دعوت وارشاد کمیشن کے ذمہ دارمولوی شمس الدین سے خصوصی گفتگو

اس سال بھی ہزاروں افراد دشمن کی صفوں سے الگ ہوئے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے   انٹرویو: ابوعابد امارت اسلامیہ ایک جانب جارحیت پسندوں کے خلاف مسلح جدوجہد میں مصروف ہے، تو دوسری جانب امارت نے دشمن کے شانہ بشانہ کھڑے ہم وطنوں کو ہتھیار ڈالنے اور ان کی صفوں سے نکلنے کے […]

اس سال بھی ہزاروں افراد دشمن کی صفوں سے الگ ہوئے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے

 

انٹرویو: ابوعابد

امارت اسلامیہ ایک جانب جارحیت پسندوں کے خلاف مسلح جدوجہد میں مصروف ہے، تو دوسری جانب امارت نے دشمن کے شانہ بشانہ کھڑے ہم وطنوں کو ہتھیار ڈالنے اور ان کی صفوں سے نکلنے کے مواقع بھی دے رکھے ہیں ۔ اسی مقصد کے لیے امارت  نے ”دعوت و ارشاد” کے نام سے مخصوص کمیشن بھی بنارکھا ہے ۔ اس شعبے کی کارکردگی جاننے کے لیے دعوت وارشاد کمیشن کے بڑے عہدے دار اور 20 صوبوں میں دعوتی امور کے نگران مولوی ”شمس الدین” سے کی گئی گفتگو نذرِ قارئین ہے ۔

سوال: ہم آپ کا ذاتی تعارف جاننا چاہیں گے؟

جواب: میرانام شمس الدین ہے۔میں صوبہ بدخشان ضلع ‘کشم’ کا رہنے والا ہوں ۔ ابتدائی تعلیم چوتھی جماعت تک اپنے گاؤں کے اسکول میں حاصل کی ۔ پھر ضلع کشم میں مدرسہ ”عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ” میں دینی تعلیم پانچویں درجے تک حاصل کی ۔ اس کے بعد 1368 ہجری شمسی میں دارالہجرت پاکستان چلا گیا ۔ بقیہ تعلیم مختلف مدارس میں حاصل کرتا رہا ۔

اسلامی تحریک طالبان افغانستان کے ساتھ پہلے سال کے دوسرے ماہ سے تعلق پیدا ہوا ۔ خطِ اول پر عسکری گروپ کے سربراہ کے طورپر مصروف جہاد رہا ۔ اس کے بعد ضلع چرخی کی ذمہ داری بھی ہمیں دی گئی ۔ ضلع چہار آسیاب کا ضلعی گورنر بھی رہا ۔ کابل کی فتح کے ایک سال بعد صوبہ پکتیا کے گورنر کی حیثیت سے بھی میرا تقرر کیا گیا ۔ پھر تین سال تک میدان وردگ کا گورنر رہا ۔ امریکی جارحیت کے ایک سال بعد جب قاری ”دین محمد” ضلع بدخشان کے جہادی سربراہ تھے، تو میں ان کا سیکرٹری تھا ۔ ایک سال بعد اس ضلع کی عسکری ذمہ داری تین سال تک میرے ذمے رہی ۔ پھر دعوت وارشاد کمیشن کا رُکن بن گیا۔ اب گزشتہ تین سال سے دعوت وارشاد کمیشن کے بیس صوبوں کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی ہے ۔ جو کہ افغانستان کے شمال ، شمال مشرق ، مرکز اور مشرق میں واقع ہیں۔

سوال: دعوت و ارشاد کمیشن کے کتنے شعبہ جات ہیں۔اس کی کیسی اور کتنی تشکیلات ہیں۔ اس کا حلقہ کار کتنا وسیع ہے ؟

جواب:دعوت وارشاد کمیشن کے چار بڑے شعبے ہیں ۔ پہلا دعوت ،دوسرا ارشاد، تیسرا جلب وجذب اور چوتھا مرکزی دارالافتاء اور متعلقہ فقہی مجالس۔ جو مختلف اداروں اور عام لوگوں کی جانب سے آنے والے سوالات کا شرعی حل نکال کر پیش کیا جاتا ہے۔ دعوت وارشاد کمیشن کے کارکن اللہ تعالی کے احکامات اور رسول اللہ ﷺ کی مبارک سنتوں کے مطابق لوگوں کو نیک اعمال کی جانب بلاتے ہیں ۔ ہمارے علماء مدارس کے اساتذہ اور طلباء کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں۔ وہ ان کا تعاون اور توجہ حاصل کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ۔ عصری تعلیمی اداروں کے سربراہان ، اساتذہ اور طلباء سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ انہیں امارت اسلامیہ کے اہداف اور مقاصد سے آگاہ کیا جاتا ہے ۔عسکریت کی ضرورت اور اسلامی نظام کے قیام کی اہمیت واضح کی جاتی ہے۔ انہیں امریکا کی قیادت میں عالم کفر کے اتحاد کے خطرناک اہداف اور سازشوں سے روشناش کرایا جاتا ہے۔ آخر میں انہیں جہاد کی جانب راغب کیا جاتا ہے۔ عوام اور امارت اسلامیہ کے درمیان اصولوں کی بنیاد پر گہرے اور دائمی تعلقات استوار کیے جاتے ہیں۔ امارت اسلامیہ کے پرچم تلے پوری قوم کے درمیان بہتر اتحاد واتفاق ، بھائی چارے اور ایثار و قربانی کی فضا قائم کی جاتی ہے ۔ دشمن کی جانب سے قومی ، لسانی اور علاقائی تعصبات پیدا کرنے کا راستہ روکا جاتا ہے ، تاکہ تمام افغانی ایک قوم بن کر اسلام اور وطن کا دفاع کریں۔

دعوت وارشاد کمیشن ایک ”علمی سوسائٹی” کی حیثیت سے امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کی بنیاد پر امارت کے ہر ذمہ دار اور مجاہد کو تقوی ، اتفاق واتحاد ، عوامی نقصانات کی روک تھام ، عام لوگوں سے اچھے سلوک اور خصوصا قیادت کے احکامات پر عمل درآمد کے حوالے سے خصوصی ہدایات اور سفارشات دیتا ہے ۔ ہمارا کمیشن انتہائی مؤثر طریقے سے لوگوں کو حق کی جانب بلاتا ہے ۔ مارپیٹ اور تشدد سے گریز کرتا ہے۔ اگرکہیں سختی کی ضرورت پڑے تومعاملہ متعلقہ اداروں کے حوالے کر دیا جاتا ہے ۔ یہ کمیشن جہادی محاذوں کی جانب بھی وقتا فوقتا علمائے کرام کے وفود بھیجتا ہے، جو ایک جانب مجاہدین کے اعتماد اور حوصلے میں اضافے کا باعث بنتا ہے تو دوسری جانب انہیں شرعی احکامات اور اسلامی اخلاقیات کی حدود میں ثابت قدمی کی تعلیم دیتا ہے۔ کمیشن عوام کو جہاد کی جانب رغبت دلانے کے لیے علماء ، روحانی اور سیاسی ماہرین اور قومی رہنماوں سے رابطہ رکھتا اور ان سے مشورے طلب کرتا ہے ۔ اس کے کارکن صوبائی ذمہ دار کے توسط سے دعوت وارشاد کے پروگرامز اور کارکردگی سے امارت کے ذمہ داران کو باخبر رکھتے ہیں۔ وہ انہی کے تعاون سے اپنے روشن اہداف کی تکمیل کی کوشش کرتے ہیں۔

دعوت وارشاد کمیشن اپنے مخصوص طریقہ کار کی بنیاد پر ان افغانوں سے بھی رابطہ رکھتا ہے، جو کسی بھی طرح سے دشمن کے اداروں سے منسلک ہوں اور جارحیت پسندوں کے مفادات کے لیے کام کررہے ہوں ۔ انہیں حقائق سے آگاہ کرنے کے علاوہ اسلام اور ملک کے مفاد کے لیے کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ امارت کی جانب سے انہیں باقاعدہ ذمہ داریاں سونپ کر ان کے لیے وظیفہ جاری کیا جاتا ہے یا کم از کم انہیں ایسا کام کرنے پر تیار کیا جاتا ہے، جس سے اسلام اور ملک کو نقصان نہ پہنچتا ہو۔ کمیشن یہ کوشش کرتا ہے وہ لوگ، جو دشمن کے پروپیگنڈے یا کسی اور وجہ سے خدشات کا شکار ہوں۔ انہیں سمجھایا اور اطمینان دلایا جاتا ہے امارت اسلامیہ اپنی حکومت کے قیام کے بعد کسی بھی لحاظ سے انتقام لینے کی نہ صرف مخالف ہے، بلکہ کوشش یہ رہتی ہے تمام افغان اتحاد واتفاق ، عدل وانصاف اور امن کی فضا میں آرام کی زندگی بسر کریں۔تاکہ وہ اپنے قومی اور اسلامی حقوق سے فیض یاب ہوسکیں۔

سوال: دعوت وارشاد کمیشن کے قیام کے وقت کون سے بنیادی مقاصد سامنے تھے؟

جواب: امارت اسلامیہ کا قیام اسلامی نظام کے لیے تھا۔ اس لیے لازم ہے دعوت کا شعبہ ہر وقت فعال اور بیدار رہے ، جو جہادی اقدامات سے پہلے دعوتی پروگرامز جاری وساری رکھے ۔ شرعی مقاصد اور اسلامی نظام کے بلند اہداف کے حصول کے لیے افہام وتفہیم کی کھڑکی کھلی رہے ۔ تاکہ ایک طرف اتمام حجت ہو تو دوسری طرف اللہ کی نصرت کے حصول کا ذریعہ ۔ چوں کہ جارحیت پسندوں نے نوجوان نسل کو گمراہ اور مذہبی اقدار سے دور کرنے کے لیے خصوصی کوششیں شروع کررکھی ہیں، اس لیے امارت اسلامیہ نے اپنے عوام کے اعمال اور عقائد کے تحفظ کے لیے یہ ضروری سمجھا دعوت وارشاد کا شعبہ کھولا جائے۔ اس کی یہ ذمہ داری لگائی جائے ہم وطنوں کے روحانی سرمائے ، دینی اقدار کے تحفظ اور ہدایت و تقوی کے حوالے سے مصروف عمل رہے ۔افغانستان کے علمائے کرام ، خطبائے عظام، صالح اور دین دار بزرگ شہری، قومی وسماجی رہنماء ، جہادی رہبر اور عصری تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں کو اس بات پر ابھارا جائے کہ وہ اس شعبے میں اپنی ایمانی ذمہ داری ادا کریں ۔

جب جارحیت پسندوں اور کٹھ پتلی انتظامیہ کے خلاف سرفروش طالبان مجاہدین کی قربانیاں رنگ لائیں اور وہ افغانی… جو حالات کے اثر ظالموں کے ساتھ مل گئے تھے ۔ انہیں تشویش ہوئی ہماری غلطی کے ردعمل میں امارت اسلامیہ کامؤقف کیا ہوگا ؟ امارت نے اپنی ہمدردی اور حسن سلوک کی بنا پر فتح مکہ اور سیرت نبوی کی روشنی میں یہ واضح کیاہے: حقیقت ناشناس افغانوں کے لیے ہمارا دامن وسیع ہے ۔ ہم بدلہ لینے کا ارادہ نہیں رکھتے ۔ ہمارا جہاد قوموں اور اشخاص کے ساتھ نہیں، بلکہ غاصبوں کی شکست اور مکمل انخلا تک ہے ۔ ہم چاہتے ہیں ملک کو امن کا گہوارہ بنائیں ۔ ایک ایسا اسلامی نظام قائم کریں، جس میں تمام مسلمانوں کی جان ، مال، عزت وآبرو ، اتحاد واتفاق ، قومی و مذہبی مفادات کا تحفظ ہو ۔ یہی وجہ تھی جلب وجذب کا شعبہ بھی دعوت وارشاد کمیشن کے ساتھ منسلک کردیا گیا ۔ دین دار عوام نے بھی امارت کے اس اقدام کو حالات کی پکار کا جواب سمجھا۔ اس شعبے کو امارت اسلامیہ کی وسعت قلبی ، حلم ، اصلاح خیز جہاد اور بصیرت وفراست کی نشانی قراردیا ۔ جولوگ کابل انتظامیہ میں کام کررہے ہیں اور غلط فہمی میں ڈوبے ہوئے ہیں، اس کمیشن کا بڑا مقصد ان افغانوں کو اس دھوکے سے نجات دلانا ہے ۔ تاکہ وہ اخروی اور دنیوی ذلت سے بچ سکیں۔ وہ آزاد ، خود مختار اور حقیقی معنوں میں اطمینان کی زندگی بسرکرسکیں ۔

اسی طرح امارت اسلامیہ چاہتی تھی مجاہدین کا اخلاقی معیار بلند ہونا چاہیے ۔ چھوٹے بڑوں کی شرعی اطاعت میں کوتاہی نہ ہو۔ اپنی ذمہ داری شروعی اصولوں کے مطابق ادا کریں۔ غفلت اور بے توجہی سے کام نہ لیں ۔ ظلم ، تکبر ، حسد ، خود پسندی اور اسی طرح کے دیگر خطرناک امراض سے محفوظ رہیں ۔یہ وجوہات تھیں جن کی بنیاد پر ”دعوت وارشاد” کے شعبے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔

سوال: اس سال دعوت وارشاد کمیشن کی کوششوں سے کتنے افراد دشمن کی صفوں سے الگ ہوئے ہیں؟

جواب: رواں سال کے پہلے10 ماہ میں 2659 افراد نےبھاری تعدادمیں ہلکے و بھاری سرکاری اسلحہ اور کئی اہم گاڑیاں لیے کرپٹ انتظامیہ سے الگ ہوئے ہیں۔ ان افراد میں کمانڈر ، گروپ کمانڈر ،اعلی افسران اور عام اہل کار شامل ہیں ۔ دشمن سے الگ ہونے والے ہر اہل کار کا مکمل تعارف اور اپنے ساتھ لانے والے جنگی وسائل کی تفصیل ہر ماہ امارت اسلامیہ کی نشریات میں باقاعدگی سے شایع ہوتی ہے۔ گزشتہ 29 مہینوں میں 10608 افراداشرف غنی انتظامیہ سے الگ ہوئے ہیں۔ایسے اہل کار غلام حکومت سے فرار اختیار کرتے ہیں، تو ان سے امارت کو ڈبل فائدہ ہوتا ہے۔ ایک تو عبداللہ عبداللہ کی حکومت کمزور ہوتی ہے، دوسرا مجاہدین کے پاس اسلحے کی کمی بھی پوری ہوتی ہے۔

سوال: دعوت وارشاد کمیشن کی ذمہ داری دشمن کی صفوں سے افغانیوں کو توڑنا ہے یا امارت کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنا بھی ہے؟

جواب: دعوت وارشاد کمیشن نے اپنے ”دستور’میں چند اہم موضوعات پر بھرپورروشنی ڈالی ہے۔

1…قرآن کریم کی ترویج واشاعت۔

2…منکرات اور بدعات کا خاتمہ۔

3…سنت نبوی کا احیاء۔

4…اکابر علمائے کرام، فقہا ئے عظام اور روحانی شخصیات کے وقار، عظمت اور علمی شان کا دفاع۔

5…عظیم فقہی سرمائے کا تحفظ۔

6…ارتدادی پروگرامز اور مہمات سے عوام کا تحفظ۔

7…قومی اور مذہبی اتحاد کی حفاظت۔

8…امارت اسلامیہ کی پالیسیوں کے حوالے سے غلط فہم اذہان سے تشویش کا ازالہ۔

9…جہادی تحریک کے تقدس کی حفاظت کے لیے تربیتی نشستوں اور سیمینارز کا انعقاد۔

مذکورہ بالا موضوعات دعوت وارشاد کے کارکنوں کی ذمہ داریوں کا اہم حصہ ہیں ۔ وہ اس حوالے سے اپنی بساط کے مطابق محنت جاری رکھتے ہیں ۔ کمیشن… ضلعی گورنرز ، علمائے کرام ، دشمن کی صفوں میں گھسے ہوئے مجاہدین ، خصوصی نمائندوں اور آئمہ مساجد کو دعوت دیتے ہیں اور عام لوگوں کو امارت اسلامیہ کی حقانیت پر قائل کرتا ہے ۔ مجاہدین اور عام لوگوں کے درمیان فاصلوں کو ختم کرتا ہے ۔ مسلح مجاہدین اور عام مخلص عوام کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے ۔ مثال کے طورپر گزشتہ تین ماہ میں ملک کے مختلف صوبوں میں دعوت وارشاد کے مقامی ذمہ داروں کی جانب عوام کی رہنمائی کے لیے کئی اجتماعات اور مجالس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جس میں چند صوبے یہ ہیں:

”میدان وردگ میں 43 مجالس ، غزنی میں 55 ، زابل میں 21، اروزگان میں46 ، قندہار میں38 ، فراہ میں 43 ، ہلمند میں20 ، فاریاب میں49 اجتماع منعقد کیے گئے۔ اس طرح کے اجتماع دیگر صوبوں میں بھی عوامی مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ ہر اجتماع میں حالات اور ذمہ داریوں کے حوالے سے رہنمائی کی گئی ۔ امارت اسلامیہ کے اہداف بتائے گئے ۔ ان پروگراموں میں بعض ایسے بھی تھے، جن میں ایک ہزار سے زیادہ افرادنے شرکت کی ۔

سوال: جو لوگ دشمن کی صفوں سے الگ ہوتے ہیں، امارت اسلامیہ کی جانب سے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔ انہیں کیسے یقین ہوتا ہے ان کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گاا ور ان کی مکمل حفاظت ہوگی۔

جواب: امارت اسلامیہ کے ذمہ داران کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے وہ اپنے وعدے پورے کرتے ہیں۔ آنے والے افراد امارت کا ماضی دیکھ کر وعدوں پر مطمئن رہتے ہیں ۔ امارت اسلامیہ نے ان کے اطمینان کے لیے یہ کمیشن بنارکھا ہے ان لوگوں کو خوب عزت دی جائے ۔ ان کو جان ، مال اور عزت کی حفاظت کا اطمینان دلایا جائے ۔ مزید اطمینان کے لیے اکثر لوگوں کو امارت اسلامیہ کی جانب سے جاری کردہ کارڈ اور ”معاہدہ نامہ” دیا جاتا ہے ۔ متعلقہ شعبہ جات کو ان کا تعارف کرایا جاتا ہے تاکہ ان کی طرف سے بھی اطمینان دلایا جائے اور مجموعی طورپر آنے والے تمام افراد اطمینان کی فضا میں جی سکیں ۔

سوال: حال ہی میں دشمن اہل کاروں کے ہتھیار ڈالنے کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ اس کے کیا عوامل ہیں ؟

جواب: اس کی اَور بھی بہت ساری وجوہات ہوں گی، مگر بڑی وجہ یہ ہےکہ  انہیں جارحیت پسندوں کی اصلیت معلوم ہوگئی ہے ۔ ان کا یقین پختہ ہوچکا ہے  کہ یہ لوگ اپنی باتوں میں جھوٹے ہیں ۔ یہ دین اور اسلام کے سخت دشمن ہیں۔ یہ کبھی بھی افغانستان اور یہاں کے عوام کی خوش حالی نہیں چاہتے ۔ یہ ہمیشہ اسی کوشش میں رہتے ہیں  کہ کسی طرح افغانوں کو ذلیل کیا جائے تاکہ غلامی ان کی مجبوری بن جائے؟!بلکہ امارت اسلامیہ بھی اب کسی بھی کاروائی سے قبل انہیں سمجھانے کو ترجیح دیتی ہے ۔ دعوت وارشاد کمیشن نے فیصلہ کیا ہے اپنے مجاہدین کو اس بات پر تیارکریں جہاں تک ممکن ہو ،دھوکہ کھائے ہوئے ہم وطنوں کو نشانہ بنانے سے پرہیز کریں۔ الحمد للہ! مجموعی طورپر تمام مجاہدین دعوت وارشاد کے ساتھیوں کے ساتھ جلب وجذب کے شعبے میں تعاون کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ دعوت وارشاد کے کارکنوں نے خصوصی طورپر اس سال ملک کے مختلف علمائے کرام ، خطباء ، مدرسین ، بارسوخ قومی رہنماوں ، نیک سیرت جہادی کمانڈروں ، عصری تعلیمی اداروں کے سربراہان ، مشہور اساتذہ اور ادب وثقافت کی معروف ہستیوں سے گفت و شنید کی ۔ انہیں اس بات پر تیار کیاکہ  وہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے پر تیار ہوں اور فریب خوردہ ہم وطنوں کو سمجھانے کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں ۔ الحمد للہ! انہوں نے اچھا تاثر لیا اور آمادگی کا اظہار کیا۔ نظر آتا ہے کہ وہ اپنا کام اخلاص سے کررہے ہیں ۔

سوال: لوگوں کو اعتراض ہے دعوت اور معافی کی پالیسی سے دشمن کے شرپسند افراد نے غلط فائدہ اٹھا یا ہے۔ ضرورت پڑنے پر مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں اور جب علاقے میں دشمن کی طاقت بڑھ جاتی ہے تو پھر دشمن کی صف میں چلے جاتے ہیں ۔ آپ ایسے لوگوں کی سازش کیسے ناکام بنائیں گے؟

جواب: اسلام اپنے دعوت کے آغاز سے اب تک یہ خصوصیت رکھتا ہے جو بھی باطل کی صف سے الگ ہوکر اس معاشرے سے جڑ جائے ۔ آزاد ، خودمختار اور برکتوں بھری زندگی کا مزا چکھ لے۔ مجاہدین اور رہنماوں کی عاجزی وانکساری ، وفاداری اور اخلاق دیکھ لے ،وہ کبھی واپس جانے کی کوشش نہیں کرتا ۔ اب تک آنے والے ہزاروں افراد میں سے کسی کے بارے میں بھی تحقیقی شواہد نہیں ملے کہ کوئی نکلنے کے بعد واپس چلاگیا ہو۔ ایسا ہوبھی تو شاذ ونادر ہوگا۔ ایسا ہوتا ہے کہ بڑے شہروں میں چھوٹے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، جو قابل تشویش نہیں ۔ مگر اس کے باوجود کارکنوں کو قیادت کی جانب سے ہدایت ہے کہ ایسے لوگوں کے ہتھیارڈالتے وقت پوری باریکی سے چھان بین کریں۔

سوال: آپ کا امارت اسلامیہ کے ایک داعی کارکن کی حیثیت سے عوام کے نام کیا پیغام ہے؟

جواب:تمام غیورمسلمانوں کو میرا یہ پیغام ہے: ” آپ جس طرح گزشتہ تیرہ سالوں سے اپنے بہادر اور سرفروش مجاہدین کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ۔ اللہ کی رضا کی خاطر ہر طرح کے مظالم ، بمباریاں ، شہادتیں اور قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں، اب جب کہ صلیبی اور ان کے کٹھ پتلی شکست کی دہلیز پر کھڑے ہیں ،تو اب بھی مجاہدین کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑے رہو! اس فخریہ لمحے میں ان کا ساتھ دو! دنیوی اور اخروی سعادت کے لیے کسی طرح کی مالی وجانی قربانی سے دریغ نہ کرو! عوام کو اپنے ملک ومذہب کے تحفظ اور آزادی کے لیے اسی طرح حصہ لینا چاہیے، جس طرح ان کے آباء واجداد نے انگریزوں کی جارحیت کے وقت جہاد میں اپنا حصہ ڈالا تھا ۔ قربانی اور سرفروشی کے لیے اسی طرح تیار رہو، جس طرح روسی جارحیت کے وقت تمہارے باپ دادا نے قربانیاں دیں ۔ ہجرت ، قید اور ہر طرح کی بربادیاں برداشت کیں ۔ موجودہ جارحیت سابقہ استعمار پسندی سے زیادہ خطرناک ہے۔ عوام کو اس بات کا پختہ یقین کرلینا چاہیے امریکی اور ان کے ساتھی افغانستان کے مسلمانوں،بلکہ پوری اسلامی دنیا کے سخت دشمن ہیں۔ وہ کبھی بھی اہلِ اسلام کے ہمدرد نہیں ہوسکتے ۔ اسی لیے اللہ تعالی کے کلام میں وضاحت موجود ہے۔ان کی دوستی جس صورت میں بھی ہو یا ان کی جارحیت کے دوران آرام سے بیٹھنا دنیا وآخرت کے لیے نقصان دہ ہے ۔ اس مصیبت سے جان چھڑانے کا راستہ صرف وہی ہے، جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی تاکید کی تھی ۔ جہاد کی نیت سے اسلحے کا استعمال اور ہمت وغیرت اپنانے کی صورت میں غیبی مدد کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ الحمد للہ ! ایسا سب ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں ۔

ہم وطنوں کو یہ اطمینان رکھنا چاہیے کہ طالبان قوم کے صالح بیٹے اور ان کے ہمدرد بھائی ہیں ۔ طالبان نے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ وہ سرفروشی کے میدان میں عالمی طاقت کے سامنے کھڑے ہیں ۔ ان کا مقصد اپنی ایمانی ذمہ داری ادا کرنا اور اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے ۔ ان کی آخر ی خواہش یہی ہے کہ اسلامی سرزمین کو شیطانی لشکروں سے آزاد کرایا جائے ۔ عوام کے مذہبی مفادات ، جان ، مال اور عزت وناموس کا تحفظ کیا جائے ۔ یہ مفادات طالبان کے نہیں، بلکہ تمام ہم وطنوں کے ہیں ۔ عقلی اور نقلی دلائل کی روشنی میں جہاد تمام ہم وطنوں کے مفادات اور ایک طرح کی دینی اور دنیوی ضرورت ہے ۔ اس لیے عوام کو طالبان کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے مکمل تعاون جاری رکھنا چاہیے۔ اس حوالے سے دشمن کے پروپیگنڈے پر کان نہ دھرا جائے۔ان کاپروپیگنڈا انتہائی خطرناک ہتھیارہے۔ وہ جہاد کو دہشت گردی اور طالبان کو دہشت گردکا نام دیتے ہیں ۔ اسلام کو قابل نفرت اور جمہوریت کو آزادی پسند اور مفید نظام بتاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ مادیت اور طاقت کے نشے میں چورکرپٹ انتظامیہ میں کام کرنے والے افراد بھی ہمارے ہم قوم ہیں ۔ اسلام کے عظیم خادم عالی قدر امیرالمؤمنین حفظہ اللہ کی جانب سے ان کے لیے معافی کا اعلان کیا گیا ہے ۔ یہ کمیشن انہی کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ آپ کے دوست ، رشتہ دار یا دیگر متعلقین اگر کابل انتظامیہ میں کام کررہے ہیں تو انہیں اطمینان دلائیں ۔انہیں آزاد زندگی کے فوائد سے آگاہ کریں۔ایسے لوگ حق راست پر طالبان کے ہم دم و دم ساز بننا چاہیں تو ان کے لیے ہم نے عام ٹیلی فون نمبر اور ای میل ایڈریس بھی رکھا ہوا ہے۔ وہ کمیشن کے ذمہ داران سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔ فون 0708298195 ، [email protected]

سوال: آپ کا ان لوگوں کے لیے کیا پیغام ہے ، جو دشمن کی صفوں میں ہیں اور مختلف عوامی و عسکری شعبوں میں کام کررہے ہیں ؟

جواب: اس میں شک نہیں مسلط کردہ غلام ادارے میں ان کا شریک ہونا جس شعبے میں بھی ہو غیر شرعی اور ملک و ملت کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ عمل جارحیت پسندی سے ایک قسم کا تعاون ہے ۔یہ سنبھلنے کا وقت ہے۔ ایسا نہ ہو اسی حالت میں موت آجائے۔ پھر تو واضح ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں جگہوں میں برباد ہوں گے۔ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے یہود ونصاری کی بری خصلتیں ، ان کے مذموم مقاصد اور ان کی خفیہ سازشیں بیان کی ہیں ۔ یہ واضح کیا ہےکہ  ان سے دوستی کسی صورت بھی مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ۔ یہ تو مسلمان کی شان کے خلاف ہے کہ اسلامی نظام کے خاتمے ، جہاد کو ناکام بنانے اور مسلمانوں اور مجاہدین کو مارنے ، قید کرنے اور ایذا پہنچانے میں ان کافروں سے تعاون کرے اور چند روپوں کی خاطران کا ہر ظالمانہ اور کفریہ حکم مانے۔

کابل انتظامیہ میں شریک لوگوں کو حقائق کا ادراک کرنا چاہیے ۔ خود بھی ہلاکت سے بچیں اور اپنے مظلوم عوام کی جان سے دور رکھیں ۔ موجودہ انتظامیہ اور جارحیت پسندوں کے ہاتھوں سے جتنے لوگ مرتے ہیں ، دھتکارے جاتے ہیں، ذلیل کیے جاتے ہیں یا لوٹ لیے جاتے ہیں… ان سب میں انتظامیہ کے کارکن شریک ہیں ۔ اگر یہ لوگ کابلی حکومت کے ساتھ کام نہ کریں تو امریکی کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ وہ ضرور بھاگنے پر مجبور ہوں گے ۔ دوسرا یہ کہ کب تک ایسی بے مزہ اور شر مناک زندگی گزاریں گے۔ افغانستان کے قومی مفادات اور تمام صحیح خواہشات کا حل آزاد اسلامی نظام میں ہے، جن کا حصول جارحیت پسندوں کے انخلا کی صورت ہی میں ممکن ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے اس تاریخی بدبختی سے جان چھڑائی جائے۔ اپنی ایمانی اورملّی ذمہ داری سمجھتے ہوئے کفار سے تعاون اور ان کی غلامی سے دست برار ہواجائے ۔ آسان ، خودمختار ، آزاد اور باعفت زندگی بسرکی جائے ۔