صوبہ جوزجان کے جہادی ذمہ دار مولوی عبدالرحمن سے گفتگو

جنرل دوستم کو اپنے صوبے میں شکست سے دوچار کردیا ہے جوزجان کے اَسِّی فیصد حصے پر مجاہدین کا کنٹرول ہے   سوال: مولوی صاحب! ہم آپ کا تعارف جاننا چاہیں گے۔ جواب: میرانام عبدالرحمن ہے۔ میرا تعلق صوبہ فاریاب سے ہے۔ اس وقت امارت اسلامیہ کی جانب سے جوزجان کے جہادی امور کا ذمہ […]

جنرل دوستم کو اپنے صوبے میں شکست سے دوچار کردیا ہے

جوزجان کے اَسِّی فیصد حصے پر مجاہدین کا کنٹرول ہے

 

سوال: مولوی صاحب! ہم آپ کا تعارف جاننا چاہیں گے۔

جواب: میرانام عبدالرحمن ہے۔ میرا تعلق صوبہ فاریاب سے ہے۔ اس وقت امارت اسلامیہ کی جانب سے جوزجان کے جہادی امور کا ذمہ دار مجھے متعین کیا گیا ہے۔ اور اس ذمہ داری کو سنبھالے سات یا آٹھ ماہ ہوئے ہیں۔

سوال: آپ رواں سال کے جہادی آپریشن عزم کو کس طور سے دیکھتے ہیں؟

جواب: الحمد للہ! عزم آپریشن بہت کامیاب رہا  ہے۔ افغانستان بھر میں  بڑی بڑی عسکری کامیابیاں ہاتھ آئیں۔ جیسا کہ یہ بات میڈیا پر آ چکی ہے کہ عزم آپریشن کے دوران بہت سے اضلاع فتح ہوئے ہیں۔ شمالی خطوں میں تو پورے صوبے تک فتح ہوئی ہے۔ بہت سے علاقے ابھی فتح کی دہلیز پر ہیں۔ مجاہدین نے اللہ تعالی کے فضل اور نصرت سے قندوز کا اہم ترین صوبہ بھی مکمل طورپر فتح کر لیا ہے۔ فتوحات کے ساتھ ساتھ امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے بہت سا مالِ غنیمت بھی حاصل کیا ہے۔ فوجی گاڑیاں، توپ، ٹینک اور اسلحہ غنیمت میں ملا ہے۔ الحمد للہ! مجاہدین اسلحہ اور قوت میں دشمن کے برابر ہوگئے ہیں۔ جس سے دشمن اور ان کے آقاؤں کو شدید پریشانی لاحق ہوگئی ہے۔ جہاں تک ہمارا خیال ہے، دشمن بہت خوف زدہ ہوگیا ہے۔

سوال: صوبہ جوزجان میں آپ کی ذمہ داری کے تحت عزم آپریشن کس طرح رہا؟

جواب: الحمد للہ! آپ نے میڈیا سے سنا ہوگا کہ صوبہ جوزجان شمالی افغانستان کے اہم ترین اسٹریٹجک صوبوں میں سے ہے۔ یہ دس صوبوں کا درہ ہے۔ تمام شمالی صوبوں کی طرح یہاں بھی اہم ترین فتوحات حاصل ہوئی ہیںْ۔ مجاہدین بہت پیش رفت کر گئے ہیں۔ ترکمانستان کے سرحد کے قریب ضلع خم آب مکمل طور پر مجاہدین کے ہاتھوں فتح ہو گیا ہے۔ یہاں پانچ عدد رینجر گاڑیاں، دو عدد توپیں اور بڑے پیمانے پر عسکری وسائل غنیمت میں ملے ہیں۔ اسی طرح ضلع درز آب کے بہت سے علاقے مجاہدین کے ہاتھوں میں آگئے ہیں۔ حتی کہ یہ ضلع بھی ضلع خم آب کی طرح فتح کی دہلیز پر ہے۔ ضلع قوت شپہ میں بھی مجاہدین کی پیش رفت جاری ہے۔ ضلع فیض آباد اور اسی طرح دیگر تمام اضلاع میں ضلع کے مرکزی بازار کے علاوہ اکثر علاقے مجاہدین کے کنٹرول میں ہیں۔ دشمن ضلع کی سرکاری عمارتوں  میں دُبکا بیٹھا ہے۔ اسی طرح مَیں اطمینان دلاتا ہوں کہ جوزجان کا 80 فیصد حصہ مجاہدین کے کنٹرول میں ہے۔ حتی کہ صوبائی دارالحکومت کا مرکز بھی کئی بار مجاہدین کے حملے کا نشانہ بن چکا ہے۔ مجاہدین شبرغان شہر سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر منظم ہوکر دشمن کے خلاف کاروائیاں کرتے ہیں۔ یہ سب مجاہدین کی کامیابی کی علامات ہیں۔ چند روز پہلے امارت اسلامیہ کا مرکزی وفد حالات کا جائزہ لینے آیا تھا۔ وہ خود جانتے ہیں کہ جوزجان میں مجاہدین کتنے آگے بڑھ رہے ہیں۔

جوزجان کے مرکزی شہر کے اطراف میں تین پختہ سڑکیں موجود ہیں۔ ایک فاریاب کی طرف جاتی ہے۔ ایک سرپل اور ایک مزارشریف کی جانب۔ صرف پختہ سڑکوں پر دشمن کے مورچے قائم ہیں۔ باقی چند سو میٹر کے فاصلے پر یہاں مجاہدین بھی موجود ہیں۔ وہ جب بھی چاہتے ہیں، دشمن کو بے انتہاء نقصان پہنچا دیتے ہیں۔  ان سڑکوں کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ جب بھی دشمن کی فوج پڑوسی صوبوں سرپل، فاریاب اور دیگر علاقوں کی طرف حرکت کرنے لگتی ہے، مجاہدین پوری آسانی سے ان سڑکوں کو بند کرسکتے ہیں۔

سوال: اس سال مختلف آپریشنوں کے دوران میڈیا نے کئی بار جنرل دوستم کی بذات خطِ اول پر موجودگی اور جنگ میں شرکت کی خبر دی ہے۔ انہیں ایک بہادر جرنیل بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟

جواب: جنرل دوستم صرف میڈیائی افواہوں کی حد تک جرنیل اور فاتح ہیں۔ ورنہ ساری دنیا جانتی ہے میڈیا کو حکومت کی طرف سے ہی ہدایات ملتی ہیں اور ان کے سارے اقدامات حکومت کے حکم پر ہوتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے دشمن کے شکست خوردہ فوجیوں کو نیا حوصلہ دینے کے لیے میڈیا خود سرگرم ہے۔ انہیں ایک فاتح اور سپوت ثابت کرنے کے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوستم کا تعلق اسی جوزجان سے ہے، جہاں مجاہدین نے مختلف مقامات پر چھوٹی بڑی کارروائیاں کی ہیں اور دوستم صاحب کچھ بھی نہیں کرسکے۔ خم آب کی جنگ میں جنرل دوستم مسلح ہو کر آئے تھے، مگر الحمد للہ شدید شکست سے دوچار ہوئے۔ تقریبا دوستم کے 40 یا 45  افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ دشمن کے خاص محافظوں میں سے  7  افراد ہلاک ہوگئے۔ ان کے بہترین جنرلوں میں سے کئی اہم ہلاک ہوگئے۔ جس زمانے میں جنرل دوستم نے خم آب پر اپنی توجہ بڑھا دی اور ساری فوج وہیں لاکر جمع کردی تھی، مجاہدین نے شبرغان مرکز پر حملہ کردیا، جس سے دوستم اور اس کے ساتھی بہت گھبرا گئے۔ وہ خم آب چھوڑ کر واپس مرکز چلے گئے، تاکہ مجاہدین کی جانب سے شہر پر ہونے والے حملے روک سکیں۔

عام طورپر سمجھا جاتا ہے کہ جوزجان میں مجاہدین کم ہوں گے۔ چوں کہ جنرل دوستم کا مرکزی علاقہ وہی ہے، اس لیے وہاں ان کے حامی زیادہ ہوں گے۔ حالانکہ یہ حقیقت نہیں ہے۔ الحمد للہ! مجاہدین بھی زیادہ ہیں اور عوام بھی دوستم کے بجائے مجاہدین کو زیادہ توجہ دیتے ہی۔ مجاہدین کو اتنی قوت حاصل ہے کہ جنرل دوستم کے گھر کے ہزار میٹر کے اندر تک حملہ کر سکتے ہیں۔ دشمن کا مکار میڈیا ایسا پروپیگنڈہ کرتا ہے، تاکہ وہ اپنا ہارا ہوا حوصلہ پھر سے بلند کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے عوام دشمن کے اس پروپیگنڈے میں نہیں پھنستے۔ وہ میڈیا کے تخلیق کردہ ان جھوٹے پہلوانوں کو کوئی توجہ نہیں دیتے۔ جب فاریاب میں جنگ جاری تھی، دوستم بہت زیادہ اسلحہ اور قوت کے ساتھ آئے تھے، تاکہ فاریاب کو ’’مجاہدین سے نجات‘‘ دلا سکیں۔ مگر شکست انہیں کا مقدر ٹھہری۔ دشمن کے پاس چند طیارے اور صرف پروپیگنڈا رہ گیا ہے۔ جو وقتا فوقتا مجاہدین کے حملوں کا  نشانہ بن کر تباہ ہوجاتے ہیں۔ اب تک ایک طیارہ ضلع آقچہ میں مجاہدین نے گرایا ہے۔

اسی طرح دوستم کے چند ٹینک فاریاب اور شبرغان میں مجاہدین کے ہاتھوں لگے ہیں۔ مجاہدین کے ہاتھوں ان کے بہت سے فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ بہ ہر حال دوستم کی اپنی ایک پہچان ہے کہ وہ ایک بے رحم آدمی ہے۔ اس  نے ہزاروں مسلمانوں کے گھر تباہ کیے ہیں۔ اب بھی میڈیا کوشش کرتا ہے کہ  مجاہدین کے دلوں پر اس کا خوف بٹھا ئے، مگر مجاہدین کو ان سے کوئی خوف نہیں آتا۔

سوال: جوزجان کے عوام اور مجاہدین کے درمیان تعلق کیسے ہیں؟

جواب: الحمد للہ! جوزجان کے شریف عوام کے حوالے سے جہاں تک مَیں جانتا ہوں، لوگ مجاہدین کے طرف دار ہیں۔ وہ مجاہدین سے محبت رکھتے ہیں۔ سب لوگ مجاہدین سے خوش ہیں۔ مجاہدین سے تعاون بہت رضامندی، شوق اور خوشی سے کرتے ہیں۔ کسی قسم کے تعاون سے دریغ نہیں کرتے۔ اپنے بیٹوں کو جہاد کے لیے تیار کرتے ہیں۔ مجاہدین کے سامنے ہوں یا پیٹھ پیچھے، اُن سے انتہائی رضا مندی اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہماری کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ قوم ہماری پشت پر کھڑی ہے۔ اسی طرح مجاہدین بھی عوام سے اچھا سلوک کرتے ہیں۔ صحیح معاشرت اور اچھے اخلاق سے پیش آتے ہیں۔ مَیں نے خود تمام مجاہدین کو کہا ہے اور اب بھی انہیں یہی نصیحت کرتاہوں کہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ یہ ہماری قوم ہے اور ہمیں اس قوم  کی ضرورت ہے۔ چھوٹے بڑے سب کا احترام ہونا چاہیے۔ اسی طرح سے لوگ مجاہدین کی جانب زیادہ متوجہ رہیں گے اور جنرل دوستم اور جنبش ملی سے دور رہیں گے۔

سوال: آپ کے صوبے میں اربکیوں کے حالات کیسے ہیں؟

جواب: اربکی صوبہ جوزجان میں بہت کم ہیں۔ ان میں سے اکثر یا تو ہلاک ہوگئے ہیں یا مجاہدین کے ساتھ مل گئے ہیں۔ ہمیں اربکیوں کے حوالے سے کوئی تشویش نہیں ہے۔ دشمن کا یہ پلان ہمارے علاقے میں ناکام ہے۔

سوال: محترم گورنر صاحب! عسکری کارکردگی کے علاوہ آپ کے صوبے کے دیگر معاملات مثلا: تعلیم وتربیت، قضا اور دعوت و ارشاد وغیرہ کیسے چل رہے ہیں؟

جواب: الحمد للہ! پورے صوبے میں مختلف اضلاع میں تمام شعبوں میں افراد متعین کردیے گئے ہیں۔ وہ اپنی ذمہ داری پوری طرح ادا کر رہے ہیں۔ ان کی کارکردگی قابل اطمینان ہے۔ ہم ان سے خوش ہیں۔

سوال: آپ اپنے بالا تر عہدے داروں اور رہنماؤں سے کس حد تک خوش ہیں اور وہ آپ کے کام سے کس حد تک مطمئن ہیں؟

جواب: )مسکراکر) مَیں اپنے بڑوں سے راضی اور خوش ہوں۔ انہوں نے ہماری مکمل پشتیبانی کی ہے اور کر رہے ہیں۔ اپنے بارے میں تو وہ خود جانتے ہوں گے اور ان شاء اللہ راضی ہی ہوں گے۔

سوال: آپ کے صوبے میں نئے امیر صاحب سے بیعت کے مراسم اور عالی قدر امیر المؤمنین مرحوم رحمہ اللہ کی فاتحہ خوانی کس طرح ادا کی گئی؟

جواب: الحمد للہ! جیسے ہی امیر المؤمنین رحمہ اللہ کے انتقال کی خبر اور ملا اختر محمد منصور صاحب حفظہ اللہ کی امارت کی خبر پہنچی، ہم نے اُنہی شروع کے دنوں میں پورے صوبے کے مجاہدین کو بلایا اور انہیں اس خبر سے مطلع کیا۔ انہیں تعزیت اور بیعت کا پیغام سنایا۔ جس کا صوتی پیغام میرے خیال میں الامارہ سائٹ پر بھی نشر ہوچکا ہے۔ اسی طرح امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی روح کے لیے ایصال ثواب کے طور پر قرآن کریم کے ختم بھی کیے۔

سوال: امارت اسلامیہ کے سابق دور میں آپ کی کیا ذمہ داریاں رہی ہیں اور امیر المؤمنین رحمہ اللہ معاملات کس طرح چلاتے تھے؟

جواب: کیوں نہیں! خوش قسمتی سے مَیں امارت اسلامیہ کے ابتدائے ظہور سے اس تحریک کے ساتھ رہا ہوں۔ مَیں قندھار شہر کی فتح سے بھی پہلے ان کے ساتھ تھا۔ مَیں نے امارت اسلامیہ کے دور حکومت میں قندھار میں بہ حیثیت سیکرٹری کام کیا ہے۔ ہرات کی فتح کے بعد ہرات چھاؤنی 3 میں کام کیا ہے۔ اس کے بعد ہرات میں بجلی کے محکمے میں سربراہ کی حیثیت سے کام کیا ہے۔ بعدازاں محکمہ تجارت کا سربراہ رہا۔ پھر کچھ عرصہ شہری منصوبہ بندی کے سربراہ کی حیثیت سے کام کیااور محکمہ حج و اوقاف میں بھی بہ حیثیت رئیس ذمہ داریاں ادا کیں ہیں ۔

امیر المؤمنین مرحوم سے مختلف مواقع پر سو دفعہ سے زائد ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ واقعتا یہ لوگ اولیائے وقت تھے۔ ان کی شخصیت بہت مثالی تھی۔ انتہائی سادہ زندگی اور بے تکلف، بہت سی یادیں ہیں ۔ ایک بار قندھار میں ایک اجلاس میں بیٹھے تھے، جو اقتصادی حوالے سے تھا۔ مَیں بھی ہرات کے محکمہ تجارت کے سربراہ کی حیثیت سے شریک تھا۔ پلاسٹک کی جس چٹائی پر ہم بیٹھے تھے،ملا صاحب مرحوم انتہائی سادگی اور بے تکلفی سے وہیں ہمارے ساتھ بیتھ گئے۔ اور ہمیں تاجر طبقے  کے حوالے سے وصیت کی کہ کوشش کرو ملک کے تاجروں سے اچھا  سلوک کرو۔ اور ان کے لیے سہولیات پیدا کرو۔ ہم سب نے ان کی بہت اطاعت کی اور اسی اطاعت کی خاطر تاجروں کے معاملات نمٹانے میں مقرر وقت سے بھی زائد کام  کیا۔

سوال: آپ کی طرف سے کوئی پیغام، جو آپ افغان عوام کو دینا چاہتے ہیں؟

جواب: مَیں افغان عوام، خصوصا جوزجان کے عوام کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہمیشہ مجاہدین کے معاون رہیں۔ یقین کریں عزت جہاد میں ہے۔ مَیں نے کئی بار مجاہدین کو وصیت کی ہے کہ ہم اقتدار کی خاطر نہیں لڑ رہے۔ ہمارا جہاد اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہے۔ جب تک ہم زندہ رہیں، ہمارا جہاد جاری رہے گا۔ ہماری عزت جہاد کو جاری رکھنے میں ہے۔ مَیں قوم کے تمام طبقات سے عرض کرتا ہوں کہ جس طرح انہوں نے اس سے قبل ہمارے ساتھ  تعاون کیا ہے، اب بھی اپنا تعاون جاری رکھیں۔ جان لیں کہ دشمن اب شکست کھانے کو ہے، جس طرح ان کے آقاؤں نے شکست کھائی ہے۔ سرمایہ دار لوگ مجاہدین کی مدد کریں۔ علماء اور بڑے بزرگ مجاہدین کے لیے دعائیں کریں۔ ان شاء اللہ آخری کامیابی مجاہدین کی ہوگی۔