بہادری ، ہمت ، شجاعت اور روحانیت کے عظیم مینار مولوی میر احمد گل ہاشمی شہید کو نذرانہ عقیدت

ملا خبیراحمد مجاہد مولوی میر احمد گل ہاشمی شہید رحمہ اللہ افغانستان کی مجاہد پرور زمین کے عظیم سپوت تھے ۔ میرے پاس ان کی دینی غیرت ، جہادی خدمت ، اور قربانیوں کے تذکرے اور تمثیل کے لیے الفاظ نہیں ہیں ۔ کیوں کہ مولوی میر احمد گل ہاشمی کی زندگی ، جہاد ، […]

ملا خبیراحمد مجاہد

مولوی میر احمد گل ہاشمی شہید رحمہ اللہ افغانستان کی مجاہد پرور زمین کے عظیم سپوت تھے ۔ میرے پاس ان کی دینی غیرت ، جہادی خدمت ، اور قربانیوں کے تذکرے اور تمثیل کے لیے الفاظ نہیں ہیں ۔

کیوں کہ مولوی میر احمد گل ہاشمی کی زندگی ، جہاد ، طالب علمی ، فراغت ، سمجھداری ، تدبیر اور بالاخر شہادت غرض کوئی بھی پہلو چھیڑا جائے تو وفا ، دیانت ، اطاعت ، متانت اور اسلامی جذبہ خودداری کے لامتناہی باب ملیں گے ۔

میں نے درجہ بالا الفاظ لکھنے کی جرات اسی لیے کی ہے کہ میرے سامنے شہید کی زندگی کے قیمتی لمحات اور کارنامے موجود ہیں ۔ کیوں کہ ہم نے کئی سال زمانہ طالب علمی ایک ساتھ گذارا ہے، ہم درس رہے ہیں ۔ اللہ تعالی نے انہیں خصوصی جہادی اور سیاسی فراست نوازا تھا اس لئے وہ میرے جہادی رہنما بھی رہے ۔

ان کی سیاسی اور جہادی زندگی غیرت ، بہادری ، اطاعت اور برداشت سے بھر پور تھی ۔ امارت اسلامیہ افغانستان کے قیام اور اٹھان سے قبل جب افغانستان کے ہر صوبے کے لیے اہل سنت والجماعت اتحاد کی بنیاد رکھی گئی میر صاحب صوبہ لوگر کی کابینہ میں ممتاز خدمات سرانجام دینے لگے ۔ امارت اسلامیہ کے طلوع ، حاکمیت اور امریکی جارحیت کے دوران اور پھر شہادت تک انہوں نے مختلف اہم ذمہ داریاں نبھائیں ۔ اس مقدس راہ میں تکالیف ، زخم اور جیلوں کے طرح طرح کے مراحل گذارے ۔ اللہ تعالی نے تمام ادوار اور مراحل میں انہیں کامیاب رکھا۔

میر احمد گل ہاشمی کون تھے ؟

مولوی میر احمد گل ہاشمی شہید مرحوم میر عبداللہ کے بیٹے تھے ۔ نسبا سادات تھے ۔ 42سال قبل صوبہ لوگر مرکز کے مضافاتی گاوں “پادخواب شانہ” میں آنکھیں کھولیں ۔ والد محترم اور دادا روحانی ہستیاں اور مستجاب الدعوات بزرگ رہے تھے ۔ عوام اور خواص میں انہیں خاص مقام حاصل تھا ۔

تعلیم اور تدریس:

زمانہ طالب علمی اور پھر فراغت کے بعد کی زندگی سب کے سب خاکساری ، ادب اور محبت سے بھرپور رہی ۔ اپنے دور میں ممتاز اور ذہین طلبہ میں سے سمجھے جاتے تھے ۔ اور جو کتابیں اساتذہ سے پڑھتے اللہ تعالی نے ان کتابوں کی تدریس کی قوت بھی انہیں عطاکی تھی ۔  میر صاحب شہید نے اپنے ہاتھوں لکھی ہوئی سوانح اور آپ بیتیوں میں لکھا ہے کہ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے بڑے بھائی سے حاصل کی ہے ۔ ثانوی تعلیم پڑوسی ملک پاکستان میں مختلف دینی مدارس سے حاصل کی ہے اور دستار فضیلت دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں باندھی ہے ۔

اللہ تعالی کے دین کا یہ نامور سپاہی جن کا تعلق ایک بزرگ اور روحانی خاندان سے تھا مگر ساری زندگی کسی نے ان سے نہیں سنا یا محسوس نہیں کیا کہ انہوں نے کہا ہو کہ میں سید ، ہاشمی یا بڑے علمی اور روحانی مرتبے کا مالک ہوں ۔ اور میرا احترام کیا جائے ۔ہر استاد کے ہاتھ کو بوسہ دیتے حالانکہ اساتذہ ان سے کہتے کہ دیکھو تم سید ہو ہمارے ہاتھ مت چومو ۔ مگر میر صاحب کا کمال تھا کہ ساری زندگی اپنے اساتذہ سے اسی ادب ، عقیدت اور عاجزی سے ملتے رہے ۔

ان کے ایک استاد شیخ القرآن والحدیث مولانا محمد اسماعیل رحمانی کہتے ہیں: مولوی میر احمد گل ہاشمی نے ان سے بہت سی کتابیں پڑھیں ، باوجود اس کے کہ انتہائی ذہین تھے ، مضبوط مطالعہ کرتے ، وقت کبھی ضائع نہیں کرتے تھے ، کتاب ، مدرسے اور اساتذہ سے بے انتہا محبت رکھتے تھے ۔ کبھی کبھی ساتھی ان سے کہتے کہ میر صاحب تم سادات ہو کوئی تعویذ دو یا کوئی  دم کردو ۔ وہ مسکراکر کہتے مجھے سب آتا ہے ، اور ہر طرح کے تعویذ کی اجازت بھی حاصل ہے اور اللہ کے فضل سے میری تعویذ موثر بھی ہے مگر اس میدان میں بہت سے لوگ ہیں ۔ وہی کافی ہیں ۔ میں یہ کام نہیں کرسکتا ۔

میر صاحب کی زندگی کا سیاسی اور جہادی پہلو:

میر صاحب نے زمانہ طالب علمی کے دوران جب ان کی جوانی عروج پر تھی جہادی اور عملی جد وجہد سے انہیں خاص لگاو تھا۔ زنانہ طالب علمی کے سالانہ تین ماہ کی چھٹیاں دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ روسیوں اور ان کے کمیونسٹ کٹھ پتلیوں کے خلاف جہاد میں گذارتے ، اہل سنت والجماعت کی صوبائی انتظامیہ کے اہم رکن تھے ۔ مسلمانوں کے درمیان اصلاح ، اتحاد اور منکرات کے خاتمے کے لیے انہوں نے بہت سی کوششیں کی ۔ 1994 میں جب افغانستان کو شر پسندوں سے نجات دلانے کے لیے اسلامی نظام کے نفاذ کی خاطر عالی قدر امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ کی قیادت میں طالبان کی اسلامی تحریک کا آغاز ہوگیا میر صاحب ایک مخلص سپاہی اور کارکن کے طورپر میدان میں اترے ۔ ان کے محاذ کے ایک قریبی ساتھی مولوی نذیر احمد اخندزادہ نے طالبان تحریک کے آغاز اور میر صاحب کے اخلاص کے بارے میں کچھ یوں کہا :

’’غالبا جمعرات کا دن اور تحریک کے طلوع کے تازہ دن تھے ، عصر کے وقت میر صاحب ہمارے مدرسے میں آئے ، اس وقت ہم سرحد ورسک روڈ کے شیر داد گڑھی میں دارالعلوم ضیا ء الاسلام میں مقیم تھے ۔ مدرسے کے احاطے میں داخل ہوتے ہی مجھے کہا مدرسے کے سارے بڑے طلباء کو مسجد میں جمع کرو ۔ ایک انتہائی اہم خبر لے کر آیا ہوں ۔ خود وضو میں مصروف ہوگئے ۔ جب طلبہ مسجد میں جمع ہوگئے تو میرصاحب نے اپنی گفتگو شروع کی جس میں تین اہم نکات کی طرف توجہ دلائی۔

اول: میڈیا کے تبصروں اور صحافیوں کی رپورٹوں پر توجہ مت دو کیوں کہ آج کے میڈیا کی حیثیت مغرب کے لاوڈ سپیکر سے زیادہ کچھ نہیں ۔ میری بات سنو میں پورے یقین سے کہتا ہوں قندہار میں جو تحریک شروع ہوئی ہے۔ یہ لوگ واقعتا سچے طالب ہیں ۔ ہم نے اس حوالے سے مکمل تحقیق کرلی ہے یہ دینی مدارس کے طلبہ ہیں ۔ ملک کو شکست وریخت سے بچانا چاہتے ہیں ۔ افغانستان کی صورتحال بہت خراب ہے ۔ آپس کے اختلافات نے افغانستان کو اب راکھ کا ڈھیر بنادیا ہے ۔ اسلامی شرائع اور احکام کی توہین کی جارہی ہے ، لوگوں کے جان ومال کو خطرات لاحق ہیں ۔ جتنا جلد ہوسکے جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوجاو۔

دوم : ہر صوبے کے طلبہ اپنا ایک عسکری ذمہ دار متعین کردیں اور کل سے اس ذمہ دار کی قیادت میں افغانستان کی جانب سفر کریں ۔

سوم: جن ساتھیوں کے پاس کرائے کے پیسے نہ ہوں وہ کچھ دن صبر کریں اور کچھ ہمدرد مسلمانوں سے جہاد کے لیے چندہ کرکے اس سے اپنے کرائے کا بندوبست کریں ۔

اسلام اور راہ جہاد کا یہ عظیم فرزند مختلف محاذوں اور خط اول پر اپنے فداکار مجاہدین کے ساتھ معرکے کے میدان میں اترے اور اکثر اہم خطوط پر جہاں دشمن نے بہت انتظامات کیے ہوتے میر صاحب نے اس کی حفاظت اور دشمن پر فاتحانہ حملوں میں کلیدی کردار ادا کیا ۔

مثال کے طورپر کابل کی فتح کی تاریخی جنگ جو ملابورجان شہید کی قیادت میں انہوں نے پکتیا کے کچھ علاقوں سے شروع کی ۔ وہاں سے دشمن کا صفایا کرنے کے بعد مشرقی کی فتح اور پھر کابل تک جا پہنچے ۔ ان تمام فتوحات میں میر صاحب نے بڑی تکلیفیں برداشت کیں اور جراتوں کی حیران کن داستانیں رقم کیں ۔ یہاں تک  کہ ملابورجان کی شہادت کے دن میر صاحب بھی آمنے سامنے فائرنگ میں شدید زخمی ہوگئے ۔

اسی طرح میر صاحب تخار کے بنگی کے محاذ پر خط اول پر ، لغمان میں دولت شاہ ، لوگر میں پل قندہاری ، کاپیسا میں تگاب، الہ سائی اور نجراب کے اضلاع میں ، شمالی علاقوں میں شکردرہ ، چاریکار ، پل مٹک اور بگرام دولاری کے خط اول کے محاذوں پر اسی طرح بامیان کے حاجی گگ اور ننگرہار اور کنڑ کے مختلف حصوں میں امارت اسلامیہ کے ایک بہادر جہادی رہنما کی حیثیت سے انہوں نےجراتوں کے ناقابل فراموش کارنامے رقم کیے ۔

صلیبی جارحیت اور میر صاحب:

مولوی میر احمد گل شہید نے اپنے ایک لکھے ہوئے انٹرویو میں صلیبی جارحیت کے خلاف جہاد کے آغاز اور حالات کے بارے میں بتاتے ہوئے لکھا ہے : جب امارت اسلامیہ نے صلیبی جارحیت کے باعث شہروں سے ملک کے دور دراز اور قبائلی علاقوں کی جانب عقب نشینی کرلی توساتھی منتشر ہوگئے ۔ جب تک ساتھی پھر سے مربوط ہوکر منظم ہوتے اس میں چند ماہ لگے ۔ مختصر وقفے کے بد عملی جہاد کا آغاز کردیا اور ضلع لوگر کے تمام علاقوں میں باوجود اس کے کہ حالات انتہائی پیچیدہ اور حساس تھے مگر ساتھیوں کی ہمت اور عوام کاتعاون اور اخلاص تھا کہ جارحیت پسندوں پر حملے شروع ہوگئے ۔ مجاہدین نے لوگر میں ایسے حالات میں مکار دشمن پر حملے شروع کردیے جب ان کا میڈیا مسلسل یہ پروپیگنڈہ کررہا تھا کہ امریکی اوردیگر بیرونی فوجیوں کی گاڑیوں اور ٹینکوں وغیرہ پر کوئی اسلحہ بھی موثر نہیں ہوتا ۔ جو بھی امریکی اڈوں کے قریب جاتا ہے یا حملے کی کوشش کرتا ہے وہ کئی کلومیٹر دور سے انہیں دیکھ لیتے ہیں ۔ B52 طیاروں سے زمین پر ایک یا دو انچ کی چیز بھی دیکھ سکتے ہیں اور نشانہ بناسکتے ہیں ۔ مگر یقین کریں ہمارے لیے یہ سارے پروپیگنڈے ایک ایک جھوٹ ثابت ہوگئے ۔

ضلع لوگر کے ایک معروف مجاہد جو ،اب امارت اسلامیہ کی تشکیلات میں ضلع غزنی کے جہادی ذمہ دار ہیں مولوی محمد قاسم صمیم کہتے ہیں : جب صلیبی جارحیت کو ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے میر صاحب لوگر میں ہمارے گھر آئےان کے ہمراہ ضلع چرخ کے مولوی احمدی صاحب بھی تھے ۔ میرصاحب نے کہا کہ ہمیں صلیبی جارحیت پسندوں کے خلاف جہاد شروع کردینا چاہیے ۔ میں نے کہا کچھ عرصہ انتظار کرتے ہیں تاکہ حالات کچھ واضح ہوجائیں ۔ مگر میر صاحب نے کہا کہ انتظار کرنا گناہ ہے ۔ جہاد فرض عین ہے ، اپنی استطاعت کے مطابق جہاد کو ترتیب دے دینی چاہیے ۔ بس اس کے بعد ہم نے احمد صاحب اور ضلع چرخ کےمولوی محمد شہید رحمہ اللہ کے تعاون سے ایک میل راکٹ لانچر اور دو کلاشنکوف حاصل کرلیے ۔ پہلی بار ہم نے ضلع چرخ کی عمومی شاہراہ  پر رات کے ایک بجے گھات لگایا۔ جب دشمن کی مٹر گشت کی گاڑیاں وہاں پہنچیں ہم نے نعرۂ تکبیر کے ساتھ راکٹ فائر کیا ۔ جس میں جارحیت پسندوں کی ایک جیپ مکمل تباہ ہوگئی ۔ اس کے بعد برکی برک اور مرکز کے پل عالم کے علاقے کے مضافات میں بم دھماکوں اور ہاوان کے حملے کیے ۔ اس طرح میر صاحب کی کوششوں سے لوگر میں جہادی تحریک زندہ ہوگئی ۔

جہاد کے آغاز کے بعد پہلی کارروائیوں متعلق میر صاحب نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا :    پہلی بار ہم نے لوگر کے تنگی  اور اغجان کے علاقے میں صلیبی فوجیوں کی ایک کانوائے پر کاری بم دھماکہ کیا جس میں کئی گاڑیاں تباہ ہوگئیں اور بہت سے فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے وہ بم مجاہدین نے خود بنایا تھا اور اس کا ریموٹ کارڈ لیس ٹیلیفون سے بنایا گیا تھا ۔ میں نے اسی وقت اپنے ساتھیوں سے کہا امریکی جھوٹ آپ لوگوں نے دیکھ لیا ۔ کس طرح طالب کے ہاتھوں بنائے ہوئے بم نے ان پر موت نازل کردی اور ان کی ساری تدبیریں الٹی ہوگئیں ۔ اسی طرح ایک رات، میں اور ہمارے کچھ ساتھی “پاد خواب شانہ” اور “ابچکان” کی دشت میں امریکی فوج کی ایک کیمپ کے قریب اس پر مارٹر فائر کرنے کے لیے گئے ۔ رات کے ایک بجے کا وقت تھا ۔ ہم راکٹ لوڈ کررہے تھے کہ ایک امریکی ہیلی کاپٹر ہمارے اوپر سے گذرا اور کیمپ کے گرد چکر لگانے لگا ۔ مجھے خان محمد شہید اور طالب شہید نے کہا میر صاحب ہیلی کاپٹر نے ہمیں دیکھ لیا ہے اور پھر سے گھوم کر ہم پر حملہ کرے گا۔ میں نے  کہاہیلی کاپٹر کیمپ کے اوپر اپنے معمول کے گشت پر ہے گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ ایسا ہی ہوا ۔ ہیلی کاپٹر نے کیمپ کے اوپر چند چکر لگائے اور پھر گردیز کی جانب چلاگیا ۔ پھر ہم نے کیمپ پر راکٹ فائر کیے اور بھاری نقصان پہنچایا ۔ میر صاحب نے کہا میں نے اسی وقت اپنے ساتھیوں سے کہا اللہ تعالی کے فضل سے امریکیوں کا ایک اور جھوٹ ثابت ہوگیا ۔ ہم نے دیکھ لیا کہ کیمپ سے چند سو کلومیٹر کے فاصلے پر بھی وہ ہمیں دیکھ نہ سکے ۔

میر صاحب لکھتے ہیں : پھر ہم دن بدن بااعتماد ہونے لگے اور ہمارے حوصلے بڑھنے لگے ، ہر جگہ دشمن پر فیصلہ کن حملے اور کارروائیاں ہونے لگیں ۔

ذمہ داریاں :

باوجود اس کےکہ شہید میر صاحب لوگر کے مجاہدین کے ایک معروف اور مقبول رہنما تھے اور سینکڑوں سر بکف مجاہدین ان کے زیر کمان تھے مگر انہوں نے کبھی اس کی پروا نہ کی کہ انہیں بڑا عہدہ دیا گیا یا چھوٹا ، اطاعت اور خدمت کا جذبہ ان کی رگوں میں ہمیشہ خون کے ساتھ دوڑتا رہا ۔ جب طالبان کی تحریک پکتیا پہنچی ضلع سید کرم جو بدامنی سے بھرا علاقہ تھا یہاں تک کہ پکتیا کے مرکز گردیزکو اس بدامنی سے خطرات لاحق ہوجاتے تھے ۔ امارت اسلامیہ کی جانب سے میر صاحب کو اپنے سرفروش ساتھیوں کے ہمراہ وہاں بھیجا گیا ۔ قیادت نے اس نیت سے انہیں وہاں بھیجا کہ ان کے ساتھی وفادار اور بہادر ہیں ، خود میر صاحب کا جنگی تجربہ بھی زیادہ ہے اس لیے انہیں ضلع سید کرم کا پولیس سربراہ متعین کیا گیا ۔ ایک شخص نے ان سے کہا کہ میر صاحب آپ کے پاس درجنوں کی تعداد میں وفادار اور بہادر مجاہدین ہیں ۔ آپ کا بڑا نام اور بڑی حیثیت ہے ۔ آپ صرف ضلع سید کرم کے پولیس سربراہ بننے پر رضامند ہوگئے ہیں ۔ آپ کو تو پورے صوبہ پکتیا کا گورنر ہونا چاہیے تھا ۔ میر صاحب نے مسکرا کر جواب دیا قیادت نے اسی کو ضروری سمجھا ہوگا ، یا مجھ میں صلاحیت اور طاقت اتنی ہی انہیں نظر آئی ہوگی ، دوسری بات یہ کہ تحریک ہمارا گھر ہے اس کے سارے چھوٹے اور بڑے عہدے ہمارے ہیں ۔

اسی طرح امارت اسلامیہ کے دور حکومت میں جب  مولوی خوشحال ملنگ شہید کاپیسا کے گورنر اور مولوی محمد شریف سعید شہید ان کے نائب تھے میر صاحب عسکری ذمہ داریوں کے علاوہ صوبائی مستوفیت کے بھی ذمہ دار تھے ۔ اسی طرح غزنی چھاونی کے نائب سربراہ ، ننگرہار کے چند سو ریزرو فوج کے سربراہ اور ضلع چپرہار کے ضلعی گورنر کے طورپربھی انہوں نے پوری دیانت اور جذبہ خدمت کے ساتھ کام کیا ۔

صلیبی جارحیت کے بعد میر صاحب مرحوم پانچ سال کے لیے لوگر کے ذمہ دار کے طورپر متعین ہوئے اور پوری ہوشیاری اور بہادری سے اس عرصے میں جہاد کی رہنمائی کرتے رہے ۔ اس کے ساتھ عمومی عسکری کمیشن کے رکن بھی رہے ۔ کچھ عرصہ کے لیے پرائیوٹ ادروں کے کمیشن کے سربراہ بھی رہے ۔ اس کے بعد دومرتبہ صوبہ ننگرہار کے گورنر بھی بنے ۔ ننگرہار کی گورنری کے دوران میر صاحب جنگ میں گرفتار ہوگئے اور شدید تکالیف برداشت کیں ۔ آزادی کے بعد دوسری مرتبہ پھر ننگر ہار کے گورنر بنے ۔ بالآخر شہید بھی اسی حال میں ہوئے جب وہ ننگرہار کے گورنر تھے ۔

میر صاحب کی بہادری کا دلچسپ واقعہ :

مولوی محمد قاسم جو میر صاحب زمانہ طالب علمی کے قریبی ساتھی رہے کہتے ہیں کہ طالب علمی کے زمانے میں ہم پشاور بورڈ کے علاقے میں ایک مدرسے میں پڑھ رہے تھے ۔ مدرسے کے برابر میں ایک کھلا میدان تھا ۔ اس علاقے میں ننگرہار کا ایک قبائلی رہنما بھی رہتا تھا ۔ ایک رات اس کے بیٹے کی شادی تھی ۔ رقص وسرود کی محفل تھی اور مجرے کے لیے رقاصاوں کو بھی لایا گیا تھا ۔ طلبہ رات کو مطالعہ کررہے تھے مگر موسیقی کی آواز اتنی اونچی تھی کہ ہمارے لیے پڑھنا مشکل ہوگیا۔

اسی وقت میر صاحب آئے ، مجھے اور دیگر ساتھیوں سے کہا کہ یہ انتہائی کمزوری ہوگی کہ ہمارے پڑوس میں یہاں موسیقی اور مجرے کی محفلیں سجائی جائیں اور ہم کچھ بھی نہ کہیں ۔ آو اس پر حملہ کریں اور ان بدکاروں کو اس میدان سے بھگادیں ۔ میں نے کہا یہ کیسے ممکن ہوگا کیوں کہ انہوں نے اپنے لیے حفاظتی انتظامات کیے ہوں گے اور ہم خالی ہاتھ ہیں ۔ میر صاحب نے کہا مدرسے کے احاطے میں اینٹیں رکھی ہیں یہ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور حملہ کردیتے ہیں ۔

بعد ازاں میر صاحب نے بہت سے طلبہ کو جمع کیا ، حملے کی ترتیب بنائی اور رات کو ایک بجے موسیقی اور مجرے کی اس محفل پر حملہ کردیا ۔ اللہ تعالی کی نصرت سے میر صاحب اپنے اس مخلصانہ کام میں کامیاب ہوگئے اور وہ حرام کی محفل اجڑ گئی ۔ لوگ علاقے سے بھاگ گئے ۔ یہ ان کے جراتمندانہ کردار کی ایک جھلک تھی ۔

میر صاحب کی برداشت اور استقامت :

میر صاحب صرف عام حالات میں بہادر اور ہوشیار نہیں تھے بلکہ مشکل حالات کا بھی جب سامنا ہوتا تو وہ صبر ، استقامت اور حوصلے سے کام لیتے ۔ ان کے موقف میں تزلزل یا بے جا تغیر نظر نہ آتا ۔ ہمیشہ ساتھیوں کو حوصلہ بلند رکھنے کی باتیں کرتے ، خوف اور وہم کی باتیں کبھی ان کی زبان پر نہ آتی تھیں ۔

امریکی جارحیت کے ابتدائی ایام تھے ۔ یعنی تقریبا تین یا چار ماہ گذرے تھے ۔ اکثر ساتھی منتشر اور ایک دوسرے سے بے خبر تھے ۔ دشمن کا پروپیگنڈا بھی عروج پر تھا ۔ میں )راقم (بھی گھر میں روپوش تھا ۔ اور یقین کریں مجھے ایک قسم کی ذہنی تکلیف لاحق ہوگئی تھی کہ اب کیا ہوگا ۔ ایک دن عصر کے وقت ایک مجاہد میرے گھر آیا اور کہا کہ میر صاحب یہاں آئے ہیں اور شام کو یہاں آئیں گے ۔ ہمیں اس کا انتظار تھا کہ میر صاحب جس راستے سے آئیں گے ایسا نہ ہو کوئی انہیں دیکھ لے ۔ شام کو جب اندھیرا ہوگیا میر صاحب ہمارے گھر کے سامنے ایک پہاڑی پر سے نمودار ہوئے اور اتر کر پیدل ہمارے گھر کی طرف آنے لگے ۔ انہیں دیکھ کر مجھے ایک طرف تو خوشی ہورہی تھی مگر دوسری طرف تشویش ، کہ کہیں ان کی نگرانی نہ کی جارہی ہو کیوں کہ امریکی ہیلی کاپٹروں کا گشت مسلسل جاری رہتا تھا۔ میں نے حیرت سے کہا پہاڑی کے پیچھے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر امریکی کیمپ قائم ہے تم وہاں سے کیسے گذرے ۔ ہنس کر کہا اسی طرح پیدل اس کے پاس سے گذر کر آیا ہوں ، میرا مقصد یہی تھا کہ کیمپ کا کچھ اندازہ ہوجائے تاکہ رات کو کبھی کبھی کوئی مارٹر فائر کرنا ہوتو آسانی رہے ۔ پھر انہوں نے سقوط کے دنوں کے درد ناک واقعات سنائے ، اس کے بعد کچھ قائدین اور ساتھیوں کے روابط کا ذکر کیا ۔ اس طرح عملی جہاد کا عزم ظاہر کیا اور اپنے آنے کا مقصد بھی یہی ظاہر بتایا ۔ پھر میں نے ان سے چند سوالات پوچھے کہ میر صاحب یہ کیسے ممکن ہے کہ اس طرح کے حالات میں جب امریکی اجازت کے بغیر کوئی پرندہ پر نہیں مارسکتا ، سارا ملک امریکی جاسوسوں کے نرغے میں ہے ۔ امریکی وسائل دیکھو اور ادھر نہتے مجاہدین !!؟

مضبوط اعصاب کے مالک میر صاحب نے میرے مزاج کے مطابق اعتماد اور حوصلے کے ایسے کچھ واقعات سنائے کہ میری رگوں میں خون دوڑنے لگا اور میرا ذہن اس بات پر آمادہ ہوگیا کہ پھر سے عملی مزاحمت شروع کردیں ۔ میر صاحب کی اس مجلس کا خلاصہ یہ تھا “ہماری دعوت صرف ایک ہے ۔  جسے قوم اور عوام نے ہمارے ساتھ تسلیم کرلیا ۔ عوام اور امت مسلمہ کو ہم اپنی غیرت کا امتحان دے چکے ہیں ۔ اب دشمن کا صرف ایک رعب اور خوف طاری ہے ۔ اس کا خاتمہ بہادری سے ہوگا ۔جب مجاہدین چند کارروائیاں کریں گے اور امریکیوں کا ناپاک خون زمین پر گرے گا تو اللہ تعالی مہربان ذات ہے کام بن جائے گا۔”

میرے خیال اسی رات کے بعد میر صاحب نے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ پہلی بار امریکیوں کے بڑے کیمپ”خدر” پر حملے کیے ۔ ہر رات کو مارٹر کے گولے فائرکرکے کیمپ کو نشانہ بنایا جاتا ۔ اسی آغاز نے عوام اور مجاہدین کے ذہنوں میں یہ حوصلہ بڑھادیا اور یہ بات بٹھادی کہ امریکیوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔

میر صاحب دو مرتبہ گرفتار ہوئے ۔ ان کے جیل کے ساتھی موسی فرہاد کا کہنا ہے کہ دوران قیدانہیں  ایک انتہائی سخت مقام میں انہیں ڈالا گیا تھا ۔ اس عرصے میں انہیں بہت زیادہ تکلیفیں دی گئیں ۔ اس دوران ان کا وزن 100 کلو سےکم ہوکر 60 کلو تک آپہنچا ۔ ان کا جسم انتہائی کمزور ہوگیا تھا ۔ جن لوگوں نے انہیں پہلے دیکھا تھا ابھی دیکھ کر وہ پہچان ہی نہ سکے کہ یہ وہی میر صاحب ہیں ۔ مگر باتیں اورہنسی مذاق میں وہ وہی شخص تھے ۔ کسی طرح کی تکلیف وہ محسوس نہیں ہونے دیتے تھے ۔ ہر ایک کو تسلی دیتے ،کبھی جیل کا سربراہ یا کوئی افسر آتا تو وہ ان سے دو ٹوک انداز میں واضح بات کرتے ۔ مگر بداخلاقی سے احتراز کرتے ۔ ساتھیوں سے کہتے کہ ایسی کوئی حرکت ہر گز نہیں کرنا کہ جس سے ہم انہیں کوئی بے آبرو اور آوارہ لوگ یا گھبراہٹ کا شکار نظر آئیں ۔ ان سے پوری نزاکت ، احترامانہ لہجے اور اخلاق کے ساتھ واضح حقائق بیان کرتے ہوئے بات کریں ۔ جب تک وہ ہم سے بداخلاقی یا بے احترامی سے پیش نہیں آتے ۔

فرہاد کے بقول خلاصہ یہ کہ میر صاحب شہید مدبر ، ہوشیار اور تقوی دار شخص تھے ۔ عبادت بہت زیادہ کرتے تھے ۔ بہت کم وقت میں جب وہ جیل سے نکل رہے تھے انہوں نے 25 پارے قرآن کریم حفظ کرلیا تھا۔ اللہ تعالی ان کی تمام تکالیف اور قربانیاں قبول کرے ۔

شہادت :

راہ اسلام کا یہ عظیم مجاہد اور امارت اسلامیہ کا یہ معروف رہنما جن کی جہادی خدمات اور کارناموں نے اسلام اور افغانستان کے دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹے بچھادیے تھے دشمن ان کی شخصیت برداشت نہ کرسکی ۔ بالاخر انہیں رواں ہجری قمری سال 1436 کے 24شعبان المعظم کو جمعہ کے دن بزدلانہ حملہ میں شہیدکردیا گیا ۔ اللہ تعالی ان کی شہادت قبول فرمائے اور انہیں بلند درجات عطافرمائے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

میر احمد گل ہاشمی صاحب کی نماز جنازہ ان کے آبائی گاوں میں ہزاروں افراد کی موجودگی میں ادا کی گئی ۔ اور پھر انہیں اپنے گاوں “پاد خواب شانہ”  کی جامع مسجد اور مزار کے احاطے میں اپنے علاقے کے عظیم ولی اللہ میر سیدولی کے مزار کے برابر میں دفن کیا گیا ۔

ان کی روح شاد ، جہادی کارنامے تاابد یاد گار اور مشعل راہ رہیں ۔ آمین

میر صاحب کے پسماندگان میں 5بیٹے ہیں جن میں سے بڑے صاحبزادے رفیع اللہ ہاشمی ان کےجانشین  ہیں ۔