شیخ دوست محمد شہید رحمہ اللہ حیات اور کارناموں کا مختصر تذکرہ

ترتیب و تلخیص :عبدالرؤف حکمت روسی جارحیت کے خلاف افغانوں کے کفر شکن جہاد کو اگر بیسویں صدی کا سب سے بڑا انسانی کارنامہ قراردیا گیا ہے تو امریکی طاغوت کے خلاف ہمارے مسلمان عوام کا بہت کم وسائل مگر بہت بڑے عزائم سے شروع کیا جانے والا جہاد اکیسویں صدی کا سب سے بڑا […]

ترتیب و تلخیص :عبدالرؤف حکمت

روسی جارحیت کے خلاف افغانوں کے کفر شکن جہاد کو اگر بیسویں صدی کا سب سے بڑا انسانی کارنامہ قراردیا گیا ہے تو امریکی طاغوت کے خلاف ہمارے مسلمان عوام کا بہت کم وسائل مگر بہت بڑے عزائم سے شروع کیا جانے والا جہاد اکیسویں صدی کا سب سے بڑا عجوبہ اور حیران کن واقعہ ہے ۔ جو بے انتہا ء قربانیوں کے بعد فتح کی منزل سے ہمکنار ہونے کو ہے ۔

امریکی جارحیت پسند (پوری کفری دنیا کی جابر قوتیں جس کے ہمراہ ہیں) نے بہت غرور اور تکبر سے ہماری پاک سرزمین پر جارحیت کردی ۔ ہمارے مجاہد عوام نے ایسے حالات میں ان کا مقابلہ کیا جب ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ تھا ۔ سارے دوست دشمن منہ پھیر کر بیٹھ گئے ۔ مگر عوام کی نیت صاف ، ایمان محکم اور عزم پختہ تھا اس لیے بظاہر تمام ناممکنات کے باوجود انہوں نے امریکا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ۔

گذشتہ بارہ برسوں میں افغان وطن کے پہاڑوں اور میدانوں میں کفر اور اسلام کا جو معرکہ برپا رہا شاید تاریخ کا ایک لازوال اور بے مثال باب بن کر زندہ رہے ۔ یہاں قربانیوں اور فداکاریوں کی وہ تاریخ رقم ہوئی جس نے اس معرکے کو فتح بخشی ۔ اس معرکے کی فتح اتنا سادہ اور آسان معاملہ نہیں ،بلکہ امت مسلمہ کے بے شمار غیور فرزندوں نے اس معرکہ میں اپنی جانیں قربان کردیں ۔ اس معرکے کے غازی اگرچہ پندرہویں صدی کے جوان تھے مگر ان کے توکل ، عزم اور ایمانی قوت نے دنیا کو صدر اسلام کی یاد دلادی ۔ آئیے یہاں اسی تاریخی معرکے کے ایک ممتاز و نامور غازی اور شہید کی حیات اور کارناموں کا تذکرہ کریں ۔ یہ غازی شیخ دوست محمد شہید ہیں ۔ وہ امریکا کے خلاف جہاد کے آغاز سے لے کر شہادت کے سال 2013 تک صوبہ نورستان کے عمومی جہادی ذمہ دار رہے ۔ اور اس جہادی صوبے میں تمام مجاہدین کے سربراہ رہے ۔

شیخ دوست محمد شہید رحمہ اللہ :

شیخ دوست محمد کے والد کا نام حاجی سفر محمد اور دادا کا نام لعل محمد تھا ۔ 1377ھ ق سال میں افغانستان کے مشرق میں صوبہ نورستان کے علاقے کانتوا میں پیدا ہوئے ۔ شیخ دوست محمد رحمہ اللہ کی پیدائش ایک دیندار گھرانے میں ہوئی ۔ 7 سال کی عمر میں اپنے والد سے دینی تعلیم شروع کی۔ چونکہ وہ بچپن ہی سے بہت ذہین اور ذکی تھے ۔ والد کی خواہش تھی کہ اپنے بیٹے کو دینی علوم سے اراستہ کریں۔ اس لیے اپنے علاقے کانتوا  کے ایک عالم  دین مولانا اختر محمد کے ساتھ انہیں پڑوسی ملک پاکستان بھیج دیا ۔ شیخ صاحب ان کے ساتھ قبائلی علاقے باجوڑ میں 4 سال رہے ۔ وہاں ان سے فقہ کی ابتدائی کتب اور عصری علوم پڑھے ۔ بقیہ ابتدائی ، ثانوی اور اعلی علوم دیگر مختلف مدارس میں جید علماء سے حاصل کیں۔ احادیث کی کتابیں صحاح ستہ 1401 ھ ق میں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں مشہور دینی ادارے دارالعلوم نعمانیہ چارسدہ میں اپنے عصر کے معروف محدث مولانا سمیع الحق رحمہ اللہ سے پڑھیں ۔ اور سالانہ امتحان میں ممتاز نمبروں سے کامیاب ہوئے اور اسی مدرسے میں دستار فضیلت باندھا۔چونکہ انہیں احادیث نبوی سے بےانتہا محبت تھی اس لیے احادیث کی کتابیں دوبارہ  دارالقرآن صوابی میں معروف عالم دین شیخ القرآن مولانا محمد طاہر رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث مولانا محمد یار بادشاہ رحمہ اللہ سے پڑھیں ۔

احادیث کے ساتھ قرآن کریم کی تفسیر بھی صوابی ہی میں انہی شیوخ کرام سے پڑھیں  اور ایک مرتبہ قرآن کریم کی تفسیر مولانا عبدالسلام صاحب رحمہ اللہ سے بھی پڑھی۔

علمی مقام اور تدریسی زندگی:

شیخ صاحب رحمہ اللہ کو اللہ تعالی نے بڑا علمی شان اور مقام دیا تھا ۔ ان کے شاگردوں کے علاوہ ان کے سبق کے ساتھی اور معاصر علماء بھی ان کے علمی تفوق کا اعتراف کرتے تھے ۔ شیخ صاحب نے تمام مروجہ علوم سے سات سال کے عرصے میں فراغت حاصل کرلی ۔ فراغت کے سال وہ عمر کے لحاظ سے انتہائی کم عمر تھے ۔ ان کے چہرے پر داڑھی نہیں تھی مگر اعلی استعداد کی وجہ سے اپنے ہم درس ساتھیوں کے درمیان بخاری شریف کی تلاوت کا اعزاز انہیں بخشا گیا تھا۔

شیخ رحمہ اللہ انتہائی ذہین تھے ۔ جو مسئلہ ایک بارکسی کتاب میں پڑھ لیا وہ سالہا سال تک ان کے حافظے میں رہتا ۔ ان  کی علمی قوت اور متانت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ وہ  اپنی طویل تدریسی زندگی میں کبھی سوال کرنے پر ناراض نہ ہوئے اور نہ ہی کبھی کسی سوال سے صرف نظر کیا ۔ خصوصا تفسیر کے درس میں مختلف سوالات ہوتے رہتے اور وہ جواب دیتے رہتے ۔

شیخ صاحب کو مطالعے کا بہت شوق تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ شیخ صاحب کو کتابوں کی کئی عبارتیں اور مشکل لغات یاد ہوتیں ۔ مطالعے میں شیخ رحمہ اللہ کا پہلا انتخاب احادیث کی کتابیں رہتیں ۔ دوسرے درجے میں تفسیر کا مطالعہ انہیں پسند تھا ۔ مطالعے میں عجیب نکات انہیں زیادہ اچھے لگتے تھے ۔ انہیں عجیب عجیب واقعات یاد ہوتے ۔ کبھی جب کوئی عجیب واقعہ ہوتا تو وہ ساتھیوں کو وہ واقعات انتہائی محبت سے سناتے ۔

فراغت کے بعد انہوں نے دینی علوم کی تدریس شروع کردی ۔ قبائلی علاقے میں باجوڑ ایجنسی کے علاقے ترخہ میں مولانا عبدالجبار صاحب کے مدرسہ تعلیم القرآن میں تقریبا 22 سال احادیث نبوی اور دیگر علوم کی خدمت میں مصروف رہےاسی طرح جب وہ اس علاقے سے دیر گئے اور وہاں شیرین گل کے گاؤں میں رہنے لگے وہاں بھی علم اور مطالعہ میں مصروف رہتے ۔

اس عرصے میں وہ طلباء کو دورہء حدیث کے ساتھ ساتھ فنون کی ہر طرح کی کتابیں پڑھاتے رہے ۔ اور چھٹیوں میں موطا امام مالک ، موطا امام محمد ، معانی الآثار للطحاوی رحمہ اللہ ، سنن ابن ماجہ ، سنن نسائی اور اسی طرح کی دیگر کتابیں جو پوری نہیں پڑھائی جاتیں انہیں بالاستیعاب پڑھاتے ۔ انہوں نے بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں جن کے نام یہ ہیں۔

العقد الفريد في اثبات الفرد الشرعي من التقليد ،الدرر السنية ،الترجمان لعقائد الشبان ،البرهان الساطع علی عدم اعتبار اختلاف المطالع، تنبيه الانام عن حقيقة الدين والاسلام، هدية الکتوري في مقدمة الترمذي ، نداء البراءة والجهاد، المسدسات في مباحث الجهاد، خطبات مجاهد، نداء الفرسان لاهل البصيرة والايمان ، دروس الجهاد ، تحفة الاحرار

دینی دعوت اور شریعت کے نفاذ کی کوشش:

شیخ دوست محمد شہید رحمہ اللہ اگرچہ افغانستان صوبہ نورستان کے رہنے والے تھے ۔ مگر ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب لوگوں میں انہیں مقبولیت حاصل تھی ۔ لوگوں کا ان پر اعتماد تھا ۔ باجوڑ اور آس پاس کے علاقوں میں وہ ایک ممتاز اور صاحب علم شخصیت کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے ۔ ان کا اصل مشغلہ دینی  درس وتدریس تھا ۔ اس کے ساتھ معاشرے کی اصلاح اور شریعت کے نفاذ کے لیے ہروقت کوشاں رہتے ۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ مسلمانوں کے موجودہ خراب حالات کے ذمہ دار دنیا پر حاکم غیر شرعی اور ظالمانہ مغربی نظام ہیں ۔ مسلمانوں کی عزت اور سربلندی کا دور تب ہی واپس آسکتا ہے جب اسلامی ممالک میں صدر اسلام کے دور کا نظام قائم کردیا جائے ۔ مسلمانوں پر حاکم صرف اسلامی قانون اور شریعت کو ہونا چاہیے ۔ اور شریعت جو ہمہ پہلو اور ایک مکمل نظام ہے اس پر عمل کیا  جائے ۔

شیخ صاحب رحمہ اللہ بہت پہلے سے اس بات کے خواہشمند تھے کہ اسلامی امارت یا خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ افغانستان میں جب طالبان کی تحریک اٹھی اور خلافت کے منہج پر اسلامی نظام کی بنیاد رکھی گئی ۔ شیخ دوست محمد شہید رحمہ اللہ نے ہر حوالے سے تحریک کا بھر پورتعاون کیا ۔ اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ امارت اسلامیہ کی تشکیلات میں شامل ہوگئے ۔ امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد کے ہاتھوں پر بیعت کی اور شہادت کے لمحے تک اس بیعت پر قائم رہے ۔ شیخ صاحب جو اس وقت دینی علوم کی تدریس فرمارہے تھے اپنے اثر ورسوخ کی بناء پرانہوں نے بڑی جہادی خدمات انجام دیں ۔ کنڑ اور نورستان کے کچھ علاقوں میں امارت اسلامیہ کے حوالے سے غلط پروپیگنڈہ کیا جارہا تھا اور کچھ لوگ چاہتے تھے کہ امارت اسلامیہ کے خلاف عوام کو ابھاریں ۔ مگر شیخ صاحب نے اپنے دعوتی مہم کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کی ۔ اسلامی نظام کے فائدے بتائے اور اس کی ضرورت کا احساس دلایا ۔ یہاں تک کہ وہاں اکثر عوام پورے اخلاص سے مجاہدین کی حمایت کرنے لگے ۔ انہوں نے اپنی دعوتی مہم میں کنڑ اور نورستان کے مختلف علاقوں کے دورے کیے اور بہت سے مخالف رہنماؤں کو مذاکرات اور دعوت کے ذریعے امارت اسلامیہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر راضی کردیا ۔ نورستان کا ضلع کامدیش کی جنگ کے بغیر فتح شیخ صاحب ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا ۔

امریکی جارحیت کے خلاف جہاد:

جب امریکی جارحیت پسندوں نے افغانستان پر حملہ کیا اور اس کے خلاف مسلح جہاد کا آغاز ہوگیا ۔ شیخ دوست محمد صاحب ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے پوری جرأت اور سنجیدہ فکرسے مالی ، دعوتی اور مسلح جہاد کا آغاز کردیا ۔ انہوں نے امریکی جارحیت کے وقت باجوڑ ایجنسی اور افغانستان کے دیگر سرحدی علاقوں میں سینکڑوں عام افراد کو جہاد کے لیے تیار کیا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے مجاہدین کے لیے وسیع پیمانے پر مالی تعاون  کی مہم بھی چلائی ۔

امریکی جارحیت کے آغاز کے وقت باجوڑ ، مالاکنڈ ، کنڑ اور نورستان کے دیگر مضافاتی علاقوں سے شیخ صاحب کی دعوت پر ہزاروں مجاہدین نفیر عام کی صورت میں دشمن کے مقابلے کے لیے کھڑے ہوئے اور اسلام کے لیے ہر طرح کی قربانی کا وعدہ کیا ۔ جن میں سے کچھ جہاد کے میدان میں بھی گئے ۔ اس بڑے عوامی جہادی تحریک اور نفیر عام میں شیخ دوست محمد صاحب کا بھی بڑا کردار رہا ۔ بعد میں جب کابل امریکیوں کے زیر تسلط آگیا تب بھی شیخ صاحب آرام سے نہیں بیٹھے بلکہ ہر وقت جہادی کوششوں میں مصروف رہے ۔

جارحیت کے ابتدائی سالوں میں شیخ صاحب ہمیشہ اس کوشش میں تھے کہ عوام میں جہادی روح بیدار کی جائے ۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے آڈیو تقریریں ریکارڈ کرائیں ، تحریری پیغامات اور خطوط تیار کیے اور پھر انہیں عوام میں پھیلا دیا ۔ تاکہ لوگ جہاد کی فرضیت سے واقف ہوجائیں اور امریکیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔انہوں نے اپنے ساتھیوں کے لیے ایک محاذ تشکیل دیا اور صوبہ نورستان میں جہادی کارروائیوں کا آغاز کردیا ۔

صوبہ نورستان جو افغانستان کی سطح پر امریکیوں کے خلاف ایک مضبوط مورچہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس صوبے کی جہادی تحریک کی قیادت شیخ صاحب کرتے رہے ۔ شیخ دوست محمد صاحب امارت اسلامیہ کی تشکیلات میں صوبہ نورستان کے گورنر یا جہادی ذمہ دار کی حیثیت سے فرائض نبھاتے رہے ۔ وہ نورستان اور تمام مجاہدین کے استاد اور رہنما تھے  کیوں کہ اس صوبے کے تقریبا تمام جہادی گروپوں کے امیران کے شاگرد رہے تھے ۔ جنہوں نے جہاد شروع بھی ان کی ہدایت پر ان کی قیادت ہی میں کیا تھا ۔ اس لیے نورستان کی جہادی کامیابیاں شیخ صاحب کا کارنامہ سمجھا جاتا ہے ۔ شیخ صاحب کی محنت اور جدوجہد سے امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے وہاں جو فتوحات حاصل کیں یہاں اس کا مختصر تذکرہ کیا جارہا ہے ۔

شیخ صاحب کی قیادت میں نورستان کی فتوحات:

24 جولائی 2002 کو جب امریکی فوج نورستان میں داخل ہوئی تو کامدیش کے علاقے میں مجاہدین نے مارکونڈہ میں ایک امریکی مرکز پر حملہ کردیا جس میں 14 خارجی فوجی ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے ۔ جس کے نتیجے میں امریکی اس علاقے سے فرار ہوگئے ۔

2 جون کو ضلع کامدیش کے علاقے کوٹیا میں مجاہدین نے دشمن پر کامیاب حملہ کیا ۔ نورستان میں مجاہدین کی جانب سے امریکیوں پر ہونے والا یہ سب سے بڑا حملہ تھا ۔ اس جنگ میں مجاہدین کے ہاتھوں جنرل براؤن نامی بڑا امریکی فوجی جنرل بھی ہلاک ہوگیا جس کی لاش اور اسلحہ بھی مجاہدین کے ہاتھوں میں آگیا ۔

اگست 2007 کو ضلع وانت وائیگل میں ایک اہم جہادی رہنما مولوی حضرت عمر فاروقی اپنے 150 ساتھیوں کے ساتھ ارنس گاؤں میں بڑے امریکی ائیر بیس کے گرد لگے خاردار تاروں اور حفاظتی مورچوں کو کراس کرتے ہوئے ائیر بیس میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔ ائیر بیس میں داخل ہونے کے بعد انہوں نے امریکی فوجیوں اور نیشنل آرمی کے اہلکاروں پر حملہ کردیا ۔ یہ حملہ 2 گھنٹے تک جاری رہا جس کے نتیجے میں ائیربیس طالبان کے ہاتھوں فتح ہوگیا اور گاؤں کے وہ لوگ جو نیشنل آرمی میں شامل ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس حملے میں 16 امریکی اور 14 نیشنل آرمی کے فوجی ہلاک ہوگئے ۔ مولوی فاروقی اور ان کے پانچ ساتھی بھی اس جنگ میں شہید ہوگئے ۔ جنگ کے آخر تک امریکی ائیربیس خالی کرکے وہاں سے فرار ہوگئے ۔

5 رجب 1429 ھ ق کو ضلع وانت وائیگل کے علاقے جمچ گل میں جارحیت  پسندوں کا بہت بڑا مرکز جو اسٹریٹجک حوالے سے انتہائی اہم تھا ۔ مجاہدین کے مسلسل حملوں سے خالی ہوگیا اور بہت سا غنیمت مجاہدین کے ہاتھ آیا ۔

13 جولائی 2008کو مجاہدین نے وانت کے مرکزی ائیربیس پر بہت بڑا کامیاب حملہ کیا جس میں درجنوں امریکی فوجی ہلاک ہوگئے ۔

2008 ہی میں ضلع کامدیش کے علاقے گوہر دیش میں ڈبہ بیس پر مجاہدین نے کامیاب حملہ جس کے نتیجے میں 16خارجی اور داخلی فوجی ہلاک ہوگیا اور آخر میں جارحیت پسندوں نے یہ ائیر بیس خالی کردیا ۔

ذی قعدہ 1430 ھ ق کے مہینے میں 500 مجاہدین نے کامدیش میں تین بڑے مراکز  اورمڑو ، کمواور شرپیٹ پر گروپ حملہ کیا ۔ جس میں 67 خارجی اور 9 داخلی فوجی ہلاک ہوگئے ۔  اور 43 پولیس اور نیشنل آرمی کے اہلکار قیدی بن گئے ۔ آخر میں ضلعی کمشنر آفس ، پولیس ہیڈ کوارٹر ، مرکزی ائیر بیس اور دیگر دفاعی چیک پوسٹ مکمل طورپر مجاہدین کے ہاتھوں میں آگئے ۔ ان کامیاب آپریشنوں نے افغانستان کے عام حالات پر بڑا گہرا اثر ڈالا ۔ مغربی ذرائع ابلاغ پرامریکی کامیابیوں کے حوالے سے ہونے والا سارا جھوٹا پروپیگنڈا جیسے دریا برد ہوگیا ۔ یہاں تک کہ امریکیوں کے سربراہ جنرل میک کرسٹل نے کہا کہ مزید 40 ہزار فوجی اگر افغانستان نہ بھیجے گئے بہت جلد پورے افغانستان میں ہمیں نورستان کی سی صورتحال کا سامنا ہوگا ۔

13 نومبر 2009 کو ضلع برگمتال کے علاقے بدین شاہ میں خارجی اور داخلی فوجیوں نے رات کو جارحیت کی ۔ جارحیت کے کچھ دیر بعد مجاہدین کی جانب سے سخت مزاحمت شروع ہوگئی ۔ یہ مقابلہ 6 گھنٹے تک جاری رہا جس میں 80 خارجی اور داخلی فوجی ہلاک ہوگئے ۔

29 مئی 2010 کو مجاہدین نے ضلع برگمتال میں کامیاب حملہ کیا جس میں یہ ضلع مکمل طورپر دشمن کے وجود سے خالی ہوگیا ۔

6 اپریل 2008 ضلع دوآب کے گاؤں شوک پر خارجی جارحیت پسندوں نے جارحیت کردی ۔ علاقے کے مجاہدین کی جانب سے انہیں سخت مزاحمت کا سامنا ہوا جس کے نتیجے میں دشمن کے دو ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوگئے اور بالآخر دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگیا ۔ اس معرکے میں دشمن کے بہت سے جنگی وسائل مجاہدین کے ہاتھ آئے ۔

2011 میں مجاہدین نے ضلع دوآب پر گروپ حملہ کردیا ۔ بہت دیر تک جاری رہنے والے اس جنگ کے بعد یہ ضلع مکمل طورپر فتح ہوگیا اور بہت زیادہ مال غنیمت مجاہدین کے ہاتھ آگیا ۔

7 نومبر 2012 کو ضلع نورگرام کے علاقے کلہ گوش میں جارحیت پسندوں نے اپنا بڑا پی آر ٹی اس کی سٹریٹجک اہمیت کے باوجود مجاہدین کے مسلسل حملوں کے باعث خالی کردیا۔

18 جولائی 2008 کو غازی آباد کے مجاہدین نے ڈب بروڑہ کے علاقے میں خارجی جارحیت پسندوں کے خلاف کارروائی کی ۔ جس میں 15 عدد ٹینکوں میں سے 8 مکمل تباہ ہوگئے ۔ جس میں سوار تمام فوجی آگ میں جھلس گئے ۔ اس کامیاب حملے میں دو بڑے امریکی عہدیدار بھی ہلاک ہوگئے ۔

21 مئی 2009 کو مجاہدین نے نیش گام گاؤں کے ساتھ بننے والے کمشنر آفس پر گروپ حملہ کردیا ۔ اس حملے میں 12 خارجی فوجی اور 7 نیشل آرمی کے اہلکار ہلاک ہوگئے ۔ ترجمان (جاسوس) سمیت نیشنل آرمی کے 12 اہلکار زندہ پکڑے گئے ۔ اور مذکورہ مرکز اور چیک پوسٹ مکمل طورپر تباہ ہوگئی۔

اسی طرح 2011 میں ضلع کامدیش کے علاقے گوہریش میں پانچ چیک پوسٹوں پر مجاہدین نے حملہ کیا ۔ یہ حملہ صبح صادق سے 11 بجے تک جاری رہا جس میں سرحدی پولیس کے 37 اہلکار ہلاک اور کئی زندہ گرفتار کیے گئے ۔ اور مذکورہ پانچ چیک پوسٹیں مکمل فتح ہوگئیں ۔

مذکورہ بالا کارروائیاں جنہیں معاصر افغان جہاد کی اہم کارروائیوں میں سے شمار کیا جاتا ہے ان میں شیخ صاحب باقاعدہ طورپر شریک رہے یا شیخ صاحب رحمہ اللہ کے مشورے اور راہنمائی سے یہ ساری کارروائیاں کی گئیں ۔ یہ اور اس کے علاوہ دیگر تاریخی آپریشنوں کی برکت سے صوبہ نورستان میں جارحیت پسندوں کا فوجی زور ٹوٹ گیا ۔ اور نورستان وہ پہلا صوبہ ہے جہاں سے جارحیت پسندو خارجی دشمن کی پسپائی کاآغاز ہوا ۔

شیخ دوست محمد صاحب کی شہادت:

شیخ دوست محمد صاحب کی جہادی زندگی اور معمول یہ تھا کہ جن علاقوں کے وہ ذمہ دار تھے انہیں میں گشت کرتے ۔ گاؤں گاؤں جاکر عوام سے ملتے ان کا حال معلوم کرتے ۔ ہر محاذ پر جاکر مجاہدین سے ملاقات کرتے ان کی رہنمائی کرتے اور ان کے مسائل اور مشکلات سنتے ۔ انہیں وعظ ونصیحت کرتے اور کبھی کبھی قرآن کریم کادرس بھی دیتے ۔ اس طرح لوگوں کے دینی مسائل اور استفتاء کا جواب بھی دیتے ۔

شیخ صاحب کی شہادت سے قبل انہوں نے ایک ایسا خواب دیکھا کہ جس کی تعبیر انہوں نےشہادت کی بشارت سے نکالی ۔ اور بالآخر یوں ہی ہوا اور وہ کچھ ہی دنوں میں دشمن کے حملے میں شہید ہوگئے ۔ ان کے ایک ساتھی کا کہنا ہے کہ شیخ صاحب نے شہادت سے چند دن قبل مجھے اپناخواب سنایا تھا ان کا کہنا تھا کہ” ہمارے ایک شہید ساتھی اور ان کے ایک شاگرد ( واما گاؤں کے رہنے والے مولوی سلمان ،جو حضرت کی شہادت سے ایک سال قبل شہید ہوچکے تھے ) وہ گھوڑے پر سوار ہیں ۔ ایک گھوڑا انہوں نے میرے لیے تیار کر رکھا ہے ، اپنے ساتھ لے کر آرہے ہیں اور مجھ سے کہتے ہیں ” شیخ صاحب چلو یہ گھوڑا آپ کے لیے لائے ہیں ۔ شیخ صاحب فرماتے ہیں میں گھوڑے پر بیٹھا اور ان کے ساتھ روانہ ہوگیا “۔

دشمن ہر وقت شیخ صاحب کے تعاقب میں رہا ۔ کئی بار ان پر چھاپے پڑے ۔ 2011 کے آواخر میں دو مرتبہ ان پر ڈرون طیاروں کے حملے ہوئے ۔ کئی بار ان کی شہادت کی جھوٹی افواہیں پھیلائی گئیں مگر ان سارے خطرات کے باوجود حضرت ان جہادی سرگرمیوں سے باز نہ آئے اور پوری بہادری سے ماضی کی طرح نورستان میں اپنی جہادی سرگرمیاں جاری رکھیں ۔

یہاں تک کہ 2 صفر 1434 ھ ق کو صوبہ نورستان کے علاقے شملی گل میں جب وہ ایک گھر کے سامنے ایک چھپر کے نیچے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھےاور ایک شرعی مسئلے کے حل کے لیے اپنے لیپ ٹاپ  میں مطالعہ کررہے تھے کہ دشمن کے ڈرون طیارے کی بمباری میں اپنے ساتھی محمد طاہر اور ایک دوسرے نوجوان سمیت شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئے ۔

انا لله وانا الیه راجعون