شہید مولوی نسیم اللہ کی زندگی اور کارناموں پر ایک نظر

تحریر: عبدالروّف حکمت موت بر حق ہے اللہ تعالی کی ذات کے سوا ہر ذی روح کو موت کا مزہ ضرور چکھنا ہوگا۔ لیکن جس طرح ہر نفس کا موت کا سامنا کرنا ایک محکم حقیقت ہے، اسی طرح یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقیت ہےکہ کئی لوگوں کی دنیا سے رحلت کو ظاہراً موت […]

تحریر: عبدالروّف حکمت

موت بر حق ہے اللہ تعالی کی ذات کے سوا ہر ذی روح کو موت کا مزہ ضرور چکھنا ہوگا۔ لیکن جس طرح ہر نفس کا موت کا سامنا کرنا ایک محکم حقیقت ہے، اسی طرح یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقیت ہےکہ کئی لوگوں کی دنیا سے رحلت کو ظاہراً موت سے تعبیر کیا   جاتا ہے لیکن وہ ہمیشہ کیلئے امر ہوچکے ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے راہِ حق میں جان دینے والوں کے بارے میں   فرمایا ہے:

وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ۝۱۶۹

ترجمہ: اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مُردہ نہ خیال کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر وہ شخص شہید ہے جسے اللہ کی راہ میں موت   آئے،   اگر چہ وہ جنگ میں دشمن کی گولی کا نشانہ   نہ بنا ہو۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، من فصل ( أي خرج ) في سبيل الله فمات أو قتل فهو شهيد ، أو وقصه فرسه أو بعيره أو لدغته هامة ، أو مات على فراشه بأي حتف شاء الله فإنه شهيد وإن له الجنة ) أخرجه أبو داوود

مولوی نسیم اللہ صدیقی راہِ حق کے ایک جانباز اور مخلص سپاہی تھے۔ آپ جہادی سفر میں زخمی ہوئے اور بعد میں رو بہ صحت بھی ہوئے ، لیکن راہِ حق کے اس کھٹن سفر میں آپ پر ایک جان لیوا بیماری کا حملہ ہوا اور یہی بیماری آپ کے وفات کا سبب بنی۔ چونکہ یہ بیماری آپ کو جہادی خدمات کے دوران ہی لگی اس لئے آپ کو شہید کا فخریہ لقب   دے دیا گیا۔

مولوی نسیم اللہ صدیقی کا مختصر تعارف:

شہید مولوی نسیم اللہ صدیقی ۱۳۴۸ ش کو افغانستان کے صوبہ تخار کے ضلع فرخار میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کانام مولوی حمید اللہ اور نانا کا نام مولوی عبدالحکیم تھا۔

آپ کی پیدائش ایک علمی گھرانے میں ہوئی تھی۔ بچپن ہی سے والدین آپ کی دینی تربیت کی   فکر میں تھے۔ اس لئے بچپن ہی میں آپ کو دینی تربیت اور ابتدائی علوم کے حصول کیلئے ضلع فرخار کے خسدہ نامی علاقے میں مولوی حبیب اللہ اخنذادہ کے پاس بھیج دیاگیا۔

افغانستان میں روسی جارحیت کے نتیجے میں   جہاں لاکھوں افغان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے وہاں مولوی نسیم اللہ کا خاندان بھی ۱۳۵۹ش کو اپنا آبائی وطن چھوڑ کر پاکستان کے ضلع صوابی میں   مہاجرین کیلئے قائم کیمپ میں رہائش پذیر ہوگیا۔مولوی نسیم اللہ اس وقت نوجوان تھےاسن لئے اپنی دینی تعلیم کا سلسلہ پاکستان کے مختلف مدارس میں جاری رکھا۔اور بہت جلد درس نظامی سے فارغ ہوئے۔

طالبان کی تحریک میں شمولیت:

مولوی نسیم اللہ صدیقی ،۱۳۷۳ش کو پاکستان کے ضلع مردان کے ایک مدرسے میں   دورہ حدیث میں مصروف تھے کہ عین انہی دنوں کندھار میں طالبان کی اسلامی تحریک کے   قیام کا اعلان ہوا، اور مختلف مدارس سے طالبان اس تحریک میں شامل ہوتے گئے۔آپ ایک محنتی اور دینی تعلیم سے بے پناہ محبت کرنے والے طالبعلم تھے ۔ دنیاوی امور میں بالکل دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ دورہ حدیث کے دوران طالبعلم مولوی نسیم اللہ کو خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا جس میں   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے انہیں   طالبان کی تحریک میں شا مل ہونے کا حکم دیا۔

خواب دیکھتے ہی مولوی نسیم اللہ صبح اپنے چند ساتھیوں سمیت کندھار کی طرف روانہ ہوئے، تاکہ طالبان کی تحریک میں   شامل ہوجائے۔ اس وقت طالبان نے کندھار کے کئی علاقے فتح کئے تھے اور اب کابل کی جانب پیش قدمی کر رہے تھے۔

امارتِ اسلامی میں خدمات:

مولوی نسیم اللہ صاحب کے ساتھ مختلف صوبوں جیسے تخار، کندز، بغلان، سمنگان اور لغمان کے لاتعداد   مجاہدین طالبان کی اسلامی تحریک میں شامل ہوئے۔ زابل ، غزنی اور میدان وردگ کی فتح کے بعد آپ کابل پہنچے اور   لوگر کی جانب سے چہار آسیاب کی جنگی پٹی میں خدمات کی انجام دہی کیلئے پہنچ گئے۔ یہاں مولوی صاحب کی مسئولیت میں شامل علاقہ”ریشخورو فرقہ” کے قریب تھا۔ اس دوران آپ کو عالیقدر امیر الموّمنین کی جانب سے صوبہ تخار کا گورنر بنایا گیا۔ مولوی نسیم اللہ صاحب نے چہار آسیاب کی جنگی پٹی میں نہایت ایمانداری سے اپنا کام جاری رکھا۔ یہاں آپ کے دو قریبی ساتھی مخدوم لطیف صاحب اور ملا موسیٰ جان شہید ہوئے۔ چہار آسیاب اور محمد آغے کے علاقے میں جہادی کارروائیوں کے ساتھ ،شہید مولوی احسان اللہ احسان کی جانب سے جو اس وقت خوست کے گورنر تھے آپ کو خوست شہر کا سیکیورٹی انچارج بنایا گیا۔ آپ نے اس شہر میں امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے اور شہر کی پرانی رونقیں بحال کرنے میں قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

کابل کی فتح سے کچھ عرصہ قبل جب پکتیکا کے ضلع اورگون میں خالد فاروقی اور دوسرے لاتعداد مسلح مخالفین نے طالبان پر حملہ کیاتو مولوی نسیم اللہ اپنے ساتھیوں سمیت اورگون پہنچ گئے اور اس فتنے کا قلع قمع کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔

مولوی نسیم اللہ صدیقی پکتیا میں تھے، جب کابل کی فتح کیلئے   شہید ملا بورجان کی قیادت میں آپریشن کا آغاز ہوا، یہ آپریشن پکتیا کے علاقے سپینی شگی کی فتح کے ساتھ شروع ہوا مولوی نسیم اللہ   یہیں سے اس آپریشن میں شامل ہوئے۔ آپ اور آپ کے ساتھی ننگرہار اور لغمان کی فتح میں عملی طور پر شریک رہے۔ صوبہ لغمان کے ضلع علیشنگ ، علینگار اور دولت شاہ کی فتح اور شر و فساد پھیلانے والے عناصر کی سرکوبی کی   ذمہ داری مولوی صاحب کے ذمے تھی۔جو انہوں نے بحسن و خوبی انجام دی۔

دارلحکومت کابل کی فتح کے بعد جب صوبہ پروان کا مرکز بھی فتح ہوا تو مولوی نسیم اللہ لغمان سے پروان تشریف لائے اور یہاں امارت اسلامی کی جانب سے آپکو پروان کا مسئول   مقرر کر دیا گیا۔

مولوی نسیم اللہ صدیقی کے قریبی ساتھی مولوی محمد محسن ہاشمی جو اس وقت انکے نائب کے طور پر کام کر رہے تھے ، کہتے ہیں کہ مولوی صاحب نے نہایت کھٹن حالات میں اپنا کام جاری رکھا، یہاں تک کہ آپ کی کوششوں سے شمالی زون کے متعدد کمانڈرز اور اور ان کے ساتھی بغیر کسی مزاحمت کے امارت اسلامی میں شامل ہوئے۔ یاد رہے کہ ان کمانڈرز میں ایک مشہور کمانڈر آصف بھی شامل تھے جو مولوی صاحب کی دعوت پر نہ صرف خود امارت اسلامی میں شامل ہوئے بلکہ اپنے ساتھ اسلحے سے بھری گاڑی بھی امارت اسلامی کے حوالے کی۔

افغانستان کے ایک سابق وفاقی   وزیر مخدوم عبدالسلام سعادت صاحب مولوی نسیم صاحب کی اسی خوبی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ؛ مولوی نسیم اللہ   پُر اثر   شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کے حسن و اخلاق کی وجہ سے آپ عوام میں ہر دلعزیز شخصیت کے طور پر ابھرے۔ آپ کی کوششوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد امارت اسلامی میں شامل ہوئی، جنہوں نے بعد میں اسلامی نظام کے قیام کیلئے خاطر خواہ کا قربانیاں دیں۔

جب شمالی علاقوں میں طالبان کی جنگی پٹی گلبہار اور جبل السراج کے مجاہدین پیچھے ہٹے اور کابل کی حدود تک پہنچ گئے،اس وقت   آپ شکردری اور گلداری نامی علاقوں میں شر پسند عناصر کے خلاف مزاحمت میں مصروف تھے۔آپ نے کابل کے شمالی علاقوں میں خدمات کے ساتھ غوربند اور بادغیس کے جنگی پٹیوں میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔

سانحہ ارتحال:

مولوی نسیم اللہ صدیقی شکر درے کی جنگی پٹی میں دشمن کے ساتھ جھڑپ میں زخمی ہوئے، آپ کو میدان جنگ سے زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں آپ صحت یاب ہوئے، لیکن کچھ عرصہ بعد جہادی خدمات کے دوران آپ پر ایک جان لیوا بیماری کا حملہ ہوا، چونکہ آپ کا علاج ملک کے اندر ممکن نہیں تھا ،اس لئے آپ کو علاج کیلئے پاکستان کے شہر پشاور منتقل کر دیا گیا۔ جہاں کوئٹہ ہسپتال میں آپ کا آپریشن کیا گیا، لیکن مرض کی شدت کو دیکھ کر ڈاکٹرز نے انہیں کراچی   لے جانے کامشورہ دیا۔ پشاور سے کراچی جاتے ہوئے طیارے میں ہی آپ کی روح پرواز کر گئی، اور آپ حیات ِ جاوداں پاگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔

مولوی صاحب کی نماز جنازہ کابل عید گاہ میں ادا کی گئی ۔جس میں امارت اسلامی کے کئی رہنماوّں جن میں ریاست الوزراء کے نائب امیر مولوی عبدالکبیر صاحب،و زیر دفاع ملا عبیداللہ اخنذادہ سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ بعد میں آپ کو کابل کے شہدائے صالحین قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔

امارت اسلامی میں مختلف وظائف:

مولوی نسیم اللہ صدیقی نے امارت اسلامی کی جانب سے مختلف مناصب پر خدمات انجام دی ہیں، مثلاً

۱۔صوبہ تخار کے مجاہدین کی مسئولیت

۲۔خوست شہر کے سیکیورٹی انچارج

۳۔ صوبہ پروان پولیس کے انسپکٹر جنرل

۴۔صوبہ پروان کے دفتری امور کے سربراہ

۵۔ شکردری کی جنگی پٹی میں ایک محاذ کی مسئولیت

۶۔ 16 بریگیڈ کے کمانڈر

۷۔ 22 بریگیڈ کے کمانڈر

مولوی نسیم اللہ کا خاندانی پس منظر:

مولوی نسیم اللہ کا خاندان ایک جہادی خاندان تھا۔ مولوی نسیم صاحب کی شہادت کے وقت آپ کی شادی کو صرف   دو سال کا عرصہ گذرا تھا،اور آپ کی شہادت تک آپ   کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ آپ کی شہادت کے بعد آپ کے بڑے بھائی   قاری انعام اللہ کو آپ کا جانشین   مقرر کیا گیا۔جو امریکی جارحیت کے آغاز میں صوبہ خوست کے علاقے مٹہ چینہ میں امریکی طیاروں کی   بمباری میں شہید ہوئے۔

مولوی نسیم اللہ کی شخصیت کے بارے میں آپ کے ساتھیوں کی آراء:

طالبان دور کے ایک سابق وزیر مخدوم عبدالسلام سعادت صاحب کہتے ہیں:

“مولوی نسیم اللہ صاحب سے میری پہلی ملاقات چہار آسیاب کی جنگی پٹی کے میں ہوئی۔ پہلی ملاقات میں مجھے پتہ چلا کہ یہ شخص اعلیٰ علمی استعداد کے ساتھ اخلاص، تقویٰ اور دیانت کا پیکر ہے۔ آپ ایک مخلص اور ساتھیوں سے محبت کرنے والے انسان تھے، اور تمام مجاہدین آپ کے اعلیٰ اخلاق سے متاثر ہوئے بغیر نہ   رہ سکے”۔

آپ نے امارت اسلامی کے شعبہ دعوت و ار شاد میں شاندار کار کردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سینکڑوں افراد کو امارت اسلامی کی صفوں میں شامل کیا۔ آپ ایک تجربہ کار مجاہد ہونے کے ساتھ عالم باعمل اور متقی انسان تھے۔ آپ کے خاندان اور آپ کے قریبی ساتھیوں   کی بڑی تعداد نے   آپ کی شہادت کے بعد شر و فساد کے خلاف اور بعد میں امریکی جارحیت کے خلاف قابلِ ذکر قربانیاں دیں۔ اور ابھی تک جہادی صف میں امریکی جارحیت کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں۔

صوبہ تخار کےسابق جہادی مسئول اور مولوی نسیم صاحب کے قریبی ساتھی مولوی محمد محسن ہاشمی صاحب کہتے ہیں :

“مولوی نسیم واقعی زہد، تقویٰ،اخلاص،سخاوت، حسن اخلاق اور بہادری کا نمونہ تھے۔ انہیں رفاقت اور اخلاص کی انفرادی خصوصیت حاصل تھی۔ ان کی ہونٹوں پر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی،۔اللہ تعالیٰ نے ان کی تقریر میں ایک انفرادی تاثیر رکھی تھی۔ آپ نہایت ہی مخلص ہونے کی وجہ سے امارت اسلامی کے زعیم ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ وہ آپ پر مکمل اعتماد رکھتے تھے اس لئے   امارت اسلامی کے اہم کاموں کی ذمہ داری آپ کے سپرد کی جاتی۔ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے اور آپ کی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ