سانحہ قندوز پر کٹھ پتلی حکمرانوں کا ردِ عمل

آج  کی بات کٹھ پتلی حکومت کے صدارتی محل سے قندوز کے دردناک سانحے پر اس وقت بیان جاری کیا گیا جب سوشل میڈیا کے ذریعے  اس ‏سانحے کی تصاویر اور ویڈیوز پوری دنیا میں پھیل چکی تھیں۔ افغانستان سمیت دنیا کے تمام درد دل رکھنے والے مسلمانوں نے اس ‏وحشت پر شدید غم اور […]

آج  کی بات

کٹھ پتلی حکومت کے صدارتی محل سے قندوز کے دردناک سانحے پر اس وقت بیان جاری کیا گیا جب سوشل میڈیا کے ذریعے  اس ‏سانحے کی تصاویر اور ویڈیوز پوری دنیا میں پھیل چکی تھیں۔ افغانستان سمیت دنیا کے تمام درد دل رکھنے والے مسلمانوں نے اس ‏وحشت پر شدید غم اور غصے کا اظہار کیا اور اس واقعے  میں ملوث قوتوں سے اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ ‏

صدارتی محل سے جاری ہونے والا بیان انتہائی محطاط انداز میں جاری کیا گیا جس میں اپنے آقا غیر ملکی جارحیت پسندوں  کی جرم کی ‏طرف بالکل اشارہ نہیں کیا گیا تھا۔ صرف اتبا کہنے پر اکتفا کیا گیا کہ اس سانحے میں عام شہری بھی  نشانہ بنے ہیں جس کی تحقیقات کا ‏حکم دے دیا گیا ہے دوسری جانب مجاہدین پر یہ الزام  بھی لگایا گیا کہ وہ عام لوگوں کے گھروں کو محاذ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ‏

یہ پہلا موقع ہے کہ کابل کے کٹھ پتلی اور مجرم حکام نے عام شہریوں کی شہادت صرف چند الفاظ پر مبنی  بیان جاری کیا ۔

تقریباً ایک ہفتے میں کفار کی جانب سے یہ تیسری وحشت  ہے جس میں سینکڑوں عام شہری شہید ہوئے ہیں۔ ‏

اس سے قبل ننگرہار کے ضلع شیرزاد ، اروزگان کے ضلع ضلع درویشان، قندوز کے ضلع چہاردرہ، قندہار کے ضلع میوند، لغمان کے ضلع ‏علیشنگ، فاریاب کے ضلع غورماچ، ہلمند کے ضلع نادعلی، خوست کے ضلع علی شیر، پکتیکا کے ضلع بانجو،زرمت اور شاہی کوٹ، پروان ‏کے ضلع سیاگرد سمیت مختلف علاقوں میں کٹھ پتلی انتظامیہ کے مستقل ہدایات اور اہداف کی نشاندہی کے بعد امریکی جارحیت پسندوں ‏فضائی حملوں میں سیکڑوں عام شہری شہید ہوئے ہیں۔ لیکن کابل کی کاسہ لیس حکومت نے ہمیشہ اس قسم کے واقعات پر خاموشی اختیار ‏کی ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کٹھ پتلی حکومت کی جانب سے جان کیری کے ساتھ سیکورٹی کے نام پر جس معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں وہ ‏صرف اس لیے تھی کہ امریکی جارحیت پسندوں کو افغانستان میں کہیں بھی مجاہدین کے خلاف ہر قسم کے فضائی اور زمینی آپریشن کی ‏مکمل اجازت ہوگی۔ ‏

نومبر 2014 ء میں نیویارک ٹائمز نے اپنے ایک رپورٹ میں لکھا کہ ” اشرف غنی اور اس کے مشیر حنیف اتمر نے مشترکہ طور پر ‏امریکی فوجی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مجاہدین کے خلاف آپریشن میں ماضی کی نسبت تیزی لائے۔

پتلی صدارتی حکام نے اس قسم کے بدنام معاہدے کے ذریعے  امریکی وحشیوں کو ہر قسم کے ظلم وستم کی اجازت دے رکھی ہے۔ اسی ‏لیے اب  محض لفظی مذمت بھی نہیں کرتے اور اگر کریں گے بھی تو امریکی ڈالر کے دورازے اور اقتدار سے محرومی کا خطرہ  ان ‏غلاموں کو درپیش ہوگا۔ ‏

یہی وجہ ہے کہ اس قسم کی مسلسل جنگی جرائم کے باوجود کٹھ پتلی حکمران طبقہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

دوسری وجہ مذمت نہ کرنے کی  یہ ہے کہ امریکی جارحیت پسندوں نے بار بار اپنے بیانات میں کہا ہے کہ ہمیں ہدف افغان ایجنٹ ہی ‏فراہم کرتے ہیں اور کٹھ پتلی حکام کا بھی کہنا ہے کہ ہم مجاہدین کے خلاف آپریشن میں امریکی جارحیت پسندوں کا بھر پور ساتھ دیتے ‏ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان تمام جنگی جرائم کے اصل عامل یہی کٹھ پتلی حکام اور اہل کار ہیں  جو غیر ملکی طیاروں کے ‏لیے اہداف کی نشاندہی کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے واقعات کے بارے میں وہ مذمت سے گریز کرتے ہیں۔

لیکن کابل کی کاسہ لیس  حکام یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ افغان عوام تمام واقعات کو اپنے آنکھوں سے دیکھ رہی ہے وہ ان تمام ‏واقعات اور سانحات کے مجرموں کو اچھی طرح جانتی ہے اور وہ دن دور نہیں کہ وہ ان تمام مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ ‏ان تمام  جرائم  کا حساب کفار اور ان کے ایجنٹوں سے لیا جائے گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ