شہید مولوی محمد جان صاحب کی حیات اور کارناموں پر ایک نظر

عبدالرؤف حکمت پیدائش اور ابتدائی حالت زندگی: مولوی محمد جان مخلص جو مولوی احمد جان کے نام سے بھی مشہور تھے حاجی عبدالرؤف کے صاحبزادے تھے ۔آپ صوبہ غزنی  ضلع قرہ باغ کے گاؤں برلی کے ایک دیندار اور جہادی گھرانے میں 1392 ھ ق میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے استاد مولوی عبدالحئی […]

عبدالرؤف حکمت

پیدائش اور ابتدائی حالت زندگی:

مولوی محمد جان مخلص جو مولوی احمد جان کے نام سے بھی مشہور تھے حاجی عبدالرؤف کے صاحبزادے تھے ۔آپ صوبہ غزنی  ضلع قرہ باغ کے گاؤں برلی کے ایک دیندار اور جہادی گھرانے میں 1392 ھ ق میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے استاد مولوی عبدالحئی  یزدانی سے حاصل کی اور پندرہ سال کی عمر میں مزید علم حاصل کرنے کے لیے مدارس کا رخ کیا  ۔اورافغانستان وپاکستان کے مختلف مدارس میں پڑھتے رہے ،تعلیم کے آخری مراحل میں شمالی وزیرستان میرانشاہ میں عظیم جہادی قائد مولوی جلال الدین حقانی کے مدرسے جامعہ منبع العلوم میں داخل ہوگئے ۔اور یہیں سے جہادی زندی کا آغاز کیا ۔

کمیونزم کے خلاف جہاد:

کمیونزم کے خلاف جہاد کے دور میں مولوی محمد جان عنفوان شباب میں تھے ۔ انہوں نے باقاعدہ جہاد کا آغاز صوبہ خوست کے جہادی معرکوں سے کیا ۔ وہ حقانی صاحب کے مدرسے سے دیگر مجاہدین طلبہ کے ساتھ مختلف محاذوں پر جاتے اور جہادی کارروائیوں میں حصہ لیتے ۔ کارروائیوں کے بعد خوست کے مضافاتی علاقے “بڑیی” میں حقانی صاحب کے مشہور جہادی مرکز میں رہتے ۔

حقانی صاحب کی قیادت میں لڑا جانے والا خوست کی فتح کا آخری معرکہ جو 17 دن جاری رہا تاریخ میں کمیونزم کے خلاف جہاد کا  سب بڑا تاریخی کارنامہ سمجھا جاتا ہے ۔ مولوی محمد جان رحمہ اللہ اس معرکہ میں شریک رہے ۔ خوست شہر کی فتح کے بعد حقانی صاحب نے پکتیا کے مرکز گردیز پر حملے شروع کیے ۔ مولوی محمد جان صاحب گردیز شہر کے قریبی علاقے مہلن میں حقانی صاحب کے جہادی کیمپ میں رہے ۔ وہ حقانی صاحب کی تمام جہادی تشکیلات میں اس وقت تک شامل رہے جب تک کمیونزم کا مکمل صفایا نہیں ہوا ۔

تنظیمی ذمہ داریاں اور بیت المال کا دفاع:

مولوی  محمد جان کے ایک قریبی ساتھی قاری ضعیف کہتے ہیں گردیز پر قبضے کے بعد مولوی محمد جان صاحب اپنے ساتھیوں کے ساتھ گردیز کے شہر میں رہنے لگے ۔ اس دور میں خود مسلح جنگجو عوامی املاک اور دولت لوٹتے رہے ۔ تمام سرکاری املاک پر تنظیمی ڈاکوؤں کا قبضہ تھا ۔ اس دور میں ان بے لگام ڈاکوؤں کی حالت ایسی تھی کہ کوئی ان کا راستہ نہیں روک سکتا تھا ۔ مولوی محمد جان صاحب نے اپنی جرات اور بہادری کی برکت سے اپنی ذمہ داری نبھائی اور آس پاس کے گھروں اوربیت المال ک حفاظت احسن طریقے سے کی ۔

قاری ضعیف کا کہنا ہے کہ گردیز میں صوبائی ہیڈکوارٹر کی عمارت کے ساتھ ایک  سرکاری عمارت تھی جس میں بہت سی سرکاری گاڑیاں کھڑی تھیں ۔ جو تاحال ان ڈاکووں کے دستبرد سے محفوظ تھیں ۔ ایک دن ہم نے دیکھا کہ ایک ڈاکو لوٹ مار کے ارادے سے اس عمارت میں داخل ہوا۔ مولوی محمد جان نے اسے دیکھتے ہی پکڑکر معمولی سزا کے بعد چلتا کردیا۔کچھ دیر بعد وہ اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ ہمارے ہیڈ کوارٹر کے سامنے آکھڑا ہوا ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ان سے مذاکرات کیے جائیں ۔

قاری ضعیف کا کہنا ہے اس وقت میں دفتر سے نکلا میں نے دیکھا مولوی محمد جان راکٹ میں گولہ فٹ کیے ایک ڈاکو کے ساتھ بحث کررہے ہیں ۔ مولوی صاحب ان سے کہہ رہے تھے کہ یہیں سے واپس لوٹ جاؤ ورنہ سخت خطرناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈاکوؤں کے اس گروپ کاکمانڈر کہہ رہا تھا کہ ہمیں لوگوں نے بتایا کہ اس عمارت میں طالبان رہتے ہیں وہ بہت اچھے لوگ ہیں تم ان سے ملو اور بات چیت سے مسئلہ حل کردو ۔ مولوی محمد جان نے جواب میں کہا ” تمہیں جس نے بھی کہا کہ طالبان اچھے لوگ ہیں اس نے براکیا ہے ۔ ہم بیت المال کی حفاظت میں کسی کا لحاظ نہیں کرتے  اور  نہ ہی ہم کسی کو  عام آبادیوں کے لوٹنے کی اجازت دیتے ہیں ۔

یہ لوگ جو شکل سے عادی چور اور ڈاکو لگتے تھے انہوں نے کہا ہمارا تعلق ملی محاذ نامی تنظیم سے ہے ۔ اور ہم چاہتے ہیں اس سرکا ری عمارت کی چھت پر مورچہ بنائیں ۔ مولوی محمد جان نے ان سے کہا واپس چلے جاؤ تمہیں اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ دوسرے علاقوں کی طرح یہاں بھی اس محفوظ علاقے میں چوری اور لوٹ مار شروع کردو۔ ان لوگوں نے مولوی محمد جان صاحب کا یہ جارحانہ رویہ دیکھا تو وہیں سے واپس ہوگئے ۔ اس طرح مولوی صاحب نے بیت المال کے سرمائے کا تحفظ کیا۔

تحریک طالبان میں شمولیت اور خدمت:

کمیونزم کے خلاف جہاد کے خاتمے کے بعد انہوں نے ایک بارپھر اپنی دینی تعلیم کا سلسلہ شروع کردیا ۔ اس وقت تحریک طالبان کے سربکف غازیوں کے لشکر کابل کے مضافات میں پڑاؤ ڈال رہے تھے مولوی صاحب اس وقت خیبر پختونخواضلع ہنگو کے علاقے زرگری میں مدرسہ جامعہ اسلامیہ میں دورہ حدیث کررہے تھے ۔ انہوں نے اسی سال اسی مدرسے کے  شیخ الحدیث ،مولانا  حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے شاگرد شیخ الحدیث حضرت بہرہ مند صاحب رحمہ اللہ سے احادیث کی اجازت حاصل کی ۔ دورہ حدیث سے واپس لوٹنے کے بعد انہوں نے اسلامی تحریک کی صفوں میں خدمت شروع کردی ۔

مولوی محمد جان نے فراغت کے بعد کچھ عرصہ کے لیے صوبہ خوست میں مٹاچینہ کے علاقے میں مشہور دینی مدرسے کی نظامت سنبھالی ۔ پھر اسلامی تحریک طالبان کے جہادی صفوں میں چلے گئے ۔ کابل اور شمالی علاقوں کی فتوحات جیسے بڑے معرکوں میں حصہ لیا ۔ صوبہ بلخ کی فتح کی بعد کچھ عرصہ وہ صوبہ بلخ کے گورنر رہے ۔ بعد ازاں صوبہ لغمان کے کفیل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ۔ لغمان میں کفیل کا عہدہ سنبھالنے کے دور میں بھی ضلع دولت شاہ میں جہادی زندگی میں مصروف رہے ۔ اس علاقے میں انہوں نے تاریخی استقامت دکھائی ، دشمن کے کئی شدید حملے انہوں نے پسپا کردیے۔

کابل کے جنگی خطوط  میں مولوی محمد جان صاحب نے کافی عرصہ تک حقانی صاحب کے ساتھیوں کی سرپرستی بھی کی ۔ اور اس وقت تک جہاد میں حصہ لیتے رہے جب تک افغانستان کی پاک زمین پر مغربی کافروں نے جارحیت کی ۔

امریکا کے خلاف جہاد:

امریکی جارحیت کے بعد دارالحکومت کابل سے جب طالبان کی حکومت چلی گئی تو دوسرے مجاہدین کی طرح مولوی محمد جان صاحب بھی اپنے وطن اصلی غزنی قرہ باغ گئے ۔ اس وقت جب امریکی وحشی لشکر تازہ دم تھا انہوں نے کئی کئی بار پکتیا اور قندہار کی جانب سفر کیا ۔ اس دوران وہ ہر وقت وہ اپنے جہادی قائد حقانی صاحب سے مسلسل رابطے میں تھے ۔ اور ان سے ہدایات لیتے رہتے ۔ اس دوران انہوں نے حقانی صاحب کا ایک انتہائی اہم پیغام قندہار میں امارت اسلامیہ کے دیگر قائدین کوپہنچایا ۔ جارحیت کے پہلے سال مجاہدین کی عقب نشینی کے بعد افغانستان کے دیگر علاقوں کی طرح غزنی کا علاقہ قرہ باغ بھی افغان نیشنل آرمی کے قبضے میں چلاگیا ۔ مولوی صاحب نے پہلی مرتبہ اپنے قریبی ساتھیوں کو جمع کیا اور جہادی آپریشن شروع کرنے کا پروگرام ترتیب دینے کے لیے مشورہ شروع کیا ۔ اس اجتماع کے اگلے روز ان کے قریبی ساتھی اور ان کے معاون خاص حق مل صاحب کو حکومتی عسکریت پسندوں نے گرفتار کرلیا ۔ مگر ساتھی کی گرفتاری سے ان کا حوصلہ پست نہ ہوا بلکہ انہوں نے انتہائی جرات کے ساتھ نیشنل آرمی کے کیمپ میں جاکر حملہ کیا اور اپنے ساتھی کو چھڑا لائے ۔

اس کے بعد مولوی صاحب اپنے علاقے سے چلے گئے اور حقانی صاحب کی جہادی تشکیلات میں خدمات انجام دینا شروع کردیے ۔ اس وقت انہوں پکتیا ، پکتیکا اور خوست کے سرحدی علاقوں میں بہت سی ان جہادی کارروائیوں میں حصہ لیا جنہیں امریکا کے خلاف جاری رواں جہاد میں پہلی اور ابتدائی کارروائیوں کا اعزاز حاصل ہے ۔ ان کارروائیوں کے دوران امریکیوں کے سرحدی اڈے باربار مجاہدین کے حملوں کا نشانہ بنے اور ہمیشہ انہیں بھاری نقصان پہنچے ۔

مولوی طلحہ اور مولوی نوید جو اس مرحلے میں ان کے جہادی ساتھی اور معاون رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے ” امریکی جارحیت کے پہلے سالوں میں ہم 25 ساتھی تھے ۔ مولوی محمد جان صاحب کی قیادت میں ہم نے خوست کے سرحدی علاقے “پین” اور “ببرہ خولہ ” میں خفیہ مراکز قائم کیے تھے  اور یہیں سے ہم نے خوست کے مختلف علاقوں میں امریکی اڈوں اور کیمپوں پر حملے کیے ۔ اس دور کی کارروائیوں میں سکر بیست کی کارروائیاں قابل ذکر ہیں جو ہم نے خوست کے صحرابا غ ہوائی اڈے پر وقت فوقتا کیں ۔ ان کی قیادت میں ہمارے ساتھیوں نے دیگر مجاہدین کے ساتھ مل کر ترخوبی ، ژورہ ، کاریزگی ، لواڑہ اور کچھ دیگر علاقوں میں بھی امریکی اڈوں پر کارروائیاں کیں ۔

مولوی محمد جان صاحب اس دور سے شہادت کے دن تک ایک وفادار اور نہ تھکنے والے مجاہد کی حیثیت سے حضرت حقانی صاحب کے ساتھ ملک کے جنوب مشرقی  زون میں جہادی محاذوں پر رہے ۔ وہ حضرت حقانی صاحب کے بلند رتبہ اور بااعتماد ساتھیوں میں سے تھے ۔ نہ صرف یہ کہ وہ عسکری امور سنبھالتے رہے بلکہ عوامی ، انتظامی ، دعوت وارشاد اور عوامی مسائل کے حل اور فصل سمیت ہر طرح کے کاموں میں حصہ لیتے رہے ۔ حتی کہ بہت سے اجلاسوں اور ملاقاتوں میں حقانی صاحب کے نمائندے بن کر حصہ لیتے رہے ۔ 2011 میں انہوں نے فریضہ حج بھی اداکیا ۔

مولوی محمد جان صاحب ایک جانب حقانی صاحب کے جہادی محاذوں میں خدمات انجام دیتے رہے ، دوسری جانب اپنے علاقے غزنی ضلع قرہ باغ میں بھی ایک فعال جہادی گروپ کے کمانڈر تھے ۔ جو اب بھی غزنی میں پوری یکسوئی سے جہادی خدمت انجام دے رہا ہے ۔

مولوی محمد جان دشمن کے ہاتھوں تین مرتبہ گرفتار ہوئے ۔ پہلی مرتبہ چھ ماہ ، دوسری مرتبہ دو ماہ اور تیسری مرتبہ اٹھارہ ماہ دشمن کی قید میں رہے ۔

مولوی محمد جان شہید رحمہ اللہ کا حال ہی میں خوست کے جہادی ذمہ دار کی حیثیت سے تقرر کیا گیا تھا ۔ 20 نومبر 2013 ء17 محرم 1435 ھ کو اس وقت شہید ہوئے جب وہ قبائلی علاقے کے قریب کورمی دریا کے کنار واقع گاؤں ٹنڈورو میں ایک مدرسہ میں آرام کررہے تھے ۔کہ دشمن کے ڈرون طیارے کا نشانہ بنے ۔انا لله وانا الیہ راجعون

ان کے پس ماندگان میں ان کے چھوٹے بھائی اور والدہ کے ساتھ  اہلیہ اور چھ بچے شامل ہیں ۔ ان کے بیٹوں کے نام محمد رفیق ، محمد ، احمد اور محمد عمر ہیں

مولوی محمد جان کی شخصیت کے بارے میں ان کے ساتھیوں کی آراء:

مولوی محمدجان رحمہ اللہ کے قریبی ساتھیوں کے ساتھیوں کے تاثرات کا ذکر کرنے سے قبل ان سے ہونے والی آخری ملاقات کا احوال ذکر کروں گا ۔

چار پانچ سال قبل جب امریکیوں کی ایک ظالمانہ بمباری میں مولوی جلال الدین حقانی کے خاندان کے کچھ افراد شہید ہوئے تھے ، کچھ مجاہدین کے ساتھ میں بھی ان کے ہاں  شہداء کی تعزیت کے لیے گیا۔ حقانی صاحب کے ساتھیوں کے ٹھکانے کے پاس میں پہنچا تو حقانی خاندان کا کوئی فرد وہاں موجود نہیں تھا ۔ البتہ مجلس میں طاقتور اور مضبوط بازؤوں والا ایک تنومند جوان بیٹھا ہوا تھا جو مہمانوں کی میزبانی کے فرائض انجام دے رہا تھا ۔ ساتھیوں نے تعارف کرایا کہ یہ مولوی محمد جان صاحب ہیں جو حقانی صاحب کے قریبی اور بڑے  ساتھیوں میں سے ہیں ۔ اس مجلس کے شرکاء جو حقانی صاحب کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور حقانی صاحب کو پہنچنے والے اس حادثہ فاجعہ پر غم زدہ اور پریشان تھے تھوڑی دیر بعد مولوی محمد جان صاحب کے جاندار وعظ سے ایسے مطمئن ہوئے کہ ان کے دل غموں کے بوجھ سے ہلکے ہوگئے ۔

مولوی صاحب نے اپنی مختصر سی گفتگو میں پوری مجلس کی توجہ کھینچ لی ، شہادت کا فلسفہ بیان کیا اور فرمایا ان شہادتوں پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ کے دین کی حفاظت کے لیے ہر قربانی کو تیار مجاہدین ہمارے ساتھ ہیں ۔ انہوں نے کہا امریکا کے خلاف جہاد کے آغاز کے دنوں میں ہمارے ساتھ اتنے مجاہدین نہیں تھے جتنے آج ہمارے شہداء کی تعداد ہے ۔ یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالی ان شہداء کی قربانیاں ضائع نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ اس خون کی برکت سے جہاد کا صف مضبوط ہوا ہے اور مجاہدین کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے ۔ اسی مجلس میں ، میں نے دیکھا کہ  مولوی صاحب ایک صاحب ایمان ، پر عزم ، اور متوکل علی اللہ مجاہد ہیں جسے اللہ تعالی نے امتحانات کے مقابلے کی اچھی استعداد عطاکی تھی ۔

وہ مجاہدین جنہوں نے مولوی صاحب کے ساتھ قریب رہ کر وقت گذارا ان کا کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں اچھے علم کے ساتھ تقوی ، دیانت ، بہادری اور جرات بھی عطاکی تھی اور کسی حال میں بھی ان کا عزم نہ ٹوٹا۔

امارت اسلامیہ کے اطلاعاتی کمیشن کے سیکرٹری کہتے ہیں ” میر ی   مولوی محمد جان صاحب کے ساتھ صرف چند ملاقاتیں ہوئی  ہیں  مگر میں  نے ان میں بہادری ، تدبر ، پختہ عزم اور اخلاص کے بہت سے آثار دیکھے ۔ انہوں نے جہادی صف میں بہت بلند کردار اداکیا ۔ اللہ تعالی ان کی شہادت قبول فرمائے ۔

امار ت اسلامیہ کے معروف ترانہ خواں اور مجاہد شخصیت ملا فقیر محمد درویش صاحب مولوی محمد جان صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں مولوی صاحب سے ہمارا انتہائی قریبی تعلق تھا ۔ وہ انتہائی مخلص اور مشفق جہادی رہنما تھے ۔ خوش طبعی ان کے مزا ج کا حصہ تھی ۔ وہ اگر غصہ یا نصیحت کرتے تو بھی اس میں خوش طبعی کا رنگ نمایاں ہوتا۔ وہ طویل عرصے تک حقانی صاحب کے جہادی ساتھی رہے اور ان کے انتہائی قریبی اور بااعتماد ساتھیوں میں سے تھے ۔ انہوں نے جہادی زندگی کی راہ حیات فانی کے آخر تک اپنائے رکھی ۔ ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ مولوی صاحب شہادت کے بڑے متمنی تھے ۔ وہ ہمیشہ شہادت کی دعائیں کرتے رہے ۔ کچھ عرصہ قبل ان کے پرانے جہادی ساتھی مولوی محمد سنگین فاتح امریکی حملے میں شہید ہوئے مولوی محمد جان صاحب فرمایا کرتے “شہادت کی باری میری تھی مگر مولوی سنگین نے مجھ سے پہلے نمبر لے لیا “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے انہیں شہادت کی کتنی بڑی خواہش تھی ۔

مولوی صاحب مجاہدین کے درمیان خیرخواہی میں مشہور تھے ۔ اختلاف اور نزاع سے انہیں انتہائی نفرت تھی ۔ عوامی تنازعات کے حل میں جس طرح وہ اہم کردار اداکرتے مجاہدین کی تربیت کی جانب بھی ہمیشہ متوجہ رہتے ۔

شہید مولوی صاحب کے بھائی حاجی محمد رحیم کہتے ہیں مولوی صاحب کو جہاد کے شوق کے ساتھ ساتھ دینی علوم کے ساتھ بھی  گہرا رشتہ اور لگاؤ تھا ۔ انہوں نے اپنے علاقےضلع قرہ باغ میں نصرت العلوم کے نام سے دینی علوم کا ایک مدرسہ قائم کیا تھا جس میں آج بھی  55 رہائشی اور سینکڑوں غیر رہائشی طلبہ تحصیل علم میں مصروف ہیں ۔

مولوی محمد جان صاحب شہادت کی وجہ سے ہم سے جسمانی طورپر الگ ہوگئے مگر ان کی خوبصورت یادیں اور کارنامے مجاہدین کے دلوں اور تاریخ کے صفحات میں بہت عرصے تک محفوظ رہیں گے ۔ انہوں نے صدقہ جاریہ کے طورپر طلبہ اور مجاہدین کی ایسی صف پیچھے چھوڑی ہے جو ان کی راہ پر چل رہے ہیں اس لیے ان کی شہادت کی وجہ سے ان کی جہادی صف میں ان کا خلا محسوس نہیں ہوگا۔

رحمہ الله تعالی رحمۃ واسعہ