کابل

جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا افغان سرکاری ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو کا مکمل اردو ترجمہ:

جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا افغان سرکاری ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو کا مکمل اردو ترجمہ:

کچھ دنوں قبل جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ ایک وفد سمیت افغانستان کے دورے پر آئے اور یہاں امارت اسلامیہ کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اس دورے کا مقصد اور مختلف حکومتی عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتوں میں کونسے موضوعات زیر بحث آئے ہیں اس پر تفصیلی گفتگو کے لیے جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے تفصیلی گفتگو ہوئی جو سوال وجواب کے طرز پر نذر قارئین ہے۔
سوال: سب سے پہلے آپ کو افغانستان میں خوش آمدید کہتے ہیں اور شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیں انٹرویو کے لیے وقت دیا۔
جواب: مہربانی بہت شکریہ جی۔اللہ آپ کو شاد و آباد رکھے۔
سوال:آئیے آغاز اس سے کرتے ہیں کہ آپ کے دورہ افغانستان کا مقصد کیا تھا، کن مقاصد کے حصول کے لیے افغانستان کے دورے پر آئے؟
جواب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، بہت شکریہ آپ نے ہمیں کچھ بولنے اور افغان قوم سے مخاطب ہونے کا ایک موقع فراہم کیا ۔ ظاہر ہے کہ امارت اسلامیہ کی دوبارہ بحالی کے لیے بیس سال تک جو قربانیاں دی گئیں۔ جمعیت علمائے اسلام نے پاکستان میں امارت اسلامیہ کے اس موقف کی تائید کی تھی۔اور ہم خود بھی یہ اخلاقی فریضہ سمجھتے تھے کہ اگر امارت اسلامیہ اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوتی ہے اور اسلامی شریعت ، امن وامان اور انسانی حقوق کے تحفظ کا ماحول افغانستان میں قائم ہوتا ہے تو وہاں جاکر مبارکباد دینا اور نیک خواہشات کا اظہار کرنا یہ ہمارا اخلاقی فرض تھا ۔ ہم یہ چاہتے تھے کہ ہم شروع دنوں میں ہی آتے لیکن چونکہ یہاں ملکی اور بین الاقوامی مسائل کی وجہ سے ہم یہ دورہ نہ کرسکے دوسری جانب شروع کے دنوں میں امارت اسلامیہ کی قیادت کو بھی ملک کی باگ ڈور سنبھالے عرصہ نہیں گزراتھا انہیں کچھ وقت کی ضرورت تھی تاکہ وہ ملکی معاملات اور ملک کے استحکام کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ جمعیت علمائے اسلام نے فیصلہ کیا کہ ہمیں وہاں جاکر اپنے خیرسگالی کے جذبات اور نیک خواہشات امارت اسلامیہ تک پہنچانی ہیں۔
سوال: یعنی آپ کے نزدیک وہ موقع اب میسر آیا ہے اس لیے دورہ ابھی کیا؟
جواب: جی الحمد للہ ، ہم نے افغانستان کو خود سے علیحدہ نہیں سمجھا ۔ پاکستان میں جو پشتون رہتے ہیں وہ کسی نہ کسی رشتے میں افغانستان سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے دلوں میں بھی افغانستان کے لیے خیر کے جذبات ہمیشہ زندہ ہوتے ہیں اور ہم اس ملک کو اپنے ملک کے طور پر اور اس کی عوام کو اپنے عوام کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کی خوشی اور ترقی پر خوش ہوتے ہیں اور ان کی تکالیف اور غم پر رنجیدہ ہوتے ہیں۔
سوال: کیا آپ کا یہ دورہ سرکاری تھا؟
جواب: یہ وفد حکومتی وفد نہیں بلکہ جمعیت علمائے اسلام کا تنظیمی وفد تھا۔ لیکن ہم نے حکومت کو بھی اس دورے کی خبر دی تھی کہ ہم جارہے ہیں اور ہم امارت اسلامیہ کے رہنماؤں سے ملیں گے ۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ جمعیت علمائے اسلام وہاں ایک بڑی مذہبی اور سیاسی قوت ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری، فروغ اور استحکام جب ہمارے اہداف میں ہوں تو جب تک حکومت کا ساتھ نہ ہو تو ان اہداف کا حصول ناممکن نظر آتا ہے اس لیے ہم نے حکومت کو بھی اعتماد میں لیا اور الحمد للہ حکومت کی تائید بھی ہمیں حاصل رہی۔
سوال: جس ہدف کے حصول کے لیے دورہ کیا گیا کیا وہ اہداف حاصل ہوتے نظر آتے ہیں؟
جواب: میں یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ یہ ہمارا پہلا دورہ ہے ۔ پچھلے سال دونوں ممالک کے درمیان جو گلے شکوے پیدا ہوئے تھے۔ اب اس دورے سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک دم تمام مسائل حل ہوگئے ہیں۔ ہم نے ان مسائل کے حل کے لیے راہ ہموار کرلی ہے اور اس کے لیے بہتر ماحول تشکیل دیا ہے۔ یہ ایک قسم کی شروعات تھیں الحمد للہ ہم اس سے مطمئن ہیں۔اور ہمارے دورے کے ساتھ یہ مسائل حل ہوں گے۔
سوال: پاکستانی حکومت کے وہ کونسے مطالبات تھے جسے وہ افغانستان کے ساتھ شئیر کرنا چاہتے ہیں اور کون سے مسائل تھےجس کے حل کا مطالبہ کیا گیا؟
جواب: ظاہر سی بات ہے کہ پاکستان کی حکومت ہو یا عوام دونوں کی خواہش تھی کہ افغانستان میں عشروں سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو اور یہاں امن وامان قائم ہو، اور وہ خواہش پوری ہوئی۔ اب حکومت، عوام اور تنظیمی سطح پر سب اس بات پر متفکر ہیں کہ افغانستان اور پاکستان انتہائی محبت اور ایک دوسرے کی حمایت کے ساتھ زندگی گزاریں، پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ ہماری نہ صرف سرحدات مشترک ہیں بلکہ ہماری زبان، قبیلے اور ثقافت بھی ایک دوسرے جڑے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان افغانستان کے لیے اہم ہے اور افغانستان، پاکستان کے لیے اہم ہے۔ افغانستان کے بہت سے ہمسایہ ممالک میں پاکستان ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔ یہ چیزیں ہماری نظر میں تھیں ان کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔
سوال: عام طور پر لوگوں کے درمیان یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان افغانستان کی بھلائی نہیں چاہتا، یا پاکستان افغانستان کا ایک اچھا ہمسایہ ثابت نہیں ہوا کہا جاتا ہے کہ ہر مرتبہ پاکستان نے افغانستان کو نقصان پہنچایا ہے، اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب: میں سختی سے اس کی تردید کرتا ہوں ، ایسا بالکل نہیں ہے۔ میں اسی تاثر کو ختم کرنے کے لیے آیا ہوں کہ پاکستان کہتا ہے کہ مجھے افغانستان نے نقصان پہنچایا ہے اور افغانستان پاکستان کو مورد ِ الزام ٹھہرائے۔ ہم اس بحث سے نکلنا چاہتے ہیں جب تک مل بیٹھ کر ان موضوعات پر بحث اور مذاکرہ نہیں کرتے تب تک یہ مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ مزید پیچیدہ ہوجائیں گے۔ ہماری یہ کوشش ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان تمام مسائل افہام وتفہیم سے حل ہوں اور وہ تمام قوتیں جو افغانستان اور پاکستان کے تعلقات خراب کرنے اور انہیں آپس میں الجھانے کے لیے سازشیں کر رہی ہیں انہیں بھی مل کر ناکام بنانا ہوگا۔
سوال: کن کن رہنماؤں سے ملاقات ہوئی؟
جواب: میری ملاقات امارت اسلامیہ کے تمام رہنماوں سے ہوئی، میں امارت اسلامیہ کے تمام رہنماوں اور وزراء کا انتہائی شکر گزار ہوں کہ جس طرح ہمارا پرتپاک استقبال کیا گیا اس سے ہم نے اندازہ لگایا کہ ان کے دل میں کسی پاکستانی کے لیے کتنی محبت ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ ملک کے بچے بچے تک محبت، اخوت اور بھائی چارے کا یہ پیغام پہنچ جائے۔ ہم نے بھی پاکستانی قوم کی جانب سے محبت کا یہ پیغام اپنے افغان بھائیوں کے لیے لایا ہے۔
سوال: پاکستان اور افغانستان کے تعلقات آئے روز کشیدہ ہوتے رہتے ہیں دونوں ممالک ایک دوسرے سے گلے شکوے کرتے ہیں۔ بین الاقوامی فورمز پر بھی افغانستان کے خلاف موقف اپنایا جاتا ہے کیا یہ مسائل بات چیت سے حل نہیں ہوسکتے؟
جواب: دیکھیں یہ تاثر جس طرح افغانستان میں موجود ہے اسی طرح پاکستان میں موجود ہے یعنی جس طرح افغانستان سمجھتا ہے کہ پاکستان ہر معاملے میں ہمارے ساتھ زیادتی کر رہا ہے اسی طرح پاکستان میں یہ تاثر موجود ہوسکتا ہے کہ افغانستان ہمارے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے۔یہ غلط فہمیاں مل بیٹھ کر ختم کی جاسکتی ہیں۔
سوا ل: ایک تو غلط فہمیاں ہیں لیکن بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کے وزراء کی جانب سے افغانستان پر الزام تراشی کی جاتی ہے کہ افغانستان سے ہمیں خطرہ ہے ؟
جواب: یہ جو کہا گیا ہے اسے بھول جائیں ہم ایک نئے سفر کا آغاز کر رہے ہیں ہم ان باتوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں، دہرانا نہیں چاہتے اس سے مزید مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔جب ہم ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں گے تو مسئلہ حل ہوجائے گا۔
سوال: افغانستان میں دنیا کے متعدد ممالک کے علماء نے جہاد کا فتویٰ دیا تھا اور یہاں سالوں سال تک ہزاروں افغانوں کا خون بہایا گیا آپ بھی اس فتویٰ کی تائید کرتے ہیں؟
جواب: اصل بات یہ ہے کہ برصغیر پر مکمل طور پر انگریزوں کا تسلط تھا اس وقت بھی اپنی آزادی کے لیے انگریزوں کے جہاد ہوا۔پھر اس کے بعد یہاں جب انگریز آیا تو افغانوں نے ان کے خلاف جہاد کیا، روس آیا تو اس کے خلاف بھی علم جہاد بلند کیا اور پھر امریکہ کے خلاف بھی جہاد کیا ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ افغان وہ قوم ہے جو اپنی آزادی پر کسی سے کمپرومائز نہیں کرتی۔
سوال: پاکستان میں افغان مہاجرین کے ساتھ جو سلوک کیا گیا آپ نے ان کے لیے کیا کیا؟ پاکستان کی حکومت کے ساتھ اس موضوع پر کیا آپ کی بات چیت ہوئی ہے؟
جواب: یہاں میں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ افغان مہاجرین کو ہم پاکستان میں ایک مہمان سمجھتے ہیں۔ہم ہر وقت ان کی بھلائی چاہتے ہیں چالیس سال سے زیادہ انہوں نے پاکستان میں گزارےہیں۔ اب جب افغانستان میں امن قائم ہوا ہے تو یہ اب ایک ملک کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ دونوں ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہے یعنی یہ لوگ افغانستان کے ہیں اور اب پاکستان میں مقیم ہیں پاکستان میں انہوں نے بڑا عرصہ گزارا ہے دونوں ممالک کو چاہیے کہ اس موضوع پر مشترکہ میٹنگ میں اتفاق رائے سے ایک شیڈول بنائیں اور ان کے جانے کے لیے ایک طریقہ کار طے کرلیں۔ افغان لوگوں کا اپنے وطن آنا کوئی بری بات تو نہیں ہے۔
سوال : کیا اتنی مختصر ڈیڈلائن دے کر ان کو ملک چھوڑنے کو کہنا مناسب تھا ؟
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں جو بے اعتدالیاں ہوئی ہیں کسی اور نے نہیں بلکہ میں نے خود اس کی مذمت کی ہے اور میں نے واپس ان چیزوں[حکومت نے اس کے بعد کچھ نرمی دکھائی] کو اس جگہ لایا جو ایک مہمان کا میزبان پر حق ہوتا ہے۔ افغان جتنے بھی پاکستان میں رہتے ہیں میں اور میری جماعت انہیں ایک مہمان کی نظر سے دیکھتی ہے اور مہمان کی قدر جتنی ایک پشتون جانتا ہے کوئی اور نہیں جانتا۔
سوال: افغانوں کا شکوہ بھی یہی ہے کہ مہمان نوازی کا اختتام اس طرح ہوتا ہے کہ ان کی جائدادیں چھین لی جائیں، زبردستی ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جائے؟
جواب: ان شاء اللہ یہ تمام مسائل حل ہوجائیں گے گلے شکوے سب کے دور ہوجائیں گے۔ یہ جو بات آپ کررہے ہیں جو مجموعی صورتحال ہے وہ یہ کہ شاید ایک فیصد بھی نہ ہو اور میں اسی ایک فیصد کو بھی غلط سمجھتا ہوں۔ جب ایک مہمان کی آپ اپنے گھر میں ایک سال تک خدمت کرتے رہیں اور پھر ایک سال بعد اس کو لات مار کر گھر سے نکالتے ہیں تو آپ نےایک سال کی مہمان نوازی ضائع کردی ۔ ہمیں یہ احساس ہے کہ ہم ان مہمانوں کی قدر اس طرح کریں کہ ان کے دلوں میں یہ قدر قیامت تک باقی رہے۔
سوال: بد اعتمادی اور شکایت اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ اس وقت افغانستان میں شدید سردیاں شروع ہونے والی ہیں اور پاکستان سے لاکھوں مہاجرین کا آنا یقینا ایسا ہے جیسے پاکستان جان بوجھ کر مسائل پید ا کررہا ہے۔
جواب: دیکھیں میرا تعلق حکومت سے نہیں میں ایک مذہبی جماعت کا نمائندہ ہوں۔ اب حکومت کا اپنا ایک نظام ہے ان کے اپنے انٹیلی جنس ادارے ہیں انہیں کچھ شکایات ملتی ہیں اور پھر وہ ان شکایات کی بنیاد پر کوئی اقدام کرتے ہیں توبظاہر ہمیں وہ اچھی نہیں لگتی ۔ یہ بات حکومت سے پوچھنے کی ہے کہ وہ اس کے لیے کیا جواز فراہم کرتا ہے۔ ان کی کیا مجبوری تھی کیوں یہ قدم اٹھایا؟ہم اپنی رائے دیں گے اور ہماری رائے اصولی اور معاشرتی روایات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔اس حوالے سے ہم نے حکومت کو بھی یہ مشورہ دیا ہے کہ آپ اپنے اقدامات پر نظر ثانی کریں۔
سوال: پاکستان کی موجودہ حکومت کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اور پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مسئلہ کیا ہے؟
جواب : پاکستان میں اس وقت کوئی پارلیمنٹ نہیں ہے بلکہ نگران حکومت ہے اس کے بعد قومی سطح کے انتخابات ہوں گے اور پاکستانی دستور کے مطابق نئی منتخب حکومت اقتدار سنبھالے گی۔ جہاں تک ٹی ٹی پی کا تعلق ہے تو پاکستان اس مسئلے کو ایک سنجیدہ مسئلے کے طور پر دیکھتا ہے اور اس بارے میں ناراضگیاں بھی موجود ہیں وہ بھی ہماری نظر میں تھے، دونوں ممالک کے تعلقات کی بحالی اور تعاون کی راہ نکالنے کے لیے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ رکاوٹ کہاں ہے تواس رکاوٹ کو بھی دور کر لینا چاہیے۔
سوال: افغانستان میں ایک ذمہ دار حکومت قائم ہوئی ہے، ملک میں مجموعی طور پر امن و امان قائم ہے ۔ ملک کو تسلیم کرنے کی جو شرائط ہیں وہ تو امارت اسلامیہ نے پوری کرلی ہیں پھر کیوں دنیا اسے تسلیم نہیں کرتی؟
جواب: میں بین الاقوامی دنیا سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا باقاعدہ اعلان کریں۔ حالانکہ عملی طور پر ایسا ہی ہے جیسے حکومت کو تسلیم کرلیا ہو درجنوں ممالک کے سفارتخانے افغانستان میں کھلے ہوئے اور افغانستان کے سفارتخانے انہی متعلقہ ممالک میں فعال ہیں تجارت و کاروبار بحال ہے، سفر ہورہے ہیں، دنیا افغانستان میں سرمایہ کاری کے لیے آرہا ہے پھر تسلیم کرنے کا ایک لفظ کیوں منہ سے نکال نہیں رہے۔ یقینا اس کی ضرورت ہے اور یہ چونکہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور میری اتنی طاقت نہیں کہ میں پوری دنیا کو اعتماد میں لے سکوں لیکن میری خواہش ضرور ہے کہ وہ افغان حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کرے۔
سوال: پاکستان کیوں اس بارے میں پہل نہیں کرتا؟
جواب: پاکستان بھی تو باقی دنیا سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ چلے شاید بین الاقوامی طور پر تنہا ہونا ہی اس کی ایک وجہ ہو ۔اسی مصلحت کی بناء پر آگے نہیں آتا حالانکہ افغانستان کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں۔
سوال: افغانستان کی موجودہ اور سابق حکومت کے درمیان کیسے موازنہ کریں گے؟
جواب: دیکھیں میں افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا قائل نہیں لیکن اس کی ضرور مخالفت کرتے ہیں کہ غیر ملکی افواج افغانستان کیوں آئیں انہوں نے یہاں معصوم افغانوں کا خون بہایا ، ملک تباہ کیا اور انسانی حقوق پامال کیے۔یہ روز اول سے ہمارا موقف ہے۔ باقی افغانوں کے اپنے معاملات ہیں وہ آپس میں اختلاف بھی کرسکتے ہیں اتحاد بھی کرسکتے ہیں قوم کے اپنے معاملات ہیں وہ جیسے چاہیں اپنے معاملات طے کریں اس پر ہمارا کوئی اعتراض نہیں۔ جہاں تک افغانستان کی موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو یہ حکومت بیس سالہ جدوجہد کے بعد وجود میں آئی ہے اور اس کا مقصد اسلامی شریعت کا قیام ہے۔ ظاہر سی بات ہے ایک دن میں تمام مسائل حل نہیں ہوتے۔ یہ مقصد یہ مشن پاک اور مقدس ہے اخلاص سے تدریجی طور پر آگے بڑھتے ہوئے یہ آسانی سے منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے۔
سوال: افغانستان میں کیا دیکھا، دنیا کو اور خاص طور پر پاکستان کو افغانستان کی تصویر کیسے پیش کریں گے؟
جواب: افغانستان میں ہم نے محبت دیکھی، اخوت دیکھی وہ باتیں جو ہم پاکستان میں سنتے آرہے تھے کہ افغانستان میں پاکستانیوں سے بہت نفرت کی جاتی ہے ہم نے افغانستان کو اس کے برعکس پایا۔ میں خود تو بازار نہیں گیا ہمارے ساتھی بازار گئے ہیں انہوں نے افغان بھائیوں کی جو محبت دیکھی ہے وہ خود اس کے گواہ ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ” یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی” یہ پراگندہ ذہنوں کے پروپیگنڈے ہیں کیوں دو مسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا کرتے ہیں؟ المسلم اخ المسلم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے کسی دوسرے کے ظلم کے سپرد کرتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہم ایک دوسرے کے ہمسایے بھی ہیں اور ہمسایے کے اپنے حقوق ہیں۔ شریعت اسلامیہ نے جو حقوق ایک مسلمان کو دیے ہیں ہم اس کے برعکس کیوں کریں۔ ہم ہمسایے کے ساتھ برا سلوک کیوں کریں۔ میں اپنا نقصان برداشت کروں لیکن ہمسایے کا نقصان برداشت نہ کروں اس طرح کے تعلقا ت رکھنے چاہییں۔
سوال: افغانستان کی داخلی اور خارجی سیاست کیسی ہے؟
جواب: بحیثیت افغان یہ ہم سے آپ کو بہتر طور پر معلوم ہوگا کیوں کہ آپ براہ راست اس کا جائزہ لیتے رہے ہیں۔ جہاں تک میری رائے ہے میں سمجھتا ہوں کہ ان کی پالیسی مثبت ہےدنیا کے ساتھ تعلقات بحال کررہےہیں۔تند وتیز ردعمل نہیں دیتے، بعض اوقات ایسے بیانات آئے ہوں گے کہ دنیا اور ہمسایہ ممالک کے لیے شکایت کا باعث بنے ہوں لیکن وہ عارضی اور وقتی ہوتی ہیں البتہ مجموعی طور پر دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنا اور ایسے تعلقات جو ملک کے مفاد میں ہوں۔جتنا میں نے اس بارے میں مطالعہ کیا ہے تو ان کی تمام کوششیں افغانستان کے مفاد میں ہیں اللہ انہیں اس مقصد میں کامیابی دے۔
سوال: امارت اسلامیہ کی میزبانی کیسے رہی ؟
جواب: میں امارت اسلامیہ کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔ بالکل ایک مسلمان بھائی جب کسی مسلمان کے گھر میں مہمان ہو اور جتنی عزت وہ دے سکتا ہو ہمیں ہماری توقعات سے بڑھ کر عزت و احترام کی نظر سے دیکھا گیا۔ میں امارت اسلامیہ کی اس میزبانی کا ہمیشہ قدردان رہوں گا۔
*******