بین الافغان مذاکرات کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں ؟

ہفتہ وار تبصرہ افغان مسئلہ کے حل کی غرض سے بین الافغان مذاکرات کئی ماہ سے جاری ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم کانفرنس کا انعقاد چند روز روسی دارالحکومت ماسکو میں ہوا، جو دو روز تک جاری رہا۔ سابقہ بیانات اور اعلامیوں کی طرح اس کانفرنس میں تمام بیرونی اور ملکی جماعتوں کا متحد […]

ہفتہ وار تبصرہ

افغان مسئلہ کے حل کی غرض سے بین الافغان مذاکرات کئی ماہ سے جاری ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم کانفرنس کا انعقاد چند روز روسی دارالحکومت ماسکو میں ہوا، جو دو روز تک جاری رہا۔ سابقہ بیانات اور اعلامیوں کی طرح اس کانفرنس میں تمام بیرونی اور ملکی جماعتوں کا متحد فیصلہ یہ رہا کہ مذاکرات کے عمل کو تیز کرنا چاہیے،تاکہ موجودہ مسئلہ حقیقی طور پر حل ہوسکے۔مگر اب سوال یہ ہے کہ مذاکرات کا یہ عمل کس طرح کامیاب ہوسکتا ہے اور امن  کی آرزو کس طرح تصور سے حقیقت میں بدل سکتی ہے؟؟

واضح رہے کہ اس بارے میں سب سے بنیادی نکتہ مفاہمت کے اس معاہدے کی پاسداری ہے، جوآج  سے تقریبا ایک سال قبل مملکت قطر کے دوحہ شہر میں فریقین کے درمیان طے پایا اور اس کے بعد اقوام متحدہ سمیت عالمی  رہنماؤں نے بھی اس کی  حمایت اور  ثوقیق کی۔ یہ معاہدہ اس لیے اہم ہے  کہ مسئلہ کو حل اور مسیر کو مزید واضح کررہا ہے۔ ہر فریق کی ذمہ داریوں  کی وضاحت کررہا ہے،جس پر عمل درآمدآہستہ آہستہ   اس عمل کے حتمی اور حقیقی حل تک  پہنچ جائے گا۔

دوسری بات یہ ہےکہ افغان مسئلہ کا بیرونی رُخ دوحہ معاہدے کی رو سے تقریبا حل ہوچکا ہے۔ اب اس کا ملکی رُخ باقی ہے، جسے بین الافغان مذاکرات کا عمل کہا جاتا ہے۔ چونکہ یہ افغانوں کا اندرونی معاملہ ہے، جس پر صرف افغانوں کو بحث و مباحثہ کرنا چاہیے ، تاکہ اس کا حل تلاش کریں ، لہذا  بیرونی فریقوں کو اس مذاکرات میں مداخلت کرنے سے باز آنا چاہیے۔ اس لیے تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ  بیرونی مداخلت، دباؤ اور ایک فریق کے مفاد یا نقصان میں  پوزیشن لینے سے اس عمل کو نہ صرف نقصان پہنچ سکتا ہے، بلکہ اسے رکاوٹ اور ناکامی سے روبرو کرسکتا ہے۔

مخالف فریق کو ہمارا مشورہ یہ ہے کہ بیرونی اثر ورسوخ سے نکل جائیں۔اپنے ارادے ، عوام اور ملک کے مفادات کے تناظر میں مذاکرات کے عمل میں شرکت کریں۔ اجنبی معیارات کے بجائے اپنی قوم کے مذہبی اور معنوی اقدار کو بالاتراور مقدم سمجھے اور  اسی عالی اقدار کی روشنی میں مسائل کو حل کریں۔  اجنبی نسخہ جات اور  احکامات پر اصرار نہ کریں، کیونکہ  اجنبی نسخہ اس ملک میں بیکار ہے اور اسے معنوی اقدار اور  سنجیدہ قوم کسی صورت میں بھی قبول نہیں کرتا۔

امارت اسلامیہ کو مسئلے کے پرامن حل پر یقین ہے،اس سلسلے میں بات چیت کے جاری عمل کو کامیاب بنانے اور اسے حقیقی حل تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔ اس ضمن میں دوحہ معاہدے کے مطابق اپنی طرف سے تمام ذمہ داریوں کو نبھایا ہے۔ اپنے وعدوں پر عمل کیا اور اس طرح افغان قوم کے اہم مطالبے ( امن ) کے لیے اپنی وابستگی کو ثابت کردیا۔

ہماری امید یہ ہے کہ مخالف،چاہے ملکی ہو یا غیرملکی، اسے بھی دوحہ معاہدے کےلیے پابند رہنا چاہیے، تاکہ اسی طریقے سے بین الافغان مذاکرات کا عمل بھی کامیابی کی منزل تک ہمکنار ہوجائے۔