سابق ترجمان امیرلموّمنین کا خصوصی انٹرویو

ان حالات میں امارت اسلامی کےخلاف  اگر ایک مچھر بھی پر  مارے  تو میڈیا اس خبر کو  بریکنگ نیوز کے  طور پر نشر کرتا ہے ۔ ملا عبدالحئ مطمئن   مولوی عبدالحئ مطمئن طالبان دور حکومت میں  امیر  الموّمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے ترجمان  تھے۔ محترم مطمئن صاحب شاعر اور ایک اچھے […]

ان حالات میں امارت اسلامی کےخلاف  اگر ایک مچھر بھی پر  مارے  تو میڈیا اس خبر کو  بریکنگ نیوز کے  طور پر نشر کرتا ہے ۔ ملا عبدالحئ مطمئن

 

مولوی عبدالحئ مطمئن طالبان دور حکومت میں  امیر  الموّمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے ترجمان  تھے۔ محترم مطمئن صاحب شاعر اور ایک اچھے نثر نگار اور حالات حاضرہ پر گہری عبور رکھتے ہیں۔ امارت اسلامی کے رہبری شوریٰ اور  ملک کے  علماء کرام نے 30 جولائی 2015 کو محترم  ملا اختر محمد منصور صاحب کو  امارت اسلامی کے  نئے  امیر  کے انتخاب کا اعلان کیا۔ میڈیا پر امارت اسلامی کے  رہبری شوریٰ کے اندر  اختلافات کی خبریں آتی رہیں۔ اس مسئلے کی مزید وضاحت کیلئے  محترم ملا عبدالحئ  مطمئن کا انٹریو  ملاحظہ فرمائیں۔

سوال: میڈیا  نے کچھ ایسی رپورٹس دی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ  طالبان    نئے امیر   کے انتخاب پر اختلافات کا شکار ہیں۔ کیا واقعی اختلافات موجود ہیں؟

جواب: الحمد لِواحدالقهار و الصلاة والسلام علی اشرف الابرار وعلی اله واصحابه الاخيار:

سب سے پہلے رب العالمین کے دربار سے امت مسلمہ کے  21 ویں صدی کے عظیم مجدد حضرت امیر الموّمنین رحمہ اللہ کیلئے  جنت میں اعلیٰ و ارفع  مقام کا  طلبگار ہوں، او ر مرحوم  رحمہ اللہ کے مجاہد خاندان اور  سر فروش مجاہدین کیلئے صبرِ جمیل ، اور دنیا اور آخرت میں ان کی  سربلندی  اور کامیابی کیلئے دست بہ دعا ہوں۔

امیر الموّمنین کی رحلت   واقعی ایک چھوٹا حادثہ نہیں تھا۔لیکن دنیا  کو یہ  بات یاد رکھنی چاہئے کہ  ان   کی موت ان کے  مشن، ان کے موقف اور ان کے جہادی تحریک کی موت نہیں ہے۔ یہ تحریک  جس  مقصد  کیلئے  بنائی گئی  تھی  وہ مقصد بھی  زندہ  اور اس مقصد کیلئے کام کرنے  والے ہزاروں  رہنما اور  مجاہدین  بھی زندہ ہیں۔

البتہ امارت اسلامی کے خلاف دشمن فوجی ،سیاسی اور صحافتی میدان میں ہمیشہ  ایسے  حادثات کے انتظار میں  ہوتے ہیں۔ ان حالات میں امارت اسلامی کےخلاف  اگر ایک مچھر بھی پر  مارے  تو میڈیا اس خبر کو  بریکنگ نیوز کے  طور پر نشر کرتا ہے۔

ان حساس حالات میں  ہر مسلمان جو اللہ کی کتاب اور رسول اللہ کے احکامات پر  ایمان و عقیدہ  رکھتاہو اور اللہ کے سامنے حاضر ہونے پر  ایمان رکھتا ہو،کبھی بھی اپنی نفسی خواہشات کی بنیاد پر مسلمانوں کے درمیان اختلافات کا سبب نہیں   بنے گا اور نہ کسی دوسرے شخص کے مشورے پر اختلافات کو ہوا دے گا ۔

اس وقت یہ بات عقل سلیم کے بالکل  منافی ہے کہ ایک  تحریک  کا ہر فرد کسی ایک شخص  کی رہنمائی  میں متحد ہوجائے، ان سخت اور نا مساعد حالات میں جب  تحریک کی  ایک واضح  اکثریت ایک  امیر پر  متحد ہوجاتے ہوں یہ  صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی  نصرت ہے۔

نئے امیر کے انتخاب کے وقت جب  میں نے  میڈیا کا پروپیگنڈہ  سنا  تو میں خود پریشان ہوا۔ کیونکہ  ایک  طرف  امیرا لموّمنین کی  رحلت کا غم اور دوسری طرف اختلافات کی  خبریں ایک  پریشانی کے اوپر دوسری پریشانی تھی۔لیکن بعد میں جب  مجھے  تفصیلی حقائق  کا علم ہوا ، تومیں نے اللہ تعالیٰ کاشکر اداکیا   کہ امارت اسلامی کے امیر کے انتخاب کا فیصلہ  چند بھائیوں کی  ناراضگی  کے سوا عام طور پر  اکثریتی اتفاق رائے سے  حل ہوا ، اور جہادی صفوں میں  اسے خوش آئند قرار دیا گیا۔

امارت اسلامی کے تمام  سرکردہ رہنماوّں ، علماء کرام، صوبائی اور ضلعی  مسئولین،مختلف جہادی محاذوں  کے کمانڈروں اور امارت کے  تمام کمیشنز کے سربراہوں  نے براہِ راست یا اپنے  علاقوں سے بیعت کی ہے۔ الحمد للہ  اس اقدام سے دشمن  کے مذموم عزائم خاک  میں مل گئے ہیں۔

سوال: آپ نے  “محدود بھائیوں”  کا ذکر کیا، وہ کیا  چاہتے ہیں اور کیوں  ناراض   ہیں؟

جواب:  ان کا موقف  اور مقصد اصلاحی ہے، ان میں سے  دو  افراد   نہایت نیک اور متقی  انسان ہیں  شاید وہ  اجتہادی غلطی میں مبتلا ہوں اور جزوی مسائل پر  اختلاف کے بھاری فتنے   اور اس کے نتائج کی طرف شاید متوجہ نہ ہوں۔ لیکن ان میں سے کچھ افراد کے  بارے میں ،  میں  مجبور ہوں  کہ  اس  تلخ حقیقت کا  اعتراف کروں کہ وہ علاقائی خفیہ حلقوں کے زیر اثر ہیں۔البتہ  وہ جب امیر الموّمنین  رحمہ اللہ کے قابل ِ قدر خاندان   محترم مولوی محمد یعقوب صاحب  اور مولوی عبدالمنان صاحب کے  نام کا تذکرہ کرتے ہیں، میرے خیال  میں یہ لوگوں کے اذہان کے تسخیر کا ایک ذریعہ ہے۔

جہاں تک میں نے تحقیق کی ہے، مولوی یعقوب صاحب اور مولوی عبدالمنان صاحب کو  امارت کی خواہش  نہیں  ہے۔ ان کے غیر جانبدار موقف  کی بھی مجھے   امید ہے تاکہ  باہمی اتحاد و اتفاق کا  سبب بنے وہ بھی اس حساس وقت کو دیکھتے ہوئے کبھی بھی اپنی شخصیت کو  اختلاف کا  سبب نہیں  بنائیں گے اور  نہ امیر الموّمنین  کی تاریخ اور کارناموں  کو داغ دار کریں گے۔

اس سلسلے میں امارت اسلامی کے  نئے امیر کو  چا ہئے کہ   امیر الموّمنین کے خاندان کو دوسروں پر فوقیت  دے   کر انہیں اپنے قریب لائے۔ اسلام میں امارت کوئی موروثی  چیز  نہیں  جس کا عملی  نمونہ  امیر الموّمنین  کا عملی کارنامہ تھا جنہوں نے اپنی   زندگی میں یہ ثابت بھی کیا اور اپنے خاندان کے کسی فرد کو اپنا نائب نہیں  بنایا۔یہاں  تک کہ وہ  اپنے  خاندان کے کسی فرد کو کوئی بھی منصب دینے کے حق میں نہیں  تھے۔

ایک مرتبہ مولوی محمد نبی محمدی مرحوم کندھار تشریف لائے۔ امیر الموّمنین رحمہ اللہ کو  مشورہ دیتے ہوئے  انہوں نے   کہا کہ آپ اپنی زندگی  میں اپنے نائب کا  انتخاب کریں  تاکہ آپ کے وفات کے وقت اختلافات سر نہ  اٹھائیں۔اس سلسلے میں انہوں  نے یہ بھی کہا کہ  اپنے خاندان کے کسی اہل  شخص کو   اس منصب کیلئے منتخب کیا جائے۔ امیر الموّمنین رحمہ اللہ  کو یہ بات سخت ناگوار  گذری کیونکہ وہ  مسلمانوں کی امارت کو موروثی نہیں سمجھتے تھے۔

واقعی اسلامی  شریعت میں  موروثی  امارت کا کوئی وجود  نہیں، خلافت راشدہ میں نہ ابوبکر صدیق، نہ عمرِفاروق، نہ عثمان اور نہ علی  رضی اللہ عنہم نے  اپنے اولاد کو یہ  حق دیا اور نہ مسلمان اس بات پر متفق ہوئے ہیں۔ورنہ ابوبکر صدیق رضی اللہ  عنہ کی اولاد  امارت کی  اہل تھی اور حضرت عمر رضی اللہ  عنہ کے گھر میں عبداللہ بن عمر کی  طرح عظیم ہستی موجود تھی۔ لیکن نہ  انہوں نے  اپنے بیٹے کی امارت کیلئے وصیت کی اور نہ لوگوں نے انہیں منتخب کیا  کیونکہ اسلام میں امارت موروثی نہیں ہے۔

ابن  حزم رحمہ اللہ  نے اس  بارے میں لکھاہے:

لاخلاف بين احد من أهل الاسلام في آنه لايجوز التوارث فيها”

ترجمہ: اہل  ِ اسلام   میں  اس  بات پر کوئی اختلاف  نہیں کہ خلافت میں  وراثت  جائز نہیں۔

تحریک  طالبا ن  یعنی امارت اسلامی   جن پیچیدہ  شرائط اور سخت  چیلنجز میں اپنا سفر جاری رکھے  ہوئے ہیں اس لئے اس کی  رہنمائی کوئی  نعمت یا کوئی  مقام نہیں بلکہ یہ  ایک  بھاری  بوجھ  جس کا اٹھانا ہر کسی  کے بس کی بات نہیں۔ایک  نوجوان جتنا  بھی قابل، دینداراور مخلص ہو لیکن  ناتجربہ کاری اور تحریک کے مسائل  سے لاعلمی کی وجہ سے یہ بوجھ نہیں اٹھاسکتا، او ر نہ  ان کے  کندھوں پر اس بوجھ کو ڈالنا مناسب   بات ہے۔

سوال:   یہ بتائیں کہ   یہ لوگ  دوسرے اشخاص کے  نام  بھی  لیتے رہے جیسے ملا  عبدالقیوم ذاکر اور  عبدالسلام   کاتب ، اس  بارے میں آپ کی کیا  رائے ہے؟

جواب: جناب عبدالقیوم ذاکر صاحب  ایک  بہاد ر  اور مخلص مجاہد ہیں، جنہوں نے اس راہ میں  بے پناہ مشکلات برداشت کی ہیں۔ وہ  امارت اسلامی کے  اتحاد کے سب سے بڑے  داعی ہیں۔ اس سے  قبل ان کے  بارے میں یہ خبر مجھ تک بھی  پہنچی تھی۔ لیکن کل  میرا ایک دوست کے ذریعے اس  سے رابطہ ہواتو  اس کے مخلصانہ موقف سے میں  بہت  مطمئن ہوا۔ ذاکر صاحب نے  بعد میں  امارت اسلامی کے  فرہنگی  کمیشن کے  سربراہ    کو ایک پیغام دیا کہ میرے بارے میں  پھیلائے جانے والے اختلافات کی افواہوں کی  میں پر  زور  مذمت اور تردید کرتاہوں، جس کے بعد یہ  پیغام  امارت اسلامی کے  ویب سائٹ  پر بھی پوسٹ کر دیاگیا۔اسی  طرح ملا عبدالسلام کا تب  روز ِ اول سے امیرالموّمنین اور  رہبری شوریٰ کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ میری معلومات کی  بنیاد  پر یہ  محض افواہوں کے طوفان کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

سوال: آپ کے خیال میں اس قسم کے اختلافات  تحریک  طالبان کیلئے  کتنے  خطرناک ہیں؟

جواب:  خلیفہ کا  تعین اسلام میں  نہایت حساس مسئلہ ہے۔ جب  میں دورہ  حدیث کا  طالبعلم  تھا تو خلافت کے بارے میں   احادیث   میں قاطعیت دیکھ کر  میں  حیران رہ جاتا، ایک مرتبہ مسلم شریف کی یہ حدیث سامنے آئی ” إذا بويع لخليفتين فاقتلوا الآخر منهما”

ترجمہ: جب دو خلفاء کے ساتھ  بیعت ہوجائے  تو  آخری کو قتل  کرو۔

دوسری جگہ  بخاری  شریف کی  کتاب الانبیاء میں  یہ  حدیث نظر آئی” سيكون خلفاء فيكثرون قالوا فما تأمرنا قال فوا ببيعة الأول فالأول ”

ترجمہ: خلفاء زیادہ ہوں گے، صحابہ  نے  عرض کیا یا رسول اللہ اس وقت ہمیں کیا حکم ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ   علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ  پہلے بیعت کی  تھی ان سے وفادار  رہو اور اس کے بعد جس شخص سے  بیعت کی جائے ان سے   وفادار رہو۔

اب جب اس مسئلے کی  حساسیت مجھے معلوم ہوئی   واقعی  اسلام کے اس   حکم قطعی میں   حکمت  اور  مسلمانوں  کے مفاد  میں ہے۔

اس وقت جب امارت اسلامی انتہائی حساس حالات سے گذر رہاہے  اور  ہر جانب سے دشمن  اس کی  طرف متوجہ ہیں، اس وقت جو شخص اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کرتا ہے وہ  غیر ارادی طور پر دشمن کے  ارادوں  کی تکمیل میں مصروف ہے تمام بھائیوں کو  چاہئے کہ  چھوٹے  چھوٹے مسائل کی  بجائے اپنے  اہم مقصد کی طرف متوجہ  ہوجائیں۔

سوال: اس  بارے   قومی اختلافات کی خبریں بھی   میڈیا کے ذریعے منظرِ عام پر آہی ہیں ان میں کتنی  حقیقت ہے؟

جواب: آپ کو معلوم ہے کہ  قومیت کا  عنصر اسلامی  احکام سے  متضاد ہے، وہ لوگ جو اسلامی  تحریک میں قومیت کا بدبودار  نعرہ لگائیں وہ  اسلامی  نظام سے  تعلق نہیں  رکھتے۔

رسول اللہ  صلی اللہ  علیہ وسلم فرماتے ہیں: “: لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إِلَى عَصَبِيَّةٍ ، وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ ، وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ ”

ترجمہ: وہ  ہم میں سے نہیں جو قومیت کی طرف  لوگوں کو بلائے،وہ  ہم میں  نہیں جو قوم کیلئے لڑے اور وہ  ہم میں  سے  نہیں جو قومیت پر  مر جائے۔

اس وعید سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ  تعالیٰ اس قسم کے لوگوں سے بیزار ہیں اور   ان لوگوں کا اسلامی  تحاریک سے کوئی تعلق نہیں۔  حالانکہ یہ لوگ قومی  تحریکوں اور قومی  اتحادوں میں جگہ  بناسکتے ہیں۔امیرالموّمنین رحمہ اللہ اس نا مقدس عنصر کو  اتنا  ناپسند  فرماتے تھے کہ  جب کوئی شخص قوم قبیلے کے بارے   میں آپ  سے سوال کرتا تو   آپ  بالکل  جواب نہ دیتے  اور سائل سے منہ  پھیر لیتے تھے۔

ہماری تحریک کے اکثر رہنما  قومیت کے عنصر سے پاک تھے۔ کچھ محدود افراد کے علاوہ یہ عنصر کسی شخص میں نظر نہیں آتا تھا، خاص طور پر  امارت کے سر کردہ رہنما تو اس عنصر سے  بالکل پاک تھے۔ بہت سے  رہنماوّں کی قوم اور قبیلے  کے نام میڈیا پر آرہے ہیں حالنکہ بیس سالہ رفاقت میں ہم  نے کسی سے اس کے قوم یا قبیلے کے بارے میں نہیں  پوچھا کیونکہ اس قسم کے سوالات مجاہدین میں عیب تصور کئے جاتے تھے۔البتہ متعدد افراد اس  بیماری میں مبتلا ہیں اس وجہ سے امارت  کے   رہنماوّں پر بھی شک کرتے ہیں، اور بے  جا بد گمانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔بسا اوقات کسی کام میں دو افراد  غیر شعوری طور پر   ایک ہی  قبیلے کے  منتخب  ہوتے ہیں کیونکہ  امارت  کسی سے قوم کا   پوچھتی ہے  نہ اس طرف  ان کی توجہ ہے امارت   کی پالیسی  قومی  نہیں بلکہ اسلامی  ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ  میڈیا کے شیطان صفت  نمائندے افواہوں کاطوفان کھڑا کر دیتے ہیں۔ اور لوگوں کو  اپنے  رہنماوّں سے بد ظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔حقیقت میں قومیت کا عنصر عام طور پر امارت اسلامی میں وجود ہی نہیں رکھتا اور نہ اس کی  کوئی حیثیت ہے۔

بشکریہ:  نن. آسیا