کابل

حماس نے ہماری خواتین کی عصمت دری نہیں کی

حماس نے ہماری خواتین کی عصمت دری نہیں کی

 

خزیمہ یاسین

خصوصاً تیسرے درجے کے سمجھے جانے والے مسلم ممالک کے شہریوں میں مغرب کی ظاہری چمک دمک اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے تناظر میں کافی کچھ پسماندہ خیالات اور افکار موجود ہیں۔ مسلم معاشروں کے یہ پسماندہ دماغ لوگ مغرب میں خاص طور پر قومِ یہود کو ٹیکنالوجی کی ترقی کا امام اور رہنما سمجھے ہوئے ہیں۔ ہمارے یہ ناسمجھ لوگ اِسی غلط فکر کی بنیاد پر پختہ فکر اور نظریاتی سوچ کے مسلم طبقوں کوتنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ مغرب کے سامنے اِس نکتۂ نظر سے سجدہ ریز ہونے کے لیے زورآزمائی کرتے ہیں کہ یہود عقل مندی اور دانائی و سمجھ داری میں خدا کا درجہ رکھتے ہیں۔ نعوذباللہ!
یہ مغرب زدہ مسلم طبقہ یہود کے بارے میں اسی خودساختہ احساسِ خدائی کے ساتھ مضبوط ایمان والے مسلمانوں کو روایات کا غلام، پتھر کے دَور کی سوچوں سے بندھا ہوا قیدی سمجھتے، کہتے اور بتاتے ہیں۔
جب کہ دوسری طرف فلسطین کی تحریکِ آزادی ‘حماس’ نے 7 اکتوبر کو اسرائیل کو جو تھپڑ رسید کیا ہے، اُس نے یہود کی عقل و دانش کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔اسرائیل غزہ پر اب تک 75 ہزار ٹن سے زائد گولہ و بارود برسا چکا ہے۔
جب کہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے کہا ہے کہ “غزہ پر برسائے گئے پھٹ نہ سکنے والے بموں اور میزائلوں سے پاک کرنے کے لیے 14 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ جب کہ علاقے میں اسرائیل مظالم و بمباری کی وجہ سے 37 ملین ٹن ملبہ جمع ہو چکا ہے۔”
اسرائیل اس سب کے علاوہ 200 سے زائد دن گزر جانے کے باوجود حماس کی قید سے اپنے 130 قیدی چھڑانے اور حماس کا خاتمہ کرنے میں سوفیصد ناکام رہا ہے۔ یہ وہ ناکامی ہے، جسے تمام دنیا نے دیکھا، سمجھا اور میڈیا میں پھیلا دیا ہے۔درحقیقت یہ حماس کی طرف سے یہود کو دوسرا تھپڑ ہے، جس کی بازگشت اسرائیل کے لیے ایک نئی اور ذلت آمیز خبر یوں گردش کر رہی ہے کہ “اسرائیل غزہ میں اپنے قیدی چھڑانے کی ناکام کوشش میں بمباری کر کے 38 یرغمالی ہلاک کر چکا ہے۔”
اسرائیل جن قیدیوں کو آزادی دِلوانے کے لیے تقریباً 7 ماہ کے عرصے میں اپنی تمام تر ٹیکنالوجی اور دماغی صلاحیتیں صَرف کر چکا ہے، اُس عقل مندی کا نتیجہ اُنہی قیدیوں کی موت کی صورت میں برآمد ہو کر حماس کی طرف سے مزید تھپڑوں کا باعث بن رہاہے۔
اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے کے لیے سمندر سے پانی کے دیوہیکل پائپ لگا کر غزہ کی سرنگوں میں داخل کرنے کی کوشش کی، لیکن ناکامی کا تھپڑ یہاں بھی رسید ہوا۔ کبھی الشفا اور الناصر اسپتال جیسے صحت کے بڑے مراکز کو آگ لگا کر اور اُن کی بنیادی کھود کر اُنہیں تباہ و برباد کر دیا، تاکہ حماس کی سرنگوں کا کوئی نشان مل جائے، مگرناکامی کا ایک اَور تھپڑ یہود کے چہرے پر پوری شدت کے ساتھ لگا۔ اسی طرح اسرائیل نے حماس کے کارکن گرفتار کرنے کے لیے سُدھائے ہوئے کتوں کی ایک پوری بٹالین غزہ میں جھونک دی، مگر نتیجے میں حماس کی طرف سے ایک اَور تھپڑ رسید ہوا۔ اس طویل ترین جنگ میں حماس کا ایک بھی مجاہد اسرائیل کے ہاتھ نہیں لگا۔ الحمدللہ!
اسرائیل نے اپنے قیدیوں کی بازیابی کے لیے تمام غزہ کو کھنڈر بنا دیا، شہر بھر کی تمام زمین اُدھیڑ کر رکھ دی ہے، مگر بجائے یہ کہ کوئی قیدی بازیاب ہوتا، اُلٹا اسرائیلی طیاروں کی بمباری سے وہ قیدی ہلاک ہی ہوتے رہے۔ یہ حماس کی طرف سے ایک اَور تھپڑ تھا۔
اس تمام صورتِ حال میں مسلم معاشروں کو دیمک کی طرح چاٹنے والے یہود کے قصیدہ گو مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہود کی تمام تر دماغی صلاحیتیں اور طاقتیں مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہیں۔ اور کمزور کبھی بھی خدا نہیں ہوتا۔
دوسری طرف صہیونیوں نے ہولوکاسٹ کے ڈرامے کی بنیاد پر خود کو دنیا کی مظلوم ترین قوم باور کرا رکھا تھا۔ یہود نے اپنے تحریف شدہ عقائد کی بنیاد پر خود کو یہ سمجھا رکھا ہے کہ ‘وہ دنیا میں خدا کی برگزیدہ اور مقدس قوم ہیں۔’ وہ اسی مظلومیت اور برگزیدیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر طاقت وَر ممالک کی مدد اور ہمدردی حاصل کرتے رہے ہیں۔ یہود نے اپنی عیاریوں، دولت اور اثرورسوخ کی بنیاد پر امریکا اور برطانیہ کی ویٹو طاقت کو اقوامِ متحدہ میں اپنے مذموم مقاصد کے استعمال کیا ہے۔ یہود نے امریکا و برطانیہ جیسے ممالک کی بدولت مسلم، خصوصاً عرب حکمرانوں پر سیاسی و اقتصادی کنٹرول حاصل کر کے مسلم دنیا کے ایک بڑے حصے کو سیاسی و معاشی طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا، تاکہ مسلم بلاک دنیا بھر میں اپنا اسلای سیاسی اثر قائم نہ کر سکے۔ جب کہ ستم یہ رہا کہ عرب حکمران بھی نفس کی پیروی میں یہود کی طاقت کے غلام بن کر رہ گئے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ آج 7 ماہ کے عرصے میں کسی مسلم ملک نے غزہ جیسے مظلوم بھائی کا ہاتھ نہیں تھاما۔
دراصل ظالم بنیادی طور پر طاقت وَر نہیں، بلکہ ڈرپوک ہوتا ہے، بلکہ مظلوم کا کمزور بن جانا ہی ظالم کو طاقت وَر بناتا ہے۔ مسلم ممالک نے اپنی جغرافیائی حیثیت، سیاسی اثرورسوخ اور اقتصادی طاقت کو ہی اپنی کمزوری بنا رکھا ہے۔ یہ وہی کمزوری ہے، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں ‘وہن’ (دنیا کی محبت اور موت سے نفرت) قرار دیا گیا ہے۔اپنی عارضی دنیا کے مفادات کی خاطر غزہ اپنے ہم مذہب بھائیوں کی طرف سے بے سہارا چھوڑ دیا گیا۔
البتہ کامیاب ہیں حماس کے کارکن اور فلسطین کے عوام، جنہوں نے ‘وہن’ کو اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا۔ یہی وجہ ہے اسرائیل اپنے تمام تر سیاسی و جنگی اثرورسوخ کے باوجود غزہ سے اپنا ایک مقصد بھی حاصل نہیں کر پایا۔ حماس نے اسرائیل کو وہ دھچکا دیا ہے کہ عرب ہی کیا، تیروتفنگ سے لیس فوجیں رکھنے والے مسلم ممالک تک ایسی کارروائی کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ حماس کے 7 اکتوبر کے تھپڑ نے اسرائیل کو تمام دنیا میں ذلیل کر کے رکھ دیا ہے۔ حماس نے عقل مند سمجھے جانے والے یہود کی ساکھ کو ایسا داغ لگایا ہے، جو قیامت تک باقی رہے گا۔ حماس کے ایک مخالف نے اسرائیلی حکومت کو طعنہ دیتے ہوئے کہا ہے:
“حماس نے ہماری خواتین کی عصمت دری نہیں کی ہے، لیکن اُس نے ہماری قومی و نسلی سلامتی کی عصمت دری کر کے دنیا کے دماغ سے ہماری طاقت کا نشہ زائل کر دیا ہے۔
دوسری طرف یہود نے ہولوکاسٹ کی بنیاد پر خود کو جیسا مظلوم باور کرا رکھا تھا، یہود کا یہ جعلی تاثّر خود یہود ہی کے ہاتھوں برباد ہو کر رہ گیا ہے۔ آج تمام دنیا یہ بات ریکارڈ کر رہی ہے کہ اصل مظلوم تو فلسطین کے مسلمان ہیں، جب کہ اسرائیل بجائے خود بدترین ظالم ہے۔
آج حالت یہ ہے کہ اسرائیل جس مغرب کی طاقت اپنے حق میں استعمال کرتا آیا تھا، مغرب ہی کے عوام اور یونی ورسٹیوں کے طُلبا اُسی اسرائیل کے خلاف ہو گئے ہیں۔ وہ کافر ہو کر بھی مسلمانوں سے بڑھ کر مسلمانوں کے حق میں اپنی بساط بھر احتجاج کر ہے ہیں۔ وہ طلبا یہود کے سیاسی غلام اور غنڈہ مزاج پولیس اہل کاروں کے مظالم برداشت کر رہے ہیں۔ مغربی طُلبا کی طرف سے یہ مظالم برداشت کرنا دراصل مسلم حکمرانوں کے لیے اُن کی غیرت و حمیت کا سوال ہے کہ کیا اُن کے ضمیر زندہ ہیں یا مَر چکے ہیں؟!
غزہ کے مظلوم مسلمانوں نے مغربی یونی ورسٹیوں کے اِن طُلبا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے پناہ گزین خیموں پر شکریہ کے الفاظ لکھ دیے ہیں۔
اللہ تعالی ان مغربی طلبا کو اسلام کی دولت و نعمت نصیب فرما دیں۔ آمین