عربی مجلے الصمود کے مدیر اعلیٰ جناب احمد مختار سے گفتگو

امریکا جنگ کا اختتام نہیں افغانستان سے باہر اسے مزید وسیع کرنا چاہتا ہے۔ عسکری ذرائع سے زیادہ امریکا میڈیا اور دیگر وسائل پر انحصار بڑھا رہا ہے ۔    جیسا کہ ہمارے قارئین جانتے ہیں حالیہ دنوں میں افغانستان میں سیاسی اور عسکری حوالے سے کچھ اہم تبدیلیاں سامنے آئی ہیں۔ ان میں سے […]

امریکا جنگ کا اختتام نہیں افغانستان سے باہر اسے مزید وسیع کرنا چاہتا ہے۔

عسکری ذرائع سے زیادہ امریکا میڈیا اور دیگر وسائل پر انحصار بڑھا رہا ہے ۔

   جیسا کہ ہمارے قارئین جانتے ہیں حالیہ دنوں میں افغانستان میں سیاسی اور عسکری حوالے سے کچھ اہم تبدیلیاں سامنے آئی ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم نیٹو افواج کے مکمل انخلا کا ارادہ اور بارک اوباما کی جانب سے افغانستان کی جنگ کے خاتمے کا اعلان تھا۔ یہ سلسلہ کتنا اہم ہے اور ملک کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہونے والے ہیں، اس حوالے سے ”شریعت” نے سیاسی امور کے تجزیہ کار اور ”الصمود” میگزین کے مدیر جناب احمد مختار سے گفتگو کی ہے، جو آپ کی نذر کی جا رہی ہے۔

   سوال: دسمبر 2014 میں ایساف افواج نے کابل میں ایک تقریب میں اپنا پرچم اتارا اور افغانستان میں اپنی مہم کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ اسی روز امریکی صدر بارک اوباما نے اعلان کیا کہ امریکا نے اپنی تاریخ کی سب سے طویل جنگ اختتام تک پہنچا دی ہے۔ جنگ کے اختتام پر مغربی جارحیت پسندوں کی جانب سے بڑی سطح پر پروگرام منعقد کیا گیا ہے۔ آپ کے خیال میں یہ ان کی مسلط کردہ جنگ کا خاتمہ ہی ہے یا اس کے علاوہ کچھ اَور بھی اہداف ہو سکتے ہیں؟

   جواب: میرے خیال میں امریکا کے یہ تمام اقدامات اپنے عوام کو غفلت اور ان کی جانب سے تنقید کا نشانہ بننے سے بچنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ امریکی افغانستان میں جنگ کے اختتام کا ارادہ نہیں رکھتے، بلکہ چاہتے ہیں کہ افغانستان سے باہر بھی جنگ کو مزید وسعت دیں۔ امریکی دنیا کے وہ ظالم صفت انسان ہیں، جنہوں نے اپنے مفادات کے حصول اور اپنی جارحیت کو پھیلانے کے لیے بہت سی اقوام خصوصا تیسری دنیا کو بے چین کر رکھا ہے۔ ان کے مفادات ہمیشہ دوسری اقوام پر مظالم، اذیتوں اور ان کی زمینوں پر قبضے سے وابستہ رہتے ہیں۔ کابل انتظامیہ سے سیکورٹی معاہدے پر دستخط، افغانستان پر ڈرون طیاروں کی بمباری کا سلسلہ اور یہاں محدود تعداد میں امریکی اڈوں کے طویل قیام کا مقصد عسکری اور سیکورٹی اعتبار سے جنگ کو طول دینے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

   سوال: اگر امریکا اور نیٹو افغانستان کی جنگ کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں اور اپنی جنگجو فوجوں کا انخلا کررہے ہیں تو آپ اس واپسی کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کیا نیٹو اور امریکا نے اپنے اہداف حاصل کرلیے ہیں اور اب مزید ان کی ضرورت نہیں رہی ہے یا وہ شکست کھا گئے ہیں اور پسپائی اختیار رہے ہیں؟

   جواب: افغانستان میں امریکی فوجیوں کی شکست کا اعتراف سب سے زیادہ خود امریکی فوجی ماہرین کر رہے ہیں۔ صرف امریکی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر سب سے اہم فوجی تنظیم نیٹو بھی شکست کھا گئی ہے۔ اب یہ شکست خوردہ جارحیت پسند چاہتے ہیں کہ اپنی شکست کا انتقام افغانوں سے ایک اَور طریقے سے لیا جائے۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ عسکری لحاظ سے افغانستان کی تسخیر ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہدف تک پہنچنے کے لیے وہ غیر روایتی انداز میں مختلف طریقے اپنا رہے ہیں۔ ایسے ذرائع کہ جن کا استعمال عسکری اور اقتصادی لحاظ کم خرچ ہو اور ہدف تک پہنچنے کے لیے بہت کامیاب ہو۔ ان خطرناک ذرائع میں سے ایک سیکورٹی معاہدے کے ذریعے افغانستان میں جنگ کو طول دیناہے۔ کیوں کہ اسی معاہدے کے ذریعے افغانستان کی سرزمین اور فضا مستقبل کے دس سالوں تک کے لیے امریکا کے اختیار میں دے دی گئی ہے۔ اسی معاہدے کے ذریعے امریکی افواج کو افغانستان میں جہاں وہ چاہیں فوجی آپریشن کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ اسی معاہدے میں امریکی فوجیوں کے آپریشن کے دوران ان کے ہاتھوں بے سہارا افغان عوام پر جو مظالم ڈھائے جاتے ہیں، انہیں قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ہر طرح کے جنگی جرائم میں چھوٹ دی گئی ہے۔ اس سے قبل امریکی چاہتے تھے کہ اپنے اہداف غیر ملکی فوجیوں کے ذریعے حاصل کریں۔ اب وہی مقاصد افغان نیشنل آرمی کے ذریعے حاصل کیے جائیں گے۔ اس طرح کہ امریکی فوجی جانی نقصان سے بھی محفوظ رہیں اور مالی نقصان سے بھی بچے رہیں۔ اس طرح افغانستان میں مجاہدین اور نیشنل آرمی کے درمیان مزاحمت اور مقابلے کو جاری رکھنے کا ایک وسیلہ بھی میسر آگیا ہے، تاکہ افغانوں کے درمیان مقابلے کا میدان گرم رکھا جا سکے۔

   سوال: بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نیٹو کی جانب سے پرچموں کا اتارنا اور فوجیوں کو پسپا کرنا ایک ڈرامہ اور دکھلاوا ہے۔ نیٹو اور امریکا اپنے نے اڈے حاصل کرلیے ہیں اور اب اپنے اضافی فوجیوں کو نکال کر لے جا رہے ہیں۔ اور یہ کہ افغانستان ایک گہری عالمی گیم کا مرکز ہے۔ افغان مجاہدین کو اتنی جلدی اپنی فتح اور جارحیت پسندوں کی شکست کا دعوی نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں، کیا واقعۃً افغان عوام ابھی آزادی سے بہت فاصلے پر ہیں؟

   جواب: میرے خیال میں عسکری لحاظ سے جارحیت پسند یہاں واضح طور پر شکست کھاچکے ہیں۔ اس حوالے سے پینٹاگون کے ماہرین کے اعترافات اور ان کے نقصانات کے اعداد وشمار موجود ہیں۔ مگر اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ مجاہدین تمام حوالوں سے دشمن پر غالب ہیں، بلکہ اب دشمن کے مقابلے کا رخ بدل گیا ہے۔ پہلے ان کی ساری توجہ عسکری مقابلے پر تھی۔ اب اس نے دیگر ذرائع پر انحصار بڑھانا شروع کیا ہے۔ مجاہدین کے لیے یہ مقابلہ گزشتہ جنگوں سے زیادہ مشکل اور محنت طلب ہے۔ مجاہدین کو پوری قوت اور منصوبہ بندی سے اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ مجاہدین عسکری میدان کے سب سے مضبوط فاتح اور بہادر سپوت ہیں۔ ان کی پیدائش اور پرورش جہادی محاذوں پر ہوئی ہے۔ انہیں سیاست اور دفتر کے معاملات میں بھی اتنی ہی مہارتیں پیدا کرنا ہوں گی، جتنی انہیں جنگی اور عسکری امور میں حاصل ہیں۔ اس لیے مجاہدین مزاحمت کے اس حساس مرحلے پر دشمن سے نئے طرز کے مقابلے کی پوری تیاری کریں۔ اپنی عسکری و فوجی صلاحیت اور جہادی بصیرت بروئے کار لاکر دشمن کو عبرت ناک شکست سے دوچار کر دیں۔

   سوال: امریکا اپنی فوج نکال رہا ہے، مگر دائمی اڈوں کے نام پر اس کی فوج پھر بھی یہاں رہے گی۔ آپ کے خیال میں یہ فوج افغانستان میں آرام سے رہ پائے گی اور اہداف حاصل کر پائے گی یا آخر کار انہیں بھی فرار ہونا پڑے گا؟

   جواب: امریکی فوج شروع میں تازہ دم تھی۔ جارحیت کا غرور ان کے دماغ میں سمایا ہوا تھا۔ اس کے باوجود ڈیڑھ لاکھ فوج ناکام رہی ہے۔ اپنے مقاصد نہیں حاصل کرسکی۔ اب جب انہیں اپنی کامیابی سے مایوسی ہو رہی ہے، ہزاروں کی تعداد میں ان کے فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے ہیں۔ فوج کا حوصلہ پست ہورہا ہے۔ پہلے کی بہ نسبت اب ذرا یہ ایک مشکل کام ہوگا۔ اگر ڈیڑھ لاکھ فوج فرار ہوگئی تو بقیہ 10 ہزار تو یقینا فرار ہوگی۔ اور ان شاء اللہ تعالی یہ ملک افغانوں کے لیے ہی رہ جائے گا۔

   سوال: انخلا کے ساتھ ہی مغربی حکام نے یہ دعوی کیا ہے کہ انہوں نے افغانوں کے لیے گزشتہ 13 سالوں میں بڑے بڑے کام کیے ہیں۔ انہیں جمہوریت، آزادی اور حکومت داری کا حق دیا ہے۔ مختلف اقتصادی، سیکورٹی، عمرانی اور کلچرل شعبہ جات میں تعاون دیا ہے۔ آپ کے خیال مغرب نے گزشتہ 13 سالوں میں افغانوں کو کون سی سوغات دی ہیں؟

   جواب: واقعۃً امریکیوں کی آمد سے افغانستان میں بہت امور میں ترقی دیکھنے میں آئی ہے۔ عالمی سطح پر انہیں بلند مقام ملا ہے۔ امریکیوں کے اپنے اعتراف کے مطابق افغانستان کرپشن میں پہلے نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ بدامنی میں پہلا نمبر، انسانی حقوق کی پامالی پہلا نمبر، منشیات کے پھیلاؤ میں پہلا نمبر، خواتین پر تشدد میں پہلا نمبر! واقعۃً یہ ترقی افغانستان میں امریکی جارحیت کے بعد ہی ممکن ہوئی ہے۔

   سوال: گزشتہ سال انتخابات ہوئے اور ایک بڑی تبدیلی نظر آئی ہے۔ امریکی مداخلت کے بعد قومی یکجہتی کی بنیاد پر ایک حکومت قائم کی گئی ہے۔ آپ مستقبل میں اس نوزائیداہ حکومت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

   جواب: جارحیت کے سائے تلے انتخابات اور ان سے متعلقہ تمام اقدامات جارحیت پسندوں کی جانب سے عام لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے کیے گئے ہیں۔ اگر واقعۃً انتخابات افغان عوام کی مصلحتوں کی خاطر کیے گئے ہوتے تو پھر جان کیری کے متعدد دوروں اور امریکی سفیر کی مداخلت کی کیا ضرورت تھی؟ انتخابی سلسلہ مجموعی طورپر ایک ڈرامہ تھا، جس کے نتیجے میں اشرف غنی کی بے اختیار اور دو قطبی حکومت تشکیل پائی ہے۔ افغان عوام کی خاطر یہ دو قطبی حکومت امریکی جرائم میں سے ایک بہت بڑا جرم ہے، جس کا مقصد افغانوں کے درمیان تفریق وتقسیم کی لکیر کھینچنا ہے۔ اشرف غنی نے اپنی زندگی کا اکثر حصہ امریکی شہری اور امریکی حکومت میں ایک ملازم کی حیثیت سے گزارا ہے۔ امریکیوں کے مزاج کے مطابق یہ شخص حکومت کے لیے سب سے مناسب اور موزوں تھا۔ اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بہ جانب ہوں گے کہ اشرف غنی حکومت افغانوں کے ووٹ سے نہیں بنی، بلکہ یہ امریکیوں کی تخلیق ہے۔ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے 24 گھنٹے بعد سیکورٹی معاہدے دستخط کر دیے اور کابینہ کی تشکیل میں ساڑھے تین ماہ کی تاخیر کوئی اَور ہی کہانی اُگل رہی ہے۔

   سوال: 2014 میں افغانستان کی عسکری صورت حال کے حوالے سے کامیابی اور عملی ترقی کس فریق کے پاس رہی اور مستقبل میں عسکریت کا کیا رُخ رہے گا؟

   جواب: 2014 کے آخر میں بیرونی افواج کی جانب سے افغانستان میں اپنے پرچم اتارنا اس سال کی سب سے بڑی کامیابی اور تمام مسلمانوں کے لیے ایک فخر کامقام ہے۔ یہ پرچم افغانستان میں جارحیت پسندوں کی جانب سے ان کی حکومت اور تسلط کی علامت کے طورپر لہرائے گئے تھے۔ جہادی رہنماؤں کی بے مثال قربانیوں کی برکت سے انتہائی ذلت اور رسوائی کے ساتھ انہیں یہ پرچم واپس اتارنا پڑے ہیں۔ اسی سال جہادی قوت کے زور پر امریکی جیل گوانتا نا مو سے امارت اسلامیہ کے پانچ اہم رہنماؤں کی آزادی جہاد اور افغانوں کی دوسری تاریخی کامیابی ہے، جو انہیں صرف جہاد اور سیاسی تدبر کے ذریعے ہی ملی ہے۔ مجاہدین کی جانب سے پورے پانچ سال تک امریکی افسر کو اپنے ہاں قید رکھنا درحقیقت پورے امریکا کو قید کرنے کے مترادف ہے۔ اس لیے امریکیوں نے مجاہدین سے اپنے قیدی فوجی کی آزادی کے لیے پوری طاقت کا استعمال کیا، مگر کچھ حاصل نہ کرسکا۔ اس کے علاوہ بھی 2014 مجاہدین کے لیے کامیابیوں کا سال تھا۔ اسی سال افغانستان میں امریکیوں کے تھری اسٹار جنرل ہارڈ گرینی، مجاہد رفیق اللہ کے ہاتھوں ہلاک ہوگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ 12 بڑے جرمن جرنیل اور فوجی بھی ہلاک اور زخمی ہوگئے۔ اسی طرح ہلمند شوراب کے سب سے اہم فوجی اڈے پر مجاہدین کے چار روزہ آپریشن، کابل کے قلب میں پولیس سربراہ کے دفتر پر حیران کن حملہ، صدارتی محل کے دروازے پر فرانسیسی کلچر مرکز پر حملہ اور کابل شہر میں جارحیت پسندوں اور کٹھ پتلیوں کے ٹھکانوں پر حملے، ملک کے اہم شہروں میں فوجی مراکز پر منظم حملے اور جہادی کارروائیاں، اکثر علاقوں کی فتح 2014 میں مجاہدین کی اہم کامیابیاں تھیں۔

   سوال: حال ہی میں امریکا اور اس کے اتحادی عسکری حوالے سے پسپائی کی حالت میں ہیں، مگر پروپیگنڈے کے حوالے سے ان کی کوششیں ماضی سے بڑھ ہیں۔ جارحیت پسندوں کے مقابلے میں کیا ہونا چاہیے، تاکہ عوام پروپیگنڈے سے محفوظ رہیں۔

   جواب: امریکی حملہ افغانستان پر پروپیگنڈے کے زور پر کیا گیا تھا۔ پروپیگنڈے کے ذریعے ہی اسے برقرار رکھا گیا تھا۔ پروپیگنڈہ معاصر دنیا کی سیاست میں سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ اسی لیے دشمن کی توجہ پروپیگنڈے کی جانب بھی اتنی ہی ہے، جتنی عسکری جنگ پر ہے۔ دشمن کی اس جنگ کو ناکام بنانے کے لیے مجاہدین کو چاہیے کہ پروپیگنڈے کے حوالے سے جوابی اقدام کریں۔ دشمن کے پروپیگنڈے کے خلاف اپنی پوری قوت بروئے کار لائیں۔ عسکری جنگوں کی طرح امریکیوں کی پروپیگنڈہ لڑائی بھی اسی طرح کی وحشت، سربریت اور بداخلاقی سے بھری ہوئی ہے۔ ان کے پروپیگنڈے کی بنیاد جھوٹ پر ہے۔ ان کے پاس جھوٹ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے، جس سے وہ دنیا کو اطمینان دلا سکیں۔ بہت مرتبہ خود امریکی میڈیا نے وہائٹ ہاؤس حکام کے افغان جنگ کی کامیابی کے دعوؤں کو مضحکہ خیز اور غلط قرار دیا ہے۔ مجاہدین دشمن کے خلاف لڑنے کے لیے سچ کو ہتھیار بنائیں۔ میڈیائی مواد ذمہ دارانہ انداز میں اطمینان بخش اور سچ پر مبنی ہوناچاہیے۔ سچی اور بروقت خبریں دشمن کی میڈیائی تاثیر کو ختم کرنے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

   سوال: آپ افغانستان میں اسلامی نظام اور مکمل امن کے قیام کے لیے کتنے پرامید ہیں۔ ایسا کیا اقدام ہونا چاہیے جس سے افغان عوام اپنی اس خواہش کی تکمیل کرسکیں؟

   جواب: مسلمان تقدیر الہی پر اعتماد رکھیں اور ہمیشہ اپنے مستقبل اور معاشرے کے حوالے سے پر امید رہیں۔ مسلمان افغانوں نے نظام الہی کے نفاذ اور جارحیت پسندوں سے اپنے ملک کی آزادی کے لیے بہت بڑی قربانیاں دی ہیں۔ بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں اور بہت زیادہ مظلومیت برداشت کی ہے۔ اللہ تعالی غیور ذات ہے۔ ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ مظلوم افغانوں کی ان قربانیوں کا یقینا ضرور کوئی نتیجہ نکلے گا، جس کی برکت سے افغانستان جارحیت پسندوں کے قبضے نکل جائے گا۔ اس وقت ایک بارپھر مظلوم افغان عوام اپنے آزاد افغانستان میں اسلامی نظام کے سائے تلے بااعتماد، پرامن زندگی اور پرامن مستقبل کے مالک ہوں گے۔ ان شاء اللہ