شہید ملا عبدالسلام مجروح حیاتِ عارضی سے حیاتِ جاوداں تک

عبدالرؤف حکمت   پیدائش اور ابتدائی زندگی: ملا عبدالسلام اخند نے افغان کیلنڈر کے مطابق 1345ش کو ہلمند کے   ضلع نوزاد کے علاقے تیزنی کے ’’گل بینہ‘‘ نامی گاؤں میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد محترم کا نام حاجی شکر آغا ہے۔ آپ کا تعلق پشتون قبیلے کی   ذیلی شاخ نورزئی سے تھا۔ دس سال […]

عبدالرؤف حکمت

 

پیدائش اور ابتدائی زندگی:

ملا عبدالسلام اخند نے افغان کیلنڈر کے مطابق 1345ش کو ہلمند کے   ضلع نوزاد کے علاقے تیزنی کے ’’گل بینہ‘‘ نامی گاؤں میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد محترم کا نام حاجی شکر آغا ہے۔ آپ کا تعلق پشتون قبیلے کی   ذیلی شاخ نورزئی سے تھا۔ دس سال کی عمر میں قریبی مدرسے میں دینی تعلیم کا آغاز کیا۔ پہلے ضلع نوزاد میں کچھ عرصہ پڑھتے رہے، بعد ازاں موسیٰ قلعہ تشریف لے گئے۔ آپ کے لڑکپن میں ہی   افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کا تسلط ہو گیا تھا۔ افغانوں نے جہادی تحریک کا آغاز کیا۔ کمیونسٹ جارحیت پسندو ں نے شہری اور دیہی علاقوں پر حملے اور بمباریاں شروع کیں، جس کے ساتھ ہی ملک سے لوگوں کی ہجرت کا آغاز ہوگیا۔ مہاجرین کے اس قافلے میں ملا عبدالسلام بھی شامل تھے۔

ہجرت اور کمیونزم کی مخالفت:

ملا عبدالسلام نے نوجوانی کے ابتدائی ایام میں اپنے وطن کو خیر باد کہا تھا۔ وہ قندھار کے ضلع ارغنداب میں پہلی مرتبہ ملا عبدالغنی کے جہادی قافلے میں شامل ہوئے۔ انہی دنوں وہ پاکستان کی طرف ہجرت کر گئے، لیکن کچھ عرصہ بعد واپس آ کر کئی سالوں تک قندھار اور ہلمند کے مختلف علاقوں میں جہادی عمل کا حصہ رہے۔ انہوں نے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا، قندھار اور ہلمند کے مختلف علاقوں سمیت پاکستان   کے ضلع کوئٹہ، چمن، گردی جنگل، پنج پائی اور مختلف علاقوں کے دینی مدارس میں درجہ خامسہ تک دینی تعلیم حاصل کی۔ تعلیمی مرحلے کے دوران آپ کئی مرتبہ جہادی فریضے کی ادائیگی کےلیے قندھار تشریف لے جاتے۔ آپ نے پنجوائی، ژڑئی،ڈنڈ اور ارغنداب سمیت کئی اضلاع کے معرکوں میں حصہ لیا۔

انہوں نے قندھار کے علاوہ مختصر مدت کے لیے روزگان،فراہ اور غور صوبوں میں بھی جہادی خدمات انجام دی ہیں۔جہادی تربیت کا دورہ مکمل کرنے   بعد آپ کو ہر قسم کے ہلکے اور بھاری ہتھیاروں میں کمال مہارت حاصل تھی۔ آپ ضلع سنگین کی فتح اور قلعہ گز اور گرشک کے معرکوں میں بھی شریک رہے۔ ہلمند میں آپ سب سے پہلے مولوی عطاء محمد کےگروپ میں تھے، لیکن بعد میں ملا محمد نسیم   اخندزادہ نے آپ کی رہنمائی میں ایک علیحدہ گروپ تشکیل دیا۔ ہلمند کی جہادی تاریخ میں ایک   سیاہ باب جہادی گروپوں کی باہمی لڑائی تھی۔ ان جنگوں کا مرکز ہلمند کے شمالی علاقے تھے، جہاں حزب، حرکت اور جمعیت کے رہنماؤں کے درمیان اختلافات اور جھڑپیں ہوئیں، جو طالبان کی اسلامی تحریک کی تاسیس تک جاری رہیں۔ ان میں بڑی تعداد میں جنگجو اور   عام شہری   زندگی کی بازی ہار گئے۔ جب یہ تنظیمی جنگیں شروع ہوئیں تو ملا عبد السلام نے اس فتنے سے بچنے کے لیے اپنے آبائی   علاقے نوزاد کے علاقے تیزنی میں ایک دینی مدرسے کی بنیاد رکھی۔یہ مدرسہ چار سال تک چلتا رہا، جس میں سیکڑوں طلباء علم دین کی نعمت سے بہروہ ور ہوئے۔ بعد میں ایک مقامی جنگجو کمانڈر کی جانب سے ان کے مدرسے کو بند کر دیا گیا۔ اس وقت طالبان سے قبل مجاہدین کی حکومت کے موقع پر آپ فریضہ حج کی   ادائیگی کے لیے حرمین شریفین گئے۔ حج کی ادائیگی کے بعد آپ   نے گھر بیٹھنے کا فیصلہ کیا اور طالبان کی اسلامی تحریک تک   صرف اپنے اور اپنے مجاہد ساتھیوں کی دیکھ بھال کرنے اور انہیں منظم رکھنے میں مصروف رہے۔

تحریک طالبان میں شمولیت:

جب قندھار،میوند اور ژڑئی میں طالبان کی تحریک کا آغاز   ہوا   اور قند ھار کے ضلع ڈنڈ کو مرکز   بنایا گیا، اس وقت ملا عبدالسلام کے ایک قریبی ساتھی ’ملا عبدالکریم‘ نے آپ کو ایک خط لکھا کہ وہ آئیں اور طالبان تحریک میں شامل ہو جائیں۔ اس کے بعد ملا عبدلسلام نے طالبان تحریک کے نمائندوں سے رابطوں کا آغاز کیا۔ جب طالبان کی ایک جماعت ہلمند کی طرف   گئی تو ملا عبدلسلام اپنے ساتھیوں سمیت ہلمند کے مرکز لشکر گاہ پہنچ گئے۔ ان کی ملاقات تحریک کے انتظامی مسئول ملا محمد اخند سے ہوئی۔ یہیں سے طالبان کی اسلامی تحریک میں شمولیت اختیار کر کے عملی خدمات کا آغاز ہوا۔ ملا عبدالسلام نے اپنے یاد داشتوں پر مشتمل ایک کتابچے میں ہلمند کی فتح کے بارے میں لکھا ہے: ’’ہلمند کا مرکز اور گرشک کے اہم علاقے سابقہ جنگی کمانڈروں میرولی، عبدالرحمٰن جان اور معلم یوسف کے قبضے میں تھے۔ مجاہدین نے ان کمانڈروں کو   سرنڈر کرنے کے لیے کئی قبائلی وفود بھیجے کہ وہ مجاہدین   کے ساتھ دست و گریبان ہونے سے باز آجائیں، لیکن وہ نہ مانے۔ مجبورا مجاہدین کو ان کے خلاف آپریشن کا کرنا پڑا۔ مختصر آپریشن کے بعد ہلمند کے تمام اہم اضلاع فتح ہوگئے اور اکثر جنگجو گرفتار ہوئے، جنہیں بعد میں   رہا کر دیا گیا۔ جب کہ ان کے کمانڈرز شمالی صوبوں غور یا سرحدی اضلاع کی طرف فرار ہوگئے۔‘‘

ہلمند کی جنگیں اور فتح ِ ہرات:

ہلمند کی فتح کے بعد دو بڑے واقعات ہوئے۔ پہلا واقعے میں یوسف نامی کمانڈر نے نوزاد پر حملہ کیا اور یہ   ضلع طالبان سے چھڑا لیا، بعد ازاں ملا محمد اخند اور ملا عبدالسلام کی رہنمائی میں مجاہدین نے   جوابی حملہ کیا اور ضلع دوبارہ طالبان کے قبضے میں آگیا۔ دوسرا واقعہ اس وقت ہو ا، جب ہلمند کے ایک اور جنگجو کمانڈر سرحدی ضلع دیشو کے پہاڑی علاقے چوٹو میں جمع ہوئے۔ انہوں نے یہاں ایک مرکز بنا یا، جہاں سے ہمیشہ طالبان کے خلاف کارروائیاں ہونے لگیں۔اس مرکز کو جڑسے اکھاڑنے کے لیے امارت اسلامی کے   رہنماؤں نے ملا عبدالسلام کی سربراہی میں کئی تجربہ کار مجاہدین کا ایک گروپ تشکیل دیا۔ انہوں نے بھی بہ حسن و خوبی یہ آپریشن اختتام تک پہنچایا اور نتیجے میں مذکورہ   مرکز ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا۔ اس وقت ضلع نوزاد کے مسئول اور گرشک کے لیے تشکیل دیے جانے والے خصوصی گروپ کی رہنمائی بھی آپ کے سپرد تھی۔ آپ کا زیادہ تر عرصہ ہلمند کے شمالی علاقوں میں گزرا، جہاں   اسماعیل خان نامی جنگجو   کمانڈر اور طالبان کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں۔

1374 شمسی سال کو ملک کے شمال میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی، جہاں فراہ ، نیمروز، ہرات اور بادغیس صوبوں پر طالبان نے قبضہ کرلیا۔ دوسرے جہادی رہنماؤں کی طرح ملا عبدالسلام کا بھی اس فتح میں اہم کردار   تھا، انہوں نے اسے اپنے کتا بچے میں تفصیل سے بیان کیا ہے، جس کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر خلاصہ نقل کیا جا رہا ہے:

’’اسماعیل خان اور غفار اخنذادہ کے جنگجوؤں نے احمد شاہ مسعود کے سیکڑوں مسلح جنگجوؤں سمیت ایک بڑےآپریشن کی صورت میں فراہ   کے ضلع گلستان میں طالبان کی جنگی پٹی پر حملہ کر کے گلستان پر قبضہ کر لیا۔ نتیجۃ طالبان کو ضلع دلآرام سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا۔‘‘ اس وقت ملا عبدالسلام گرشک میں مجاہدین کے ایک گروپ کے کمانڈر تھے، وہ لکھتے ہیں: مَیں دلآرام کی   جانب محو سفر تھا کہ راستے میں ملا فاضل اخند سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا؛ صوبائی امیر ملا محمد اخند کی جانب سے   پیغام ملا ہے کہ ہم شوراب کی جنگی پٹی کو مضبوط کریں۔ طالبان کو پیچھے   نہ جانے دیا جائے۔ چناں چہ ہم شوراب میں طالبان کو منظم کرنے میں مشغول ہوگئے۔ اتنے میں ملا محمد اخند بھی   پہنچ گئے۔ مجھ سے کہا؛ ’’آپ گرشک چلے جائیں، وہاں احتیاطی اور دفاعی تدابیر کا انتظام کریں اور عصر کو واپس شوراب پہنچ جائیں۔‘‘ مَیں نے گرشک   پہنچ امیر کا حکم بجا لایا اور عصر کو واپس شوراب کی طرف روانہ ہوگیا، لیکن راستے میں ’حوض خشک‘ کے علاقے میں ملا   داداللہ اخند اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی، سب کے چہروں پر اضطراب تھا۔ مَیں سمجھ گیا کہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملا محمد اخند شوراب میں شہید ہوگئے ہیں اور طالبان پیچھے   ہٹنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس وقت طالبان بہت پریشان اور مایوسی کی حالت میں تھے۔ مقابلے کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے۔ اسی وقت قندھار سے امیر المؤمنین کا پیغام پہنچا کہ ملا محمد اخند کی شہادت کے بعد ملا رحمت اللہ اخند مجاہدین کے امیر ہوں گے۔ اس وقت اسماعیل اور مسعود کے جنگجو نہایت غرور اور تکبر سے پیش قدمی کیے جارہے تھے۔ گرشک کے بہت سے علاقوں پر بھی ان کا قبضہ ہو چکا   تھا۔ مجاہدین نے ملا رحمت اللہ اخند کی رہنمائی میں جوابی حملے کے لیے 300 مجاہدین کا ایک گروپ تشکیل دیا۔ اس گروپ کو مزید تین گروپوں میں تقسیم کر دیاگیا۔ حملے کا منصوبہ اس طرح بنا کہ سب سے پہلے 100 مجاہدین ملا داداللہ، ملا سراج الدین اور ملاخان محمد کی قیادت میں ’بغرا‘ کے جنگجوؤں پر حملہ کریں گے۔ دوسرے 100 مجاہدین ملا رحمت اللہ کی قیادت میں ’’نفرسنگی چہار راہی‘‘ کے جنگجوؤں پر حملہ کریں گے اور باقی 100 مجاہدین ملا عبدالسلام کی قیادت میں دشمن کا   عین سڑک پر   مقابلہ کریں گے۔‘‘

ملا عبدالسلام مزید لکھتے ہیں: ’’علی الصباح جنگ شروع ہوئی۔ ہم آٹھ ساتھی ایک لینڈ کروزر میں دشمن کی فوجوں کے درمیان گھس گئے۔ اکثر لوگ یہ سمجھتے رہے کہ   غفار اخندزادہ کے سابق ساتھی ملا عبدالسلام شاید ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے آئے ہیں، لیکن ہم نے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن کی تمام رکاوٹوں کو کامیابی سے عبور کر لیا۔ ہماری طرف سے سب سے     پہلے ملا زڑگی اخند نے ایک مسعودی ٹینک کے پرخچے اڑائے۔ اس کے بعد جنگ شدت اختیار کرتی گئی۔ دشمن نے بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا، لیکن پیش قدمی نہیں کرسکا اور پیچھے پٹنے پر مجبور ہوگیا۔ عصر تک گھمسان کا رن   پڑا، جس کے نتیجے میں دشمن کے لشکر واپس حوض خشک کی طرف بھاگ گئے۔ اس جنگ میں طالبان کو اندازے سے زیادہ جنگی ساز وسامان، اسلحہ، سامان خورد ونوش غنیمت کے طور پر ہاتھ آیا ۔ علاوہ ازیں بڑی تعداد میں جنگجو گرفتار   بھی ہوئے۔ اسماعیل خان کے جنگجو 15 بڑے ٹینک میدان جنگ میں چالو حالت میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ہیوی مشین گنز اور مختلف اشیائے   خوردونوش سے بھرے ٹریلر سمیت بہت وسائل مجاہدین نے غنیمت کرلیے۔اسی دن امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد اکیلے   ایک گاڑی میں گرشک   تشریف لائے اور جنگ کی پہلی پٹی میں مجاہدین رہنماؤں کو ہدایات دیں۔ لیکن مجاہدین نے ان سے درخواست کی آپ واپس قندھار تشریف لے جائیں، یہاں بمباری ہوسکتی ہے۔ بعد میں ملا محمد ربانی،ملا مشر اخند، حاجی بشیر اور دوسرے   جہادی رہنما طالبان سے مل گئے۔ دلآرام کی   فتح کے بعد شاہراہ عام پر ایک پل کے نیچے امیر المؤمنین کی صدارت میں ایک اجلاس ہوا اور فراہ اور ہرات کی فتح کےلیے مجاہدین کے گروپ ترتیب دیے گئے۔ جن میں مختلف جہادی   رہنماؤں کو مختلف اہداف کےلیے مقرر کیا گیا۔ الحمدللہ! تمام مجاہدین نے   امیر کی جانب سے دیے گئے اہداف کامیابی سے حاصل کیے اور ہرات کا تاریخی شہر طالبان کے قبضے میں آ گیا۔

ہرات میں مجاہدین کی قیادت:

ہرات کی فتح کے بعد آپ کو طالبان کی چوتھی بریگیڈ کی قیادت سونپی گئی۔ آپ کے جہادی ساتھی بادغیس اور کابل کی جنگی پٹیوں میں خدمات انجام دیتے رہے۔ ہرات کی فتح کے   چھ ماہ بعد آپ کابل کی جنگی پٹی پر چلے گئے۔ اس وقت احمد شاہ مسعود کے جنگجوؤں نے عینک   نامی علاقے میں طالبان کی جنگی پٹی   پر حملہ کیا اور بہت سے علاقے طالبان سے ہتھیالیے۔ جوابی آپریشن کے لیے ملا عبدالسلام سمیت   ہزاروں طالبان عینک پہنچ گئے اور تمام مقبوضہ علاقے مسعود سے دوبارہ چھین لیے۔ یہاں تک کہ طالبان دارالحکومت کابل کے وسط میں پہنچ گئے۔احمد شاہ مسعود کے جنگجوؤں نے علاقہ چھوڑنے سے پہلے زمین میں بارودی سرنگیں بچھا دی تھیں، جن کی زد میں آکر کئی طالبان   شہید ہوگئے ۔ ملا عبدالسلام کی گاڑی بھی ایک بارودی سرنگ کا نشانہ بن گئی، جس کے نتیجے میں آپ کی کمر اور دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ آپ کی ٹانگوں کی ہڈیاں   ریزہ ریزہ ہو گئیں تھیں۔ جس کی وجہ سے آپ دائمی   معذور ہوگئے۔ امارت اسلامی نے آپ کے علاج معلالجے میں کوئی کسر   نہیں چھوڑی۔ حتی کہ آپ کو علاج کےلیے پاکستان اور جرمنی بھی لے جایا گیا، لیکن اس کے باوجود آپ مکمل طور پر چلنے پھرنے کے   قابل نہیں ہو سکے۔ آپ کو ہمیشہ بیساکھیوں کی ضرورت پیش رہی۔ زخمی ہونے کے بعد وقتی طور پر آپ کی   ذمہ داری آپ کے نائب ملا عبدالولی زڑگئی نبھاتے رہے، انہوں نے کابل کی فتح   میں اہم کردار ادا کیا۔ ملا زڑگئی کچھ عرصہ   بعد مزارشریف کی پہلی فتح کے دوران جنرل مالک کے حامیوں کے ساتھ لڑائی میں شہید ہوگئے۔ جب ملا عبدالسلام علاج معالجے کے بعد واپس تشریف لائے تو معذوری کے باوجود اپنی ذمہ داری بہ حسن   و خوبی انجام دیتے رہے۔ تب ایک مرتبہ پھر شمال کے تمام صوبے طالبان کے کنٹرول میں آگئے، جن میں ملا برادر اخند، ملا فاضل اخند اور دوسرے جہادی رہنماؤں سمیت ملا عبدالسلام نے بھی ہرات کے مجاہد کمانڈر کی حیثیت سے اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے تب   تک اپنی ذمہ داریاں جاری رکھی،تاآنکہ امریکا نے افغانستان پر جارحیت کی اور امارت اسلامی کے مجاہدین دوسرے شہروں کی طرح ہرات شہر سے بھی نکل گئے۔

امریکی جارحیت کے خلاف جہاد:

ہرات کے سقوط کے بعد ملا عبدالسلام اپنے آبائی ضلع نوزاد چلے گئے۔ یہاں بھی ان کی جان کو   امریکا کی جانب سے خطرہ تھا۔ اس لیے کچھ عرصہ   کے بعد گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ آپ تین سال اور تین ماہ تک گو شہ نشین رہے۔ اس عرصے میں آپ صر ف اپنے چھ با اعتماد ساتھیوں کے ساتھ رابطے میں رہتے اور ان سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ انہیں جہاد کی ترغیب دیتے   رہتے اور امریکا کے خلاف لڑنے کے لیے رہنمائی اور ہدایات دیتے۔ بعد ازاں آپ اعلانیہ طور پر میدان ِ جہاد میں کود پڑے۔ نوزاد، کجکی، موسیٰ قلعہ اور دوسرے علاقوں تک آپ نے   آمد و رفت   کا سلسہ شروع کیا۔ امارت اسلامی کے رہنماؤں سے رابطے اور مشورے کی روشنی میں مجاہدین کی تنظیم نو کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ آپ نے اس جدوجہد میں ایک مرتبہ ہلمند، فراہ اور روزگان کے 200 مجاہدین کو رات کی   تاریکی میں جمع کر کے خطاب کیا۔ انہیں ہدایت دی گئیں کہ اعلانیہ جہاد شروع کریں۔ دشمن کے مراکز پر چڑھ دوڑیں۔ اس کے ساتھ آپ نے   600گولیوں سے بھرے صندوقوں سمیت دوسرا اہم اسلحہ اور جنگی سازو سامان مجاہدین میں تقسیم کیا اور انہیں جہادی کاروائیاں تیز کرنے کا حکم دیا۔

شہادت:

1388 شمسی سال میں امریکی فوجیوں کو آپ کے خفیہ ٹھکا نے کا علم ہوگیا، جو نوزاد کے علاقے تیزنی   میں واقع تھا۔ امریکی فوجیوں نے ان کے مکان پر چھاپہ مارا۔ ملا عبدالسلام نے گرفتاری دینے کے بجائے امریکی فوجیوں کا مقابلہ شروع کیا،جنہیں جیٹ طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی حاصل تھی۔ کئی امریکی فوجیوں کو واصلِ جہنم کرنے کے بعد آپ بھی دشمن کی جوابی فائرنگ سے شہادت کے بلند مقام پر فائز ہوگئے۔ آپ کو اپنے آبائی قبرستان میں سپر د خا ک کیا گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

شہید ملا عبدالسلام مجروح کے بھائی اور ان کے جانشین مولوی محمود خان   ثاقب ملا عبدالسلام کی شخصیت کے بارے میں کہتے ہیں: آپ جہادی   سرگرمیوں کے ساتھ فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتےتھے۔ اپنے علاقے میں ایک بڑا مدرسہ بنایا تھا۔ اسی طرح کئی علاقوں میں مساجد و مدارس کی تعمیر میں بھی حسب توفیق امداد کرتے تھے۔ نوزاد اور غور کے درمیان راستے ’کچی سڑک‘ کی تعمیر میں بھی بے انتہا کوششیں کیں۔ اب یہ راستہ لوگوں کی آمد و رفت کا ایک   پُرسہولت ذریعہ ہے۔آپ منصب کا شوق نہیں رکھتے تھے۔ انتقام کی بجائے معافی کو ترجیح دیتے تھے۔ آپ کے آبائی علاقے میں ایسے بہت سے لوگ موجود تھے، جنہوں نے ان کے گھر پر باربار چھاپے   مارے تھے۔ ان کے گھر کو حکومتی اہل کاروں کی مدد سے لوٹا گیا۔ ، بھائیوں اور اقارب کو   گرفتار کیا   گیا۔ جب علاقے میں طالبان کی حاکمیت قائم ہوئی تو وہ لوگ علاقے سے نقل مکانی کرنے لگے، کیوں کہ انہیں خوف تھا ملا عبدالسلام ان سے انتقام لیں گے، لیکن آپ نے انہیں پیغام بھیجا کہ میری طرف سے   آپ بے فکر رہیں، مَیں صرف شرعی احکام کا پابند ہوں۔ اس کے علاوہ ذاتی انتقام کا کوئی ارادہ نہیں۔ ملا عبدالسلام تو شہید ہوگئے، لیکن ان کے ہاتھوں تربیت پانے   والے   ہزاروں مجاہدین آج بھی ان کے بھائی ملا محمود خان ثاقب کی قیادت میں مختلف علاقوں   میں جہادی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔