بین الافغان مذاکرات اور افغان قوم کی امیدیں

ہفتہ وار تبصرہ قطر میں طے شدہ معاہدے کے مطابق جارحیت کے خاتمے اور بین الافغان مذاکرات کی جانب مؤثرترین اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور آخرکار بین الافغان مذاکرات کے زیرعنوان افہام وتفہیم کے اس  مرحلے کا آغاز ہونے والا ہے، جسے چند ماہ پہلے شروع ہونا چاہیے تھا۔ ان مذاکرات کے حوالے سےایک وہ […]

ہفتہ وار تبصرہ

قطر میں طے شدہ معاہدے کے مطابق جارحیت کے خاتمے اور بین الافغان مذاکرات کی جانب مؤثرترین اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور آخرکار بین الافغان مذاکرات کے زیرعنوان افہام وتفہیم کے اس  مرحلے کا آغاز ہونے والا ہے، جسے چند ماہ پہلے شروع ہونا چاہیے تھا۔

ان مذاکرات کے حوالے سےایک وہ بیانات ، پیشین گوئیاں اور پروپیگنڈے  ہیں، جنہیں اجنبی اور خودغرض میڈیا بہت شدت سے پھیلا رہے ہیں اسی طرح اس اہم مرحلے کے متعلق عام اذہان کو ایک خاص رخ دینا چاہتا ہے۔ دوسری افغان قوم کی وہ حقیقی امیدیں، خواہشات اور مطالبے ہیں، جو ان مذاکرات سے وابستہ ہیں ،لہذا ان پر فی الفور توجہ دینی چاہیے۔

19 برس قبل افغان قوم پر ظالمانہ جارحیت ہوئی۔ اسلامی حاکمیت، استقلال، زمین اور فضائی حریم غصب  اور  تمام سیاسی، سماجی، ثقافتی اور معاشی  امور کےاختیارات اجنبی کے ہاتھوں چلے گئے ۔ جارحیت کے 19 سالہ مرحلے میں مختلف شعبوں میں کافی نقصانات برداشت کرنےاور اٹھانے پڑیں۔

افغان قوم کو امید ہے کہ بین الافغان مذاکرات کےذریعے ان  معنوی اور مادی نقصانات کا الزالہ ہوجائے گا، جن سےعوام اجنبی انتظامیہ اور جارحیت کے19 سالہ مرحلے میں روبرو رہا۔ اس مرحلے میں اکثر فیصلے بیرونی ممالک  میں ہوتے اور افغان قوم پر مسلط کیےجاتے۔

بین الافغان مذاکرات کے دوران اگر اجنبی پرور میڈیا 19 سالہ کامیابیوں ! پر تالیاں بجارہی ہیں،مگر افغان قوم ان 19 سالہ خسارات کو اہم سمجھتے ہیں،جو مختلف حصوں میں عوام کو پہنچے اور قوم الزالہ چاہتا ہے۔ جارحیت کے اس مرحلے میں ہم نے اسلامی حاکمیت  کو کھو دی۔ سیاسی خودمختاری، قومی استقلال اور  اراضی سالمیت سے محروم ہوگئے۔ اسلامی ثقافت، تعلیم، قوانین اور اپنے اجتماعی اور ثقافتی اقدار کی جگہ اجنبی معیار کو معاشرے پر مسلط کیا گیا اور جان بوجھ کر کوشش کی گئی کہ ہماری قوم کی نظریاتی اور ثقافتی شناخت کو بدل کر اسے ایک غیر مذہبی اور غیر افغانی دائرے میں ڈالا جاسکے۔

اب تمام فریقوں کی ذمہ داری ہے کہ   اپنے ملک اور قوم  کو کس طرح ان منفی تاثرات سے پاک کردیں، جس نے ہماری قوم کی حقیقی مذہبی شناخت کو متاثر کر رکھا ہے۔ افغان قوم ان تمام شامل  پہلوؤں سے یہی امید رکھتی ہے کہ اپنے معیار اور اقدار کو سب سے مقدم سمجھے اور ان کے تحفظ، پرورش اور توسیع پر اصرار کریں۔

اس نازک صورتحال میں چند استعماری ممالک کے سفارتوں کا ارادہ ہے کہ  کامیابیوں ! کے نام سے اس چیز کے بقاء اور تحفظ کے لیے پروپیگنڈے کا مہم چلائے،جس پر جارحیت کے 19 سالہ دورے میں انہی اجنبی فریقوں نے سرمایہ کاری کی تھی،  تاکہ جارحیت کے خاتمہ کے بعد بھی دوام رکھیں۔  مگر دشمن کے اس فریب پر ہماری ہوشیار قوم کو  متوجہ رہنا چاہیے۔

امارت اسلامیہ نے ہمیشہ اپنی قوم کی صدا کو لبیک کہا ہے اور  عوام کے مقدس امیدوں کو سرانجام دینے سے کسی حصے میں بھی کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا ہے، افغان تنازعہ کا حل بھی اسی میں سمجھتا ہے کہ عوام کے مقدس امیدوں کا احترام کیا جائے، نظریہ، فکر اور ثقافت کے مطابق نظام اور زندگی گزارنے کا طریقہ کار ان کے لیے مہیا کیا جاسکے۔