جارحیت پسندوں کا قبرستان؛ افغانستان

آج کی بات: دو دن قبل افغانستان میں امریکا کے سب سے بڑے فوجی استعمال والے  بگرام ہوائی اڈے پر امارت اسلامیہ کے کامیاب اور تباہ کن استشہادی حملے نے امریکی جارحیت پسندوں کے اوسان خطا کر دیے تھے۔ یہ حملہ مصدقہ معلومات اور چار ماہ کی منصوبہ بندی کی بنیاد پر نئے طریقے سے […]

آج کی بات:

دو دن قبل افغانستان میں امریکا کے سب سے بڑے فوجی استعمال والے  بگرام ہوائی اڈے پر امارت اسلامیہ کے کامیاب اور تباہ کن استشہادی حملے نے امریکی جارحیت پسندوں کے اوسان خطا کر دیے تھے۔ یہ حملہ مصدقہ معلومات اور چار ماہ کی منصوبہ بندی کی بنیاد پر نئے طریقے سے ایک اہم ہدف پر کیا گیا تھا، جس میں امریکی جارحیت پسندوں کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچا ہے۔ مصدقہ اطلاعات کےمطابق  استشہادی مجاہدحافظ محمد پروانی تقبلہ اللہ کی جانب سے کیے گئے اس تباہ کن حملے میں 23 امریکی فوجی ہلاک، جب کہ 44 زخمی ہوئے ہیں۔

مذکورہ حملے میں کفار اپنے نقصانات چھپانے کے لیے اپنے ہلاک اہل کاروں کی تعداد بتانے میں روایتی بخل سے کام لے رہے ہیں، لیکن دشمن کی صفوں میں موجود افرتفری اور خوف سے واضح ہوتا ہے کہ دشمن کو بھاری جانی نقصان نے شدید حواس باختہ کر دیا ہے۔ حملے کے بعد ائیربیس کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا اور معلومات کو آزاد میڈیا کی نطر سے چھپائے رکھنے کی خاطر کسی فرد کو اندر یا باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ دوسری جانب افغانستان میں موجود دوسرے امریکی شہریوں کے لیے بھی ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ بِلاضرورت اپنے مراکز سے باہر نہ نکلیں، جب کہ افغانستان آنے والے امریکی شہریوں کو بھی سفر سے روک دیا گیا ہے۔

بگرام میں ہونے والے حالیہ حملے کے بعد امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے کہا ہے کہ بھاری جانی نقصانات امریکا کے مؤقف میں تبدیلی نہیں لاسکتے۔

اسی طرح امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ نے بگرام حملے کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہےکہ ’بگرام کے اندر خونریز حملے نے ہم سب کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔‘ اخبار کے مطابق ’بگرام ایئربیس میں ہونے والا یہ دوسرا حملہ ہے۔‘ اخبار نے بگرام ائیربیس میں کام کرنے والے ایک امریکی شہری کے حوالے سے لکھا ہے: ’عام طور پر بگرام ائیر بیس میں داخل ہونے والوں کی اتنی سخت جامہ تلاشی لی جاتی ہے کہ کوئی شخص ایک معمولی سوئی بھی اندر نہیں لے جا سکتا۔‘

بگرام جیسے اہم اور محفوظ سمجھنے جانے والے اڈے میں اس قسم کا حملہ دشمن کی صفوں  میں مجاہدین کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے۔ مجاہدین نے بڑی مہارت سے دشمن کی شہ رگ پر حملہ کیا ہے۔ مجاہدین کو اس قسم کے حملوں پر بھرپور توجہ دینی چاہیے، کیوں کہ اب دشمن کے پاس مجاہدین کے حملوں سے بچے رہنے کی کوئی جگہ نہیں بچی، اس لیے وہ افغانستان میں آخری پناہ گاہ کے طور پر ہوائی اڈوں کو استعمال کر رہا ہے۔ اس لیے مجاہدین کو چاہیے کہ کفار پر اس قسم کے مزید کفرشکن حملے کر کے اِن کے غرور کو خاک میں ملایا جائے۔

بگرام میں ہونے والا حالیہ حملہ امریکا کے نئے صدر کے لیے واضح پیغام ہے کہ وہ اوباما کی پالیسیوں کی تابع داری اختیار نہ کریں۔انہیں چاہیے کہ افغانستان سے اپنی فوج واپس بلا کر امریکی ماؤں کی اِن اولادوں پر رحم کیا جائے۔ اگر وہائٹ ہاؤس کے نئے حکمران بھی بش اور اوباما کی پالیسیو ں پر عمل پیرا ہو کر جنگ کو مزید طول دینے کی فکر رہے تو  بگرام  کی طرح کے مزید تباہ کن حملے امریکی و نیٹو فوجیوں کی زندگی کے چراغ گل کرتے رہیں گے۔

یہ یاد رہنا چاہیے کہ افغانستان ہمیشہ جارحیت پسندوں کے لیے قبرستان ہی ثابت ہوا ہے۔