تہتر فیصد شہری اموات میں امریکا و کٹھ پتلی ملوث

آج کی بات: حسب سابق گزشتہ تین ماہ  اگست، ستمبر اور اکتوبر میں بھی غیرملکی جارحیت پسندوں اور ان کی کٹھ پتلیوں نے افغانستان کے طول و عرض میں مختلف حملوں میں سیکڑوں شہریوں کو بلاوجہ شہید اور زخمی کیا ہے، جب کہ سیکڑوں شہریوں پر تشدد کے متعدد واقعات سمیت  کئی ایک کو گرفتار […]

آج کی بات:

حسب سابق گزشتہ تین ماہ  اگست، ستمبر اور اکتوبر میں بھی غیرملکی جارحیت پسندوں اور ان کی کٹھ پتلیوں نے افغانستان کے طول و عرض میں مختلف حملوں میں سیکڑوں شہریوں کو بلاوجہ شہید اور زخمی کیا ہے، جب کہ سیکڑوں شہریوں پر تشدد کے متعدد واقعات سمیت  کئی ایک کو گرفتار کر کے جیل کی کال کوٹھڑیوں میں قید کیا ہوا ہے۔

امارت اسلامیہ کی طرف سے شہریوں کے نقصانات کی روک تھام کے لیے کے قائم خصوصی کمیشن نے اپنی حالیہ رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ گزشتہ تین ماہ میں عام شہریوں پر حملوں کے 228 واقعات سامنے آچکے ہیں۔ جن میں 693 افراد شہید ہیں، جب کہ 700 کے قریب افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ان افراد میں سے 460 افراد امریکی جارحیت پسندوں کے حملوں میں، 184 افراد داعش اور نامعلوم دہشت گردوں اور 40 افراد مجاہدین کے حملوں میں شہید ہوئے ہیں۔ شہداء میں 527 مرد، 73 خواتین اور 93 بچے شامل ہیں۔

مجموعی طور پر شہریوں کی مذکورہ شہادتوں میں 73 فیصد ہلاکتوں میں غیرملکی جارحیت پسندوں اور ان کی کٹھ پتلیاں ملوث ہیں، جب کہ 14فیصد شہادتوں میں داعش، جب کہ 12 فیصد شہادتیں ناداستہ طور پر مجاہدین کے حملوں میں ہوئی ہیں۔

مذکورہ کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ  شہریوں کی شہادتوں کے جن واقعات میں امارت اسلامیہ کے مجاہدین کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے، ان پر ہم نے امارت اسلامیہ کی قیادت کے حکم اور ہدایات کے مطابق تحقیقات کی گئی ہیں۔ ملوث افراد کو شریعت کے اصولوں کے مطابق سزا سنائی جا چکی ہے، جب کہ متاثرین کے ساتھ صلح اور ہمدردی کے اظہار  کے لیے وفد کے افراد ان کے ہاں تشریف لے گئے تھے۔

غیرملکی جارحیت پسند، میڈیا، این جی اوز اور کٹھ پتلی اشرف غنی افغانستان میں عام شہریوں کی اموات کا الزام ہمیشہ مجاہدین پر لگاتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عام شہریوں کی اموات کے زیادہ تر واقعات کفار کے فضائی حملوں، چھاپوں اور کٹھ پتلیوں کے مختلف حملوں کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔

شیرزاد، درویشان، بزقندھاری اور فاریاب کے حالیہ خوں ریز واقعات کفار اور ان کی کٹھ پتلیوں کے جرائم کی واضح مثال ہیں۔ جن میں سیکڑوں شہری شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔

امارت اسلامیہ کے مذکورہ کمیشن کی اس رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ عام شہریوں پر حملوں میں 70 سے 80 فیصد تک کفار اور ان کے کاسہ لیس ملوث ہیں۔ اب ان ظالم اداروں اور جھوٹے میڈیا کی رپورٹس کوئی معنی نہیں رکھتیں، جن میں کفار کی منشا کے مطابق عام شہریوں پر حملوں میں مجاہدین کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہوتا ہے۔ کیوں کہ ان داروں کی تمام رپورٹس کفار اور ان کی کٹھ پتلیوں کے مفادات کو مدنظر رکھ کر تیار کی جاتی ہیں۔ ان جھوٹ کے پلندوں کا حقائق کی دنیا سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔