جنگی جرائم پر چشم پوشی کیوں کی جا رہی ہے ؟

ہفتہ وار تبصرہ گذشتہ ہفتہ صوبہ ہلمند ضلع سنگین میں کابل انتظامیہ کے مسلح فورسز کے مرکز سے عوام کے اس بازارپر مارٹرگولوں سے حملہ کیا گیا، جس میں ہر ہفتہ سینکڑوں  افراد اکھٹے اور اپنے مال مویشی کی خرید وفروخت کرتے رہتے ہیں۔ اس حملے میں درجنوں عام شہری شہید و زخمی ہوئے، جن […]

ہفتہ وار تبصرہ

گذشتہ ہفتہ صوبہ ہلمند ضلع سنگین میں کابل انتظامیہ کے مسلح فورسز کے مرکز سے عوام کے اس بازارپر مارٹرگولوں سے حملہ کیا گیا، جس میں ہر ہفتہ سینکڑوں  افراد اکھٹے اور اپنے مال مویشی کی خرید وفروخت کرتے رہتے ہیں۔ اس حملے میں درجنوں عام شہری شہید و زخمی ہوئے، جن کی اکثریت معصوم چرواہوں، کسانوں اور بچوں کی ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی افراد کو کافی مالی نقصان بھی پہنچا۔

اس جنگی جرم کے بعد عوام نے موبائل کےذریعے سانحہ کی براہ راست فلمبندی اور تصاویر کو سوشل میڈیا پر شائع کیں۔ مصدقہ ویڈیو ز میں عوام کہہ رہے تھے کہ  کابل انتظامیہ کے قریب فوجی مرکز سے حملہ  کیا گیا۔  مگر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نےاس مجرمانہ سانحہ پر معافی مانگنے اور ہمدردی کا اظہار کرنے کے بجائے برعکس جھوٹ اور نہایت بےشرمی سے سانحہ کو تحریف کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری امارت اسلامیہ کو منسوب کرنیکی کوشش کی۔

سانحہ کے کچھ دیر علاقے کا دورہ کرنے والے صحافیوں نے کہا کہ حملہ کابل انتظامیہ کی فوجوں نے کیا ہے۔ اسی طرح کابل میں اقوام متحدہ کی نمائندگی (یوناما) نے ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ علاقے میں قائم کابل انتظامیہ کی فوجی مرکز سے حملہ  کیا گیا ہے۔

ماضی میں اکثر ایسے سانحات کے برعکس سنگین کے قتل عام کے حقیقی مجرم معلوم ہوئے،جو  ایک بہترین پیشرفت تھا۔ مگر بدقسمتی یہ تھی کہ میڈیا، اقوام متحدہ کے دفتر اور انسانی حقوق کے نمائندے نے صرف یہ بات کہہ دی کہ حملہ کابل انتظامیہ کی فوجیوں نے کیا اور بس۔  انہوں نے اس کے علاوہ کچھ نہیں کہا ۔ ان جنگی مجرموں کو گرفتار، عدالت کے کہٹرے میں لاکھڑےکرنے اور ان سے ظالمانہ قتل عام کی پوچھ گچھ کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کہا گیا۔

یہی ادارے خود کو انصاف اور انسانی حقوق کے علمبردار سمجھتے ہیں، کیا انصاف اور انسانی حقوق صرف اس سے نافذ ہوجاتے ہیں  کہ جنگی جرائم کے متعلق کاغذی رپورٹیں اور  اعلامیے شا‏ئع ہوجائیں ۔ ان اعلامیوں کی اشاعت کے بعد کوئی عملی اقدامات اور حق دار کو حق دلوانے کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے۔

بات واضح ہے کہ نام نہاد اعلامیوں، مذمت اور مجرموں کی نشاندہی سے انصاف نافذ نہیں ہوتا اور مظلوموں کے کلیجے ٹھنڈے نہیں ہوتے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سنگین کے قتل عام کے زخمی ہسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں اور یتیموں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں، مگر عام سطح پر ہونے والے اس  سانحہ کو  قرینہ ماضی اور فراموش کیا گیا۔ اس حال میں اس کے مجرم اظہرمن الشمس اور معلوم ہے،ان میں سے اب تک کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے، انہیں سزا نہیں دی گئی ہے  اور شہداء کے خاندانوں سے رسمی ہمدردی کا اظہارتک نہیں کیا گیا ہے۔

افغانستان میں رونما ہونے والے جنگی جرائم کے خلاف امارت اسلامیہ اس طرح بےحسی اور لاپروائی بھرے سلوک کو جرم پر جرم اور جفا سمجھتی ہے، جو ہمارے مظلوم ملت کے خلاف انجام ہورہا ہے۔  جنگی مجرموں کے خلاف  معافی کے اس غلط کلچر کو ختم کرنا چاہیے اور  سنگین سانحہ سمیت جنگی جرائم کے تمام معروف مجرموں کو سزا دی جانی چاہیے۔