کابل

جب شہزادہ چارلس نے برطانوی دانش وروں کو اسلام کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا۔

جب شہزادہ چارلس نے برطانوی دانش وروں کو اسلام کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا۔

مستنصر حجازی

اسلام اور مغرب کے درمیان حقیقی مسائل سے زیادہ غلط فہمیاں ہیں۔ یہ غلط فہمیاں سسٹم، نظام اور معاملات  میں زیادہ ہیں۔ مثلا جب کسی مسلم ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوئی تحریک جدوجہد شروع کرتی ہے، تو مغرب کو اس پر مختلف زاویوں سے اعتراض ہوتا ہے۔ نوے کی دہائی میں افغانستان میں امارت اسلامیہ افغانستان کی حکومت اور اب دوسری بار دور حکومت پر مغرب کو ایک ہی نوعیت یا قریب قریب نوعیتوں کے اعتراضات ہیں۔ مثلا جامع حکومت بنانے کا مطالبہ پچھلی بار بھی ہو رہا تھا اب بھی ہو رہا ہے۔ بغیر لچک کے سخت ترین اسلام کے نفاذ کا اعتراض نوے دہائی میں بھی کیا گیا تھا اب بھی کیا جا رہا ہے۔ اس نوع کے دیگر کئی اعتراضات اور مطالبے پیش کیے جاسکتے ہیں۔
نوے کی دہائی میں ان اعتراضات اور مطالبوں کے بیچ ایک ایسا مشورہ بھی دیا گیا جس نے مسلم دنیا کو تو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، مغرب کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا۔ کیوں کہ ایک طرف مشورہ مغرب کی غیر معمولی با اثر شخصیت نے دیا تھا اور دوسری جانب مشورے میں معقولیت بھی تھی۔ جب مشورہ کوئی بڑی شخصیت دے رہا ہو اور مشورے میں معقولیت ہو تو اس پر سوچنا فطری ہے بلکہ مشورے پر عمل کرنا معقولیت کا تقاضا بھی ہے۔
یہ امر بدیہی ہے کہ اسلام کے احکامات اور ان پر عمل در آمد کے باب میں مسلمانوں کے طرز عمل میں فرق ہے۔ نیویارک کے ایک مسجد کے امام عبدالرٶف نے ایک کتاب ”What is right with islam“ لکھی ہے جس میں سب سے بنیادی بات یہ لکھی گئی ہے کہ اسلام اور امریکی معاشرے میں کشمکش کی وجہ یہ ہے کہ نظریے کا عمل سے موازنہ کیا جارہا ہے لہٰذا اگر نظریات کا نظریات سے اور عمل کا عمل موازنہ کیا جائے تو پریشانی نہیں ہوگی۔
اسلامی احکامات پر اعتراضات کے حوالے سے مغرب کا رویہ بھی منصفانہ نہیں ہے۔ اسی امر کو برطانیہ کے شہزادہ چارلس نے محسوس کیا۔ انہوں نے امارت اسلامیہ افغانستان پر مغربی اعتراضات دیکھنے کے بعد خود ان کے طرز حکومت، حکومتی اقدامات کے ذریعے اصلاحات اور افغانستان میں مثالی امن و امان کا مطالعہ کیا تو سوچنے پر مجبور ہوا۔ 1997 میں انہوں نے ایک تقریب میں خطاب کے دوران برطانوی دانش وروں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا: “اسلام کا مطالعہ کریں۔ بہ طور نظام زندگی اور متبادل سسٹم اسے اسٹڈی کریں۔ لیکن اسلام کا مطالعہ کرتے ہوئے دو باتوں کی طرف مت دیکھیں۔ ایک یہ کہ ہمارے بڑوں نے اسلام کے بارے میں کیا کچھ کہا ہے۔ دوسرا یہ کہ مسلمان اس وقت کیسے نظر آ رہے ہیں۔”
اسی سے ملے جلے خیالات ایک برطانوی ممبر پارلیمنٹ جم مارشل نے بھی اپنے خطاب کے دوران بیان کیے تھے۔ انہوں نے کہا تھا: “جس اسلام سے ہمارے بڑوں نے ہمیں متعارف کرایا وہ اور ہے۔ جو اسلام ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں وہ اور ہے۔ جب کہ دنیا میں اس وقت موجودہ مسلمانوں کی زندگیوں میں جو اسلام نظر آتا ہے وہ ان دونوں سے مختلف ہے۔”
شہزادہ چارلس نے 1993 میں بھی آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک اسٹیڈیز میں خطاب کے دوران اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کرنے کی بات کی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے مغربی رویے پر بھی تنقید کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات سے سیکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا: “مغرب روحانی اور مادی اقدار میں فرق دور کرنے کے لیے اسلام سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ برطانیہ میں ’’مسلمان‘‘ نامی نمائش کے افتتاح کے بعد خطاب کرتے ہوئے شہزادہ چارلس نے کہا کہ مغربی دنیا بظاہر سیکولر لگتی ہے لیکن اصل میں وہ ’’ٹیکنالوجی کے بت‘‘ کی عبادت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کو اسلامی دنیا سے بہتر انڈراسٹینڈنگ کی ضرورت ہے۔‘‘