاہدین کے حوالے سے دشمن کے پروپیگنڈے پر کان نہ دھریں اور نہ مجاہدین سے خوف محسوس کریں ۔ مجاہدین کسی کے خلاف انتقامی کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتے ۔ مجاہدین جن علاقوں پر تصرف کریں گے وہاں کے لوگوں کے ذاتی املاک اور جان ، مال اور عزت پر دست اندازی نہیں کریں گے بلکہ ان کی حفاظت کریں گے ۔ ہمارے عوام جس زبان اور قوم سے بھی ان کا تعلق ہے مجاہدین پر اعتماد رکھیں ۔ اور مجاہدین بلاکسی تعصب کے تمام ہم وطنوں کو اپنا بھائی سمجھیں ، ان کا دفاع کریں اور ان کی خدمت اپنی سعادت سمجھیں ۔