بلیک لسٹ کو اب امن کی رکاوٹ نہیں بننا چاہیے

ہفتہ وار تبصرہ افغان مسئلہ کے حل اور مذاکرات کی کامیابی کی راہ میں بڑی رکاوٹ وہ بلیک لسٹ اور انعامات کی فہرستیں ہیں، جن میں اب تک امارت اسلامیہ کے بعض رہنماؤں کے نام موجود ہیں، جسے مذاکراتی عمل اور فریقین کے اعتماد کی راہ میں عظیم رکاوٹ اور مانع سمجھا جاتا ہے۔ تعجب […]

ہفتہ وار تبصرہ
افغان مسئلہ کے حل اور مذاکرات کی کامیابی کی راہ میں بڑی رکاوٹ وہ بلیک لسٹ اور انعامات کی فہرستیں ہیں، جن میں اب تک امارت اسلامیہ کے بعض رہنماؤں کے نام موجود ہیں، جسے مذاکراتی عمل اور فریقین کے اعتماد کی راہ میں عظیم رکاوٹ اور مانع سمجھا جاتا ہے۔ تعجب ہے کہ پابندیاں لگانے اور انعامات وضع کرنے والے ایک طرف ظاہری طور پر صلح اور مفاہمت کے نعرے لگا رہے ہیں، مگر دوسری جانب اب تک امارت اسلامیہ کے بعض رہنماؤں کے اسماء بلیک لسٹ اور انعامات کی فہرستوں میں محفوظ رکھےہوئے ہیں۔
جب کسی کے نام کو بلیک لسٹ میں شامل کیا گیا ہو،اس پر مختلف النوع پابندیاں لگائی گئی ہو اور یا اس کی سر کی قیمت کا اعلان کیا گیا ہو۔ اس صورت میں اس شخص یا گروہ کے لیے مفاہمت کی بات نہ صرف غیرمنطقی ہے، بلکہ اس سے کسی نتیجے کی امید بھی نہیں کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ہر مفاہمت اور افہام وتفہیم کےلیے پہلی شرط فریقین کاباہمی اعتماد ہے، جو بلیک لسٹوں کی صورت میں کبھی نہیں ہوسکتا۔
چند روز قبل 30 اپریل کو امارت اسلامیہ کے سیاسی نمائندوں، امریکہ، روس، چین اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان پانچ فریقی اجلاس ہوا،جس میں دیگر موضوعات کیساتھ بلیک لسٹ اور انعامات کی فہرست کی بات سنجیدگی سے پیش کی گئی اور امارت اسلامیہ کے وفد نے قوی استدلال سے اس ضرورت کو ثابت کردیا کہ ان فہرستوں کا مزید خاتمہ ہونا چاہیے۔
ٹرویکا پلس فورم کے نام سے یاد کیے جانے والےاجلاس میں شریک ممالک کے نمائندہ نے بھی مشترکہ اعلامیہ میں کہا کہ اجلاس کے شرکاء ممالک کے نمائندے بلیک لسٹ سے امارت اسلامیہ کے عہدیداروں کے اسماء کونکالنے کی حمایت کرتا ہے اور اسے امن اور مفاہمت کے حصے میں مفید قدم سمجھتا ہے۔
باہمی اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ امارت اسلامیہ کے اراکین کے نام بلیک لسٹ اور انعامات کی فہرست سے معلق، عارضی اور مشروط طور پر نہیں، بلکہ مطلق طور پر خارج کیا جائے۔ وہ بلیک لسٹیں، جس سے20 برسوں میں کوئی نفع ثابت نہ ہوسکا،بلکہ باہمی اعتماد کو نقصان پہنچایا اور مذاکراتی عمل کی کامیابی کی راہ میں حائل رکاوٹ کے طور پر باقی رہیں،اس کاخاتمہ ایک اہم ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کی تنظیم اور تمام فریقوں سے امارت اسلامیہ مطالبہ کرتی ہے ، اگر آپ کو واقعا افغان مسئلے کے حل اور مذاکراتی عمل کی کامیابی سے دلچسپی ہے، ان فہرستوں پر مزید اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ امارت اسلامیہ کو مختلف سفارشات پیش کرنے کی بجائے سب سے پہلے اپنی ذمہ داری کو سمجھ لے اور اسے ادا کرنے سے ثابت کریں، کہ تمہیں درحقیقت افغان مسئلے کے حل اور ہمارے ملک میں امن اور استحکام سے دلچسپی ہے۔