شہید حافظ عبدالرحیم صاحب کی سوانح حیات

تحریر: عبدالروّف حکمت افغانستان پر امریکی جارحیت اسلامی دنیا پر   مغرب کی تیسری جارحیت ہے۔ یہ جارحیت گذشتہ دور کی جارحیت کے مقابلے میں ایک بڑی جارحیت تھی۔ اس سے قبل دنیا کے کسی ملک نے دوسرے ملک کے خلاف جنگجوّوں کی اتنی بڑی اتحاد قائم نہیں کی۔ اس سے قبل جنگجوّوں کی سب سے […]

تحریر: عبدالروّف حکمت

افغانستان پر امریکی جارحیت اسلامی دنیا پر   مغرب کی تیسری جارحیت ہے۔ یہ جارحیت گذشتہ دور کی جارحیت کے مقابلے میں ایک بڑی جارحیت تھی۔ اس سے قبل دنیا کے کسی ملک نے دوسرے ملک کے خلاف جنگجوّوں کی اتنی بڑی اتحاد قائم نہیں کی۔ اس سے قبل جنگجوّوں کی سب سے بڑی اتحاد پہلی جنگ عظیم کے دوران قائم ہوئی تھی جس میں کُل تیس ممالک شامل تھے۔ لیکن افغانستان پر جارحیت کرنے والے ممالک کی تعداد پچاس کے قریب ہے۔ جبکہ کئی ممالک کی انٹیلی جنس سپورٹ،مالی اور سیاسی تعاون اس کے علاوہ ہیں۔

عالمِ کفر کا یہ عالمگیر اتفاق جس سے دنیا کے   ممالک مرعوب ہوئے اور ان کی حمایت کا اعلان کیا۔ قابل ِ ذکر بات یہ ہے کہ اس طوفان کے سامنے پل باندھنے والے مجاہدین ذرا برابر بھی ان کی رعب داب کا شکار نہیں ہوئے۔ افغانستان کے مخلص مجاہدین نصرت الہٰی پر توکل کرتے ہوئے کفر اور ان کے کاسہ لیسوں کے خلاف بر سر پیکار رہے اپنے موّقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے اور آخر تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔

مجاہدین کے اس مبارک قافلے   کے ایک بہادر اور مخلص مجاہد کمانڈر، پہاڑ جیسابلند عزم رکھنے والے ، جنہوں نے شہادت تک جہاد ی محاذ کو گرم رکھا یہاں تک کہ اکیلے ہی کفری جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے میدان میں کود پڑے ۔ ان کی بہادری اور   شجاعت کو دیکھ کر بہت سے نوجوان اس راہ کے راہی بنے۔ یہ مجاہد شہید حافظ عبدالرحیم تھے۔ مندرجہ ذیل تحریر میں ان کی جہادی خدمات اور اس راہ میں ان پر آنے والی مشکلات اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوّوں کا مختصراً جائزہ لیا گیا ہے ۔

حافظ عبدالرحیم کا تعارف:

حافظ عبدالرحیم نے 1951 کو صوبہ کندھار کے ضلع بولدک کے علاقے ماشینگزو   میں نصیرالدین آکا کے گھر میں آنکھ کھولی۔ آپ کا تعلق پشتون قبیلے کی ذیلی شاخ نورزئی سے تھا۔آپ کاخاندان ایک دیندار خاندان تھا ۔ جب آپ کی عمر آٹھ سال تھی تو والدہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ دس سال کی عمر میں والد کی نعمت سے بھی محروم ہوئے اس طرح آپ بچپن میں ہی والدین کے پیار اور   شفقت سے رہے ۔

تعلیم و تربیت:

حافظ عبدالرحیم نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کی مسجد میں حاصل کی۔ دس سال کی عمر میں کندھار شہر میں ہرات بازار کے دھنی نامی علاقے میں ایک مدرس امام مسجد سے دینی کتب کی تعلیم کے سلسلے کا آغاز کیا۔ دو سال بعد پاکستان کے سرحدی شہر چمن   میں قاری محمد   ولی صاحب کے مدرسے میں حفظ قرآن کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ بعد پاکستان کے مشہور شہر کوئٹہ میں مدرسہ مظہرالعلوم [ جو   اب شالدرہ مدرسے کے نام سے مشہور ہے] میں حفظ قرآن کا سلسہ جاری رکھا ۔

قرآن کریم کی حفظ کے بعد حافظ صاحب کندھار آئے اور دینی تعلیم کے حصول کیلئے یہاں” لوویالے ” کے علاقے میں مولوی عبدالغفور صاحب کے مدرسے میں داخلہ لیا۔ ایک سال تک اس مدرسے میں حصول علم کے بعد پاکستان کارخ کیا اورمختلف مدارس میں تعلیم حاصل کرتے رہے ۔ 1984 میں آپ نے پاکستان کے شہر صوابی میں شیخ التفسیر مولانا عبدالہادی صاحب [جو شاہ منصوربابا جی صاحب کے نام سے مشہور تھے ] سے قرآن کریم کی تفسیر پڑھی۔

کمیونسٹ دور حکومت میں حافظ صاحب جلال آباد اور کابل کے راستے کندھار پہنچے۔ ملک کے کئی علاقوں کا سفر کیا تاکہ حالات کا جائزہ لیں۔ اس سفر کے بعد جہادی صف میں شامل ہوئے اور پہلی مرتبہ سرحدی علاقے   بادینی سے مجاہدین کے مراکز سے جہاد کا آغاز کیا۔

جہادی صف میں کچھ عرصہ گذارنے کے بعد اپنی دینی تعلیم مکمل کرنے کے سلسلے میں کراچی   تشریف لے گئے۔ وہاں کراچی شہر کے مشہور مدرسے جامعۃ الاسلامیہ بنوری ٹاوّن کراچی میں داخلہ لیااور ۱۴۰۱ ھ میں اسی مدرسے سے دورہ حدیث مکمل کرکے سند فراغت حاصل کی۔

جبہہ فاروقیہ:

دینی علوم سے فارغ ہونے کے بعد   حافظ عبدالرحیم جہادی قافلے میں شامل ہوئے۔ حرکت انقلاب اسلامی تنظیم میں شمولیت اختیار کی اور اس تنظیم کی تشکیلات میں کندھار کے سرحدی ضلع بولدک میں جبہہ فاروقیہ کے نام سے ایک   جہادی جبہے کی بنیاد رکھی۔ اس جبہے کی تاسیس اور اس میں موجود سینکڑوں   مجاہدین کی قیادت کی ذمہ داری بھی حافظ صاحب کے کندھوں پر تھی۔ اس جبہے کا مرکز کندھار کے ضلع بولدک جبکہ اس جبہے کے مجاہدین کندھار کے ضلع تختہ پل میں کارروائیوں میں مصروف عمل تھے۔

ضلع بولدک   کی فتح میں حافظ صاحب نے اہم کردار ادا کیا یہ ضلع ڈاکٹر نجیب کی حکومت سے تین سال قبل فتح کیا گیا تھا۔ اس کامیاب کارروائی میں حافظ صاحب وہ پہلے شخص تھے جو کمیونسٹ مرکز کے اندر داخل ہوئے۔ بولدک کی فتح کے بعد حافظ صاحب کے جبہے کے مجاہدین نے تختہ پل اور کندھار کے نواحی علاقوں کے جہادی محاذوں کا رخ کیا اور اس وقت تک مزاحمت کرتے رہے جب تک کندھار شہر کو کمیونسٹ درندوں کے ناپاک چنگل سے آزادی نہیں ملی۔

کمیونزم کے خلاف جہاد میں بھی حافظ صاحب کا کردار قابل تعریف رہاہے ، کمیونزم کے خلاف جہاد میں آپ کئی مرتبہ زخمی بھی ہوئے   جس کا   ذکر انہوں نے ایک انٹرویو میں بھی کیا ہے ان کا کہنا تھا:

“ایک مرتبہ   میں روس کے خلاف جہاد میں سپین بولدک کے علاقے “ونکی ” میں   زخمی ہوا۔ دوسری مرتبہ روسی کاسہ لیسوں کے خلاف لڑتے ہوئے ہینڈ گرنیڈ کے حملے میں زخمی ہوا لیکن اللہ تعالیٰ نےدوبارہ صحت کی نعمت سے نوازا، اسی طرح سپین بولدک کی لڑائی جو نہایت ہی خونریز لڑائی تھی جب کمیونسٹ طیارے بارش کی طرح بم برسارہے تھے اس دوران بھی میں زخمی ہوا لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی حفاظت فرمائی۔

مجاہدین کی کامیابی کے بعد حافظ صاحب کچھ عرصہ کندھار میں رہے لیکن جب تنظیمی فسادات سر اٹھانے لگے آپ نے کندھار شہر کو خیرباد کہا۔ اور اس شہر اور بولدک کے درمیان”وت” نامی علاقے میں جامعۃا لاسلامیہ العربیہ کے نام سے ایک مدرسے کی بنیاد رکھی اور امارت اسلامی کی تاسیس تک اس مدرسے میں خدمات انجام دیتے رہے۔

امارت اسلامی میں شمولیت :

تنظیمی اختلافات کے عروج کے دوران جب کندھار   اضلاع ژڑئ اور میوند میں ملا محمد عمر مجاہد کی قیادت میں سابق مجاہدین اور طالبان نے اصلاحی تحریک کا آغازکیا اس وقت بولدک میں بھی بہت سے علماء اور مجاہدین باہم صلاح اور مشوروں میں مصروف تھے۔ جن میں حافظ عبدالرحیم کا کردار نمایاں تھا۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میوند اور ژڑئ میں بھی اس قسم کی تحریک کا آغاز ہوچکا ہے تو آپ ، مولوی عبدلشکور صاحب، شہید ملا محمد عوض اور شہید قاری عبدالسلام صاحب کے     ہمراہ ضلع ڈنڈ پہنچے اور ملا محمد عمر مجاہد سے ملاقات کے بعد اپنے تمام ساتھیوں سمیت طالبان کی اسلامی تحریک میں شامل ہوئے۔

اس کے بعد حافظ صاحب نے اس تحریک کےفعال اور انتھک رکن کی حیثیت سے بہت سی خدمات انجام دیں۔ کندھارکی فتح کے بعد   روزگان کے مرکز ترین کوٹ کی فتح میں وہ ایک   رہنما اور قائد کے طو ر پر حصہ لے رہے تھے۔ اور جب اسلامی تحریک کا قافلہ کندھار سے زابل کی طرف روانہ ہوا غزنی اور میدان شہر فتح ہوا یہاں تک کہ مجاہدین کا قافلہ کابل تک پہنچ گیا حافظ صاحب بھی اس قافلے میں شامل تھے۔ اور پھر میدان شہر میں قیام کے بعد یہاں قائم جنگی   پٹی کے عمومی مسئول شہید ملا مشر اخوند کی جانب سے آپ کو جنگی پٹی کے ایک حصے کی مسئولیت دے دی گئی۔

میدان شہر میں خدمات کی انجام دہی کے بعد آپ کو ضلع روزگان کا آئی جی مقرر کر دیا گیا دو سال تک آپ اسی منصب پر خدمات انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد صوبہ زابل کے نائب گورنر مقرر کئے گئے اور افغانستان پر امریکا کی جارحیت تک اسی منصب   پرخدمات کی انجام دہی میں مصروف عمل تھے۔

امریکا کے خلاف جہادی کاروائیوں کا آغاز:

حافظ عبدالرحیم صاحب کندھار کی سطح پر امریکا کے خلاف لڑنے والے سرکردہ مجاہدین میں سے ہیں۔ امارت اسلامی کی سقوط کے بعد مجاہدین   نہایت مشکلات کا شکار تھے۔ امریکا کی بربریت اور ملکی سطح پر حالات کی دگرگوں صورتحال نے مجاہدین کو اسلحہ رکھنے   اور کچھ عرصہ کیلئے گوشہ نشینی پر مجبور کیا۔

لیکن اس   کڑے وقت میں ایسے با عزم مجاہدین بھی تھے جو حالات   سے نہیں گھبرائے بلکہ نہایت سخت ترین حالات میں بھی جدوجہد جاری رکھی ان اولوالعزم مجاہدین میں ایک شہید حافظ عبدالرحیم صاحب بھی تھے۔

انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ کندھار کے سقوط کے بعد میں اپنے گھر واقع بولدک چلا آیا۔ دو دن آرام کے بعد تیسرے دن بندوق اٹھاکر اکیلا جہاد کی نیت سے گھر سے نکل آیا۔ سب سے پہلے انزرگی کے علاقے میں ایک 45 سالہ مجاہد بارکزی آکا سے ملاقات ہوئی اور انہیں اپنے جہاد کے ارادے کے بارے میں بتا دیا انہوں   نے مکمل تعاون اور ساتھ   جانے کی حامی بھرلی اور   پھر ہم دونوں یہاں سے دوسرے مجاہدین کی تلاش اور امریکا کے خلاف عملی جہاد کی راہ ہموار کرنے کیلئے جدوجہد شروع کی۔

حافظ صاحب کے قریبی ساتھی ملا شیخ محمد آخند کہتے ہیں: کہ   کندھار کی سقوط کے بعد جب رمضان کا آخری عشرہ جاری تھا حافظ صاحب گھر تشریف لائے۔چونکہ وہ امریکا کے خلاف جہادی کارروائیوں میں مصروف تھے۔ اس لئے امریکی کاسہ لیسوں نے ان کی گھر میں موجودگی کی اطلاع پاکر ان کے گھر   پر چھاپہ مارا تاکہ وہ انہیں گرفتار کرسکے لیکن اللہ تعالیٰ کی غیبی نصرت سے وہ ان ظالموں کے چنگل سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد آپ نے اپنا گھر بولدک کے علاقے” وت” سے لوئی کاریز کے علاقے منتقل کرلیا۔ عید الفطر کے چھٹے روز میں ان کے گھر گیا، حافظ صاحب نے   مجھ سے کہا کہ امریکا کے خلاف جہاد کرنا ہے اگر آپ کے پاس کوئی اسلحہ وغیرہے تو وہ مجھے دے دو۔

         مولوی عبدالباقی صاحب کہتے ہیں: کہ آغاز جہاد میں حافظ صاحب اکیلے تھے۔ رات کو خفیہ طور پر لوگوں کو جہاد کی دعوت دیتے بعد میں ان کے ایک چچا زاد بھائی ملا عبدالباری نے بھی ان کا ساتھ دیا اور اس راہ میں ا ن کے راہی بنے اور اب دونوں موٹر سائیکل پر مسلح گشت کرتے رہتے۔ دن پہاڑوں اور کھنڈرات پر گذارتے اور رات کو لوگوں کو جہاد کی   دعوت دیتے اور جہاد کیلئے اسلحہ تلاش کرتے رہے اور کئی ماہ تک آپ نے خفیہ طور پر یہ مشن جاری رکھا ۔ حافظ صاحب کے فرزند مولوی حمداللہ کہتے ہیں کہ اس وقت میرے والد مہینے میں صرف ایک دن گھر تشریف لاتے۔ آدھی رات کو گھر آتے اور پھر صبح خفیہ طور پر گھر سے نکل جاتے۔ کیونکہ اس وقت حالات بہت خراب   تھے جبکہ امریکی اور ان کے کاسہ لیس اہلکار بھی حافظ صاحب پر گہری نظر رکھے ہوئے ہوئے تھے۔

ہڈہ پہاڑ میں جہادی مرکز:

حافظ عبدالرحیم صاحب امریکی جارحیت کے ابتدائی مہینوں میں دعوت جہاد میں مصروف تھے، ساتھیوں کے لئےاسلحہ اور جنگی وسائل کا بھی بندوبست کرتے رہے۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے مجاہدین کی ایک چھوٹی جماعت تیار کرلی، جس میں اس وقت کے مشہور اور بہادر مجاہد شہید عبدالغنی جو تور غنی کے نام سے مشہور تھے بھی شامل تھے۔ اس وقت حافظ صاحب نے ایک جہادی مرکز بنانے کا ارادہ کرلیاچونکہ حافظ صاحب کے ساتھ پیسوں اور دوسرے مالی وسائل کی شدید کمی تھی اس لئے ۱۴۲۳ھ شعبان کے مہینے میں اپنے گھر کے بستر،برتن اور دوسرا ضروری سامان اٹھا کر ضلع بولدک   سے ملحقہ ہڈہ پہاڑ کے علاقے میں ایک خفیہ   جہادی مرکز بنایا۔ اس جہادی مرکز میں شروع میں حافظ صاحب کی قیادت میں صرف پانچ مجاہدین رہائش پذیر تھے۔ پہاڑی اور بنجر زمین ہونے کے ناطے یہاں پانی ناپید تھا اور مجاہدین اس پانی سے استفادہ کرتے جو پچھلی بارشوں کی وجہ سے جوہڑوں میں جمع ہوتا تھا چونکہ یہ پانی پینے کے قابل نہیں تھا صرف وضو، برتن اورکپڑے وغیرہ دھونے کے کام آتا تھا اس لئے مجاہدین نے ایک مخلص شخص کو اجرت پر پانی لانے کیلئے راضی کیا جو ہر چار دن بعد ماشینگزو کے علاقے سے گدھوں پر پانی لادتا اور مجاہدین تک پہنچاتا۔

اس مرکز سے حافظ صاحب نے سب سے پہلے اپنی جدوجہد کا آغاز اس طرح کیا کہ   رات کو اپنے مسلح ساتھیوں کے ہمراہ میدانی علاقوں میں آباد مختلف گاؤں میں گشت کیلئے نکل جاتے۔ جن لوگوں کے بارے میں پتہ چلتا کہ وہ حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں انہیں گھر سے باہر بلا کر اپنا کام چھوڑنے اور توبہ کرنے کی تلقین کرتے۔ جس میں انہیں کافی حد تک کامیابی ملی۔ ماہ رمضان میں مساجد میں تراویح کے کے بعد لوگوں کو دعوت جہاد دیتے اور لوگوں سے کہتے کہ کفار نے ہمارے ملک پر جارحیت کی ہے اس کے خلاف جہاد ہم سب پر فرض ہے۔ انہیں بتاتے کہ کفار کا ساتھ دینے کیلئے   ان کی صفوں میں شامل نہیں ہونا۔ اس وقت حافظ صاحب کے ساتھیوں کی تعداد 20 تک پہنچ چکی تھی جو رات کو گھر گھر جاتے ،لوگوں جہاد کی دعوت اور کفار کا ساتھ دینے سے منع کرتے اور رات کے آخری پہر واپس اپنے جہادی مرکز ہڈہ پہاڑ پہنچ جاتے۔

دعوت جہاد سے   عملی جہاد کا سفر:

۴ ذوالقعدہ ۱۴۲۳ھ کو بولدک کے علاقے سیبت میں ایک بڑا قومی جرگہ جاری تھا۔ جب حافظ صاحب کو پتہ چلا تو انہوں جہادی دعوت کیلئے اس موقع کو غنیمت جانا اور اپنے 25 مسلح ساتھیوں سمیت وہاں پہنچ گئے اور اس جرگے سے جہاد کے موضوع پر ایک پر جوش تقریر کی اور لوگوں   کوامریکا کے خلاف جہاد میں شامل ہونے کی دعوت دی۔

حکومتی اہلکاروں کو جب پتہ چلا تو انہوں نے بولدک سے اس علاقے میں ایک بڑا فوجی قافلہ بھیجا فوجی قافلے کے آتے ہی حافظ صاحب کے ساتھیوں نے ان پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں سات اہلکار ہلاک ہوئے۔   ایک مجاہد زخمی جبکہ تین مجاہدین کو دشمن نے زندہ گرفتار کرلیا۔ یہ حافظ صاحب اور ان کے ساتھیوں کا امریکی   جارحیت اور ان کی کٹھ پتلیوں کے خلاف پہلی مسلح کارروائی تھی۔ جس میں بعد میں مزید شدت آتی گئی اور پورے قندھار میں جہادی کارروائیوں کے آغاز کا سبب بنا۔

اس واقعے کے بیس روز بعد حافظ صاحب کے دو ساتھی ملا عبدالباری اور حافظ عبدالغنی جو ان کے چچا زاد بھائی بھی تھے کا بولدک کے علاقے پایزو کاریز میں امریکی فوجیوں سے اچانک سامنا ہوا اور بعد میں دونوں نے امریکی فوجیوں پر فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں کئی امریکی ہلاک ہوئے جوابی کاروائی میں ملا عبدالباری شہید جبکہ حافظ عبدالغنی امریکیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ اسی گرفتار ساتھی سے تفتیش کے دوران امریکی فوجیوں نے حافظ صاحب کے سیٹیلائٹ فون کا نمبر حاصل کرلیا اور اس سیٹیلائٹ کی مدد سے امریکا نے حافظ صاحب کے خفیہ جہادی مرکز کا سراغ لگا لیااور اسی   دن امریکی جارحیت پسندوں اور ان کی کٹھ پتلیوں کا ایک بڑا قافلہ ہڈہ پہاڑ کے حدود میں پہنچ گیا جہاں امریکی جارحیت پسندوں سے ایک خونریز جھڑپ کا آغاز ہوا۔ امریکا کے خلاف شاہی کوٹ کے تاریخی معرکے کے بعد ہڈہ پہاڑ دوسری شدید اور طویل جنگ تھی جو امریکیوں کے خلاف لڑی گئی۔

اس جنگ میں امریکی جارحیت پسندوں نے جنگی طیاروں جیٹ اور ہیلی کاپٹر وں کے بھرپور استعمال کے باوجود بھاری نقصانات اٹھائے۔ ایک طیارہ مجاہدین نے   بھی مار گرایا۔ مالی نقصانات کے ساتھ امریکیوں کو شدید جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا جس کی   صحیح تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکا۔ جنگ کے دوران حافظ صاحب کی قیادت میں مجاہدین رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے علاقے سے نکل گئے۔ لیکن امریکی   کئی دنوں تک اس پہاڑی علاقے میں آپریشن کرتے رہے جہاں اب کوئی مجاہد تھا ہی نہیں۔ اس آپریشن کے دوران امریکی فوجیوں نے ایک مرتبہ اپنے   فوجیوں پر بھی بمباری کی ۔ اس جنگ کے دوران صرف ایک مجاہد زخمی ہوااس کے علاوہ کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا۔ لیکن اس وقت کے بولدک کے گورنر اور امریکی کٹھ پتلی فضل الدین نے میڈیا پر جھوٹا بیان دیا کہ انہوں نے ہڈہ پہاڑ کی لڑائی میں 25 مجاہدین کو شہید کیا ہے حالانکہ وہاں موجود تمام مجاہدین کی تعداد صرف 18 تھی۔

ہڈہ پہاڑ کے معرکے کے بعد حافظ عبدالرحیم صاحب نے ایک مرتبہ پھر اپنے ساتھیوں کو   اکھٹا کیا اورقندھار کے ضلع بولدک کے نواحی علاقوں میں جہادی   کارروائیوں کا آغاز کیا۔ ۲۹ محرم ۱۴۲۴ھ کو حافظ صاحب اور ان کے ساتھیوں نے بولدک کے علاقے ملاولی نیکہ میں ملکی کٹھ پتلیوں پر حملہ کیا جس میں کئی اہلکار ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے بعد مجاہدین تور غر نامی علاقے کی طرف گئے۔ وہاں امریکی اور ملکی کاسہ لیسوں کے تقریباً 70 ٹینکوں او ر فوجی گاڑیوں کا قافلہ ان کے تعاقب میں تور غر روانہ   ہوا۔

حافظ صاحب کی قیادت میں یہاں بھی دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیاگیا۔   مقابلہ صبح شروع ہوکر شام کو اختتام پذیر ہوا۔ یہاں بھی دشمن کو شدیدجانی و مالی نقصانات اٹھانا پڑے۔ جنگ کے اختتامی لمحات میں حافظ صاحب ایک ہلاک شدہ اہلکار سے اس کا اسلحہ اٹھا رہے تھے کہ دشمن کی جانب سے فائر کی گئی گولی ان کے سینے میں پیوست ہوگئی اور وہ شدید زخمی ہوئے۔

ملا شیخ محمد صاحب یہ واقعہ حافظ صاحب کی زبانی اس طرح بیان کرتے ہیں: جب میں زخمی ہوا تو زمین پر گر پڑا۔ کھڑےہونے کی کوشش کی لیکن جسم نے ساتھ نہیں دیا۔ اس وقت دشمن کی طرف سے گرفتار ہونے کا خدشہ تھا اس لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے محفوظ فرما،   اگر اسی جگہ شہید یا گرفتار ہوجاؤں تو مجاہدین کی یہ چھوٹی جماعت مایوس ہوجائے گی اور پھر انہیں متحد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا یا اللہ جہاد کی خاطر   نجات نصیب فرما۔ دعا کے بعد میرے جسم میں   ایک نئی قوّت پیدا ہوئی یہاں تک   کہ اس جگہ سے اٹھا اور مجاہدین تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ یہاں درد کی شدت تیز ہوگئی ۔ ایک مجاہد سے میں   نے کہا کہ   قرآنی   آیات پڑھ کر مجھ پر دم کریں مجاہد نے ایسا ہی کیا تو درد رفع ہوا۔ زخم چونکہ گہرا تھا اورخون زیادہ بہہ رہا تھا اس لئے مجاہدین نے مجھے میدان جنگ سے نکالنے کا ارادہ کیا پھر مجاہدین نے اسی پہاڑی علاقے میں درختوں کی شاخیں توڑکر میرے لئے ایک سٹریچر   قسم کی چارپائی بنائی اور جنگ کے گردو غبار میں مجھے جنگی علاقے سے نکال لیا۔

جہاد کی توسیع، آخری جدوجہد اور شہادت:

حافظ صاحب زخمی ہونے سے جب رو بہ صحت ہونے لگے تو امارت اسلامی کے دوسرے رہنماؤں سے ملاقات اور مشوروں کے بعد ایک منصوبہ بنایا کہ اپنے علاقے سے دوسرے علاقوں تک بھی جہادی کارروائیوں کا جال پھیلا جائے۔ اس سلسلے میں   وہ ضلع معروف میں اپنی تشکیل کرنا چاہتے تھےلیکن جب ۱۴۲۴ھ جمادی الاول کے مہینے میں وہ صوبہ زابل کے ضلع شملزو اور اتغر کے   راستے معروف جارہے تھے تو راستے میں دشمن سے سامنا ہوا ور بڑی مشکل سے وہ دشمن سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔

اسی سال شعبان کے مہینے میں حافظ صاحب نے صوبہ زابل کے ضلع دائی چوپان جانے کا ارادہ کیا لیکن آدھے سفر کے بعد ان کا ارادہ تبدیل ہوا اور کندھار کے ضلع معروف پر حملے کی منصوبہ بندی کی۔ ۱۶ شعبان ۱۴۲۴ھ کو انہوں ضلع معروف کے مرکزی ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا۔ مرکز کے حفاظتی چوکیوں پر قبضہ کیا لیکن ہیڈ کوارٹرکے بالکل قریب   دشمن کی طرف سے فائر کی گئی گولی ان کی شہادت کا پیغام لے کر آئی۔ اس مرتبہ بھی گولی ان کے سینے میں لگی اور کچھ لمحے بعد وہ   شہادت کے بلند مقام پر فائز ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

حافظ صاحب اور تین شہداء کے جسد خاکی جنگ کے میدان میں رہ گئے۔ واقعے کے ایک دن کے بعد محلے کے بزرگوں   نے حافظ صاحب کو اسی علاقے میں ہی سپرد خاک کیا۔ لیکن جب امریکی وحشیوں اور ان کے زرخرید غلاموں کو   پتہ   چلا تو انہوں نے دو دن کے بعد حافظ صاحب کا جسد خاکی نکال کر قندھار شہر لایا اور پھر ایک دن کے بعد حافظ صاحب کی جسد کے ان کے ورثاء کے   حوالے کی گئی۔ جنہوں نے بعد میں انہیں   ضلع بولدک علاقے پاِیزو میں ماشینگزو قبرستان میں سپرد خاک کیا ۔

اس طرح اسلامی امت کے اس   عظیم سپہ سالار کی داستان عزیمت اختتام پذیر ہوئی۔ جنہوں نے   امریکی جارحیت پسندوں کو اس وقت خاک چٹادی تھی جب مجاہدین نہایت کمزور اور اپنی صفوں کو متحد کرنے میں مصروف تھے۔ کفری لشکر کے ظالمانہ جارحیت کے خلاف دن رات ایک کئے ہوئے تھے اور اپنے لہو سے جہاد کے اس ٹمٹماتے چراغ کو مزید روشن کیا اور صرف اپنی ایمانی قوّت سے امریکا اور اس کے حواریوں   کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

حافظ صاحب شہید ہوگئے لیکن ان کے لگائے ہوئے پودے اب تناور درخت بن چکے ہیں۔ حافظ صاحب کے لہو کا   ہر قطرہ حالات کی سنگینی میں گھرے مجاہدین کیلئے مشعلِ راہ بن گیا ہے۔   آپ کی شہادت کے بعد مجاہدین کی تعداد اور کارروائیوں میں   اضافہ ہوتا چلاگیا اور ملکی سطح پر عوام کی حمایت اور مجاہدین کی بے پناہ قربانیوں کی بدولت آج امریکی جارحیت پسند افغانستان سے فرار ہورہے ہیں۔

حافظ صاحب کی شخصیت کے بارے میں ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ آپ نہایت ہی متواضع اور متوکل انسان تھے۔ شرعی   امور پر سختی سے عمل پیرا تھے لیکن ساتھیوں کے ساتھ ان کا رویہ ہمدردانہ اور دوستانہ تھا۔ شہادت کی اتنی زیادہ خواہش تھی کہ نہ صرف خود شہادت کی دعا مانگتے بلکہ ساتھیوں سے   بھی اپنے لئے شہادت کی دعا کرواتے۔

جہاد کی راہ میں یہاں تک قربانی کیلئے تیار ہوتے کہ اگر کبھی جہادی ضروریات کیلئے سامان کی خریداری کامعاملہ ہوتا تو گھر کا سامان بیچ کر جہاد کی ضروریات رفع کرتے۔ آپ کے ایک مجاہد ساتھی کے مطابق کہ امریکی جارحیت کے پہلے سالوں میں حافظ صاحب نے مجھ سے کہا کہ زمین بیچنے کیلئے کوئی گاہک   تلاش کرو تاکہ ان   پیسوں   سے ساتھیوں کیلئے جہادی ضرورت کا سامان خرید سکوں۔

اللہ تعالیٰ حافظ صاحب کی ان قربانیوں ، تکالیف اور خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین یا رب العٰلمین