شہید سید عبدالمالک آغا کی  جہادی  خدمات

تحریر: عبدالروّف حکمت سید عبدالمالک آغا کا شمار  صوبہ  میدان  وردگ کے   بہادر اور  مخلص  مجاہدین  میں ہوتا ہے،   میدان  وردگ جو  امریکی جارحیت   پسندوں کیلئے  ایک  خطرناک علاقہ  سمجھا جاتا  ہے یہاں جہادی  تحریک کی  تاسیس میں سید عبدالمالک آغا  کی  خدمات قابلِ ذکر ہیں، جنہوں نے  اس  تحریک  کے  چراغ کو   اپنے  لہو […]

تحریر: عبدالروّف حکمت

سید عبدالمالک آغا کا شمار  صوبہ  میدان  وردگ کے   بہادر اور  مخلص  مجاہدین  میں ہوتا ہے،   میدان  وردگ جو  امریکی جارحیت   پسندوں کیلئے  ایک  خطرناک علاقہ  سمجھا جاتا  ہے یہاں جہادی  تحریک کی  تاسیس میں سید عبدالمالک آغا  کی  خدمات قابلِ ذکر ہیں، جنہوں نے  اس  تحریک  کے  چراغ کو   اپنے  لہو سے  روشن کئے  رکھا۔ آپ کے ساتھیوں  نے بھی آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دارالحکومت کابل کے قریب اس  اہم علاقے کو جہاد کا  ایک ناقابل  تسخیر محاذ بنالیا۔

میدان وردگ کے اس بہادر سپوت کا  تعارف ان کی  جہادی  خدمات، ان کا بچپن اور ان کی یادوں  پر  مشتمل خصوصی تحریر ملاحظہ  فرمائیں۔

سید عبدالمالک آغاکا  تعارف:

سید عبدالمالک آغا میدان وردگ کے  ضلع سید آباد   کے  علاقے بہادر خیل میں  ۱۳۴۹ش کو پیدا ہوئے، آپ کے والد کانام  میر سید آغا ہے۔ آپ کا تعلق  سید  خاندان سے تھا اور افغانستان  میں اس خاندان کے    افراد کو  باچا صاحب یا میر صاحب کے  نام سے  پکارا  جاتا ہے۔

سید عبدالمالک آغا نے ابتدائی تعلیم  اپنے گاوّں میں حاصل کی، آپ کے بچپن میں ہی افغانستان پر روسی یلغار ہوئی اور پورے افغانستان کی طرح میدان وردگ میں بھی روسی جارحیت پسندوں کے خلاف عوام  نے جہاد کا علم بلند کیا، آپ نے  عہد شباب میں قدم رکھتے ہی جہادی تحریک  میں شمولیت اختیار کی اور  اپنے  علاقے سے جہادی سفر کا آغاز کیا اپنے علاقے سید آباد میں  کچھ عرصہ جہادی  خدمات کے   بعد پکتیکا اور  وزیرستان کے  درمیان سرحدی  علاقے  “لواڑہ” میں قائم   حقانی صاحب کے جہادی مرکز میں جہادی  تربیت  کا آغاز کیا  اور ساتھ ہی  دینی تعلیم کا سلسلہ  بھی جاری رکھا۔

جہادی اسفار  میں آپ کے دیرینہ ساتھی مولوی فضل ربی کہتے ہیں کہ اس وقت میں میرانشاہ کے مدرسہ  انوارالعلوم میں تھا  اور  عبدالمالک  آغا  اس  وقت نوجوان تھے جہاد  کے ساتھ  دینی تعلیم  کے حصول کا  سلسلہ بھی جاری  رکھا ہوا تھا ۔ اکثر اوقات خوست  کے جہادی محاذوں  پر ہوتے تھے، اور خوست  میں بہت سی  کارروائیوں میں  آپ  نے   حصہ  لیا۔  جب صوبہ خوست مولوی جلال الدین حقانی صاحب کی  قیادت میں فتح ہوا عبدالمالک آغا  اس فتح میں ایک  مجاہد کی  حیثیت سے شریک  تھے۔

عبدالمالک آغا   ڈاکٹر نجیب کی حکومت  بعد اور کابل کی  فتح  تک  میدان کارزار میں شریک  رہے۔ جب کابل میں کمیونسٹ  جنگجو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے، تو آپ  واپس دینی  علوم کی  طرف آئے اور  میرانشاہ  میں مدرسہ انوارلعلوم میں دینی تعلیم کا آغاز کیا۔

اس وقت اس  مدرسے کا مہتمم مشہور صوفی بزرگ قلعہ جواد کے شہداء کے  سجادہ نشین خلیفہ فضل الدین  رحمہ اللہ تھے۔ جو ارغندی خلیفہ صاحب کے  نام سے مشہور تھے۔ اس  وقت یہ  مدرسہ   ایک بڑے  علمی مرکز کے طور پر جانا    جاتا تھا۔ عبدالمالک آغا    سیدخاندان سے تعلق ہونے  کے ساتھ ایک  با  خلاق ،دیانت دار اور متقی انسان تھے۔ آپ خلیفہ فضل الدین صاحب کے بہت قریبی  شاگردوں میں رہے اور ان سے  آپ نے تصوف  میں نقشبندیہ مجددیہ طریقہ میں بیعت  بھی حاصل کرلی تھی۔

مدرسہ انوارلعلوم میں کچھ عرصہ پڑھنے  کے بعد آپ  نے مولوی جلال الدین حقانی صاحب کے مدرسے منبع  العلوم  میں داخلہ لیا اور دو سال تک اسی مدرسہ میں  زیر تعلیم  رہے۔

طالبان کی اسلامی  تحریک میں خدمات:

اس  وقت جب افغانستان  خانہ  جنگی کا شکار تھا تو دیارِ ہجرت    کے افغانی مدارس میں جمعیت طلباء کے نام سے علاقائی تنظیمیں   بنائی گئی تھیں۔ سید عبدالمالک آغا میدان وردگ کے طلبہ  تنظیم کے ایک فعال اور سرگرم رکن تھے۔ جب  طالبان کی اسلامی تحریک وجود میں آئی، تو آپ  طالبان تحریک کے ایک  وفد کے ساتھ بات چیت کے بعد اپنے  7 ساتھیوں سمیت وردگ تشریف لے گئے تاکہ طالبان کی تحریک کیلئے پہلے  سے راہ ہموار کی جائے، اور لوگوں کی ذہن  سازی اور  علاقے کے بزرگوں کو  ذہنی طور  پر اس تحریک کیلئے تیار رکھیں۔

سید عبدالمالک آغا اور ان کے ساتھیوں  نے  صوبہ میدان وردگ کے مقامی علماء، مجاہدین  اور قبائلی رہنماوّں سے  ملاقاتیں کیں اور انہیں طالبان  کی      تحریک کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ کیا۔ جب طالبان کی اسلامی  تحریک کندہار میں تھی عبدالمالک آغا اور ان کے ساتھی سید آباد کے علاقے  ہفت   آسیا میں واقع مدرسہ مفتاح العلوم کو  اپنے خفیہ مرکز کے طور پر  استعمال کر رہے  تھے، یہاں طالبان کی تحریک میں شامل ہونے  کیلئے لوگوں کو دعوت دی جاتی تھی۔ کچھ عرصہ بعد آپ نے اپنے ساتھیوں  مولوی فضل ربیّ اور ہاشمی صاحب  کو کندھار  بھیجا۔ یہاں ان کی ملاقات اسلامی تحریک کے امیر ملا محمد عمر مجاہد، مولوی احسان اللہ احسان اور دوسرے رہنماوّں سے ہوئی، جنہوں نے اس دو رکنی وفد کو ہدایت کی  کہ وہ علاقائی  علماء کرام اور مجاہدین حتیٰ کہ غزنی اور  میدان وردگ کے درمیان جنگی پٹی پر  حزبِ اسلامی کے جنگجوّں کو بھی امن کا پیغام دیں اور انہیں ہدایت دیں کہ  طالبان جنگ کا خاتمہ  اور امن   چاہتے ہیں۔

عبدالمالک آغا اور ان کے ساتھی   حکم کی تعمیل میں  مصروف تھے جب طالبان غزنی تک پہنچ  گئے اور غزنی فتح ہوا اس کے  بعد سید آباد کے علاقے سالار کو بغیر کسی مزاحمت کے فتح کر ڈالا۔  یہاں طالبان کے جنگی  امور   میں قیادت کرنے والے ملا مشر اخند   نے علاقے کے مجاہدین کی  ذریعے سید آباد کے گورنر ڈاکٹر مسلم کو اس  بات  پر آمادہ کیا کہ کہ وہ جنگ  سے  دستبردار ہوجائے، لیکن چند جنگجوّں نے  ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا اور طالبان   سے  نبرد آزما ہونے کا فیصلہ کیا لیکن  تھوڑی سی  مزاحمت کے بعد وہ  طالبان  کا وار  نہ سہہ سکے اور آخر کار بھاگ کھڑے ہوئے۔

میدان شہر ااور لوگر کی فتح کے بعد عبدالمالک آغا اور  ان کے ساتھی غزنی  گئے، جہاں مولوی احسان اللہ احسان صاحب کے  ساتھ ایک مشترکہ قافلے کی  صورت میں پکتیکا کے مرکز “شرنہ” تشریف لے گئے۔ یہاں  کچھ عرصہ خدمات کے بعد آپ کو چہار آسیاب کی جنگی پٹی پر   خدمات کیلئے بلایا گیا۔ اس وقت  سید عبدالمالک آغا ایک ماہر اور  جنگ کا  تجربہ  رکھنے  والے مجاہد  ہونے  کی وجہ  سے اپنے  ساتھیوں کے امیر منتخب ہوئے۔ چہار آسیاب میں کچھ عرصہ جہادی  خدمات کے بعد میدان شہر کی جنگی پٹی پر تشریف لے گئے او ر وہاں اس جنگی  پٹی کے مسئول ملا مشر  اخند نے  آپ کو میدان  وردگ کے مجاہدین کے محاذ کی قیادت سونپ دی۔

میدان شہر کی جنگی  پٹی  میں  اسٹریٹجک نقطہ نظر سے ایک اہم  علاقے   ” کوہ قرغ” میں جہادی خدمات  میں مصروف رہے یہ نہایت  بلندی پر واقع پہاڑی   علاقہ تھا اور اس وقت کے جنگی  نقطہ نظر سے خطرناک  علاقہ سمجھا جاتا تھا۔  یہاں  طالبان  مجاہدین برف سے  ڈھکے پہاڑ پر  ایک خیمے  میں قیام پذیر تھے۔  اس   پہاڑی پر  طالبان باری باری اپنی ڈیوٹی دیتے  تھے۔ اس پہاڑی کی  اہمیت کا اندازہ اس  بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ  اس کی  وجہ سے  شمالی اتحاد کے جنگجو پیش قدمی  نہیں کر سکتے تھے۔  احمد شاہ مسعود نے  اس  علاقے پر  کئی شدید حملے کئے یہاں  تک کہ  ایک دفعہ  وہ اس  پر قبضہ کرنے میں  کامیاب بھی  ہوئے، لیکن طالبان کی  بیش بہا قربانیوں کی  بدولت یہ  علاقہ  واپس  طالبان کے   قبضے میں آیا اور آخر تک طالبان    کے قبضے میں رہا۔

کابل کی  فتح کے  بعد:

کابل کی  فتح کے  بعد سید عبدالمالک آغا کابل کے  علاقے خیر خانی کے  مسئول مقرر ہوئے۔چونکہ  آپ کا زیادہ تر وقت شمال کی  جنگی پٹی گذرا اور  آپ کو اس علاقے میں جنگ کا مکمل  تجربہ تھا اس لئے بعد میں آپ اور آپ کے  ساتھیوں کو  قرغہ کی آٹھویں تشکیل میں شمال کی جنگی  پر بھیج   دیا گیا اس  وقت  مجاہدین کا  مرکز قرغہ میں تھا لیکن  آپ  کابل کی  شمالی   پٹی پر جہادی خدمات کی  انجام دہی میں مصروف  رہے۔ اس  دوران
آپ  مختلف شمالی علاقہ جات جیسے شکردرہ، گلُدرہ، صوفیان، کلکان، قلعہ نصرو اور قرہ باغ میں  جہادی خدمات   پیش  کر چکے ہیں۔ جب  1997ء میں امارت اسلامی کے مجاہدین کا  ایک بڑا لشکر سالنگ کے سرنگ کے  راستے شمالی علاقوں میں داخل ہوا سید عبدالمالک آغا اور ان کے ساتھی مجاہدین بھی اس  لشکر  میں شریک تھے۔ کندز میں کچھ عرصہ خدمات کے  بعد آپ کابل   آئے اور شمالی خطوط میں اپنی کاروائیاں جاری رکھیں۔ بعد میں آپ واپس شمالی  علاقوں میں تشریف لے  گئے اور  تخار  کے علاقے اشکمش میں مجاہدین کے ایک  بڑے گروپ کے مسئول  منتخب ہوئے اور  اس  گروپ کے  مجاہدین کو  بعد ازاں فرخار تنگی منتقل کیا گیا۔

سید عبدالمالک آغا امارت اسلامی کی حکومت کے دوران بہت سی فتوحات میں شامل رہے جس میں بامیان کی پہلی مرتبہ  فتح جس پر جلریز اور جلگی کی طرف سے حملہ کیا گیا آپ جلریز کی   طرف سے حملہ کرنے والوں میں شامل تھے۔ بامیان کی فتح کے بعد غور بند اور شیخ علی کے علاقوں پر بھی متعدد حملوں میں آپ شریک رہے۔امریکی جارحیت کے دوران آپ شمال کی  جنگی پٹی میں موجود تھے اور امریکی بمباری کے  نتیجے میں  زخمی  حالت میں آپکو اپنے آبائی علاقے منتقل کیا گیا۔

امریکا کے خلاف  جہاد:

ملا محمد  فرید قیام اور مولوی عبدالصمد وزیر جو سید عبدالمالک آغا کے قریبی  ساتھیوں میں سے  ہیں کہتے ہیں کہ امریکی جارحیت کے  بعد جب  آغا صاحب اپنے  علاقے سید آباد پہنچے تو ان کی پہلی کوشش یہ تھی کہ مجاہدین  بمباری  سے مکمل  طور پر محفوظ رہیں او اس علاقے میں   جنگجوّں کی  آمد کا  راستہ  روکے۔ اس مقصد  کیلئے  انہوں نے  علاقائی سطح  پر بہت جدوجہد کی  جو  بڑی  مفید ثابت ہوئی۔ اسی  طرح انہوں نے  امریکا کے  خلاف جہاد   جاری  رکھنے کیلئے  بھی کوششیں کیں اس سلسلے میں  آپ کو کئی  بار  پکتیا جاناپڑا  اور ملا سیف الرحمٰن منصور سے ملاقات کی  جو اس وقت   درہ  شاہی کوٹ میں مجاہدین کی   کاروائیوں   کے مسئول تھے۔  ایک  فعال اور  تجربہ کار   مجاہد رہنما  ہونے کی  وجہ  سے امریکا  نے سید عبدالمالک  آغا  کے  خلاف لوگر میں  کاروائیاں شروع کی   اور آپ کی  گرفتاری  کیلئے چھا پے مارے جانے لگے تو آپ کو مجبوراً یہ  علاقہ  چھوڑنا پڑا ، لیکن  اپنے علاقے کی جہادی  ذمہ داریاں دوسرے علاقے  سے ہی نبھاتے رہے۔

کچھ عرصہ بعد سید عبدالمالک  آغا ایک مرتبہ  پھر امارت اسلامی کے  رہنماوّں  سے ملے اور امارت اسلامی کی  جانب سے آپ کو ایک مرتبہ  پھر لوگر میں جہادی کارروائیوں  کے فروغ  کی ذمہ داری سونپی گئی۔ آپ ایک مرتبہ پھر خفیہ  طور پر اپنے علاقے تشریف لائے۔ اپنے پرانے  ساتھیوں کو جمع کیا اور جہادی کارروائیوں  کے سلسلے میں ان سے صلاح مشورہ کرنے لگے۔

فرورری 2004 کو ایک دن  آپ مجاہدین کی  صفوں کو منظم کرنے  میں  مصروف تھے اور اپنے سیٹیلائٹ  فون کے ذریعے انہیں احکامات دے رہے تھےکہ  اس وقت امریکی فوجیوں نےآپ  کے سیٹیلائٹ  فون کے   ذریعے آپ  کی جگہ معلوم کی اور اچانک  آپ  کے گھر  پر سینکڑوں  امریکی اور کٹھ پتلی فوجیوں نے  چھاپہ مارا اورآپ کو گرفتار کرنے کی کوشش کی لیکن آپ نے زندہ گرفتاری کی بجائے شہادت  کو  ترجیح دی۔ اس وقت  گھر میں  آپ کے بڑے بھائی اسماعیل  آغا بھی موجود تھے دونوں نے   امریکی  فوجیوں پر    فائر کھول  دئیے  جس کے نتیجے میں کئی امریکی فوجی جہنم  واصل ہوئے  امریکی فوجیوں کی  جوابی   فائرنگ  کے  بعد آپ اپنے بھائی کے ساتھ جام شہادت نوش کر گئے۔. انالله وانا الیه راجعون

امریکی فوجی  دونوں شہداء کے جسد خاکی اپنے ساتھ    بگرام لے گئے اور وہاں ان  کی جسد خاکی ایک  غار میں پھینک دئیے اور جب علاقے کے لوگوں نے  منت سماجت کی  کہ شہداء کی لاشیں ان کے  حوالے کی جائیں تو 42 روز گذرنے کے  بعد شہداء کی لاشیں ان کے خاندان کے سپرد کی  گئیں اور یہاں  شہداء کی  کرامت کا  واضح  نمونہ موقع پر موجود  تمام لوگوں نے دیکھا کہ  42  روز کے بعد بھی شہداء کی لاشیں خراب نہیں  ہوئیں تھیں اور بالکل تر و تازہ تھیں۔

سید عبدالمالک آغا  نے   پسمانگان میں صرف ایک بیٹا چھوڑا ہے۔ چونکہ آغا صاحب شاہی کوٹ کے  معرکے میں  امارت اسلامی کے بہادر  سپوت ملا سیف الرحمٰن کے ساتھ تھے   اور جہاد میں بڑے  عرصے تک  ایک ساتھ  رہے  اس  لئے آپ  نے اپنے بیٹے کا نام    سیف الرحمٰن   رکھا۔

شہید سید عبدالمالک آغا کی  چند یادیں:

صوبہ  وردگ کے ضلع  سید آباد  کے  مجاہدین  کے مطابق سید عبدالمالک آغا اس علاقے  میں جہاد کی بنیاد  رکھنے والی شخصیات  میں سے ہیں جنہوں نے  امریکا کے  خلاف  پہلی  مرتبہ جہادی کاروائیوں کا آغاز  کیا اس  وجہ سے  مجاہدین  کے درمیان آپ کو قدر کی  نگاہ سے دیکھا جاتا  تھا۔ اب بھی اس ضلع   میں مجاہدین کی قیادت کرنے  والے  مجاہدین  جیسے ملا محمد  فرید قیام، ملا عبداللہ، مولوی حبیب الرحمٰن آغا صاحب کے تربیت یافتہ مجاہدین ہیں،  جنہوں نے  آپ کی  قیادت میں جہادی تربیت حاصل کی ااور اب مجاہدین کی  بھاگ  ڈور سنبھالے  ہوئے ہیں۔ سید  آباد میں  سید عبدالمالک آغا نے  جہاد کی بنیاد  رکھی جس  کی  وجہ سے امریکا نے سب سے پہلے  آپ کو  نشانہ بنایا لیکن اس  کے بعد   آپ کے قریبی ساتھی اور نائب  امیر  شہید مولوی عبدالباقی صاحب نے  آپ کی کمی  کو محسوس ہونے نہیں دیا اور امریکا  کے خلاف کاروائیاں جاری  رہیں یہاں تک  کہ  یہ ضلع بعد میں امریکی  فوجیوں کا قبرستا ن اور ان کا قتل  گاہ بنا اور  اب تک  امریکی جارحیت پسندوں سکون کا سانس لینے  نہیں دیا۔

ملا محمد  فرید قیام جو ابھی اس  گروپ کے امیر ہیں اور بڑے عرصے تک  آغا صاحب کے ہمراہ  رہے ان کی  شخصیت کے بارے میں کہتے ہیں: شہید آغا صاحب  نہایت متقی، باحیا، محب اور مخلص شخص تھے اتنے باحیا  انسان تھے کہ کئی سالوں تک ان کے ساتھ  رہنے  کے باوجود میں نے  ان کی زبان سے  نازیبا لفظ یا کوئی گالی وغیرہ  نہیں سنی، کسی کے ساتھ تلخ کلامی سے پیش نہیں آتے تھے یہاں تک   کہ   دشمن اور مخالف جنجگجوّں کو بھی برے ناموں سے یاد نہیں کرتے تھے اور نہ انہیں برا بھلا کہتے ۔ آپ  ہر صبح سورۃ یٰسین اور  رات کو سورۃ الملک کی تلاوت کرتے تھے ۔ حالات جیسے بھی ہوتے  آپ تلاوت  نہیں چھوڑتے  تھے۔

مولوی عبدالباقی جو آغا صاحب کے نائب  تھے کہتے ہیں کہ:  ایک  مرتبہ  ہمارا  قیام کندز کے علاقے بالا حصار  کے قریب برج برق میں تھا ۔ ایک  رات جب سارے ساتھی سورہے تھے  لیکن میں جاگ رہا تھا۔ میں نے  دیکھا کہ آغا صاحب اپنی جگہ سے اٹھے اور ایک  نظر  تمام ساتھیوں پر ڈالی  وہ یہ سمجھ گئے کہ تمام ساتھی سورہے ہیں  اس کے  بعد  وہ باہر نکل گئے ۔ مولوی  عبدالباقی صاحب کہتے ہیں  کہ   میں تشویش میں مبتلا ہوا  کہ  آغا صاحب آدھی رات کو    کہاں  نکل گئے اس لئے میں بھی   اٹھا اور باہر انہیں  تلاش کرنے لگا لیکن  وہ  نہیں ملے میں  پریشان ہوا اور اپنے ساتھیوں کو جگانے والا تھا تاکہ آغا صاحب کو ڈھونڈ  نکالیں ایسا نہ  ہو کہ وہ دشمن  کے شکنجے میں پھنس  گئے ہوں لیکن پھر اچانک میری  نظر  مکان میں موجود ایک   اضافی کمرے پر  پڑی جہاں لکڑیاں رکھی ہوئی تھی، وہاں جاکر دیکھا  تو آغا صاحب   تہجد کی  نماز پڑھ  رہے تھے۔ میں نے  ٹارچ کی  روشنی ان   پر ڈالی  تو ان کی  آنکھوں سے آنسوّں کو بہتے  اور اللہ کے سامنے  گڑگڑاتے ہوئے پایا۔ مولوی وزیر صاحب مزید کہتے ہیں: آغا صاحب کی اور خوبی   ساتھیوں کی خدمت اور ان کی خاکساری تھی، ہمارے  امیر  ہونے  کے باوجود وہ ساتھیوں کیلئے کھانا پکانےاور  کھانے کے برتن   خود  دھوتے تھے اور کسی کو یہ کام کرنے نہیں دیتے تھے۔ وزیر صاحب کہتے ہیں کہ  جہاد کے اس سفر میں جب ہم ساتھیوں کے پہرہ دینے  کا وقت لکھتے تو  ہر ساتھی کو ایک  گھنٹہ پہرہ  دینا پڑتا لیکن آغا صاحب   خوشی سے تین گھنٹے کا پہرہ لکھوالیتے اور  نہایت  خوشی سے یہ فریضہ انجام دیتے تھے۔

ملا محمد فرید قیام کہتے ہیں: شہید آغا صاحب اپنے گروپ کے  امیر ہونے کے باوجود خود کو ایک عام   مجاہد سمجھتے تھے اور کبھی  کسی  نے محسوس نہیں کیا   کہ انہوں  نے کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کیا ہو یا کسی  مجاہد کو  اپنے سے  کمتر سمجھا ہو۔ ہر مجاہد سے خندہ پیشانی سے پیش آتے اور  ایک ہی  ملاقات میں  ہر شخص آپکے اعلیٰ اخلاق کی داد دئیے بغیر نہ رہ سکا۔ اللہ تمام مجاہدین کو آغا صاحب کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین