سانحۂ درویشان

آج کی بات: گزشتہ روز امریکی جارحیت پسندوں کے جنگی طیاروں نے اپنے کٹھ پتلیوں کی مدد سے صوبہ اروزگان کے مرکز ترین کوٹ سے ملحق ’’درویشان ناوہ‘‘ نامی علاقے پر شدید بمباری کی، جہاں دو روز قبل کٹھ پتلی انتظامیہ کے ایک بڑے فوجی یونٹ کے دو کمانڈرز  نے 42 فوجیوں سمیت تمام فوجی […]

آج کی بات:

گزشتہ روز امریکی جارحیت پسندوں کے جنگی طیاروں نے اپنے کٹھ پتلیوں کی مدد سے صوبہ اروزگان کے مرکز ترین کوٹ سے ملحق ’’درویشان ناوہ‘‘ نامی علاقے پر شدید بمباری کی، جہاں دو روز قبل کٹھ پتلی انتظامیہ کے ایک بڑے فوجی یونٹ کے دو کمانڈرز  نے 42 فوجیوں سمیت تمام فوجی وسائل اور اسلحے کے ساتھ مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ یاد رہے ایک ہفتہ قبل بھی اسی صوبے کے ایک اور فوجی یونٹ کا تمام عملہ اسلحے سمیت مجاہدین کے سامنے سرنڈر ہوا تھا۔ کٹھ پتلی انتظامیہ کے اہل کاروں کا یہ سلسلہ اب پورے افغانستان میں پھیل گیا ہے۔

مجاہدین نے اروزگان میں مذکورہ یونٹ کے تمام سرنڈر ہونے والے فوجیوں کو  اُن کے اسلحے سمیت رات کے اندھیرے میں ہی محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا۔ یہ فوجی یونٹ چوں کہ شہری آبادی کے قریب واقع ہے، اس لیے صبح علاقے کے لوگ، جن میں بچے بوڑھے جوان سبھی شامل تھے، اس فوجی یونٹ کو دیکھنے کے لیے اُمڈ آئے۔ مجاہدین کی جانب سے اس مرکز پر دو مجاہدین کو پہرہ دینے کی ذمہ داری سونپی تھی، جو لوگوں کو اندر جانے سے منع کرتے رہے، لیکن علاقے کے لوگ نہ مانے۔ اسی دوران کفار کے ایجنٹوں نے اپنے آقاؤں کو خبر دی کہ ہمارے فوجی یونٹ میں بہت سے مجاہدین اکھٹے ہوئے ہیں۔ اس کے بعدکفار لوگوں کے ہجوم پر بمباری کرتے ہوئے 30 سے 35 افراد کو شہید کر دیا۔

اس واقعے کو نہ امریکی جارحیت پسندوں نے کوئی خاص ترجیح دی اور نہ کابل کی کٹھ پتلی انتظامیہ نے کوئی نام نہاد تعزیتی بیان جاری کیا اور نہ ہی کابل کے دجالی میڈیا نے اس پرکوئی تبصرہ کیا۔

کیوں کہ معصوم شہریوں کی زندگیوں کی کفار کے سامنے کوئی حیثیت نہیں، جب کہ ان کی کٹھ پتلیاں بھی کفار کے ہر قسم کے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں رہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے قبل روسی جارحیت پسند بھی اپنی شکست کے اواخر میں اس قسم کی اندھی بمباریوں سے عام شہریوں کو نشانہ بناتے رہے۔ جب کہ کمیونسٹ نجیب نامی کٹھ پتلی تو روس سے بھی دو قدم آگے نکل گئی اور افغانستان کی تاریخ میں مظالم کا ایک سیاہ باب رقم کیا۔

اسی لیے مظلوم عوام کی طرف سے نجیب کو انتقام کا نشانہ بنا کر شہر کے وسط میں لٹکایا گیا اور اُسے اُس کے کیے کی سزا دی گئی۔ روس بھی شکست کھا کر بھاگ نکلا۔ اپنی مضبوط معیشت، جدید ٹیکنالوجی اور بے شمار فوجیوں کی قربانی بھی اسے کوئی کامیابی نہ دلا سکی ۔

اس لیے موجودہ جارحیت پسند کفار اور ان کی کٹھ پتلیوں کو بھی چاہیے کہ تاریخ سے سبق حاصل کریں۔ افغانستان کے مظلوم شہری اتنے بے یار و مدد گار نہیں ہیں۔ ان کایقین اس پاک اور قادر مطلق ذات پر ہے، جس کے انتقام سے دنیا کا کوئی ظالم بچ نہیں سکتا۔ افغان وہ قوم ہے، جن کا یقین صرف اللہ رب العزت کے ساتھ ہے۔ اسی یقین کی روشنی میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کئی جارحیت پسندوں کا غرور خاک میں ملایا ہے۔ اور کئی غیرملکیوں کی کٹھ پتلیوں کو بھی عبرت ناک انجام سے دوچار کیا ہے۔

و ماذلک علی الله بعزیز