روزنامہ الشرق الاوسط کے ساتھ حالیہ موضوعات پرذبیح اللہ مجاھدکا تفصیلی انٹرویو

وسیع پیمانے پربیعت کے خبروں کے آنے سے یہ بات ظاہرہوگئی کہ مجاھدین ایک صف کوقائم رکھناکتناضروری سمجھتے ہیں۔ امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاھدنے حال ہی میں الشرق الاوسط کے عربی جریدے کیساتھ ایک تفصیلی انٹرویوکیاہے۔جس سے الشرق الاوسط سے شکریے کیساتھ الامارہ ویب پیج پرہوبہوپیش کیاجارہاہے۔ سوال:ملامحمدعمرکب وفات پائے اگرکوئی معین تاریخ […]

وسیع پیمانے پربیعت کے خبروں کے آنے سے یہ بات ظاہرہوگئی کہ مجاھدین ایک صف کوقائم رکھناکتناضروری سمجھتے ہیں۔

امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاھدنے حال ہی میں الشرق الاوسط کے عربی جریدے کیساتھ ایک تفصیلی انٹرویوکیاہے۔جس سے الشرق الاوسط سے شکریے کیساتھ الامارہ ویب پیج پرہوبہوپیش کیاجارہاہے۔

سوال:ملامحمدعمرکب وفات پائے اگرکوئی معین تاریخ بتاسکتےہیں،اورکس مقام پرمدفون ہوئے۔

جواب:بسم اللہ الرحمن الرحیم۔الحمدللہ وکفی وصلواۃ وسلام علی عبادہ الذین الصطفی امابعد:

علیقدرامیرالمؤمنین ملامحمدعمرمجاہدرحمہ اللہ23اپریل 2013کودرپیش بیماری کی وجہ سےوفات پائے ۔اورجہاں رہائش پذیرتھے وہی مدفون ہوئے۔امن وامان کی صورتحال کی وجہ سے دفن کے جگہے کاتعین اوروضاحت نہیں کرسکتے ۔

سوال:اتنے لمبے عرصے کے لیے اس بات کوتحریک کے جنگجوؤں اوررھنماؤں سے کیوں خفیہ رکھاگیا۔

جواب:آپکومعلوم ہے کہ ہم ایک ظالم قابض کے ساتھ ایک بڑے جگڑے میں مصروف ہیں۔امیرالمؤمنین کی وفات کی خبرکے اظہارکاان پراثرہوتا۔ اوردشمن کے مقابلے میں انکے حوصلے کمزورہونے کےاحتمال پرجیداورباخبرعلماءاکرام کے فتوي کے مطابق امیرالمؤمنین کے وفات کی خبرکوخفیہ رکھااوراسکااعلان نہیں کیاگيا ۔جیسے کہ اسی طرح کاواقعہ خیرالقرون میں ابوعبیدۃ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے وفات کی خبرکوان مجاھدین سے خفیہ رکھاگياجویرموک میں حضرت خالدبن ولیدرضی اللہ تعالی عنہ کی سرابراہی میں جنگ میں مصروف تھے۔

جب لڑائی ختم ہوئی اورمجاھدین کے لیے وفات کی خبرپہنچانے کے حالات مناسب ہوگئے۔تب جاکرحضرت ابوعبیدۃ بن جراح رضی اللہ عنہ کی طرف سے امیرالمؤمنین حضرت ابوبکرالصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کی خبرکی تصدیق کی گئی۔وہاں بھی وفات کے خبرکے خفیہ رکھنے کی بنیادی وجہ حالت جنگ میں مجاھدین کے مورال کی حفاظت کرناتھی۔لہذالازمی طورپرابتدامیں صرف چندرھنماؤں اورامیرکے گھرانے کوہی مطلع کرناکافی سمجھاگیا۔دوسرے کسی کوخبرنہیں دی۔تاکہ یہ خبرپوری طرح خفیہ رہ سکے۔

سوال:ملامحمدعمرکے وفات کے بعداختلافات کی خبروں میں کتنی حقیقت ہے۔

جواب:امیرالمؤمنین کے وفات کے بعدنہایت عجلت کے ساتھ،جہادی حالات کے باریکی کودیکھتے ہوئےاہل الحل والعقدشوری جورھبری شوری اورجیدعلماءاکرام پرمشتمل ہے۔کی طرف سے زعیم ملااخترمحمدمنصورحفظہ اللہ کوامیرمقررکیاگيا۔جوکہ اس کام کی قابلیت رکھتےہیں۔اورکئی سال سے مشکل حالات میں امارت کی سربراہی سرانجام دے چکے ہیں۔مجاھدین کاان پراعتمادہے اورامیرالمؤمنین ملامحمدعمرمجاھدرحمہ اللہ کے لیے بھی قابل اعتبارشخصیت تھے۔اس لیے وہ نئے امیرکے طورپرمقررہوئے۔جب نئے امیرکی تقررکی خبرنشرکی گئی تب پورے اقغانستان سے جہادی محاذوں کے رھنماؤں،کمانڈروں،جیدعلماءاکرام،مجاھدین اورعام لوگوں نے بیعت کے سلسلے کاآغازکیا۔اورتقریبا72گھنٹوں میں ملک کے ہرکونے سے بیعت کے پیغامات موصول ہونے لگے۔جس سے یہ بات ثابت ہوا کہ مجاھدین کے لیےایک صف قائم رکھناکتنااہمیت رکھتاہے۔اوریہ کہ اپنے علماء اوررھنماؤں پرانکوکتنااعتمادتھااورشخصی طورپرملااخترمحمدمنصورکے تقرری پرکتنے راضی تھے۔

باقی رہاایک یادولوگوں کااختلاف وہ بھی امیرکیساتھ نہیں بلکہ امیرکے تقرری کے طرزوطریقے پرجوکہ اتنااہم نہیں ہے۔اورقدرتی بات ہے کہ اتنے بڑے صف میں مختلف افکراورسوچ کے حامل لوگ جمع ہے خا مخواہ مختلف نظریات رکھنے والے لوگ موجودہونگے۔جیسے کہ وہ نظریات اتنے اہم نہیں تھے اورجلدہی انکے حل کے لیے راہیں تلاش کی جائیگي۔علماءاکرام کاایک وفداس پرخصوصی کام کررہاہے۔ہم اپنے صفوں میں ان سے کوئی خطرہ نہیں سمجھتے ہیں۔

لیکن امارت اسلامیہ پھربھی اپنےمکلفیت اورذمہ داری کے تحت ان لوگوں کوامارت کے ساتھ قائم رکھنے کی طرف قائل کرینگے۔وہ امارت اسلامیہ کے دشمنوں کوپروپیگنڈہ کرنیکاموقع فراہم نہ کرے۔اورنہ ہی شعوری اورلاشعوری طورپراغیارکے لیے آلہ کار بنیں۔

سوال:کیاملااخترمحمدمنصورکوکوئٹہ شوری کے تمام ارکان کی حمایت حاصل ہے اورسب نے بیعت کی ہے۔

جواب: امارت اسلامیہ اپنے تشکیل میں کوئٹہ شوری کے نام کااصطلاح نہیں رکھتاہے۔بلکہ امارت اسلامیہ اپنی جہادی سرگرمیوں کوآگے لے جانے کے لیے خصوصی کمیشنزاورتشکیلات رکھتاہے۔ان سب نے نہایت اچھے اتفاق اوریگانگي کیساتھ، اسی طرح سے رھبری شوری کی مطلق اکثریتی ارکان،اورجیدعلماءاکرام،قابل اعتبارساتھیوں نے نئے امیرملااخترمحمدمنصورحفظہ اللہ کے ساتھ امیرکے حیثیت سے بیعت کیاہے۔انہوں نے پورے قوم کوبیعت کرنیکی دعوت دی۔اورایساہی ہوا۔کہ 72گھنٹوں کے مدت میں پورے ملک سے ،جہادی محاذوں سے ،گاؤں اورقصبوں سے ،شہروں اورقوموں سے ،اسی طرح ھجرت کے مختلف ملکوں سے افغانیوں کی بیعت کی خبریں موصول ہوئیں۔جوامارت اسلامیہ کے ویب سایٹ الامارہ سے براہ راست نشرہوتی رہی۔اسی لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملااخترمحمدمنصورایک متفق علیہ امیرہے۔اورانتخاب میں کسی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔

سوال:کیاآپ ملااخترمحمدمنصورکی شخصیت کے بارے میں کچھ بتاسکتے ہیں۔کیونکہ مشرق اورمغرب میں لوگوں کے پاس آپ کے بارے میں بہت کم معلومات پائی جاتی ہے۔کیاہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اسلامی امارت کے شاہینوں میں سے ایک ہے۔

جواب:جی۔نئے امیرملااخترمحمدمنصورحفظہ اللہ امارت اسلامیہ کے تحریک کے ابتدائی دنوں سے عالیقدرامیرالمؤمنین ملامحمدعمرمجاہدرحمہ اللہ کے قریبی اورقدیم ساتھیوں میں سے تھے۔ابتداہی سے امارت کے صفوں میں انتظامی اوربڑے اہم ملکی عہدوں پرفائزرہےہیں۔پانچ سال کے لیے موسمیات کے وزیررہےہیں۔امریکی قبضے کے بعد سے ہی رھبری شوری کی رکنیت کے علاوہ پہلے قندہارکے گورنرپھرامارت اسلامیہ کے نائب اول ملاعبدالغنی فک اللہ اسرہ کے معاون کے طورپرمشہورتھے اورجہادمیں حصہ لیتے رہے۔جب ملاعبدالغنی برادرگرفتارہوئے۔تب ملامحمدعمرمجاھدرحمہ اللہ کی طرف سے 2010میں ملااخترمنصورامیرالمؤمنین کے نائب مقررہوئے۔اوران پانچ سالوں میں عملی طورپرامارت کے ذمہ داریوں کوسنبھالتےرہے۔الحمدللہ بہت سخت بحرانی حالات میں امارت کے نیابت کابھاری ذمہ داری۔جوکہ اصلاعملی میدان میں امارت کے امانت کی ذمہ داری تھی،کونہایت احسن اندازمیں نبھایا۔مجاھدین کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رکھتاہے۔بہت ہی رحم دل انسان ہیں۔بہت حوصلہ اوربرداشت کےحامل ہے۔صاحب علم ،تقوی ہے،مشاورت اورعلماءاکرام سے رائے لینے اور ہرمسئلے میں احتیاط کی قدروقیمت کوخوب جانتے ہیں۔اورانکاپابندہیں۔سیاسی امورمیں بصیرت رکھتے ہیں۔مجاہدین میں پسندکئے جاتے ہیں۔جہادی مسئولین کے لیے ایک صاحب درداورمشفق سربراہ رہ چکے تھے۔اسی لیے انشاءاللہ امارت اسلامیہ کے مجاھدین کوان سے کوئی تشویش نہیں ہے۔بلکہ ان پربہت اچھااعتمادرکھتے ہیں اورآزمودہ شخصیت ہے۔

سوال:کیاحکومت کیساتھ بات چیت کے بارے میں کوئی نیامؤقف ہے اوربات چیت کے بارے میں کوئی نئی معلومات ہیں۔

جواب:ہم بات چیت کے بارے میں نیامؤقف نہیں رکھتے۔امریکیوں کی طرف سے افغانستان کاقبضہ تاحال جاری ہے، کابل حکومت کے پاس اختیارات نہیں، امارت اسلامیہ کی طرف سے بات چیت کااختیارامارت اسلامیہ کے سیاسی دفترکے پاس ہے۔جب وہ قبضے کے اختتام پرمتفق ہوجائے۔اوریہ کہ ملک میں اسلامی نظام کانفاذبات چیت کے ذریعے ہوسکتاہے۔تب جاکریہ کام بغیرکسی مشکل کے ہوگا۔

سوال:کیاآپ لوگ داعش کے پھیلاؤ سے یہ خطرہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ طالبان کاجگہ لے سکتےہیں۔

جواب:داعش(دولت اسلامیہ )عراق اورمشرق وسطی کے سیاسی محیط، اورفوجی اورمذہبی فسادات کادرعمل ہے۔افغانستان میں ابھی تک ایسے واقعات اورفسادات کاوجودنہیں ہے۔لہذاداعش کی نہ تویہاں کوئی ضرورت ہے اورنہ ہی ہم ان سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔

ہم نے ہمیشہ سے  مذہبی،فرقہ وارانہ اوراندرونی اختلافات کے سدباب کی کوشش کی ہے۔اورالحمدللہ تاحال اسمیں ہم کامیاب ہوئے ہیں۔مستقبل بھی اللہ تعالی سے توفیق کے طلبگارہونگے۔تاکہ ملت ایک ہی صف میں قابضین اوراجنبیوں کامقابلہ کرسکیں۔اوراختلافات اوربے اتفاقی سے اللہ تعالی انہیں محفوظ رکھیں۔

سوال:چندطالب کمانڈروں کاطالبان کاساتھ چھوڑنے اورداعش کے ساتھ شامل ہونے میں کتنی حقیقت ہے۔

جواب:آپکومعلوم ہے کہ امارت اسلامیہ اپنے سیسٹم اورمربوط ومتعلقین پراچھاخاصاتسلط رکھتے ہیں۔انکے افعال اورذمہ داریوں کے لیے خصوصی لائحہ عمل مقررکئے ہیں۔ وہ انہیں لائحوں اوراصولوں کے تحت ہی اپنی ذمہ داریوں کے سرانجام دینے پرمکلف ہے۔ امارت اسلامیہ کے رھنماؤں نے انہیں منع کیااورآئندہ ایسانہ کرنیکی تنبیہہ کی۔ لیکن انہوں نے پھربھی امارت کے احکامات سے انکارکرتے ہوئے غیرشرعی افعال مثلا اختطاف، بے جاملکی لوگوں کوتکلیف، راہزنی جیسے اورافعال سرزدکئے۔ جس سے امارات انہیں اپنے صف سے خارج کرنے پرمجبورہوگئی۔ اوران میں سے چندایک کوشرعی عدالتوں میں پیش کیا۔

یہی وہ لوگ تھے جوکچھ نامعلوم جہتوں کی مددسے ننگرہارصوبے کے چندمحدودعلاقوں میں جمع ہوئے۔اورداعش (دولت اسلامیہ)کے نام سے امارت اسلامیہ کے خلاف مقابلے کاآغازکیا۔ جوکہ الحمدللہ بہت جلدہی امارت اسلامیہ کی فوجی طاقت اورعلاقے کی لوگوں کی ہمہ گیر مددسے ذیادہ ترعلاقے تقریباان سے صاف کردئے گئے ہیں۔ فی الحال امارت اسلامیہ کے سامنے کوئی خاص مزاحمت نہیں رکھتے ہیں۔

سوال:افغانی صدرکے معاون جنرل عبدالرشیددوستم نے فاریاب اورقندزمیں طالبان کے خلاف مقابلہ کرنے کااعلان کیاہے۔اسکاطالبان کے حوصلوں پرکیااثرپڑیگا۔

جواب: دوستم کے ساتھ ہم پہلے ہی اپنے طاقت کامقابلہ کرچکے ہیں۔دوستم کوکئی بارملک سے فرارہونے پرمجبورکیا ہے۔اب یہ کہ امریکی یہاں آئے اوروہ امریکی ائیرفورس کی مددسے اس سے یہاں حکومت ملی یہ ایک الگ بات ہے۔

جہادی صفوں میں دوستم کے ہونے اورنہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دوستم اپنے وجودسے نہ تواپنے گلم جم والوں کا حوصلہ بلندکرسکتاہے اورنہ ہی مجاھدین کے حوصلوں پراثراندازہوسکتاہے۔

کیونکہ ہمارامبارزہ وہ مبارزہ ہے جس نے امریکیوں کوبڑے جنگي قوت کے ساتھ شکست دی۔ دوستم کیاچیزہے۔انشاءاللہ شکست دوستم کامقدرہوگا۔

سوال:مغرب میں ہمیں یہ باتیں سننے کوملتی ہے کہ طالبان کے مبارزے کوپاکستانی اینٹلی جنس کی طرف سے آگے لے جایاجارہاہے۔اوریہ کہ ملامحمدعمرکی حیثیت صرف ایک سمبل کے تھی، میں کتنی حقیقت ہے۔

جواب:جی ہاں، اسطرح کاپروپیگنڈے صرف ہمارے خلاف نہیں بلکہ ہرآرادی کی تحریک خصوصااسلامی تحریکوں کے بارے میں کی  جاتی ہے۔ تہمت لگانے والےاللہ تعالی کے نصرت پریقین نہیں رکھتے۔

وہ عقیدہ کے بنیاد پراللہ تعالی پراوراسکے راستے میں جہاداورقربانی پریقین نہیں رکھتے۔اسی لیے وہ حیران ہے کہ یہ ضعیف لوگ کسطرح سے ایسے خالی ہاتھ کامیاب ہوئے اورایسے بڑے دشمن کوشکست دی۔ تواپنے عقل کی تسکین کے لیے کھبی ہمیں پاکستان کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔کبھی خودامریکیوں اورانکے اینٹلی جنس کے ساتھ ہماررشتہ جوڑتے ہیں اورکبھی اورخرافات کہتےہیں۔

ہم یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہماراجہادکسی کے احسانات کی مرہون منت نہیں۔ اورنہ ہی بیرونی امداداورخفیہ ایجنسی اسطرح کے بڑے مبارزے کوآگے لے جاسکتی ہے۔اگربیرونی امداداورخفیہ ایجنسیاں فائدہ مندہوتے توخودامریکہ اوراسکے کٹھ پتلیوں کوفائدہ پہنچاچکے ہوتے۔ اسلیے کہ امریکہ دنیاکے سطح پربہت قوی استخبارات کاحامل ہے اورخفیہ بھی نہیں بلکہ علی الاعلان 14سالوں سے ہمارے ملک میں کام کرتے رہے لیکن انکانتیجہ کجھ بھی نہیں نکلا۔ اگربیرونی امدادکافائدہ ہوتاتوکابل حکومت آج مشکلات میں گرانہ ہوتا،کیونکہ انکے ساتھ 49 بیرونی ممالک مددکرنے والے ہیں۔

اب جب یہ سب ناکام ہوگئے ہیں۔ یہ اللہ تعالی کی دین کابرکت ہے اورمجاھدین کے مقابلے میں انکے باطل ہونے کی نشانی ہے۔وہ لوگ جنکے عقول اس نقطے کے سمجھنے سے قاصرہے ہمارے پیچھے بری تہمتیں لگاتے ہیں۔ یہی انکی عقلی معیارہے۔

سوال:کیاطالبان ایسے حالت میں ہے کہ انہیں کسی فوجی سربراہ کی ضرورت پیش آہی ہوتاکہ وہ اپکے صف کومتحدرکھ سکے۔اورمستقبل میں تحریک طالبان پراسکے کیااثرات ہونگے۔

جواب:چونکہ جہادی صف قربانیوں اورجان دینے کاصف ہے۔ یہاں ہرلمحہ بشمول قیادت کے شہیدہوجانے، گرفتارہوجانے اوریاطبعی موت وفات ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اسی لیے جہادی صف کے قیادت نے پہلے سے ہی اس صف کی رھبری کےلیے تدابیرکئے ہوتے ہیں۔ جہادی صف دوسرے خصوصیات کے علاوہ قیادت کے لیے بھی ایک مدرسہ اورتربیت گاہ کی حیثیت رکھتاہے۔ یہاں اگرکوئی شہید ہوتاہے یااسیرہوتاہے اوریااپنے طبعی موت وفات پاتاہے تومجاھدین اسکے ساتھ کمزورنہیں ہوتے اورنہ ہی کمزوری کااحساس کرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں پہلے سے یہ تلقین کی جاچکی ہوتی ہے کہ جہادی راہوں کا جاری رہناافراداورشخصیات کے ساتھ منسلک نہیں ہوتا۔بلکہ اسکا تسلسل افکاراورمبادی  سے ہوتاہے۔اس راستے میں طبعی یاجہادی وجوہات کی بناپرلوگ آتے جاتے رہینگے لیکن افکاراورمبادی جوکہ جہادی راستے کی بنیادہیں وہ ہمیشہ ثابت رھینگے۔

یہی وجہ ہے کہ امیرالمؤمنین کے وفات سے مجاھدین میں کسی طرح کے کمزوری کااحساس نہیں ہورہاہے۔ بلکہ آپ کے شروع کردہ راستے کے ساتھ وفاداری کے لیے اوربھی بڑے دل اورایک فوجی شکل کیساتھ بیرونی قابضین اورانکے کٹھ پتلیوں کے خلاف اپنے جہادکوقائم ودائم رکھاہے۔

اسکے ساتھ ہی نیاامیرملااخترمحمدمنصوربھی ایک تجرکاراورکافی کامیاب سربراہ رہ چکے ہیں۔امیرالمؤمنین مرحوم کااپراعتمادتھا۔عملی میدان میں نہات مشکل حالات میں جہادی صف کی سربراہی کرچکے ہیں۔ ابھی اپنے لیے کافی مظبوط اسرورسوخ رکھنے والے معاونین بھی مقررکئے ہیں۔ مضبوط رھبری شوری جس میں تمام اہل خیراورامارت اسلامیہ کی رھنمااسکے رکن ہیں وہ بھی انکے ساتھ ہے لہذاامید ہےکہ پہلے سے بھی ذیادہ امارت اسلامیہ کے اتحادکوقائم رکھاجائیگا۔اورپہلے سے بھی ذیادہ اپنے موجودیت ثابت ہوگا۔انشاءاللہ

سوال:اس بات میں کتنی حقیقت ہے کہ طالبان فی الحال اقتصادی طورپرمالی مشکلات سے دوچارہیں۔

جواب:ہمیں امید ہے کہ ہمارے کمزوری کازمانہ گزرگیاہے۔فی الحال انشاءاللہ امارت اورہمارے مجاھدین اوربھی مضبوطی کے حالت میں ہے۔ ہمیں اپنے عوام کاوسیع حمایت حاصل ہے۔ ہردن کے ساتھ پیش قدمی کررہےہیں۔ فوجی لحاذسے ہردن کئی چھوٹابڑااسلحہ اوردوسری جنگي سازوسامان دشمن سے غنیمت کے طورپرحاصل ہوتاہے۔لہذامیں ایس بات کی تردیدکرتاہوں کہ خداناخواستہ امارت اقتصادی طورپرمالی مشکلات سے دوچارہے۔

سوال:ملااخترمحمدمنصورکون ہے۔اورجگڑے میں کونسے ذمہ داریاں رکھتاہے۔

جواب:محترم ملااخترمحمدمنصورتحریک کے ابتدائی لوگوں میں سے ہے۔روس کے خلاف جہادمیں بھی حصہ لیاتھا۔یہاں تک کہ آپ بھی اپنے سلف کی طرح روسیوں کے خلاف جنگ میں سخت زخمی ہوچکے ہیں۔امارت کے اقتدارکے وقت کئ مختلف اوراہم عہدوں پرفائزرہ چکاہے۔ امارت اسلامیہ کاہوابازی اورسیاحت کا وزیررہ چکےہیں۔ قبضے کے وقت مشکل حالات میں قندہارکے مرکزی جہادی مسئول(گورنر)رہ چکے ہیں۔ پھرملابرادراخندکے گرفتاری کے بعدامارت کے نیابت جیسے بڑے عہدے پرفائزرہ چکے ہیں۔ امارت اسلامیہ کے تمام مجاھدین ،مسئولین ،علماءاکرام سمیت جہادی راستے کے تمام راہ گیرانکااحترام کرتے ہیں۔ انکے شفقت اورہمدردی پرسب کویقین ہے۔ صف کومتحداورکنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ علماءاکرام اواہل لوگوں سے مشورہ لیاکرتے ہیں۔ بہت اچھاسیاسی بصیرت کاحامل ہے۔ یہ تمام صفتیں آپ کو امارت اسلامیہ کی طرف سے نئے امیرکے طورپرپیش کرنے اورملکی سطح پرتسلیم کرنےکا باعث بنیں۔

سوال:کیاملااحترمحمدمنصورکے تقرری کے بعدجگڑے کی صورت حال میں حکومت کاپلڑابھاری ہونے کی تبدیلی آئي۔

جواب:ملااخترمحمدمنصورکے لڑائی کے تجربے اوراسکے دونوں معاونین سمیت رھبری شوری کے حمایت کودیکھتے ہوئے ہمیں یقین ہے کہ ملکی جگڑے کی صورتحال نہایت مثبت اوراچھے سمت میں گامزن ہے۔کیونکہ منصورصاحب پہلے کی بنسبت اب ایک نہایت بڑے صلاحیت اورمسئولیت کیساتھ مسائل کاسامناہے۔یقینابہت بہادری اورسوچ سمجھ کیساتھ کاموں کوآگے لے جائینگے۔جوحتمی طورپرملک میں جہاد کے انتظامی صورتحال پرمثبت طورپراثراندازہوگي۔ جہاں تک ہم منصورصاحب کوجانتے ہیں۔ وہ اچھے حوصلے کامالک ہے۔ اچھی استقامت اوراللہ تعالی پرتوکل رکھتے ہیں۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جنگی میدان میں اچھی ترقی دیکھیں گے اورحکومت کرنے میں بھی کوئی مسائل نہیں ہونگے۔وماذالک علی اللہ بعزیز۔

ذبیح اللہ مجاھدترجمان امارت اسلامیہ افغانستان