کابل

دوحہ کانفرنس: اقوام متحدہ کیا چاہتی ہے؟

دوحہ کانفرنس: اقوام متحدہ کیا چاہتی ہے؟

تحریر: مستنصر حجازی
افغانستان میں امارت اسلامیہ کی موجودہ حکومت کے حوالے سے چند ایسے زمینی حقائق موجود ہیں جنھیں کسی طور پر نہیں جھٹلائے  جاسکتے۔ ان حقائق کا ادراک خطے کے ممالک، یورپی دنیا اور خود اقوام متحدہ کو بھی ہے۔
● ان میں سے پہلی حقیقت یہ ہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان کی حکومت افغانستان کے تمام صوبوں، اضلاع اور دور دراز کے قصبوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ سرکاری رٹ ماضی کی کسی بھی حکومت کی بہ نسبت زیادہ قائم ہے۔
● ماضی کی کسی بھی حکومت کی بہ نسبت موجودہ حکومت میں امن و امان قائم ہے۔
● بدعنوانی، کرپشن اور منشیات کی شرح میں واضح کمی آئی ہے۔ اس کا اعتراف ورلڈ بینک اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کئی مرتبہ کیا۔
● بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبوں کا آغاز، جو ماضی میں عالمی قوتوں کی جانب سے دی جانے والی بے پناہ رقم کے باوجود مکمل نہ کرسکے۔
واضح رہے کہ یہ سب ایسی صورت میں ممکن ہوا جب کہ ڈھائی سال گزرنے کے بعد بھی کسی ملک نے افغان حکومت تسلیم نہیں کیا ہے۔ نہ صرف تسلیم نہیں کیا بلکہ دھونس اور دباؤ کے کافی سارے حربے بھی استعمال کیے گئے اور آج تک استعمال کیے جا رہے ہیں۔ پچھلے ڈھائی سالوں میں افغانستان کے بارے میں بین الاقوامی سطح کی کسی بھی کانفرنس میں افغانستان کے حقیقی مسائل پر توجہ کم اور حکومت پر دباؤ زیادہ مد نظر رہا۔ امید کی جا رہی تھی کہ دوحہ میں منعقدہ دو روزہ کانفرنس سنجیدہ کوشش ہوگی، کیوں کہ یہ اقوام متحدہ ایسے بڑے اور سنجیدہ فورم کے ذریعے بلائی گئی۔ لیکن اب یہ واضح ہو گیا کہ اس کانفرنس کی حیثیت بھی ماضی کی کانفرنسوں کی طرح ایک رسمی نشست ہوگی اور بس! اسے سنجیدہ کوشش تب کہی جاسکتی تھی جب افغانستان کے زمینی حقائق تسلیم کیے جاتے اور افغانستان کے مسائل پر گفتگو کے لیے صرف افغان حکومت ہی کو مدعو کرتے۔ اگر افغانستان میں واقعی اب بھی انسانی مسائل ہیں تو وہ موجودہ حکومت ہی حل کرسکے گی اور حکومت کے ساتھ اقوام متحدہ کا رویہ یہ ہے کہ اسے محض ایک گروپ کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ اسی حیثیت سے دوحہ کانفرنس میں مدعو کیا جسے امارت اسلامیہ نے مسترد کیا اور کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرلی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امارت اسلامیہ کی موجودہ کانفرنس میں شرکت نہ کرنے سے نقصان کس کا ہو رہا ہے۔ افغان حکومت کا یا اقوام متحدہ کا؟ تو یہ واضح ہے کہ امارت اسلامیہ پر افغان عوام کا اعتماد بحال ہے۔ یہ اعتماد نہ اقوام متحدہ کے تھرو ملا ہے اور نہ کسی بین الاقوامی فورم کے کسی کانفرنس سے حاصل ہوا ہے۔ افغانستان کے باشندے مذہب کے ساتھ مضبوط رشتہ رکھتے ہیں اور افغان عوام کی امنگوں کے مطابق حکومت کے قیام کے لیے امارت اسلامیہ کی طویل جدوجہد ہے، یہ اعتماد بلاشبہ اس جدوجہد کے تھرو ملا ہے۔ ایسی کسی حکومت کو اگر “واحد ذمہ دار فریق” کی حیثیت سے کسی بین الاقوامی کانفرنس میں نہیں بلائی جائے گی تو ایسی نشست کی سنجیدگی مشکوک ہوجاتی ہے اور غیر سنجیدہ نشست سے  سنجیدہ نتیجہ کسی صورت نہیں نکلے گا۔
در اصل امریکا اور اس کے ہم نوا دیگر یورپی ممالک افغانستان پر پابندیوں کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ پچھلے سال مئی میں اسی نوعیت کے کانفرنس کے انعقاد کا مقصد بھی یہی تھا۔ لیکن اس کانفرنس کے بعد خطے کے بڑے ممالک اور معاشی قوتوں کا امارت اسلامیہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی، چین جیسی بڑی اقتصادی قوت نے کابل میں اپنا سفیر مقرر کیا۔ اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے نمائندہ خصوصی کے تقرر کے معاملے پر چین اور روس کی مخالفت بھی مسلسل پریشانی کا باعث ہے۔ یہ ایسی صورت حال ہے جو امریکا اور یورپ کے کنٹرول سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ اسے کنٹرول کرنے کے لیے اس مرتبہ اقوم متحدہ کا سہارا لیا گیا۔ جس کی شکل یہ کانفرنس ہے، مگر یہ کانفرنس بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگی، کیوں کہ کانفرنس کے انعقاد میں سنجیدگی نہیں ہے۔
اگر اقوام اور یورپی ممالک واقعی افغانستان کے مسائل کا حل چاہتے ہیں تو انھیں زمینی حقائق تسلیم کرنے چاہئیں اور افغان حکومت کو واحد ذمہ دار فریق کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی نوعیت کی کانفرنسوں میں بہ طور حکومت مدعو کرنا چاہیے نہ کہ بہ طور ایک گروپ کے۔