شہید ملا عبدالرحمٰن  اخند: ایک مہم جُو  شخصیت

عبدالرؤف حکمت ۲۸ ذوالقعدہ ۱۴۳۵ھ  بمطابق ۱۶ ستمبر ۲۰۱۴ ءکو صوبہ فراہ  کے ضلع “بکوا” میں   دشمن کے   ایک فضائی حملے میں امارت اسلامیہ  صوبہ فراہ  کے  جہادی  مسئول ملا عبدالرحمن  اخند اپنے  چھ ساتھیوں  سمیت جام شہادت نوش کرگئے۔ ان  کی شہادت  امارت اسلامیہ کے تیسرے صوبائی مسئول کی شہادت ہے، جو رواں سال […]

عبدالرؤف حکمت

۲۸ ذوالقعدہ ۱۴۳۵ھ  بمطابق ۱۶ ستمبر ۲۰۱۴ ءکو صوبہ فراہ  کے ضلع “بکوا” میں   دشمن کے   ایک فضائی حملے میں امارت اسلامیہ  صوبہ فراہ  کے  جہادی  مسئول ملا عبدالرحمن  اخند اپنے  چھ ساتھیوں  سمیت جام شہادت نوش کرگئے۔ ان  کی شہادت  امارت اسلامیہ کے تیسرے صوبائی مسئول کی شہادت ہے، جو رواں سال راہ خدا میں جان کی بازی کھیلے ہیں۔ ان سے قبل صوبہ کنڑ کے جہادی مسئول مولوی نور قاسم حیدری اور قندھار کے جہادی مسئول ڈاکٹر عبدالواسع عزام بھی  لیلائے شہادت کو گلے لگا چکے  ہیں۔ اس تحریر میں شہید ملا عبدالرحمن کی سوانح، جہادی خدمات اور کارروائیوں  کا ایک طائرانہ جائزہ لیا گیا ہے۔

شہید ملا عبدالرحمن اخند کا تعارف

مولوی عبدالرحمن اخند، ملا محمد ہاشم کے بیٹے اور ملا محمد رسول اخند کے پوتے تھے۔ آپ کا تعلق پشتون قبیلے “نورزئی” شاخ سے تھا۔ آپ نے ۱۳۹۷ہجری میں صوبہ فراہ کے ضلع بکوا  کے ایک دین دارگھرانے میں  آنکھ کھولی۔ آپ کے والد ایک  عالم دین  تھے۔ انہوں نے بچپن  ہی میں ابتدائی دینی تعلیم کاگھر میں اہتمام کیاتھا۔ مزید تعلیم کےلیے ضلع بکوا میں ملک کے معروف عالم اورشیخ الحدیث مولوی محمد حسین صاحب کے مدرسے میں داخلہ لیا۔ یہاں سے صوبہ ہلمند کے ضلع “نوزاد” اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے “پنج پائی” کے مختلف مدارس میں اپنی دینی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ جب  آپ درجہ خامسہ میں تھے، تو افغانستان میں فساد اور بد امنی کے خلاف طالبان کی اسلامی تحریک کا آغاز ہوا۔ اس وقت طالبان نے صرف قندہار شہر فتح کیاتھا۔ ملا عبدالرحمن اس وقت کے مشہور اور بہادر جہادی کمانڈر ملا محمد صادق آغا کی  قیادت  میں طالبان کی اسلامی تحریک میں شامل ہوئے۔

تحریک اسلامی میں خدمات

قندہار کی فتح کے بعد طالبان کی اسلامی تحریک کے عمدہ اور چاق و چوبند دستے کابل اور ہرات کے جنگی محاذوں  پر تعینات تھے، جہاں ہمیشہ گھمسان کا رن پڑتا تھا۔ ملا عبدالرحمن اس وقت “میدان شہر” کی جنگی پٹی پر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے رہے اور ہرات کی نمائندگی میں ‘گریشک’ اور  فراہ کی جنگی پٹی کا کنٹرول سنبھال لیا۔آپ گریشک اورہرات کے درمیان لڑی جانے والی شدید لڑائیوں میں بھی شریک رہے، جس میں طالبان نے بہت پیش قدمی کی۔ یہاں تک کہ ہرات کی تاریخی فتح میں  بھی آپ نے   نمایاں کردارادا کیا ۔ ہرات کی فتح کے بعد جب شہید محمد صادق آغا ‘بادغیس’ اور فاریاب کے درمیان دفاعی جنگی پٹی پر موجود جنگی گروپ کی قیادت کر رہے تھے، تو ملا عبدالرحمن بھی ان کے ساتھ ایک ماتحت کمانڈر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ فاریاب، مزارشریف اور دوسرے شمالی صوبوں کی فتح کے بعد جب شہیدملامحمد صادق آغا کوفاریاب کا گورنرمقرر کیا گیا، توان کی شہادت تک ملا عبدالرحمن اخند، شہید محمد صادق آغا کے نظامی گروپ کی کمان سنبھالے ہوئے تھے۔ ملا محمد صادق آغا کی شہادت کے بعد آپ کچھ  وقت تک قائم مقام گورنر بھی رہے۔ اس عرصے میں آپ شمالی افغانستان کے مختلف علاقوں میں جہادی کاروائیوں کےلیے تشریف لے جاتے۔ اس سلسلے میں ان کی تخار،درہ صوف  اور غور کی جہادی خدمات قابل ذکر ہیں۔ افغانستان پر امریکی    جارحیت سے قبل آپ صوبہ ہرات کے ضلع  غوریان کےضلعی گورنر تھے۔ امریکی جارحیت کے آغاز میں آپ   نےبھی اپنے    آبائی علاقے  سے   امریکا کے خلاف جہادی  کا روائیوں کا  آغاز کیا۔

امریکا کے خلاف جہاد

امریکی  جارحیت کے بعد  جب امارت اسلامی  کے  مجاہدین   ایک  حکمت  عملی کے تحت  کچھ علاقوں سے   پیچھے ہٹے،تو  ملا عبدالرحمٰن بھی اپنے  آبائی علاقے فراہ پہنچ گئے۔ اس وقت دشمن  پر  براہ راست اور  گھات لگا کر حملہ کرنا  ناممکن تھا۔ تب  دشمن  کو شدید  نقصان پہنچانے  کا  واحد  ذریعہ بارودی سرنگیں  اور  ریموٹ کنٹرول بم  ہوا کرتے تھے۔ ملا عبدالرحمن  نے  بھی  حالات  کے  مطابق بارودی  سرنگوں کے ماہرین سے ریموٹ کنٹرول  بم بنانے اور استعمال کرنے  کی  تربیت  حاصل کی۔ انہوں نے جارحیت کے دوسرے سال غیرملکی غاصبوں  کا  جینا دو بھر کر دیا۔ ان کی جہادی کاروائیاں  صوبہ فراہ کی  سطح پر  غیر ملکی  جارحیت پسندوں کے خلاف شروع ہونے والی پہلی  کا رروائیاں تھیں۔ ملا عبدالرحمٰن اخند کے بھائی   کہتے ہیں: ملا عبدالرحمن نے  سب سے پہلے ضلع  بکوا کے نواحی علاقے  قندھار اور ہرات کی بڑی شاہراہ پر غیر ملکی فوجیوں کی ایک لینڈ کروزر کو ریموٹ کنٹرول بم سے تباہ کیا۔ اس کے بعد اسی سڑک پر امریکی کاسہ لیس کٹھ پتلی فوج کی دو گاڑیوں پر گھات لگا کر حملہ کیا، جس سےدونوں گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔کچھ  عرصے  بعد فراہ میں تعینات اٹلی کے فوجیوں کا ایک ٹینک مولوی صاحب کے ریموٹ کنٹرول بم کا نشانہ بنا۔ ان دھماکوں کے ساتھ  ہی فراہ میں جارحیت پسندوں کے خلاف کاروائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس کےبعد  یہ صوبہ ایک گرم جہادی محاذ بن گیا۔ آپ کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ آپ جہادی امور میں ہمیشہ علمائے کرام سے مشورہ لیتے تھے اور جہادی کارروائیاں بڑی جرأت اور  تدبر سے ترتیب دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے انتہائی کٹھن حالات میں دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔

امریکی جارحیت کے چند سال بعد ہی امارت اسلامیہ کی جانب سے تمام صوبوں کے لیے مجاہدین کی تشکیلات کی گئیں۔ صوبہ فراہ میں بھی پانچ جہادی محاذ بنائے   گئے۔ ملا عبدالرحمٰن کو ضلع بکوا کے جہادی محاذ کی قیادت سونپ دی گئی۔ جب محاذوں کی تشکیلات صوبائی تشکیلات میں تبدیل ہوئیں اور ہر ضلع میں مجاہدین کے الگ گروپ بنائے گئے، تو ملا عبدالرحمن صوبہ فراہ کے ضلع بکوا کے جہادی مسئول منتخب ہوئے۔ آپ  چھ سال تک یہ فریضہ بہ حسن و خوبی انجام دیتے رہے۔ آپ   چھ سال تک ضلع بکوا کے جہادی مسئول رہے۔ پھر ایک سال تک صوبہ فراہ کے ضلع “بالابلوک” کے جہادی مسئول کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد ایک بار پھر ضلع بکوا کے جہادی مسئول کی حیثیت سے ایک سال کام کیا۔ بعد میں آپ کی صلاحیتوں کو مد نظر رکھ کر صوبہ نیمروز کا جہادی مسئول منتخب کر دیا گیا۔ یہاں آپ آٹھ مہینے تک جہادی خدمات میں مصروف رہے۔ اس کے بعد آپ کو صوبہ ہرات کا جہادی مسئول مقرر کیا گیا۔ صوبہ ہرات میں آپ تقریبا ڈیڑھ سال تک اپنا جہادی فریضہ نبھاتے رہے۔ مذکورہ ذمہ داریوں کے ساتھ آپ بڑے عرصے تک صوبہ فراہ کے صوبائی کمیشن کے سربراہ بھی رہے۔ اس کے ساتھ آپ امارت اسلامیہ کے مرکزی کمیشن کے رکن بھی رہے۔ بالآخر اسی فریضے کی ادائیگی کے دوران شہادت کے بلند مقام پر فائز ہوگئے۔ملا عبدالرحمٰن اخند صوبہ فراہ میں ایک فعال گروپ کے کمانڈر تھے۔ آپ کے گروپ کے کچھ مجاہدین نیمروز اور ہرات میں بھی علاقائی مسئولین رہ چکے ہیں۔ آپ کے گروپ میں مجاہدین کی تعداد ۹۰۰ سے زیادہ تھی۔ آپ کی قیادت میں مجاہدین نے صوبہ فراہ میں بہت کاروائیاں کیں۔ ذیل میں چند واقعات ذکر کیے جاتے ہیں۔

ــ 2004 ء کے موسم گرما میں ضلع بکوا کے “بالبالک کاریز” کے علاقے  میں مجاہدین نے دشمن کے ایک بڑے قافلے پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں ۱۸ اہل کار موقع پر ہی ہلاک ہوئے۔ جب کہ چھ گاڑیاں مجاہدین کو غنیمت کے طور پر ہاتھ آئیں۔ الفتح آپریشن کے دوران ضلع بکوا کے “اسحاق زو”  کے علاقے میں دشمن کے فوجی قافلے پر حملے کے نتیجے میں دشمن کی چودہ گاڑیاں تباہ اور متعدد اہل کار ہلاک ہوگئے۔ اس مبارک آپریشن کے دوران ملاعبدالرحمٰن کی قیادت میں مجاہدین نے صرف ضلع بکوا میں دشمن کے ۱۸۰ ٹینکوں کو بارودی سرنگوں کا نشانہ بنا کر تباہ کیا۔

ــ البدر آپریشن کے آغاز میں ضلع بکوا کے علاقے “سیاوآغا” میں مجاہدین نے امریکی سیکورٹی اہل کاروں کے قافلے پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں ۵ گاڑیاں اور ۱۵ امریکی اہل کار ہلاک ہوگئے۔ سیکورٹی اہل کاروں کے سربراہ کو مجاہدین نے گرفتار کرلیا۔ اس جھڑپ میں دشمن کا ایک طیارہ بھی مجاہدین نے مار گرایا۔ البدر آپریشن کے دوران ان کا ایک اور کارنامہ ضلع گلستان کے علاقے “پیتاوک” میں دشمن کے رسد کے قافلے پر حملہ ہے، جس میں دشمن کی ۲ سرف گاڑیاں اور ۲۲ سپلائی کنٹینرز تباہ ہوئے۔ ضلع گلستان کی ایک اور کاروائی میں دشمن کو رسد پہنچانے والے ایک اور قافلے پر  ایک ساتھ ریموٹ کنٹرول کے بارہ دھماکے کیے گئے، جس سے اس قافلے کی اکثر گاڑیاں تباہ اور لدا ہوا سامان جل کر خاکستر ہوگیا۔ البدر آپریشن کے دوران موسم سرما میں امریکی فوج کی سیکورٹی پر مامور اہل کاروں پر حملے کے نتیجے میں دشمن کے ۱۲ گاڑیاں تباہ اور ۱۸ اہل کار ہلاک ہوئے۔ جب کہ ۱۲ کلاشنکوف، ۴ ہیوی مشین گنیں اور بہت سا جنگی سازوسامان غنیمت کے طور پر مجاہدین کے ہاتھ آیا۔

الفاروق آپریشن کے دوران ملاعبدالرحمن کی قیادت میں مجاہدین نے ضلع  گلستان   کے علاقوں  “توت” اور “چہار راہ” کے درمیان کٹھ پتلی فوج کے ایک بڑے   قافلے پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں دشمن کے ساٹھ  سے زیادہ اہل کار ہلاک   و زخمی ہوئے۔ مجاہدین کو بہت سا اسلحہ غنیمت کے طور پر  ملا، لیکن اس حملے کے بعد واپس جاتے ہوئے  مجاہدین پر دشمن  کے طیاروں کی بم باری کے نتیجے میں   ملاعبدالرحمن  اخند کے بائیس ساتھی اس حملے میں شہید ہوگئے۔

شہادت کی سعادت

شہید  ملاعبدالرحمن اخند کا خاندان جہادی خاندان ہے۔ امریکا کے خلاف جہاد میں ان کے دو بھائیوں عبدالغفار اور عبدالسلام  سمیت خاندان کے گیارہ افراد شہید ہوگئے ہیں۔آپ اس جہادی سفر میں دو دفعہ زخمی بھی ہوئے۔ دشمن ہمیشہ آپ کے تعاقب میں رہا۔ اس مقصد کے لیے ماضی میں بھی ان پر کئی چھاپے مارے گئے۔ جب آپ  کچھ عرصے قبل صوبہ ہرات کے دورے پر آئے تھے، تو دشمن کو آپ کی آمد کی اطلاع ہوگئی۔ آپ پر شین ڈنڈ اور غوریان کے علاقوں میں چھاپہ مارا گیا۔ غوریان کے چھاپے میں تین مجاہد شہید ہوگئے۔ لیکن آپ اللہ کی مدد سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد جب آپ اپنے علاقے بکوا آئے، تو اسی ضلع  کے”دوشنبے” کے علاقے میں ملاعبدالرحمن اخند اپنے چھ ساتھیوں سمیت شہادت کے بلند مقام پر فائز ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

آپ کی شہادت کا واقعہ مجاہدین کے لیے ایک دردناک واقعہ ہے۔ آپ کی شہادت پر امارت اسلامیہ کے ترجمان قاری محمد یوسف احمدی نے اپنے خصوصی بیان میں کہا: “صوبہ فراہ سے ایک افسوس ناک خبر ملی ہے کہ امارت اسلامیہ کے ایک نامور اور بہادر کمانڈر اور صوبہ ہرات کے جہادی مسئول  ملاعبدالرحمن اخند اپنے چھ ساتھیوں سمیت جارحیت پسندوں کے ایک فضائی حملے میں شہید ہوگئے ہیں۔ شہید ملاعبدالرحمن اخندفراہ اور ہرات میں کئی سالوں تک غیرملکی غاصبوں اور ان کے کاسہ لیسوں کےخلاف مسلح جہاد میں مصروف تھے۔آپ کی بہترین حکمت عملی اور تباہ کن حملوں سے دشمن بوکھلاہٹ کا شکار تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دشمن کئی عرصے  سے آپ کے میں تعاقب میں تھا۔”

ملک کے اس بہادر سپوت کی شہادت اگرچہ ایک دردناک سانحہ ہے، لیکن دشمن کو اس خوش فہمی مبتلا نہیں رہنا چاہیے کہ ان کی شہادت سے علاقے کے مجاہدین کی کارکردگی پر منفی اثر پڑے گا۔ کیوں کہ امارت اسلامیہ کے مجاہدین شہادت کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ان کے ساتھی  بہت جلد ان کی شہادت سے پیدا ہونے والا خلا پُر کریں گے۔ انشاء اللہ