سانحہ شیرزاد

آج کی بات: پندرہ سال قبل 7 اکتوبر کے غیرملکی جارحیت کے سیاہ دن سے اب تک  ایسا دن شاید بمشکل گزرا ہو،  جس میں کفار کی جانب سے افغانستان کے معصوم شہریوں کو ظالمانہ حملوں کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ کوئی شہید ہوا، کوئی زخمی اور کسی کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں […]

آج کی بات:

پندرہ سال قبل 7 اکتوبر کے غیرملکی جارحیت کے سیاہ دن سے اب تک  ایسا دن شاید بمشکل گزرا ہو،  جس میں کفار کی جانب سے افغانستان کے معصوم شہریوں کو ظالمانہ حملوں کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ کوئی شہید ہوا، کوئی زخمی اور کسی کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں۔ وہ بے گناہ قیدی ابھی تک رہائی کے منتظر ہیں۔ ہماری خوشی اور غمی کی تقاریب پر بمباری کی گئی۔ اندھے میزائل اور مارٹر توپ کے گولوں نے مساجد، مدارس اور آبادیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ مہاجرین کے سینوں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ مختصر یہ کہ کوئی ایسا عوامی اجتماع نہیں رہا، جس کے بارے میں ہم کہہ سکیں کہ اس پر بم نہ برسائے گئے ہوں۔

ان مظالم کا سلسلہ گزشتہ روز صوبہ ننگرہار کے ضلع شیرزاد میں ایک بار پھر غیرملکی وحشیوں نے دہرایا ہے۔ جہاں انہوں نے اپنی کٹھ پتلیوں کی مدد سے اندھادھند بمباری کی، جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت درجنوں افراد شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ کفار اور ان کے کاسہ لیسوں نے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ نشانہ بننے والے عام شہریوں کو مجاہدین قرار دیا اور اس گھناؤنے جرم کو اپنی بڑی کامیابی قرار دے کر اس پر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔

اگر ہم چار عشرے قبل ماضی پر نظر دوڑائیں اور روسی جارحیت اور آج کے حالات کا موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ روس نے موجودہ جارحیت کے مقابلے میں کہیں زیادہ افغانوں کو شہید کیا تھا۔ ڈیڑھ ملین سے زیادہ شہداء، لاکھوں زخمی، جب کہ 7 ملین سے زیادہ نقل مکانی اور ہجرت پر مجبور کیے گئے، لیکن پھر بھی افغان قوم میں موجود جذبۂ جہاد کو کمزور نہ کر سکے۔ اللہ تعالیٰ نےسویت یونین کے سرخ ریچھ کو تہی دست افغانوں کے ہاتھوں شکست فاش دے دی، جو تاریخ آزادی کا ایک سنہرا باب ہے۔

اگر ظلم اور وحشت سے افغان قوم کو غلامی قبول کرنے پر مجبور کیا جاسکتا تو آج ببرک کارمل، شاہ شجاع یا ڈاکٹر نجیب افغانستان کے صدر ہوتے۔ جنہوں نے ایک دن میں ہرات میں ہزاروں لوگوں کو قتل کیا تھا۔ بے شمار لوگوں کو لاپتا کیا، جن کا آج 20 سال بعد بھی کوئی پتا نہیں ہے اور ان کے پیارے ان گمشدگان کی راہ تکتے یا تو مرکھپ گئے ہیں یا روتے روتے اپنی آنکھوں کی بینائی بھی کھو بیٹھے ہیں۔

شیرزاد کی طرح اندھی بمباری صرف آج یا کل کی بات نہیں، بلکہ 30 سال سے ہم اس قسم کے واقعات سے  دو چار ہیں ۔

ایسا کوئی گھر نہیں، جس کے خاندان کا کوئی فرد شہید، زخمی یا  کفار کے ہاتھوں گرفتار نہ ہوا ہو۔ اس کے باوجود ہم کفار کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے کھڑے ہیں۔ جس ظالم نے بھی افغانستان کی سرزمین کو بری نگاہ سے دیکھا، وہ تاریخ میں ہزیمت اور شکست سے دوچار ہوا ہے۔ سپرطاقت کا دعویٰ کرنے والوں کی طاقت یہاں صفر درجے پر آ جاتی ہے۔ ایسے لوگ دنیا میں کہیں بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔

اگر آج غیرملکی کفار بھی سابق جارحیت پسندوں کے نقش قدم پر چلنے لگے ہیں اور ان کے خیال میں طاقت کے استعمال سے وہ افغان قوم کو غلام بنا لیں گے تو انہیں یہ بات اچھی طرح یا د رکھنی ہوگی کہ افغان نوجوانوں نے اپنے اباء و اجداد کی تلوار نیام سے نکال لی ہے، بلکہ ان سے بھی دو قدم آگے نکل گئے ہیں۔ وہ اپنے جسموں پر بارود باندھ کر اسلام دشمنوں کے لیے روس کی تاریخ دہرا رہے ہیں۔