ترجمان امارت اسلامیہ ذبیح اللہ مجاھد کیساتھ چند اہم سوالوں پرمبنی انٹرویو

قارئین گرامی افغان اسلامک پریس نے امارت اسلامیہ کے ترجمان جناب ذبیح اللہ مجاھدکیساتھ چنداہم سوالات پرمبنی انٹریوکیاہے۔افغان اسلامک پریس سے شکریہ کیساتھ انٹرويوکو من وعن یہاں پیش کیاجارہاہے۔ خصوصی انٹرویو دنیاملامحمد عمرکےوفات کی منتظرتھی۔کیونکہ ملامحمد عمرافغانی طالبان کے جہادکاجذبہ اورولولہ کے باعث،اورانکی اتحاد کی نشانی تھی۔تین ھفتے پہلے دنیانے ملامحمد عمرکی عدم موجودگي کااعلان […]

قارئین گرامی افغان اسلامک پریس نے امارت اسلامیہ کے ترجمان جناب ذبیح اللہ مجاھدکیساتھ چنداہم سوالات پرمبنی انٹریوکیاہے۔افغان اسلامک پریس سے شکریہ کیساتھ انٹرويوکو من وعن یہاں پیش کیاجارہاہے۔

خصوصی انٹرویو

دنیاملامحمد عمرکےوفات کی منتظرتھی۔کیونکہ ملامحمد عمرافغانی طالبان کے جہادکاجذبہ اورولولہ کے باعث،اورانکی اتحاد کی نشانی تھی۔تین ھفتے پہلے دنیانے ملامحمد عمرکی عدم موجودگي کااعلان سنا۔لیکن تحریک پراسکاکوئی اثرنہیں پڑا۔

ملامحمد عمرکے وفات کے بعد نئے امیرکاتقرر،چندطالب رھنماؤں کااختلاف،تحریک طالبان کیساتھ القاعدہ کاپھرسے ملنا، بیرون ملک طالبان کی ملاقاتیں اور افغان حکومت کی اعتراضات،اورصلح کی سلسلے کابلکل رکھ جانا وہ چندموضوعات تھے جنکے بارے میں بہت سے سوالات کاجواب باقی ہے ۔

طالبان  ترجمان کاکہناہے ۔کہ نئے امیرکے تقررکے بعدپیداہونے والے مسائل حل ہونے کے قریب ہیں۔آپ نے ملامحمد عمرکی زندگی کے بارے میں بھی چند تفصیلات فراہم کی ہے۔

افغان اسلامی پریس نے اسی سلسلے میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے ساتھ ایک انٹریوکیاہے۔سوالات ایمیل کے ذریعے بیجھے گئے تھے اورجوابات موصول ہوئے ہیں۔ادارہ اپنے نشریاتی اصولوں کے مطابق سوال وجواب کی صورت میں اسے ہوبہونشرکررہاہے۔

1۔ملامحمدعمرکے وفات کے بعدچندپرانے اورنئے رہنماؤں نے نئے امیرسے اختلاف کااظہارکیاہے۔اسکی کیاوجہ ہے۔

جواب:

ہرتحریک اورنظام میں اندرونی سطح پرچندمسائل کی وجہ سے اختلافات اوراعتراضات موجودیاپیداہوتے رہتے ہیں۔عالیقدرامیرالمؤمنین ملامحمدعمرمجاھدکاوفات اوراسکے جانشین کاتعین ایک اہم موضوع اورتبدیلی تھی۔ممکن ہے کچھ دوستوں کویہ صورتحال بھاری محسوس ہواہو۔اورمیڈیامیں اپنے خیالات کے اظہارکاکوشش کیاہو۔اوریہ بھی ممکن ہے کہ چندحلقوں نے قصدامارت اسلامیہ کے درمیان دراڑپیداکرنے کی پراپیگنڈہ کرنے کی کوشش کی ہو۔لیکن ابھی فکرکیاجارہاہے۔کہ مندرجہ بالاتمام اعتراضات اوراختلافات ختم ہونے کی طرف گامزن ہیں۔امارت اسلامیہ کی قیادت اورخاص طورپرملامنصورصاحب ہرساتھی کے اعتراضات کوسننے اوراسکوراغب کرنیکی کوشش کی شدیدآرزومند ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ معترضین واختلاف کرنے والے اورگلہ شکوے رکھنے والے بھائی اگرچہ بہت محدودتھے لیکن وہ بھی کسی ایک خاص اورمشترک نقطے پرمتفق نہیں تھے ۔بلکہ ہرایک کی مخالفت کی وجہ مختلف تھی۔

اب جبکہ نئے امیرکے تقررکامسئلہ حل ہوچکاہے اورامارت اسلامیہ ایک دفعہ پھرنئے امیرپرمتفقہ بیعت سے اپنے پاؤں پرکھڑاہوچکاہے۔اسلئے اب سبھی بھائی انشاءاللہ اپنے انفرادی باتوں سے گزرجايئنگے جیسے کہ بہت اپنے باتوں سے گذرگئے اورامارت پرانکے مکمل رضامندی کی کوششیں کرینگے۔

2:۔نئے امیرکے تقررکے بعد قطردفترکے سربراہ نے استعفی دیاہے اورتاحال بیعت کااعلان بھی نہیں کیا۔کیاطیب آغاامارت سے علیحدہ ہوگئے ہیں۔

جواب:اسمیں کوئی شک نہیں ہے کہ محترم طیب آغانے امارت کے صفوں میں بہت تھکاوٹ سہااورنہ بھلائے جانے والی خدامات سرانجام دیں۔یہ کہ اس نے اپنے مرضی سے استعفی دیاہے۔شایدیہی مناسب محسوس کیاہو۔البتہ ہم ابھی بھی اس سے امارت کاحصہ سمجھتے ہیں اورانکی تجربات سے استفادے کی کوشش کرتے رھینگے۔اوردرمیان میں ہمیں کوئی اتنابڑااختلاف بھی نظرنہیں ارہاکہ خداناخواستہ وہ جہاد کے اس عظیم صف سے منہ موڑدیں۔آب نے اپنے استعفی میں بھی لکھاتھا(سیاسی دفترکے سربراہی سے استعفی دے رہاہوں لیکن فردی طورپر طالبان کے ساتھ رہونگا)۔

3:۔سیدطیب آغاکااستعفی آپکے قطراوربین لاقوامی تعلقات پراثراندازہوئی۔

جواب:

ہماری پالیسی افرادکے گرد نہیں بلکہ مقاصداورسیاست کے گردگھومتی ہے۔اسی لیے دنیاکوامارت اسلامیہ کیساتھ تعلقات قائم رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔لہذا امارت اسلامیہ کی سیاسی کمیشن اپنالائحہ عمل رکھتی ہے اور مقاصدافرادکے تبدیلی سے تبدیلی کاشکارنہیں ہوتا۔بلکہ محترم طیب آغاکیساتھ امارت کاایک بڑاٹیم منسلک تھا۔وہ اب بھی اپنے کام میں مصروف ہیں اورسیدطیب آغابھی جیسے کہ انہوں نے خودفرمایاہے تعاون کرینگے۔

4۔پہلے چنددنوں کی نسبت ابھی حالت کافی سازگاردکھائی دیتی ہیں اپکی کیارائے ہیں کہ ملااخترمحمدمنصورنے مسائل کے حل اورمعترضین کے جوابوں کے لیے کیااقدامات اٹھائے ہیں؟اورانکاکیانتیجہ نکلاہے۔

جواب:

علیقدرامیرالمؤمنین ملامحمدمنصورتقریبا6،7سالوں سے عملی طورپرامارت اسلامیہ کی سربراہی کرچکے تھے۔ہرچھوٹے اوربڑے کوقریب سے پہچانتے ہیں اورہرایک ان پراعتمادرکھتے ہیں۔ان کے لیے اس کاروان کی قیادت دوسرے کسی بھی شخص سے ذیادہ اسان تھا۔اسی لیے شوری اورعلماءنے اسکی امارت کی تائیدکی۔

-آپ نے اپنے پہلے خطبے میں اپنے ہرمخالف کومعاف اوربھائی چارے اوراکٹھے کام کرنیکی دعوت دے دی۔

-آپ نے عملی طورپرکسی سے کچھ نہیں چھپایا۔سارااختیارشوری اورعلماءکوسونپ دیا۔تب شوری اورعلماء نے آپ کو مجبورکیااوراپ کے ساتھ بیعت کردی۔

-آپ نے آخرتک مخالفین اورمعترضین کے لیے بات چیت کے دروازے بندنہیں کئے۔بلکہ مسلسل انکے ساتھ رابطے اورتفاہم کوقائم رکھا۔ہرتیزوتندشکوے کاآپ نے نرمی سے جواب دیا۔یہی وجہ تھی کہ سب اس حقیقت کوجان گئے اورامارت کے ساتھ بیعت کااعلان کیا۔

5۔ملااخترمنصورنے اپنے پہلے ہی تقریرمیں اپنے ساتھیوں کوجہادجاری رکھنے کاحکم دیا۔جس سے یہ تعبیرلیا گیا کہ بات چیت کاسلسلہ رک گيا،کیااسی طرح ہےاوراگراسطرح نہیں توکیابات چیت کے سلسلے میں اب وہی موقف ہے کہ افغان حکومت کیساتھ آپ لوگ مذاکرات نہیں کرینگے۔

جواب:

دشمن کیساتھ ملک کی آذادی اورقبضے کے خاتمے کے لیے غیرمستقل بات چیت کی گنجائش پہلے بھی تھی اوراب بھی ہے۔

اورجہادکاجاری رہناہمارامستقل مؤقف ہے۔کبھی بھی جہادکے روکنے کااعلان نہیں کیاہے اورنہ ہی ایسے دلائل موجود ہیں جس سے جہادساقط ہوجائیں۔نہ قبضہ ختم ہواہے۔نہ اسلامی قانون نافذہواہے۔اورنہ ہی ملک خودمختارہے۔

6۔بین الاقوامی بردری کاہمیشہ سے یہ مؤقف رہاہے کہ طالبان دھشت گردتنظیموں(بین الاقوامی مسلح گروپ)سے تعلقات قطع کریں۔پچھلے چندسالوں کے دوران طالبان نے بھی اپنے بیانات میں کہاہے۔کہ نہ افغانستان میں غیرملکی مسلح گروہ ہیں اورنہ طالبان کاانکے ساتھ تعلق ہے۔اب جب القاعدہ کے سربراہ ایمن الظوراہری نے ملامنصورکیساتھ بیعت کااعلان کیا،اورآپ نے تسلیم بھی کیا،یہ اس بات پردلالت نہیں کرتاکہ بین الاقوامی برادری اورطالبان کے درمیان ایک مرتبہ پھرخلیج بڑرہاہے۔

جواب:

ہم امارت کے حکومت کے وقت سے ہی اغیارکے معاملات میں دخل اندازی نہ کرنیکی کی پالیسی پرعمل پیراہیں۔ دنیاکے ساتھ سفارتی تعلقات کے خواہاں تھے۔جن ممالک نے ہمیں تسلیم کیاتھاوہاں اپنے سفیربیجھے تھے۔جنہوں نے تسلیم نہیں کیاتھاانکے ساتھ تعلقات قائم کرنیکی کوششیں کررہے تھے۔

لیکن اسکے ساتھ ساتھ ہم دنیاکے مظلوم مسلمان بھائیوں کوبھی نہیں بھلاسکتے۔یہ ہماراانسانی اوراسلامی فریضہ ہے۔ کہ مظلوم مسلمانوں کے لیے ہمدردی کاجذبہ رکھیں دوسرے لوگ انکوچاھیئےکسی بھی نام سے پکارے ہمارے لیے وہ عقیدے کے طورپر بھائی ہیں۔

ہم نے ملک سے باہرکسی کوبیعت کرنے کا نہیں کہا۔ لیکن اگرکسی کوہم سے محبت ہے۔توہم نہ ماننے کی شرعی حق تو نہیں رکتھے۔تاکہ انکے بیعت کونفی سے جواب دیں بلکہ انکے محبت کومثبت جواب دیناچاھیئے۔

لیکن اسکاہرگزیہ مطلب نہیں کہ ہماری زمین کوکوئی ہمارے پیروی کے نام پرکسی اورکے خلاف استعمال کرے۔یہ ایک ضرورت اورمجبوری ہے کہ خواہ مخوادنیاکے ہرملک کواپنا دشمن بنائے اوربناکسی ضرورت کے اپنے پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ کے اتحادوں میں اضافہ کریں۔لہذایہی ایک حکمت اورضرورت ہے کہ بیرونی دنیاہم سے عملا مسائل کاشکارنہ ہو۔

7:۔ازبکستان کے اسلامی تحریک کے نام سے ایک گروپ نے ایک ویڈیومیں داعش کیساتھ اتحادکااعلان کیاہے۔کہاجاتاہے۔کہ اس گروپ کامرکز افغانستان ہے۔اگرافغانستان میں ہے۔توآپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ گروہ کس چھتری کے نیچے افغانستان میں کام کررا ہے۔ اورطالبان کاانکے ساتھ تعلقات کیسے ہیں۔

جواب:

اس گروپ کے مرکزکا افغانستان میں ہونے  کی بات صحیح نہیں ہے۔

افغانستان میں جوبھی جہادکررہےہیں وہ امارت کے چتھری کے نیجے جہادکررہے ہیں۔اس وقت داعش کے نام سے کچھ لوگ صرف ننگہارمیں واقع2ضلعوں میں موجودہیں۔جوکہ پاکستانی شہری ہیں۔جوپاکستان سے آتے ہیں اورجن میں علاقے کے نوجوانوں کی بھی ایک قلیل مقدارشامل ہے۔باقی ملک کسی کونے میں اس نام سے کوئی باقی نہیں ہے۔

8:۔ناروے اورقطرمیں طالبان رھنماؤں کا افغان کمیونٹی کے کچھ لوگوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں اسکے کیانتائج برآمدہوئے ہیں۔

جواب:

امارت اسلامیہ کے سیاسی کمیشن کی پالیسی ہے کہ اپنے مدعاکوہرکسی سےاورہرفورم پربتادیاجائے۔تاکہ لوگ صرف میڈیاکے ذریعے سے پھیلائے جانے والے پروفیگنڈے کے ذریعے طالبان کامطالعہ نہ کریں۔

مجموعی طورپراسطرح سے امارت اسلامیہ نے پورے دنیااورافغانیوں کے لیے اپنا لائحہ عمل مزیدروشن کیااوریہی اسکانتیجہ ہے۔

9:۔یہ جوکہاجارہاہےکہ طالبان رھنماءملک سے باہرلوگوں سے ملاقاتیں کررہیے۔کیایہ ٹھیک ہے؟۔طالبان کیوں اپنے سرگرمیوں کواندرون ملک منتقل نہیں کرتے۔

جواب:

اپکوجانتے ہے کہ ہمارے مجاھدین ملک کے کونے کونے میں جہادی سرگرمیوں میں سرگرم عمل ہیں۔

ہرصوبے کاجہادی مسئول اپنے صوبے میں موجودہیں۔بعض ساتھی چندضروتوں کی وجہ سے کچھ ہمسايہ ممالک کے جغرافیہ سے استفادہ کررہے ہیں۔لیکن اسکایہ مطلب نہیں کہ ہمارے متعلقین وہاں کسی کے بلانے پرگئے ہوئے ہیں۔اسی وجہ سے ہمارے بہت اہم لوگ پکڑے بھی گئے ہیں یہاں تک کہ کچھ جھیلوں میں شہیدبھی ہوچکے ہیں۔

اکثروہ لوگ جنہوں نے طالبان حکومت کے وقت ذمہ داری اداکی تھی وہ امریکی تجاوزکے بعد ھجرت کرنے پرمجبورہوئےتھے۔اورجہاں بھی انہیں رات گزارنے کاموقع ملاہے وہاں کارخ کیاہے۔قدرتی بات ہے کہ ان حالات میں وہ ممالک جنکے ساتھ جغرافیائی اورثقافتی رشتے ہیں وہاں جانا آسان ہے۔جہان تین دھائیوں سے مہاجرآبادہیں۔

اسطرح کے ممالک کے علاقے اگرمجبوری کے حالت میں ملاقاتوں کے لیے استعمال کئے گئے ہیں تواسکاقطعایہ مطلب نہیں کہ ہم کسی کے کہنے پریہ سب کچھ کررہےہیں۔

10:۔ملامحمدعمرکی وفات کوخفیہ رکھنے کاقطعی فیصلہ کس کاتھا،اوراس نے طالبان کی کیامددکی ہے۔

جواب:

امیرالمؤمنین رحمہ اللہ کے گھرانے، امارت کے عدلیہ اورافتاکے ذمہ داروں علماءاکرام، امارت کے مرکزی شوری اورسربراہوں کی یہ مشترکہ فیصلہ تھا۔اسکافائدہ یہ ہواکہ اسوقت کچھ بحرانی کیفیت تھی۔اورکچھ تازہ مسائل تھے جوشایداس خبرکے اعلان کے ساتھ مزید بڑھ جاتے ۔فی الحال ہم الحمدللہ بحران کی اس کیفیت سے باہرآگئے ہیں۔

11:۔افغانی قوم کےیہ سوالات کہ ملامحمد عمرامریکی حملے کے پہلے دنوں میں دنیاسے رحلت کرگئے تھے،یایہ دعوہ کہ وہ قیدمیں تھے،یاانکاوجود ہی نہیں تھاطالبان اسکوکیسے ثابت کرسکیں گے کہ آپ نے بارہ سال لڑائی کی کمانڈکی ہے اوروہ ملت کے سربراہ تھے۔

جواب:

امیرالمؤمنین رحمہ اللہ ایک سال تک جہادی رھنماؤں کے ساتھ عملا جہادی سرگرمیاں سرانجام دے رہے تھے۔بعد میں حفاظتی وجوہات کے بناپرشوری کوآڈیوپیغامات بیھجتے رہے۔جوابھی تک امارت کے لوگوں کے ساتھ موجودہیں اورانمیں چندایک انٹرنیٹ پربھی دستیاب ہیں۔اسکے ساتھ ہی امارت کے سرابرہ کے ساتھ قاصدوں کابھی تبادلہ ہوتارہتاتھا۔اسکے ہوتے ہوئے اورکس شہادت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔

12:۔آخری سوال کے طورپر

طالبان کس  مقصدکے حصول تک اپنے جگڑے اورمبارزے کوقائم ودائم رکھیں گے۔

جواب:

امارت اسلامیہ کامقصدکافی واضح ہے۔تمام بیرونی افواج کاعملااخراج،ملکی خودمختاری اوراسلامی نظام کانفاذ۔

اختتام