شیخ الحدیث مولوی عبدالحکیم شہید کی زندگی پر ایک نظر

عبدالرؤف حکمت امریکا کے خلاف افغان عوام کا جہاد کوئی معمول کا واقعہ یا عام بات نہیں بلکہ یہ حق اور باطل کا ایک مثالی ، بڑا اور تاریخی معرکہ ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ میں یہ جنگ خاص خصوصیات کا حامل ہوگا ۔ اس جنگ کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ اس […]

عبدالرؤف حکمت

امریکا کے خلاف افغان عوام کا جہاد کوئی معمول کا واقعہ یا عام بات نہیں بلکہ یہ حق اور باطل کا ایک مثالی ، بڑا اور تاریخی معرکہ ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ میں یہ جنگ خاص خصوصیات کا حامل ہوگا ۔ اس جنگ کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ اس کی قیادت معاشرے کے چنے ہوئے ، مخلص اوردرخشندہ اشخاص کے ہاتھوں میں ہے ۔ جہاد کے قائدین اور رہنما اکثر علماء کرام ، دینی علوم کے طلباء ، قرآن کریم کے حفاظ اور معاشرے کے دیگر متدین اشخاص ہیں ۔ اس سلسلے میں کئی ایسے علم وکمال کے مالک لوگ جنہیں علمی اور قلمی خدمات انجام دینی چاہیے تھیں اسی جہادی ضرورت کی بناء پر اس بات پر مجبور ہوگئے کہ قلم اور کتاب ایک جانب رکھ کر باطل کے خلاف اس ہنگامہ خیز مسلح جنگ میں کود پڑیں ۔

شیخ الحدیث مولوی عبدالحکیم خالد جو علمی حلقوں میں مولوی عبدالحکیم شاولیکوٹی کے نام سے مشہور تھے بھی ایسی ہی شخصیت کے مالک تھے ۔ انہیں اللہ تعالی نے بڑاعلمی استعداد اور تصنیفی ذوق عطا فرمایا تھا مگر امریکی جارحیت کے باعث انہیں اپنی علمی اور تدریسی خدمات چھوڑ کر کفر کے خلاف مسلح جنگ میں حصہ لینا پڑا ۔انہوں نے یہ جنگ اس وقت تک جاری رکھی جب تک اس راہ میں انہوں نے شہادت کا جام نوش نہیں کیا ۔ آئیے کچھ دیر اس مجاہد عالم کی زندگی اور کارناموں کی یاد تازہ کریں ۔ شاید ہماری زندگی میں رہنمائی اور ہدایت کا باعث بنے ۔

مولوی عبدالحکیم :

مولوی عبدالحکیم خالد محمد رحیم کے صاحبزادے اور جلال الدین کے پوتے تھے ۔ پشتون قبیلے الکوزئی سے ان کا تعلق تھا ۔ 1381ھ۔۔ق قندہار ضلع شاولیکوٹ کے گاوں شالیزاری میں پید ہوئے ۔

عبدالحکیم خالد ایک دیندار خاندان میں پیدا ہوئے ۔ اس لیے خاندان کی جانب سے بچپن ہی میں انہیں دینی تعلیم دلائی گئی ۔ ابتدائی قاعدہ اور تعلیم اپنے گاوں میں امام مسجد اور قریبی علاقوں میں حاصل کی ۔ ابھی وہ بہت چھوٹے تھے کہ سوویت یونین نے افغانستان پر جارحیت کردی ۔ اور اس کے خلاف مسلح جہاد مضبوط ہونے لگا ۔ اس وقت کم عمر عبدالحکیم دوسری مصروفیات چھوڑ کر جہادی فریضے کی ادائیگی کے لیے مسلح ہوکر نکلے ۔

جہاد میں شمولیت سے قیادت تک:

قندہار کے رہائشی ملا عبدالوہاب عبدالحکیم شہید کے بہت پرانے جہادی ساتھی تھے ان کا کہنا ہے : قندہار کے شمالی اضلاع میں کمیونسٹوں اور سوویت جارحیت پسندوں کے خلاف جہاد کا ایک مضبوط محاذ شاولیکوٹ اور نیش کے حدود میں درہ نور کا محاذ تھا ۔ اس محاذ کی بنیاد کمیونسٹوں کے خلاف جہاد کے آغاز کے بعد شاولیکوٹ کے گاوں کجور کے رہنے والے معروف مجاہد ملا عبدالودود اخند نے رکھی ۔ درہ نور کا محاذ جوبعد میں طلباء کا محاذ کہلانے لگا تھا شاولیکوٹ ، نیش ، خاکریز اور دیگر مضافاتی علاقوں میں ایک مضبوط محاذ تھا جس نے دشمن پر سخت حملے کیے اور قندہار اروزگان شاہراہ کو دشمن کے لیے بند رکھا ۔ ملاعبدالوہاب کہتے ہیں جہاد کے پہلے سالوں میں مولوی عبدالحکیم صاحب کی عمر بیس سال سے بھی کم تھی جب وہ اس محاذ میں جہاد کی نیت سے شامل ہوگئے ۔ وہ بہت کم عمر تھے مگر ان کا جہادی جذبہ ، اخلاص اور ہمت بہت بلند تھی۔ اس وقت جب علاقے میں کمیونسٹوں کو شکست ہوگئی اور کسی حدتک وسعت آگئی تو قندہار کے مشہور جہادی رہنما حافظ عبدالکریم{یاد رہے یہ شیخ الحدیث صاحب نہیں کوئی اورعبدالحکیم ہیں جو اس وقت مشہور بڑے جہادی رہنما تھے} ہمارے محاذ پر آگئے اور ہم سے مطالبہ کیا کہ کارروائی کے لیے ارغنداب کی جانب اترجائیں کیوں کہ اب اس علاقے میں کوئی ایسا ہدف باقی نہیں رہا تھا ۔ بعد میں فیصلہ ہوا اور حافظ عبدالکریم اپنے مجاہدین کے ساتھ ارغنداب چلے گئے اور ہم نے خاکریز میں جنگ شروع کردی ۔

یہ جہاد کے ابتدائی ایام تھے جب قندہار کے تمام اضلاع پر حکومتی سکہ رواں تھا اور کوئی ایک ضلع بھی ابھی فتح نہیں ہوا تھا ۔ ضلع خاکریز کے اکثر علاقوں میں حکومتی کارندے اور فوجی موجود تھے ۔ درہ نور محاذ کے طلباء نے خاکریز پر کارروائیوں کا آغاز کردیا ۔ ان کارروائیوں میں مولوی عبدالحکیم ہمارے ساتھ تھے جو اس وقت انتہائی کم عمر تھے ۔ اس کارروائی کے نتیجے میں خاکریز مرکز سمیت تمام علاقے فتح ہوگئے اور کمیونسٹ تمام علاقوں سے فرار ہوگئے ۔ مجاہدین نے خاکریز مرکز میں اپنا کیمپ قائم کردیا ۔ یہاں 250 کے قریب مجاہدین موجود تھے جو مختلف علاقوں میں کارروائیوں کے لیے جاتے ۔ مولوی عبدالحکیم صاحب یہیں اسی کیمپ موجود تھے اور جہاد ی خدمات انجام دیتے رہے ۔ یہاں تک کہ شدید مشقتوں اور تکلیفوں کے باعث وہ شدید بیمار ہوگئے ۔ ان کے سینے میں تکلیف پیدا ہوگئی اور وہ علاج کے لیے پاکستان چلے گئے ۔

پاکستان میں انہوں نے علاج کے بعد دینی تعلیم کا دوبارہ آغاز کیا ۔ بلوچستان کوئٹہ شہر میں شالدرہ اور مدرسہ نورالمدارس ، اسی طرح پشاور کے مختلف مدارس میں پڑھائی کی ۔ یہاں تک کہ 6 سالوں میں انہوں نے مروجہ نصاب پایہ تکمیل کو پہنچادیا  ۔اور پشاور کے مدرسہ امداد العلوم میں شیخ الحدیث مولانا حسن جان صاحب سے دینی علوم کی سندفراغت  حاصل کی ۔

فراغت کے بعد وہ ایک بارپھر قندہار شاہ ولیکوٹ چلے گئے اور درہ نور کے جہادی محاذ پر جہادی خدمت  میں مشغول ہوگئے ۔ اس وقت مجاہدین یہاں رہتے مگر کارروائیوں کے لیے ارغنداب ، پاشمول اور قندہار ہلمند شاہراہ کے دوسرے حصوں میں جاتے اور کمیونسٹوں اور سوویت فوجیوں پر حملے کرتے ۔ مولوی عبدالحکیم صاحب نے اسی طرح کے ایک جہادی سفر میں ارغنداب اور ژڑی میں 7 ماہ گزارے ۔ جب وہ واپس شاولیکوٹ لوٹے تو مجاہدین نے اس وقت ایک شرعی عدالت کی ضرورت محسوس کی ۔ اس وقت قندہار کی سطح پر تمام مجاہدین کے عمومی قاضی اور عدلیہ کے سربراہ مولوی سید محمد صاحب تھے جو مولوی پاسنی کے نام سے مشہور تھے ۔ مولوی پاسنی صاحب نے ہر علاقے میں مقامی قاضیوں اور عدالتوں کا تقرر کیا تھا ۔ شاہ ولیکوٹ اور مضافات کے علاقے میں عدالت کے قیام کے لیے انہوں نے مولوی عبدالحکیم صاحب کو قاضی مقرر کیا ۔

اس کے بعد مولوی عبدالحکیم صاحب نہ صرف شاولیکوٹ ، خاکریز اور نیش کے علاقوں میں مجاہدین کے قاضی بن گئے بلکہ اپنے جہادی محاذ میں دینی علوم کی تدریس بھی شروع کردی ۔ بعد ازاں ان کی تدریس کا سلسلہ احادیث نبوی ، صحاح ستہ ، قران کریم کی تفسیر اور ترجمہ کی تدریس تک پہنچ گیا اور وہ شیخ الحدیث  کے نام سے  مشہور ہوگئے ۔

اروزگان ضلع ترین کوٹ میں کچھ حکومتی لوگ مجاہدین کے محاصرے میں آگئے ۔ سوویت فوجی چاہتے تھے کہ ان محاصرین کو رسد فراہم کریں ۔ انہوں نے ایک بڑی کانوائے بنائی اور اروزگان کی جانب روانہ ہوگئے ۔ اس کانوائے سے مجاہدین کی شدید جھڑپیں ہوئیں ۔ اس جنگ میں مولوی عبدالحکیم صاحب کا جبڑہ زخمی ہوگیا ۔

ملا عبدالوہاب کہتے ہیں کہ مولوی عبدالحکیم صاحب جو ایک اچھے عالم اور مخلص مجاہد تھے اسی علاقے میں نہ صرف قاضی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجاہدین کے رہنما کی حیثیت سے بھی متعین کیے گئے ۔ شاولیکوٹ اور آس پاس کے علاقوں میں مجاہدین ان کی اطاعت بھی کرتے تھے ۔ مولوی عبدالحکیم صاحب اس وقت یہاں مجاہدین کے رہنما رہے جب تک طالبان کی اسلامی تحریک اٹھی اور مولوی عبدالحکیم صاحب اپنے تمام مجاہدین کے ساتھ ان سے مل گئے ۔

خانہ جنگیوں  کے دور میں:

تنظیمی خانہ جنگیوں کے دور میں مولوی عبدالحکیم صاحب چونکہ علاقے کے قاضی اور جہادی رہنما تھے ، شاولیکوٹ خوڑدری کے علاقے میں ان کا مدرسہ بھی تھا اس لیے خاکریز ، نیش اور شاولیکوٹ کے اضلاع پر مشتمل اس خطے میں ان کو احترام سے دیکھا جاتا تھا ۔ ان علاقوں میں مجاہدین ، علماء کرام اور قومی رہنماوں کی ہم آہنگی سے انہوں نے شریعت کا نفاذ کررکھا تھا ۔ انہوں نے عوام کے تعاون سے ارغنداب کے سربند سے لے کر درہ نور تک شاہراہ پر قائم جنگجو کمانڈروں کی قائم کردہ ذاتی چیک پوسٹیں ختم کیں اور ان بدقماش غنڈوں کا علاقے سے صفایا کیا ۔

خاکریز کے علاقے باغکی میں خان نامی ایک کمانڈر نے چینار کے رہنے والے ایک مجاہد عبدالمنان کو شہید کردیا ۔ اسی طرح اروزگان کے کچھ جنگجو کمانڈروں نے مجاہدین سے اسلحہ چھیننے کے لیے انہیں شہید کردیا ۔ ان لوگوں نے علاقے میں بھتہ وصولی کے لیےراستوں میں بیرئر لگارکھے تھے ۔ مولوی عبدالحکیم کی قیادت میں مجاہدین اور عوام نے ان پر حملہ کردیا ۔ مذکورہ کمانڈر اپنے چھ ساتھیوں سمیت ہلاک ہوگیا اور عوام کو اس عذاب سے خلاصی مل گئی ۔

مولوی عبدالحکیم صاحب شریعت کے نفاذ کے معاملے میں بہت بہادری سے کام لیتے ۔ کمیونسٹوں اور تنظیمی خانہ جنگی کے ادوار میں انہوں نے اپنے علاقے میں شریعت کا مکمل نفاذ کررکھا تھا ۔ اس سلسلے میں وہ لوگ جن پر شرعی حدود ثابت ہوجاتے ان پر حد جاری کیے ۔ مولوی عبد الحکیم صاحب اگر چہ حرکت انقلاب اسلامی کے رکن تھے ۔ مگر تمام مجاہدین انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور قضا کے معاملات میں ان سے مراجعت کرتے ۔

تحریک اسلامی طالبان کی صفوں میں خدمت :

شیخ مولوی عبدالحکیم صاحب کے قریبی ساتھی اور موجودہ وقت میں ان کے جہادی ساتھیوں کے سربراہ ملا آغاجان آخوند طالبان تحریک میں ان کی شمولیت کا واقعہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں :

طالبان نے ڈنڈ اور سپین بولدک کے علاقے دشمن سے خالی کروادیے تھے مگر قندہار شہر پر ابھی قبضہ نہیں ہوا تھا ۔ اس وقت قندہار کے ایک مشہور جنگجو سردار امیر لالی نے بولدک میں طالبان پر حملے کا ارادہ کیا ۔ اس وقت شاولیکوٹ مرکز بھی امیر لالی کے قبضے میں تھا ۔ اس کا اصل ٹھکانہ دہلی بند کے ساتھ کمپنی نامی جگہ تھی ۔ امیر لالی اور ان کے ساتھی طالبان پر حملے کا ارادہ کررہے تھے کہ طالبان نے ان پر حملہ کرکے قندہار شہر کو فتح کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ اسی لیے تحریک کے سربراہ ملامحمد عمر مجاہدنے  ارغنداب کے ایک مجاہد حقانی صاحب کے ہاتھوں مولوی عبدالحکیم صاحب کو ایک خط بھیجا جس میں ان سے کہا گیا کہ آپ شاولیکوٹ میں امیر لالی پر حملہ کردیں تاکہ وہ وہیں پر مصرف ہوجائے ہم یہاں قندہار پر شہر پر حملہ کریں گے ۔ اس خط کے پہنچنے کے بعد مولوی عبدالحکیم صاحب آئے ، ملامحمد عمر مجاہد اور تحریک کے دیگر رہنماوں سے ملے اور مشترکہ کارروائیوں کا پروگرام ترتیب دیا ۔

مولوی صاحب نے ملامحمد عمر مجاہد سے مطالبہ کیا کہ ہمیں ایک گاڑی دی جائے جس میں ہم آس پاس کے علاقوں سے طلبہ کو جمع کرکے محاذ پر منتقل کرسکیں ۔ ملاعمر مجاہد نے کہا فی الحال ہمارے پاس صرف پانچ گاڑیاں ہیں جو ڈنڈ اور بولد ک کے درمیان مجاہدین کے زیر استعمال ہیں ۔ آپ ایسا کریں کہ پرانے مجاہدین میں سے اگر کوئی آپ کا جان پہنچان والا ہے تو آپ اس سے تعاون مانگیں ۔ اس پر مولوی عبدالحکیم صاحب نے قندہار میں جہادی  کمانڈر ملانقیب اخوند سے تعاون کی درخواست کی  ۔ ملانقیب اخوند نے ایک ہینو ٹرک ، بیس بوری آٹا اور پانچ ڈرم تیل انہیں دیدیا۔ مولوی عبدالحکیم صاحب واپس خاکریز لوٹے ۔ شاولیکوٹ اور خاکریز میں تمام مدارس کا دورہ کیا ۔ پڑھائی روک دی اور طلبہ سے مطالبہ کیا کہ ان سے مل جائیں ۔ اس طرح انہوں نے 90 طلبہ کو مسلح کرکے ساتھ ملالیا اور شاولیکوٹ مرکز میں امیرلالی کے لوگوں پر حملہ کا پروگرام بنالیا ۔

ملا آغاجان کہتے ہیں اس وقت تک طالبان  تحریک کے مجاہدین  تختہ پل پر تھے ابھی قندہار شہر پر طالبان کا قبضہ نہیں ہوا تھا کہ درہ نور سے مولوی عبدالحکیم صاحب اپنے 90 طلبہ ساتھیوں کے ساتھ شاولیکوٹ کی جانب روانہ ہوگئے ۔ دوپہر ہم نے علاقے باغکہ میں گذارا ۔ آس پاس علاقے کے لوگوں سے پوچھا کہ امیرلالی کے جنگجو کس حالت میں ہیں۔ لوگوں نے بتایا کہ شام کو  وہ ضلعی مرکز کے قریبی علاقے دامانی میں مورچے بنارہے تھے ۔ ہم نے ان پر حملہ کیا  ۔ ہم جب یہاں پہنچے تو دیکھا کہ انہوں نے مورچے بنادیے تھے ۔ مورچے کے دیواروں کی مٹی ابھی گیلی تھی ۔ خربوزے اور تربوزے کاٹ کر رکھے گئے تھے مگر کھائے نہیں تھے ۔ اور اسی جلدی جلدی میں وہ لوگ شاولیکوٹ مرکز کی جانب فرار ہوگئے تھے ۔ صبح نماز کے بعد طالبان نے ضلعی مرکز پر حملہ کردیا ۔ امیرلالی کے جنگجو بغیر لڑائی کے وہاں سے فرار ہوگئے اور دہلی بند کی جانب چلے گئے ۔ اس طرح شاولیکوٹ کے ضلعی مرکز پر ہمارے طلبہ کا قبضہ ہوگیا ۔ اسی رات طالبان نے قندہار شہر پر بھی قبضہ کرلیا تھا ۔ شیخ صاحب چند مجاہدین کے ساتھ قندہار شہر کی جانب گئے ۔ قندہار چھاونی کے سربراہ کے توسط سے ان کی ملاقات تحریک کے عمومی عسکری کمانڈر حاجی ملا محمد آخوند سے ہوئی اور انہیں صورتحال سے آگاہ کردیا ۔ یہیں فیصلہ کیا گیا کہ امیر لالی کے آخری مرکز دہلی بند کے علاقے کمپنی پر سہ پہر کو حملہ کیا جائے گا ۔

اس علاقے میں امیرلالی نے بہت سے ٹینک ، توپ اور چہل  میلے جمع کررکھے تھے ۔ قندہار چھاونی کا اکثر بھاری اسلحہ بھی یہیں منتقل کیا گیا تھا ۔ امیرلالی کا خیال تھا کہ طالبان سے اصلی جنگ یہیں پر ہوگی ۔ مولوی عبدالحکیم صاحب حاجی ملا محمد اخوند کے ہمراہ سہ پہر کو دہلی بند کے علاقے میں گئے ۔ کچھ دیر لڑائی کے بعد امیرلالی کے  آدمی شکست کھاگئے اور یہ کمپنی کا علاقہ جس میں درجنوں کی تعداد میں بھاری اسلحہ بھی موجود تھا طالبان کے ہاتھ آگیا ۔

اسی وقت سے مولوی عبدالحکیم صاحب نے طالبان تحریک کے ایک فعال جہادی رہنما کی حیثیت سے کام کا آغاز کردیا ۔ اروزگان اور ہلمند کی فتح میں انہوں نے حصہ لیا ۔ ضلع موسی کلا اورضلع سنگین کی ذمہ داری نبھائی ۔ صوبہ فراہ میں بھی کچھ عرصہ ذمہ دار کی حیثیت سے رہے ۔ دلاآرام اور آب خرم کی شدید لڑائیوں میں حصہ لیا ۔ انہیں جنگوں میں پرانے مجاہدین ساتھی ملا آغا ، ملا عبدالمناف ، ملا عبدالحلیم ، ملا سفر محمد اور اس طرح کے دیگر بہت سے ساتھی شہید ہوگئے ۔

انہوں نے بعد ازاں پھر سے اپنے علاقے میں درس وتدریس اور علمی مشاغل کا سلسلہ شروع کردیا ۔ اسی دوران انہوں نے فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ پر حاشیہ لکھا اور فوزالدارین کے نام سے تفسیر لکھی ۔ وہ اس امریکی جارحیت تک اپنے علاقے میں تدریس میں مشغول رہے۔امریکی جارحیت کے بعد انہوں نے ایک بارپھر جہاد کا آغاز کردیا ۔

امریکیوں کے خلاف جہاد:

مولوی عبدالحکیم صاحب کے قریبی ساتھی ملا آغاجان کہتے ہیں : امریکیوں کو آئے ہوئے ابھی چھ ماہ بھی نہیں گذرے تھے کہ مولوی صاحب نے جہادی  کارروائیوں کی پہلی منصوبہ بندی کا آغاز کردیا ۔ پہلی مرتبہ انہوں نے امریکیوں کے آنے کے بعد پہلے موسم بہار کے آتے ہی قندہار ضلع دامان کے علاقے خوشاب میں جہاں امریکیوں کا آنا جانا تھا دو مجاہدین کو اس بات پر متعین کردیا کہ یہاں امریکیوں کے راستے میں بارودی سرنگ رکھ کر انہیں اڑادیں ۔ اس کے بعد شاولیکوٹ اور خاکریز میں علماء کرام اور پرانے مجاہدین کو خفیہ طورپر جہادی تحریک میں شریک ہونے کی دعوت دی ۔ بہت سے لوگوں نے تعاون کا وعدہ کیا ۔ اس وقت گل آغا شیر زئی قندہار کے گورنر تھے ۔ انہیں مولوی صاحب کی سرگرمیوں کی اطلاع ہوگئی ۔ گل آغا نے قندہار میں اسی علاقے کے قبائلی اور علاقائی رہنماوں کے لیے بڑی دعوت کا اہتمام کیا ۔ کچھ نقد تحفے بھی دیے اور آخر میں گل آغا نے ان سے کہا کہ مولوی عبدالحکیم سے دور رہو اور اس کی بات نہ مانو ۔ اگر کوئی ان سے تعاون کرے گا تو یہ سمجھ جائے کہ امریکیوں کا مقابلہ کوئی بھی نہیں کرسکتا ۔ ان کے پاس طیارے ہیں  اور طیاروں  سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔

اس اجلاس کے بعد ایک بڑی کانوائے بھی مولوی صاحب کو تلاش کرنے شاولیکوٹ گئی مگر مولوی صاحب ہلمند ضلع باغران چلے گئے ۔

مولوی صاحب کے جہادی ساتھی ملا محمد اسلم کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد انہوں نے ملا داداللہ شہید رحمہ اللہ سے ملاقات کی ۔ انہوں نے مولوی صاحب کو جہادی وسائل اور ضروریات مہیا کیں ۔ مولوی صاحب 11 ساتھیوں کے ساتھ اروزگان کے راستے خاکریز کے مضافاتی علاقے کوتل گئے جہاں انہوں نے دشمن پر حملے کے لیے گھات لگایا ۔ اس حملے میں دشمن کا ایک کمانڈر اپنے چارفوجیوں سمیت ہلاک ہوگیا ۔ اس کے ساتھ ہی ایک بڑا اتحادی فوجی افسر گاڑی سمیت زندہ پکڑا گیا جسے بعد میں ماردیا گیا ۔

بیرونی فوجی کی ہلاکت سے ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا ، جس نے دشمن کو اور بھی غضب ناک کردیا ۔ اس لیے 28 مارچ 2003 کو قندہار سے گل آغا شیرزئی اور اروزگان سے معلم رحمت اللہ اور جان محمد کی قیادت میں ایک بڑی فوج اسی علاقے میں بھیجی گئی ۔ ان کی کارروائیوں میں مجاہدین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا مگر گل آغا کے لوگوں نے امارت اسلامیہ کے سابق وزیر تجارت ملا عبدالرزاق فتاحی کو جو اب گوشہ نشین ہوچکے تھے اور جنگ میں شریک نہ تھے انہیں گرفتار کرکے امریکیوں کے حوالے کردیا ۔ امریکیوں نے انہیں گوانتا نامو بھیج دیا ۔

اس آپریشن کے بعد مولوی صاحب نے علاقہ خالی کردیا مگر 15 دن بعد پھر اسی علاقے میں آگئے اور دشمن پر حملے شروع کردیے ۔ قندہار اروزگان شاہراہ پر کاریز نامی علاقے میں انہوں نے دشمن کی تین چیک پوسٹوں پر قبضہ کیا ۔

امریکیوں کی آمد کے تیسرے برس بہار کا موسم تھا جب شیخ صاحب اور ان کے ساتھیوں نے ایک بارپھر نئے حوصلے سے علاقے میں جہادی حملوں کا آغاز کردیا ۔ انہوں نے پہلے حملے میں ضلع میانشین فتح کرڈالا ۔ اس کے بعد شاولیکوٹ کے علاقے زومتو میں جارحیت پسندوں سے شدید لڑائی کی اور دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا ۔ کوتل میں دشمن سے لڑائی کے دوران جارحیت پسندوں کا خاص معاون کمانڈر نعمت خان مجاہدین کے ہاتھوں ہلاک ہوگیا ۔ نعمت خان وہ شخص ہے جو قندہار میں امیرالمومنین کے گھر میں رہنے والے مخصوص امریکی فوجیوں کا معاون تھا ۔ اس سال کے دوران مضافات میں دشمن سے اور بھی کامیاب جنگیں ہوئیں ۔

2004 میں شیخ صاحب نے ملاشہزادہ اخوند سے مل کر ضلع شاولیکوٹ مرکز میں آپریشن کیا جس کے نتیجے میں یہ ضلع مجاہدین کے ہاتھوں فتح ہوگیا اور بہت سا اسلحہ اور وسائل مال غنیمت میں مجاہدین کو مل گیا ۔ اس واقعے کے بعد شیخ صاحب اور ملا شہزادہ اخوند نے مل کر شاولیکوٹ کے علاقے گومبٹ توپخانے میں بھی جارحیت پسندوں سے انتہائی شدید لڑائی کی جس میں دشمن کو انتہائی بھاری نقصانات پہنچے ۔ اسی جنگ کے بعد ملاشہزادہ اخوند شہید ہوگئے ۔

2005 میں شیخ صاحب اور ان کے مجاہد ساتھیوں نے پہلے شاولیکوٹ کے علاقے زومتو میں ایک چیک پوسٹ فتح کیا۔ اس کے بعد درہ نور کے علاقے میں دشمن کے رسد فراہمی کی کانوائے پر حملہ کیا ۔ اور بہت سے کنٹینروں کو جلا دیا ۔ ان فتوحات کے بعد شیخ صاحب ضلع میانشین چلے گئے ۔ وہاں امریکیوں کی ایک بڑی فوجی  کانوائے آگئی اور گاوں مرغانو میں ان سے شدید لڑائی ہوگئی ۔ اس واقعے کے کچھ روز بعد شاولیکوت میں بھی امریکیوں سے بڑی لڑائی ہوگئی اور دشمن کو شدید نقصانات پہنچے ۔ اس کے بعد شیخ صاحب کی قیادت میں مجاہدین نے شاولیکوٹ اور مضافاتی علاقوں میں دشمن پر بہت سے بھاری اور کاری حملے کیے ۔ ترین کوٹ کے قلب میں لاردوچ باغتو کے علاقے میں غیرملکی کمپنی ٹائیگر کے مرکز پر حملہ ، اسی طرح گومبٹ کے علاقے میں امریکیوں اور کینیڈین فوجیوں سے جنگ ہوئی ۔

گومبٹ کی جنگ میں قندہار کے دیگر رہنما قاری فیض محمد سجاد ، ملا عبدالشکور ، مولوی باز محمد ، ملاحیات اللہ معروف بہ حاجی لالااور دیگر بہت سے مجاہدین شریک تھے ۔ اس جنگ میں دشمن کو بھاری نقصانات پہنچنے کے علاوہ مجاہدین بھی زخمی ہوگئے ۔ قاری فیض محمد سجاد اور مولوی عبدالحکیم خالد کو گردن میں زخم آئے ۔

ٹھیک ہونے کے بعد مولوی صاحب کی قیادت میں مجاہدین نے خاکریز پر حملہ کردیا اور دشمن کو فرار پر مجبور کردیا ۔ اس حملے میں مجاہدین نے ضلعی جیل میں قید 13 مجاہدین کو بھی رہائی دلائی ۔ اس جنگ کے تین روز بعد مولوی صاحب اپنے ساتھیوں سمیت ضلع نیش کے علاقے درہ نور گئے ۔ درہ نور کے علاقے میں دشمن سے آمنے سامنے لڑائی میں مولوی عبدالحکیم صاحب  کوپاوں اور پیٹ کے پہلو میں شدید زخم آئے ۔ وہ کچھ دیر زندہ رہے بعد میں انہیں زخموں کے باعث20ربیع الثانی 1427ھ کو شہادت کے اعلی مقام پر فائز ہوگئے ۔انا لله وانا الیه راجعون

مولوی صاحب کی وصیت تھی کہ اگر میں شہید ہوجاوں تو مجھے کسی گمنام جگہ دفن کیا جائے جہاں عام لوگوں کو میری قبر کا پتہ نہ ہو۔ ان کی وصیت کے مطابق خاکریز کے کوتل علاقے میں ایک گمنام جگہ میں ان کی تدفین کی گئی ۔ اب تک تدفین کرنے والے مجاہدین کے علاوہ کسی کو بھی ان کی جائے تدفین کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔

مولوی عبدالحکیم خالد صاحب نے پس ماندگان میں 4 بیٹیاں اور 3 بیٹے زبیر خالد ، محمد یوسف اور جابر چھوڑے  ۔ ان کے بیٹے دینی تعلیم کے حصول میں مصروف ہیں ۔

یادیں اور باتیں :

مولوی عبدالحکیم خالد کے جہادی ساتھی ملا محمد اسلم کہتے ہیں ” مولوی صاحب کو تلاوت قرآن کریم کی عادت بہت زیادہ تھی ، یہاں تک کہ سفر میں بھی قرآن کریم اور صحیح البخاری کا چھوٹا سا نسخہ ان کے پاس  ہوتا ۔ مجاہد ساتھیوں کو جہاد کے دوران بھی تعلیم وتربیت دیتے ۔ جہاد سے لوٹنے کے بعد وہ تصنیفی کام کرتے  ، انہیں مختصر فرصتوں کا فائدہ اٹھاکر انہوں نے فوز الدارین کے نام سے قرآن کریم کی تفسیر لکھی ۔

ملانقیب اللہ اخوند کہتے ہیں : ایک بارہم ان کے گھر گئے ، مولوی صاحب بہت سی کتابیں کھولے بیٹھے تھے ۔ ہم نے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ قرآن کریم کی تفسیر لکھ رہا ہوں ۔ مگر میرا خیال ہے تفسیر جلالین کے پہلے مصنف کی طرح یہ آدھی رہ جائے گی ۔ ملانقیب اللہ کہتے ہیں مولوی صاحب کا خدشہ بجا تھا ۔ وہ فوز الدارین کی تکمیل نہ کرسکے ۔ 16 پاروں کی تفسیر انہوں نے لکھی جو شائع ہوگئی ہے مگر باقی حصہ مولوی صاحب کی شہادت کے باعث رہ گیا ۔

ملانقیب اللہ کہتے ہیں : مولوی عبدالحکیم خالد صاحب رمضان کے مہینے میں قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر پڑھاتے ۔ بہت سے طلبہ ان کے درس میں شریک ہوتے ۔ شہادت سے ایک سال قبل حج پر گئے ، حج میں ایک عالم نے “مشارع الاشواق الی مصارع العشاق ” کتاب انہیں تحفہ میں دی تھی ۔ یہ کتاب اس سے قبل یہاں نہیں چپی تھی ۔ مولوی صاحب وہ کتاب اپنے ساتھ لے کر آئے اور یہاں سے اس کو شائع کیا  ۔ سیرت میں مولوی صاحب کو الرحیق المختوم بہت پسند تھی ، اور کہتے تھے کہ میں اس کا پشتو ترجمہ کروں گا ۔ مولوی صاحب زندگی میں دومرتبہ حج پر گئے ۔ شہادت سے ایک سال قبل جب حج پر گئے تو عرفات اور دیگرمتبرک مقامات پر شہادت کی دعا مانگی تھی ۔ جب واپس لوٹے تو کہتے کہ اس سال ان شاء اللہ  شہید ہوجاوں گا اور پھر یہی ہوا ۔

ملا نقیب اللہ جنہوں نے صحاح ستہ مولوی صاحب سے پڑھی تھیں کہتے ہیں مولوی صاحب اچھے علم کے علاوہ حلم اور وفاداری کی صفات سے بھی متصف تھے ۔

ملا آغا جان کہتے ہیں : امریکیوں کی آمد سے قبل میں نے مولوی صاحب سے قرآن کریم کی تفسیر پڑھی ۔ جب سورہ الانفال اور سورۃ التوبہ پر پہنچے اور جہاد کا ذکر آگیا تو مولوی صاحب باربار کفار کے خلاف جہاد کی خواہش کرتے ۔ اور حال یہ تھا کہ آنکھوں سے آنسو بہتے اور اللہ تعالی سے جہاد میں شرکت اور شہادت کی دعا مانگتے ۔

وہ کہتے ہیں : مولوی صاحب باوجود اس کے کہ غریب تھے مگر استغناء ان میں کھوٹ کھوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ ایک مرتبہ درہ نور میں ایک آدمی ان کے پاس آیا اور انہیں 500 روپے دیے ۔ مولوی صاحب نے پوچھا یہ کس لیے ہیں ۔ اس نے کہا فی سبیل اللہ دیے ہیں ۔ مولوی صاحب نے کہا کسی غریب کو دے دینا ۔ اس آدمی نے کہا مولوی صاحب آپ بھی تو غریب ہیں ، آپ کی جوتیاں دیکھیں اتنی پرانی ہوچکی ہیں ۔ مولوی صاحب نے کہا میں ظاہرا غریب ہوں مگر دل تو غنی ہے ۔ پھر دو غریب طلبہ کے بارے میں انہیں بتایا کہ پیسے انہیں دے آو۔

ملا نقیب اللہ کہتے ہیں مولوی صاحب میں قومی ولسانی تعصب یا بغض کچھ بھی نہ تھا ۔ یہی وجہ تھی علاقے کے تمام قوموں میں ان کا یکساں احترام پایا جاتا تھا اور ان کی قیادت میں مختلف قوموں کے مجاہدین ایک جگہ رہتے تھے ۔

رحمه الله تعالی رحمۃً واسعۃً