شہیدملاسیف الرحمن منصورکی شہادت کادسواں  سال

عبدالرؤف حکمت پیدائش: ملا سیف الرحمن منصور نے تقریباً 42 سال قبل صوبہ پکتیا ضلع زرمت کے علاقے سہاکو کے ایک گاوں  ہیبت خیل میں  شہیدمولوی نصراللہ منصور کے گھر میں  آنکھ کھولی۔ آپ کا گھرانہ ایک دینی او ر علمی گھرانہ تھا۔ملا سیف الرحمٰن منصور کے والد مولوی نصراللہ منصور [جن کا اصلی نام […]

عبدالرؤف حکمت

پیدائش:

ملا سیف الرحمن منصور نے تقریباً 42 سال قبل صوبہ پکتیا ضلع زرمت کے علاقے سہاکو کے ایک گاوں  ہیبت خیل میں  شہیدمولوی نصراللہ منصور کے گھر میں  آنکھ کھولی۔ آپ کا گھرانہ ایک دینی او ر علمی گھرانہ تھا۔ملا سیف الرحمٰن منصور کے والد مولوی نصراللہ منصور [جن کا اصلی نام فضل الرحمٰن منصورتھا لیکن بعد میں  وہ نصراللہ منصور کے نام سے مشہور ہوگئے]ظاہر شاہ کے دور سے اپنے علاقے میں  اور ملکی سطح پر بھی ایک مشہور دینی عالم اور سیاسی رہنما تھے۔وہ غزنی کے نور المدارس فاروقیہ سے فارغ التحصیل تھے اور علما ءکی خدام الفرقان نامی دینی تنظیم کے اہم ذمہ داروں  میں  سے ایک تھے۔

مولوی نصراللہ منصور افغانستان کی سیاسی و دعوتی سرگرمیوں  میں  حصہ لینے کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کا فریضہ بھی سرانجام دیتے تھے ،اس مقصد کے لئے انہوں  نے اپنے گاوں  [ہیبت خیل ] میں  تدریسی حجرہ کھول رکھا تھا۔

سیف الرحمٰن منصور ،مولوی نصر اللہ منصور کے دوسرے بیٹے تھے، انہوں  نے اپنے عالم اور مجاہد والد کے سائے میں  پرورش پائی ، اس طرح بچپن ہی سے ان کی تربیت ایک علمی اورجہادی ماحول میں  ہوئی۔

تعلیم:

ملا سیف الرحمٰن منصور نے اپنے تعلیمی سلسلے کا آغاز اپنے آبائی علاقے ہیبت خیل میں  اپنے والد صاحب کے مدرسے سے کی۔لیکن جب داؤد خان کے دور میں  سیاسی سرگرمیو ں  پر پابندی لگا دی گئی اور بالخصوص دینی سیاسی علماءکے لئے حالات بہت تنگ ہوگئے تو حالات کی سختی کی وجہ سے مولوی نصراللہ منصور شہید اپنے اہل و عیال سمیت ہیبت خیل کو چھوڑ کر غزنیکے ضلع زرمت کے علاقے شاہی کوٹ کی طرف نقل مکانی کر گئے اور وہاں  امامت و تدریس اور اصلاحی و سیاسی سرگرمیاں  شروع کیں ۔ملا سیف الرحمٰن نے یہاں  بھی اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔لیکن جب بعد میں  حالات زیادہ سخت ہوگئے تومولوی نصراللہ صاحب ،اپنے خاندان کو واپس آبائی گاؤں  بھجوا کر خود ڈیورنڈ لائن کے اس طرف [میران شاہ ] شمالی وزیرستان چلے گئے ۔

کچھ عرصے بعد جب افغانستا ن پر کمیونسٹوں  کا قبضہ ہو گیا اور ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا تو سیف الرحمٰن بھی اپنے باقی گھر والوں  کے ساتھ ہجرت کر کے پہلے شمالی وزیرستان اور پھر پشاور چلے گئے۔ملا سیف الرحمٰن نے کچھ عرصہ خیبر پختونخواہ میں  ڈیرہ اسمٰعیل خان کے علاقے کلاچی میں  جامعة نجم المدارس اور پھر گوجرانوالہ میں  جامعہ عربیہ میں  تعلیم حاصل کی ۔پھر کا فی عرصہ پشاور میں  مدرسہ جامعہ نور المدارس فاروقیہ میں  زیرِ تعلیم رہے ۔

یہاں  انہوں  نے جماعت نہم تک تعلیم حاصل کی لیکن پھر جہادی مصروفیت کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔عمومی تعلیم کے علاوہ انہوں  نے اسلامی دعوت و سیاست کے موضوع پر کچھ مخصوص کورس بھی کیے تھے۔مولوی نصراللہ شہید سالانہ چھٹیوں  میں  طلباءکے لئے ان کورسز کا انتظام کرتے تھے۔اس کے علاوہ حربی و انتظامی تربیت انہوں  نے کئی دفعہ حاصل کی تھی۔روس کے جہاد کے دور میں  ملا سیف الرحمٰن نے ایک تربیتی مرکز میں  اپنے بہت سے دوستوں  کے ساتھ ہلکے اسلحے کے ساتھ ساتھ ،کچھ بھاری اسلحے [مثلاً RPG راکٹ،82 mm[ہشتہ دو]، اور SPG-9 وغیرہ ] کی تربیت بھی حاصل کی ۔اسی طرح کمیونسٹ جہا د کے آخری سالوں  میں  پکتیا میں  انہوں  نے ٹینک ،توپچی اور نقشے پڑھنے کے عملی دورے۔

بیعتِ طریقت:

ملا سیف الرحمٰن نے جہاں  اسلحے سے کفار کے خلاف جہا د کیا وہاں  نفسِ امارة اورشیطان سے دفاع کا بھی اہتمام کیا۔جیسا کہ ان کے والد مولوی نصراللہ شہید ،کابل ،قلعہ جواد کے حضرت ضیاءالمشائخ ابراھیم مجدد ی ؒ سے بیعت تھے۔اسی طرح ملا سیف الرحمٰن بھی نقشبندیہ مجددیہ سلسلے کے مشہور صوفی اور سالک تھے۔

ملا سیف الرحمٰن نے پہلے خلیفہ صاحب فضل دین مرحوم[المشہور ارغندی خلیفہ صاحب ]کی بیعت کی پھر ان کی وفات کے بعد زرمت میں  خلیفہ صاحب دین محمد اور وردگ [جغتو]میں خلیفہ احمد ضیاءصاحب سے مستقل نسبت قائم کی ۔

ملا سیف الرحمٰن تصوف کی راہ کے ایک متقی مسافر تھے ۔جہادی مصروفیات کے دوران اپنے ساتھیوں  کے لئے غیر معمولی معمولات مقرر کرتے تھے۔ مثلاً پانچ وقت باجماعت نماز کے بعد پانچ سورتوں  [بالترتیب فجر سے عشاءیٰسین،فتح،نباء،نوح اور الملک ]کی تلاوت ،صبح فجر کے بعد نیند کی بجائے اذکار اور ورزش اور عصر کے بعد ختم خواجگان ان کے معمولات میں  سے تھے۔ملا سیف الرحمٰن نے اپنے زندگی کے آخری ایام تک تصوف کے کئی مراحل طے کر لئے تھے ۔ان کے مجاہدساتھی جہا د کے مختلف مراحل کے دوران ان کی کرامات کے قصے بیان کرتے ہیں  ۔ان میں  سے سب سے بڑی کرامت ان کی شہادت کے موقع پر ظاہر ہوئی۔

کمیونزم کے خلاف جہاد اور امارت ِ اسلامی میں  ان کی خدمات:

بچپن سے ہی ملا سیف الرحمٰن کی تربیت جہادی ماحول میں  ہوئی تھیاور ان کا دل جہاد کے عشق اور جذبے سے سرشار تھا۔ ان کے بچپن کے ایک دوست قاری اکمل کہتے ہیں  کہ:

جب ملا سیف الرحمٰن ۲۱ سال کے تھے اورڈیرہ اسمٰعیل خان کے علاقے کلاچی میں  پڑھ رہے تھے ،جب بھی کوئی دعا ہوتی وہ بہت زیادہ رویا اور بے دریغ آنسو بہا یا کرتے تھے۔قاری اکمل کہتے ہیں  کہ ایک دن میں  نے ان سے پوچھاکہ آپ اتنا کیوں  روتے ہیں ؟ملا سیف الرحمٰن نے جواب دیا: بھائی ہم یہاں  مدرسے میں  آرام سے بیٹھے ہیں  اور آج کے دن نہ جانے کتنے مجاہدین افغانستان کے پہاڑوں  پر شہادت پا گئے ہیں ۔میں  اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ مجھے جوانی نصیب کرے تو میں  بھی مجاہدین کی صفوں  میں  شامل ہو کر اللہ کے راستے میں  لڑوں  اور اللہ سبحانہ تعالیٰ مجھے شہادت کی موت سے سرفراز فرمائے۔

اسی فطری جہادی جذبے کی وجہ سے ملا سیف الرحمٰن نے اپنی ساری صلاحیتیں  اور ساری جوانی جہاد میں  کھپا دی۔سولہ سال کی عمر میں  پہلی دفعہ انہوں  نے روس اور اس کی غلام کمیونسٹ فوج کے خلاف جہادی کاروائی میں  شرکت کی اور زخمی بھی ہوئے۔اور اسی طرح صوبہ خوست میں  بھی مصروفِ جہاد رہے۔سال ۷۸۹۱۔۹۸۹۱ میں  صوبہ پکتیا کے ضلع زرمت میں  متعدد کاروائیوں  میں  حصہ لیا۔اِسی دوران وہ گردیز کے دفاعی پوسٹوں  پرایک حملے میں  زخمی ہوئے۔۹۸۹۱ میں  جب کمیونسٹ گِلَم جَم ملیشیا نے ضلع زرمت پر حملہ کیا تو اس وقت ملا سیف الرحمن ایک جہادی گروپ کے مسﺅل تھے۔

جب کمیونزم کے خلاف جہادِ افغانستان کامیاب ہوا تو ملا سیف الرحمن گردیز میں  اپنے گھر پر مقیم ہوئے۔۱۸۳۱۔۱۱۔۰۲ ھ ش میں  جب مولوی نصراللہ منصور دشمن کے ایک بزدلانہ حملے میں  شھید ہوئے تو ملا سیف الرحمن پر مجاہد ساتھیوں  کی دیکھ بال اور گروپ کی مسﺅلیت کے ساتھ ساتھ گھریلو ذمہ داریوں  کا بوجھ بھی پڑ گیا۔اس کے ساتھ ساتھ پکتیا کے علاقے گردیز کی پندرہویں  راہداری کی ذمہ داری بھی تھی اور مولوی منصور شہید کےمجاہدساتھیوں  میں  بھی یہ بڑے سمجھے جاتے تھے۔ان کی ذمہ داریوں  میں  علاقے کی امن و امان کی صورتحال کو صحیح رکھنا اور مجاہد ساتھیوں  کی عسکری و انتظامی تربیت کرنا تھا۔وہ علاقے کے چور اور لٹیروں  کے سامنے ڈٹ گئے۔انہی کے ساتھ ایک جھڑپ میں  ان کی تین انگلیاں  کام آ گئیں ۔

جب عام فساد کے خلاف طالبان اور دینی علماءنے تحریک شروع کی تو ملاسیف الرحمٰن منصور اور ان کے ساتھیوں  [جن میں  سے اکثر طالب علم تھے] نے ایک وفد قندھار بھیجا اور اس کے فوراً بعد ان کی حمایت کا اعلان کردیا۔اس کے بعدان کے دوستوں  کا ایک گروپ کاروان کی شکل میں  طالبان میں  شمولیت کے لئے قندھار کی طرف روانہ ہوا۔یہ لوگ ابھی خرنی اور شلگر سے ہوتے ہوئے مقر تک پہنچے تھے کہ طالبان بھی اس علاقے میں  پہنچ گئے اور یہاں  یہ لوگ اکٹھے ہو گئے اور غزنی کی طرف پیش قدمی شروع کی ۔جب غزنی پر حملہ ہونے والا تھا تو ملاسیف الرحمٰن نے پکتیا کی طرف سے خود چند ٹینکوں  اور مسلح ساتھیوں  سمیت کاروائی میں  حصہ لیا۔یہ کاروائی ملا سیف الرحمٰن کی طرف سے اسلامی امارت کے تحت پہلی کاروائی تھی ۔ غزنی فتح ہونے کے بعد امارتِ اسلامی نے ٹینک اور توپخانے کی مسؤلیت ملا سیف الرحمٰن اور ان کے ساتھیوں  کے سپرد کر دی۔کیوں  کہ ملا صاحب کے ساتھیوں  نے ا س شعبے میں  پہلے سے تربیت حاصل کر رکھی تھی اس لئے انہوں  نے غزنی میں  موجود ٹینکوں  کو سنبھال لیااور اسی طرح قندھار سے بھی کچھ ٹینک چلا کر غزنی لے آئے۔اس کے بعد ملا سیف الرحمٰن نے میدان شار،لوگر اور چہار اسیاب میں  امارت ِ اسلامی کے فاتحانہ معرکوں  میں  شرکت کی یہاں  سے فراغت کے بعد کابل کی فتح سے قبل پکتیکا کے علاقے ارگون میں  پری نامی ایک بدمعاش کے خلاف کاروائی کی ۔اس کے بعد امارت ِ اسلامی کے ذمہ داروں  کے ایک کاروان کے ساتھ ایک گروپ کے مسؤل کے طور پرپکتیا سے ایک سفر کی ابتداءکی جس میں  زازئی،سپینہ شگہ ، ازرہ اور حصارک کے علاقے تصفیہ کے گئے اور بعد میں  جلال آباد کاکنٹرول بھیس نبھال لیا۔اس کے بعد کابل فتح ہوا اور احمد شاہ مسعود کو پنجشیر کے علاقے دالان سنگ تک پسپا کردیا گیا۔

فتحِ کابل کے بعد ملا سیف الرحمن نے قرغہ کے فرقہ نمبر ۸ کے معاون اور ٹینک یونٹ کے مسؤل کے طور پر اپنے کام کا آغاز کیا۔ افغانستان پر صلیبی حملے تک ملا موصوف ان ذمہ داریوں  کو انجام دیتے رہے۔اس دوران کابل کے شمالی جنگی محاذوں پر بھی جنگ میں  شرکت کی اور کافی عرصہ شکر درہ کے خطِ اول کے مسؤل بھی رہے۔

شمال میں  امارتِ اسلامی کی تمام پیش قدمیوں  میں  ملا منصور شامل رہے اور اسی دوران اِن کے ایک بھائی ملا منصور رحمن منصور بھی جامِ شہادت نوش کر گئے۔جب1998ء میں  امارتِ اسلامی کے مجاہدین نے سالنگ کا ٹنل عبور کیا تو ملا سیف الرحمن اور اِن کے دوست بھی اس عظیم کاروان میں  شریک تھے۔ان عملیات کے دوران ملا سیف الرحمن پلِ خمری کے نزیک رباتگ کے علاقے میں  پیٹ میں  گولی لگنے سے شدید زخمی ہوئے جس کے بعد اِن کو علاج کی خاطر ہیلی کاپٹر میں  کابل منتقل کیاگیا۔

اس کے بعد کابل کے علاقے شکردرہ میں  مسؤلیت کے دوران مارٹر گولہ کے چندٹکرے لگنے سے ان کے داہنے ہاتھ کی کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی جس سے ان کا ہاتھ مکمل طور پر ناکارہ ہو گیا۔دوسرے ہاتھ کی صرف دو چھوٹی انگلیاں  ٹھیک تھیں ۔کئی بار مسلسل زخموں  کی وجہ سے ان کے دونوں  ہاتھوں  کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی۔بعد میں شمال پر حملے کے دوران جب ملا صاحب اپنے ساتھیوں  سمیت دشمن کے محاصرے میں  آگئے تو نکلنے کا ایک ہی راستہ تھا جس پر ملا صاحب نے غور بند کی طرف پیش قدمی کی۔اس حملے میں  ان کا سر زخمی ہوا لیکن اس دفعہ زخم کی شدت نسبتاََ کم تھی۔

جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو ملا سیف الرحمن شمال میں  جنگی خطوط پر اپنے مجاہد ساتھیوں  سمیت ڈٹے رہے۔ کابل میں امارتِ اسلامی کے سقوط کے بعد ملا صاحب اپنے چند دوستوں  کے ساتھ لوگر چلے گئے۔

اس دوران ملا صاحب نے امارت کے مسؤلین کو مشورہ دیا کہ شمالی اتحاد کی پیش قدمی روکنے کے لئے لوگر یا تیری کے علاقے میں دفاعی خط قائم کیا جائے۔لیکن امریکیوں  کی شدید بمباری اور مصلحت کے پیشِ نظر آمنے سامنے جنگ کی بجائے گوریلا جنگ لڑنے کا فیصلہ ہوا۔پھر ملا صاحب اپنے ساتھیوں  سمیت اپنے علاقے زرمت چلے گئے۔اسی دوران جبکہ حالات بہت سنگین تھے ملا سیف الرحمن جناب امیرالمؤمنین سے ملنے اور ہدایا ت لینے کی خاطر قندھار گئے ،اگرچہ وہ امیر المؤمنین سے تو نہ مل سکے لیکن وائر لیس کے ذریعے امیر المؤمنین نے ان کو ہدایات دیں  کہ مجاہدین کو میرا یہ پیغام پہنچا دیں  کہ پہاڑوں  کا رخ کریں  اور آخری دم تک امریکیوں  کے خلاف جہا د کو جاری رکھیں ۔قندھار سے واپسی پر ملا صاحب نے بلا تاخیر شاہی کوٹ کے پہاڑوں  کا رخ کیا اورجہادی مرکز بنانے اور گوریلا کاروائیاں  شروع کرنے کی تیاری شروع کر دی۔

امارتِ اسلامی کے دور سے ہی ملا سیف الرحمٰن کا مہاجر مجاہدین کے ساتھ خصوصی تعلق اور محبت والا رابطہ تھا۔وہ ہمیشہ اپنے ساتھیوں  کو بھی ان مہاجرین کا خصوصی خیال رکھنے کی تاکید کرتے ۔وہ اپنے ساتھیوں  سے کہا کرتے تھے” ہمیں  تو شاید مقامی ہونے کی وجہ سے یہ خیال آجائے کہ ہمارا علاقہ یا ہماری حکومت ہے لیکن یہ لوگ خالص اللہ کے دین کے لئے اپنے وطن چھوڑ کر ہمارے دست وباز بننے یہاں  آئے ہیں  “۔

کابل کے سقوط کے بعد مہاجر مجاہدین کی اکثریت اپنے خاندانوں  سمیت پکتیا کی طرف منتقل ہوگئی۔اگرچہ ان میں  نوجوان اور بزرگ بھی تھے لیکن زیادہ تعداد لاوارث خواتین اور بچوں  کی تھی جن کے سر پرست یا تو شہید ہوگئے تھے یا پھر شمال کی طرف گھیرے میں  پھنس گئے تھے ۔

ان مہاجرین میں  سے قابل ِ ذکر ،قاری محمد طاہر فاروق،ابوخباب المصری ،عبد الرحمٰن کینیڈی،شیخ ابو علی،ابو اللیث الیبی،سیف العادل،ابو مصعب السوری،زید الخیر ،ابو محمد اور عبد الہادی وغیرہ تھے اس کے علاوہ بہت سے عر ب ،چیچن ،ازبک اور ترکستانی مجاہدین اور ان کے خاندان بھی تھے ۔

ملا سیف الرحمٰن منصور نے اپنے جنوبی وزیرستان کے ایک قریبی دوست نیک محمد شہید ؒ کے ساتھ مل کر مہاجرین او ر ان کے خاندانوں  کے افغانستان سے محفوظ انخلاءاور اپنے وطنوں  کو واپسی کا انتظام کرنا شروع کیا تاکہ ہزاروں  مہاجر مجاہدین اور خواتین امریکی درندوں  کے ظلم سے محفوظ رہ سکیں ۔پہلے مرحلے میں  ملا صاحب نے مہاجرین کو زرمت،پکتیا اور پکتیکا میں  مقامی لوگوں  کے ہاں  ٹھہرانے کا انتظام کیا ،اس دوران نیک محمد شہید نے وزیر ستان میں  ان کے لئے جگہوں  کا بندوبست کیا ۔مہاجرین کے پاس موجود گاڑیاں  اور دیگر چیزیں  وغیرہ بیچ کر یہ رقم زادِ راہ کے طور پر ان کو دی گئی پھر ایک خفیہ اور منظم پروگرام کے ذریعے مجاہدین کی خواتین اور بچوں  کو وزیرستان کے ذریعے کراچی کے ساحل تک پہنچایااور پھر یہاں  سے سمندری یا فضائی راستوں  کے ذریعے اپنے ملکوں  کو روانہ کیا گیا۔ اس طرح عرب مجاہدین کے کئی خاندان محفوظ اور باعزت طریقے سے اپنے گھروں  تک پہنچ گئے ۔

مہاجرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ ملا سیف الرحمٰن اور ان کے ساتھیوں  نے امریکہ کے خلاف مزاحمت کو منظم کرنے پربھی بھرپور توجہ دی ۔چنانچہ انہوں  نے ضلع زرمت کے جنوبی علاقے شاہی کوٹ کے پہاڑوں  [ جہاں  روس کے زمانے میں  بھی مجاہدین کا ایک مضبوط مرکز تھا]میں  مرکز بنایا۔گردیز اور دیگر علاقوں  سے ہلکا اور بھاری اسلحہ یہاں  منتقل کیا گیا اور اس کے علاوہ شاہی کوٹ کے درے کے چاروں  طرف مضبوط مورچے بنا کر ان پر طیارہ شکن گنیں  نصب کی گئیں ۔مجاہدین نے دسمبر ۱۰۰۲ءسے لے کر مارچ ۳۰۰۲ءتک شدید سردی اور انتہائی سخت حالات کے باوجود اس مرکز کو مضبوط بنانے کا کا م جاری رکھا۔یہ وہ وقت تھا جب غا صب امریکی فوج فضائی اور زمینی ذرائع سے ہر جگہ مجاہدین کو تلا ش کرتی پھر رہی تھی اور ساری مجاہد افغان قوم سخت عدم اطمینا ن اور بے چینی کا شکار تھی ۔

ملا سیف الرحمٰن نے ان سخت آزمائشی حالات میں  صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کیا،نامساعد حالات، اسلحے اور ساتھیوں  کی کمی اور تنہائی ان کے عزم کو ذرا بھی متزلزل نہ کر سکی اور نہ ہی انہوں  نے جہاد کے عقل پرست مخالفین کے اس واویلے پر کوئی توجہ دی کہ ملا سیف الرحمٰن کی امریکہ کے خلاف مزاحمت صرف پاگل پن اور بغاوت ہے ۔ملا سیف الرحمٰن نے اپنے دوستوں  اور مخالفین پر حجت تمام کرنے کے لئے ایک دن انہیں  ضلع زرمت کے مرکز کے قریب ایک کچی مسجد میں  اکٹھا کیا۔پہلے انہوں  نے سب کے خیالا ت سنے،ہر کسی کی رائے مختلف تھی ۔پھر انہوں  نے سارے حاضرین کو مخاطب کر کے واضح الفاط میں  کہا” اگرچہ میں  پورا عالم نہیں  ہوں  لیکن الحمدللہ مجھے اتنا علم ہے کہ امریکی کافر حملہ آور ہیں  اور ان کو نکالنے کے لئے جہاد فرض ِ عین ہے اور اس کے ساتھ ہمارے شرعی امیر عالی قدر امیرالمؤمنین نے بھی مجھے ہدایت کی ہے کہ امریکیوں  کے خلاف جہاد کوہر حال میں  جاری رکھیں  ،میں  آپ سے کوئی لمبی چوڑی بات نہیں  کرتا بس اتنا کہنا چاہتا ہوں  کہ جو کوئی چاہتا ہے کہ ہمارے ساتھ مل کر جہاد کرے ،تو اسے بیعت بالشھادة کرنی پڑے گی۔ہمارے سامنے جہا د کے علاوہ کوئی راستہ نہیں  ہے ۔

شاہی کوٹ میں  امریکیوں  کے خلاف جنگ:

ملا سیف الرحمن منصور کی قیادت میں  مجاہدین نے منصوبہ بنایا کہ اس اہم سٹریٹیجک علاقے میں  ایک مضبوط مرکز کے قیام کے بعد موسم گرم ہوتے ہی میدانی علاقوں  میں  امریکیوں  کے خلاف ایک گوریلا جنگ شروع کر دیں ۔ ان میں  پکتیا ، پکتیکا اور غزنی کے مجاہدین کے علاوہ مہاجر مجاہدین بھی تھے جن میں  اکثریت قاری طاہر جان کے ساتھیوں  کی تھی اور ان سب کی تعداد تقریباََ100 کے قریب تھی۔۳ مارچ ۲۰۰۲ کو امریکیوں  نے سابقہ اطلاعات کی بنیا د پر اس علاقے پر حملہ کر دیا اور ساتھ ہی مجاہدین نے بھیزبردست مزاحمت شروع کردی۔امریکی کمانڈوز کے ساتھ افغان مجاہدین کی یہ پہلی لڑائی تھی جو تقریباََ دو ہفتے تک جاری رہی۔اس لڑائی میں  امریکیوں  کے علاوہ ڈنمارک، آسٹریلیا، کینیڈا،فرانس، جرمنی اور ناروے کے مخصوص فوجی دستوں  نے حصہ لیا۔

اس لڑائی کے دوران مجاہدین کی نہایت موثر منصوبہ بندی کی وجہ سے امریکی فوج کے زمینی دستے کو مجاہدین نے اس پیچیدہ پہاڑی علاقے میں  گھیرکر واصل جہنم کیا۔مجاہدین نے اپنے تمام تر علاقے میں  اینٹی ائیر کرافٹ گنیں  نصب کی تھیں  اور انہوں  نے دشمن کو مکمل موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی افواج کو زمین پر اتار دیں ۔ لیکن جب بھی دشمن کے ہیلی کاپٹر افواج کو اتارنے کے بعد چلے جاتے تو مجاہدین ان پیدل افواج پر حملہ کرتے اور نصب شدہ اینٹی ائیر کرافٹ کے ذریعے ہیلی کاپٹر کو یہ موقع نہ دیتے کہ اپنی افواج کو جنگ کے علاقے سے واپس لے جائے۔

امریکیوں نے اس آپریشن کے دوران جس کو امریکا نے اناکونڈا[اژدہا]کا نام دیا تھا ، کہا کہ اس لڑئی میں  10،000 ہزر سے زیادہ بم برسائے گئے جس میں  زہریلے، کیمیائی اور آکسیجن ختم کرنے والے بم بھی شامل تھے۔لڑائی کے تیسرے دن شاہی کوٹ کے پہاڑوں  پر زبردست برف باری ہوئی اور درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے گر کیا جس کی وجہ سے دشمن کے زہریلے ہتھیاروں  نے مجاہدین کو قابل ذکر نقصان نہیں  پہنچایا۔

لڑائی کے دو ہفتے بعد 18مارچ ، 2002ءکو افغانستان میں  امریکی فوج کے سربراہ جنرل ٹومی فرینکس نے اس آپریشن کے خاتمے کا اعلان کیا ۔اس نے واضح الفاظ میں  کہا کہ اس آپریشن میں  2 ہیلی کاپڑ تباہ،8فوجی مردار اور 82 فوجی زخمی ہوگئے۔لیکن جو کچھ جنگ میں  موجود مجاہدین نے دیکھا یا جنگ میں  موجود فوجیوں  نے جنگ کے بارے میں  بعد میں  لکھا،اس نقصان سے کئی گنا زیادہ تھا جس کا ٹومی فرینکس نے اعلان کیا تھا۔

مثلاََ ایک امریکی فوجی[سارجنٹ براون]نے شاہی کوٹ کےمعرکے پہلی دن کی لڑائی کے بارے میں  لکھا ہے کہ :

” لڑائی کے پہلے دن جنگ کی ابتداءکے چند لمحوں  بعد فوجیوں  سے بھر ا ایک ہیلی کاپٹر مار گرایا گیا،جس میں  سے اکثر فوجی ہلاک اور باقی زخمی ہوئے۔میں  طبی امداد کے ٹیم میں  تھا،ہماری پوری کوشش تھی کہ اپنے زخمی فوجیوں  کو محفوظ مقام تک پہنچا دیں ۔ہم زخمیوں  کی طرف چل پڑے ، ان تک ابھی 20 میٹر کا فاصلہ تھا کہ ہمارے اوپر میزائلوں  اور چھوٹے اسلحے کی فائرنگ شروع ہو گئی۔طبی امداد کی ٹیم کے ۴ فوجی اہلکار بھی ہلاک ہو گئے۔اس دن ۴۱ گھنٹے لڑائی جاری رہی ۔دشمن ہمارے اتنا قریب تھا کہ ہمارے جہاز جو 500 کلو وزنی بم لیئے ہوا میں  پرواز کر رہے تھے ، کو اجازت نہ دی گئی کہ بمباری کریں  کیوں  کہ خود ہمیں  بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔بعد میں  پتہ چلا کہ ہمارے ۸ امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ “ [کتاب:افغانستان کے بعد افغان کے بابِ چہارم سے اقتباس]

اس معرکے میں  امریکیوں  کے بہت ہیلی کاپٹر مجاہدین نے مار گرائے۔ چونکہ میدان جنگ بہت وسیع تھا اور مختلف جگہوں  پر لڑائی جاری تھی اور خود امریکی بھی کوشش کر رہے تھے کہ ان کے مالی و جانی نقصان کو منظر عام پر نہ لایا جائے ، اس لئے نقصان کی دقیق تفصیل بتانا مشکل ہو گا لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق دشمن کے ۵ سے زائد ہیلی کاپٹر تباہ اور 100سے زائد فوجی مردار ہوئے۔

اس معرکے میں  40 کے نزدیک مجاہدین شہید ہوئے جن میں  مجاہدین کے امیرِ لشکر جناب ملا سیف الرحمن منصور اور ان کے جنگی معاون ملا فدا محمد جواد بھی شامل تھے۔

شاہی کوٹ کا معرکہ کوئی عام معرکہ نہیں  تھا۔اس معرکے میں  امریکی جنگی ٹیکنالوجی اوران کی فوجی برتری کاجو جھوٹا پراپیگنڈاکیا گیا تھا، اس کی حقیقت کھل کے سامنے آئی۔دو ہفتے بعد اگرچہ امریکیوں  نے آپریشن بند اور اس کے کامیا ب ہونے کا اعلان کیا لیکن اس معرکے کے بعد پورے ملکمیں  مزاحمت نے ایک نئی شکل اختیار کی۔

ملا سیف الرحمن منصور کی شہادت:

ایک سچے مجاہد کی طرح ملا سیف الرحمن منصور بھی آغاز سے شہادت کے طالب تھے۔جنگ شروع ہونے سے پہلے ملا صاحب ’ثابت‘ کے مستعار نام سے مخابرے کے ذریعے تما م مجاہدین کے ساتھ رابطے میں  تھے اور جنگی صورتحال کنٹرول کر رہے تھے۔جنگ کے دوران ملا صاحب کئی بار شدید بمباری کے زد میں  آئے لیکن اللہ نے انہیں  بچائے رکھا یہاں  تک کہ جنگ کے ساتویں  دن19/12/1381 ھ ش بمطابق10/03/2002ء اللہ نے ان کی شہات کی دلی تمنا پوری کر دی۔

ملا صاحب کے چھوٹے بھائی ملا عبدالرحمن منصور جو کہ خود شریکِ جنگ تھے،کہتے ہیں  کہ:

”ہمیں  جواد صاحب کی شہادت کی اطلاع تھی اور ان کی لاش لینے نکل پڑے۔یہ عصر کاوقت تھا اور ہم شاہی کوٹ کے جنوبی حصے میں  واقع مارزکو نامی گاؤں  میں  ایک نالے کے کنارے جا رہے تھے کہ ہم نے ایک بہت ہی میٹھی خوشبو محسوس کی۔ اسی خوشبو کے تعاقب میں  میں  اور مجاہد ساتھی چل پڑے۔تقریباََ 20 میٹر کے فاصلے پر ہمیں  چند لاشیں  ملیں  جن کے ارد گرد بمباری کے واضح نشانات تھے۔میں  نے ارد گرد کے درختوں  میں  لٹکے ہوئے قمندان صاحب[ملا سیف الرحمن] کی خاکی رنگ کی ملتانی پگڑی کے ٹکڑے پہچان لئے۔ایک لاش سے بہت ہی پیاری خوشبو آرہی تھی۔اس کا سر جسد پر نہیں  تھا۔میں  نے ان کے الٹے ہاتھ اور پیٹ پر لگے زخم کے نشانات سے پہچان لیا کہ یہ قمندان صاحب[ملا سیف الرحمن] ہیں ۔ان کے ساتھ چار لاشیں  اور پڑی تھیں  ، جن میں  ایک فضل محمد کی لاش تھی جو ضلع زرمت کا مجاہد تھااور تین باقی مہاجر مجاہدین تھے۔اسی گھڑی ان کی لاشوں  کی تدفین کا بندوبست کیا گیا۔ملا سیف الرحمن صاحب کے لاش کو ہم زرمتلے گئے اور چند راز دار علماءکی موجودگی میں  ان کو سپردِخاک کیا۔

مجاہدین کا مورال بلند رکھنے کے لئے ملا صاحب کی شہادت کو اتنا مخفی رکھا گیاکہ خود امریکیوں  کو بھی چند سال گزرنے کے بعد تک پتہ نہ چلا اور چند سال بعد بھی ملا سیف الرحمن صاحب کی تصویر جہازوں  کے ذریعے زمین پرگراتے رہے اور ان کے سر پر انعام مقرر کرتے رہے، جو امریکیوں  کی خفیہ ایجنسیوں  کے ضعف کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔

شہید ملاسیف الرحمن منصور کے تقویٰ اور دیانت کے کچھ واقعات:

ملاصاحب کو اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی سے تقویٰ، خوش اخلاقی اور دیانت جیسی بہترین صفات سے نوازا تھا۔ان کے اخلاق حسنہ کو اگر تفصیلاََ بیان کیا جائے تو مضمون بہت طویل ہو جائے گا اس لئے چند واقعات پرہی اکتفا کرتے ہیں ۔

عبادت اور تہجد کے ساتھ لگاؤ:

ملاسیف الرحمن کے بچپن کے دوست قاری اکمل کہتے ہیں  کہ:

” جب ملا صاحب 13 سال کے تھے اور گوجرانوالہ کے مدرسہ عربیہ میں  زیر تعلیم تھے،سخت سردی کے دن تھے۔رات کو جب میری آنکھ کھلی تو ملا صاحب اپنی بستر پر نہیں  تھے۔مجھے فکر لاحق ہوئی اور میں  ان کی تلاش میں  باہر نکلا، ہر جگہ دیکھا لیکن وہ نہیں  ملے۔ آخر کار میں  مدرسے کی چھت پر چڑھا۔وہاں  دیکھا کہ ملا صاحب نے اس سخت سردی میں  صرف کپڑے پہنے ہوئے تھے اور تہجد پڑھ رہے تھے۔ میں  بھی ان کے پیچھے چپ کھڑا رہا ۔ نماز ختم کرنے کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور دعا کے دوران رونا شروع ہو گئے اوراس وجہ سے ان کی آواز تھوڑی بلند ہو گئی۔وہ اللہ تعالیٰ کو ایسے الفاظ سے مخاطب کر رہے تھے جس طرح کہ وہ اللہ کو دیکھ رہے ہوں  اور اللہ سے فریادیں  کر رہے تھے۔یہ حالت کافی دیر تک رہی، آخرکار میں  سردی سے تنگ آکر واپس نیچے چلا گیا۔صبح صادق کے نزدیک مجھے ان کے واپسآنے کا پتہ چلا ،میں  نے پوچھا آپ کدھر گئے تھے،کہنے لگے کہ”دل بہت بھر آیا تھا، بس دل کی بھڑاس نکالنے گیا تھا“۔

ملا سیف الرحمن کے ایک اور دوست مفتی فیض محمد صاحب اور ان کے بعض اور رفقاءیہ کہتے ہیں  کہ ملا صاحب نے تہجد دورانِ تعلیم، جہاد اور حتیٰ کہ زخمی حالت میں  ہسپتال میں  بھی نہ چھوڑی۔

تقویٰ اور حق گوئی:

ملا صاحب خود متقی ہونے کے ساتھ ساتھ باقی احباب کو بھی تقوٰی کی تلقین کرتے اور کہتے کہ ”دیکھو! یہ تقویٰ اختیا ر کرنا کوئی مشکل کام تو نہیں  ، بس ایک بار اپنے نفس کو پاﺅں  تلے روند ڈالو تو پھر اسے اختیا ر کرنے میں  کوئی مشکل پیش نہیں  آئی گی“۔

مفتی فیض محمد صاحب کہتے ہیں  کہ ملا سیف الرحمن اپنے والد کے ساتھ کہیں  دعوت پر گئے۔وہاں  بہت لوگ آئے تھے۔تب ملا صاحب کے جوانی کے ایام تھے اس دوران انہیں  پتہ چلا کہ میزبانوں  کا اس سے پہلے غیر شرعی کاروبار تھاجب کھانا آیا تو انہوں  نے کھانے کے لئے ہاتھ آگے نہ کیا۔لوگوں  نے بہت زیادہ اصرار بھی نہیں  کیا کہ شاید وہ روزے سے ہوں ۔گھر واپس آکر کھانا طلب کیا اور اپنے والد صاحب ملا نصراللہ منصور شہید سے کہا کہ آپ ایسے لوگوں  کے ہاں  کھانا کیوں  کھاتے ہیں  جن کی کمائی حلال نہ ہو۔اس پر انہوں  نے جواب دیا کہ بیٹا یہ لوگ اب مجاہدین کے غمخواراور ہمدرد ہیں  ، ان کی اب کی کمائی پاک ہے ، اس لئے ان کا کھانا کھانے میں  کوئی شرعی حرج نہیں  ہے۔

بیت المال کے بارے میں  احتیاط:

تحریک کے دوران جب ملا صاحب دوسری بار زخمی ہوئے تو ان کے ہاتھ کی ہڈی بالکل ناکارہ ہو گئی۔ملا صاحب جناب امیرالمؤ منین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ کی ملاقات کے لئے قندھار گئے۔ امیر المؤمنین نے ان سےکہا کہ آپ کو بیرونِ ملک ہاتھ کے علاج کے لئے بھیجتے ہیں ۔اس پر ملا صاحب نے جواب دیا کہ میں  مشہور سرجن[موسیٰ وردگ] سے مشورہ کرتا ہوں  کہ اگر باہر علاج کرانے سے میرا ہاتھ اس قابل ہو جائے کہ اس سے اسلحہ چلاسکوں  ، تو ٹھیک ہے ورنہ فضول میں  بیت المال کا پیسہ کیوں  ضائع کیا جائے۔ڈاکٹر موسیٰ نے ملا صاحب کو بتایا کہ کہیں  بھی علاج کرنے سے یہ ہاتھ تھوڑا بہت ہلنے کے قابل ہو جائے گا لیکن اسلحے کے استعمال کے قابل نہ ہوگا۔اس وجہ سے ملا صاحب علاج اور بیرونِ ملک سفر سے منصرف ہو گئے۔

اسی طرح ان کے ایک دوست[قاری حبیب]قصہ بیان کرتے ہیں  کہ تحریک کے دوران ملا صاحب نے اپنے بھائی کے شادی میں  شرکت نہیں  کی۔میں  نے جب وجہ پوچھی تو پہلے تو کچھ بہانے بنائے بعد میں  صحیح وجہ بتائی کہ جب میں  ادھرگاڑی میں  جاؤنگا تو وہا ں  گاڑی مہمانوں  کو لانے اور لے جانے کے لئے استعمال ہو گی اور میں  نہیں  چاہتا کہ بیت المال کی یہ گاڑی ذاتی کاموں  میں  استعمال کی جائے۔

شریعت کی پابندی :

امارت کے دوران ضلع زرمت کے ایک مولوی صاحب جو کہ ملاسیف الرحمن صاحب کے بہت پرانے اور قریبی دوست تھے ، اور اس علاقے کے دو [۲] اور لوگ جو بہت مال دار تھے اور جنہوں  نے ملا صاحب کے ساتھ بہت مالی مدد بھی کی تھی ، ان سب پر رشوت کا ایک کیس ثابت ہو گیا۔ ملا صاحب نے کابل کے قرغہ میں  ان سب کو اپنی قرارگاہ پر بلایا اور وہاں  سے ان سب کو اپنی گاڑی میں  ڈال کر نظامی عدالت لے گئے۔جہاں  سے ان کو قید کی سزا ہوئی۔اس کام سے ملا صاحب نے یہ ثابت کیا کہ الٰہی قانون اور شریعت کے مقابلے میں  ان کے سامنے دوستی،رشتہ داری اور دوسری ملحوظات کی کوئی اہمیت نہیں  ہے۔

جہاد کے ساتھ محبت:

قاری حبیب کہتے ہیں  کہ کمیونزم کے خلاف جہاد کے دوران اِن کے شادی کے دن آگئے۔اس دوران ملا صاحب مجاہدین کے مرکز میں  جہادی تربیت میں  مصروف تھے۔ان کے والد صاحب نے کئی بار اطلاع بھیجی کہ ان دنوں  میں  آپ گھر آجائیں  لیکن جہاد کے ساتھ محبت کی وجہ سے ملا صاحب نہیں  گئے۔ان کے والد صاحب خودگاڑی میں  آئے اور ملا صاحب کو ہاتھ سے پکڑ کر ساتھ گھر لے گئے۔دوران سفر بھی والد صاحب سے اصرار کرتے رہے کہ مجھے جہادی تربیت حاصل کرنی چاہئے ۔

شوقِ شہادت:

مولوی ذکراللہ ذاکری کہتے ہیں  کہ کمیونزم کے خلاف جہاد کے دوران گردیز کی دفاعی پوسٹوں  پر حملے سے پہلے ملا صاحب نے شوقِ شہادت سے اپنی ٹھوڑی خود باندھ لی لیکن اس حملے میں  ملا سیف الرحمن شہید نہیں  بلکہ زخمی ہوئے۔

اولاد:

شہید ملا سیف الرحمن منصور نے اپنے پیچھے چار بیٹے چھوڑے جو اب بھی دینی تعلیم میں  مصروف ہیں ۔ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں  کہ ان پر ملا صاحب کی برکات رہیں  اور یہ سارے بھی اپنے شہید والد کی طرح دین اور جہاد کے ستون بنیں ۔آمین۔یا رب العالمین۔

٭….٭….٭

آں  پیرلاشہ را کہ سپردند زیر خاک

خاکش چناں  بخورد کزو استخواں  نماند

زندہ ست نام فرّخ نوشیرواں  بعدل

گرچہ بسے گذشت کہ نوشیرواں  نماند

خیرے کن اے فلان وغنیمت شمار عمر

زاں  پیشتر کہ بانگ بر آید فلاں  نماند