عظیم علمی ، جہادی اور روحانی شخصیت مولوی عبدالہادی اخند زادہ حیات اور خدمات

بشیر ہمدرد   عربی کا مشہور مقولہ ہے: ’’موت العالم موت العالم‘‘۔عالِم کی موت عالَم کی موت ہے ۔ تجربات نے یہ بات ثابت کر دی ہے ہر آنے والا جانے والے کی جگہ تو لے لیتا ہے، لیکن اس جیسے کمالات نہیں دکھا سکتا۔ اس سلسلے میں ہمارے استاد، مربی اور ملک کی معروف […]

بشیر ہمدرد

 

عربی کا مشہور مقولہ ہے: ’’موت العالم موت العالم‘‘۔عالِم کی موت عالَم کی موت ہے ۔ تجربات نے یہ بات ثابت کر دی ہے ہر آنے والا جانے والے کی جگہ تو لے لیتا ہے، لیکن اس جیسے کمالات نہیں دکھا سکتا۔ اس سلسلے میں ہمارے استاد، مربی اور ملک کی معروف علمی ، جہادی ، سیاسی اور روحانی شخصیت مولوی عبدالہادی اخندزادہ صاحب رحمہ اللہ بھی انہیں لوگوں کی جماعت میں سے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان جیسی شخصیت پھر کسی قبیلے اور قوم میں صدیوں بعد پیدا ہوگی۔ بلا شک وشبہ ان جیسی صفات اور روحانی خصوصیات آج کل بہت سے مشہور لوگوں میں بھی ناپید نہیں تو نادر و نایاب ضرور ہیں۔ ان کے جہادی اور سیاسی کارناموں پر روشنی ڈالنے سے پہلے ان کی زندگی کے متعلق چند باتیں قارئین کے سامنے پیش کریں گے ۔

پیدائش:

افغان تقویم کے مطابق موصوف 1337ھ شمسی سال میں صوبہ پروان ضلع کوہ صافی کے مضافات میں سیاہ سنگ کے علاقے ’’ملایانو گاؤں‘‘ میں علاقے کی مشہور روحانی شخصیت ملا حبیب الرحمان اخندزادہ کے علمی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ملا حبیب الرحمن اخندزادہ پورے علاقے کے روحانی مرشد سمجھے جاتے تھے۔ بلکہ کوہ صافی سے باہر کئی علاقوں لوگ ان کے عقیدت مند تھے۔

تعلیم:

گھر میں علمی اور دینی ماحول کہ وجہ سے بچپن میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ البتہ گھر سے باہر حصولِ علم کے لیے تب سفر اختیار کیا، جب وہ نوجوانی کی دہلیز پر تھے ۔ ابتدائی دینی کتابیں والد بزرگوار، بڑے بھائی اور چچا سے پڑھیں۔ مزید پڑھائی کے لیے شمال میں ’’باغ‘‘ کے معروف عالم دین کی درس میں شامل ہوگئے۔ بعد ازاں مولوی اسد اللہ اور مولوی نصراللہ صاحب کے پاس رہنے لگے۔ اس کے بعد کابل کے علاقے شیوہ کیو میں مشہور مدرس عالم مولوی محمود کی درسگاہ گئے۔ ان سے درسِ نظامی کے تیسرے درجے کی کتابیں پڑھیں۔ پھر مزید علم حاصل کرنے پاکستان چلے گئے۔ وہاں خیبر پختونخوا میں مردان کے ایک مدرسے میں حصول علم میں مشغول ہوگئے۔ اور پھر وہیں سے فارغ ہوئے۔ انہوں نے دورہ حدیث 1366ھ شمسی میں پشاور میں مولانا حسن جان مدنی رحمہ اللہ سے کیا۔

روسی جارحیت کے خلاف جہاد میں شمولیت:

جب آپ حصول علم کے لیے افغانستان سے پاکستان سفر کر رہے تھے، اسی زمانے میں افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب کے خلاف جہاد کا آغاز ہو چکا تھا۔ البتہ جہادی سرگرمیاں خال خال نظر آرہی تھیں۔ کچھ ہی عرصے بعد پورے ملک میں جہادی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ دینی مدارس سے کئی طلبہ محاذوں پر چلے گئے۔ ان طلبہ میں مولوی صاحب مرحوم بھی تھے۔ انہوں نے پہلے میران شاہ میں عسکری تربیت حاصل کی۔ پھر جہاد کی نیت سے اپنے علاقے کے طلبہ کے ساتھ کوہ صافی چلے گئے۔ جہادی امور کی تنظیم سازی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یاد رہے کوہ صافی میں جہاد کے آغاز میں مرحوم مولوی صاحب کے علاوہ ان کے بڑے بھائی مولوی عبدالصبور اخندزادہ نے بنیادی اور قائدانہ کردار ادا کیاتھا۔ ان کے بھائی 1365ھ شمسی میں کوہ صافی میں روسیوں کی اچانک کارپٹ بمباری میں کئی مجاہدین سمیت شہید ہوگئے۔ ان کی شہادت کوہ سافی کے لوگوں پر بالعموم اور مولوی صاحب کے خاندان کے لیے بالخصوص ایک بڑا سانحہ اور پریشان کن واقعہ تھا۔ اللہ تعالی نے مولوی صاحب کو تکلیفوں اور مصائب پر صبر کا مضبوط حوصلہ دیا تھا۔ وہ اسی سال موقوف علیہ کے طالب علم تھے۔ انہوں نے کچھ عرصہ بعد پھر سے اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز کرلی ۔ دورہ حدیث کے سال ان کے بڑے بھائی کے جہادی ساتھیوں نے کوشش کی کہ انہیں پھر سے جہادی میدان میں لا کر بڑے بھائی کی شہادت سے بننے والا خلا پرکیا جائے۔ مگر ان کا زیادہ میلان درس و تدریس کی جانب تھا۔ ان سے معذرت کرکے اپنے خاندان سے جہادی خدمت کے لیے بڑے بھائی مولوی عبدالغفار صاحب کو منتخب کیا۔ وہ نہایت ہوشیار، مدبر اور علاقائی سطح پر نمایاں اور مقبول رہنما تھے۔ وہ آخر تک اپنے جہادی مؤقف پر قائم رہے اور جہاد کے اختتام پر اپنے گھر بیٹھ گئے۔ مولوی صاحب کی وفات سے تقریبا ڈیڑھ سال قبل وہ بھی اس دار فانی سے رحلت فرماگئے تھے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

ہجرت:

مولوی صاحب کے خاندان نے 1361ھ شمسی کو افغانستان سے پاکستان ہجرت کی۔۔ پہلے کرم ایجنسی کے خواجہ علی اور پھر صوابی کے علاقے میں رہنے لگے۔ وہاں ڈیڑھ سال گزارنے کے بعد کوہاٹ میں غلام بانڈی سافیانو مہاجر کیمپ گئے، جہاں وہ اب تک مقیم ہے۔

تعلیمی وتدریسی زندگی:

پشاور سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد خیبر پختونخوا کوہاٹ میں انصار کی ایک مسجد میں تدریس کرنے لگے۔ ابتدائی درجات سے لے کر ’’کافیہ، حُسامی اور سُلَّمُ العلوم‘‘ تک کتابیں پڑھانے لگے۔ کوہاٹ ہی میں مختلف مدارس میں انہوں نے تدریسی خدمات انجام دیں۔ معروف بزرگ عالم دین مفتی فرید صاحب کے خلیفہ مولوی مطیع اللہ شاکر اِن کی تدریسی اورعلمی صلاحیت کے متعلق لکھتے ہیں:

’’میری ابتدائی تربیت مولوی صاحب مرحوم نے کی ہے۔ ہم نے اس وقت ان سے پڑھنا شروع کیا، جب وہ خود درجہ رابعہ کے طالب علم تھے۔ ہم نے کافیہ تک کی کتابیں ان سے اُس دور میں پڑھیں، جب وہ طالب علم تھے۔ جب وہ فارغ ہوگئے تو کوہاٹ کی ایک مسجد میں پڑھانے لگے۔ مَیں نے پہلے سال ان سے حسامی اور سلم العلوم پڑھیں۔ ان کا طریقہ تدریس بہت عام فہم اور سادہ تھا۔ وہ پہلے سبق کا خلاصہ بتاتے، پھر تفصیل اور کتاب کی عبارت حل کرتے۔ ان کے سبق میں برکت زیادہ تھی۔ ان کی کوشش ہوتی تھی طلبہ کو آسان طریقے سے سمجھایا جائے۔کبھی بھی پیچیدہ تعبیر استعمال نہ کرتے۔ اس کے علاوہ ہر سال ماہ رمضان میں وہ دورہ تفسیر کراتے۔ مولوی صاحب کامیاب واعظ اور مبلغ بھی تھے۔ ان کا وعظ لوگوں میں بہت پُراثر ہوتا تھا۔ اسی لیے خواص کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی مقبول اور معروف شخص تھے۔

اسلامی تحریک طالبان میں شمولیت:

جب ملک کے جنوبی حصے قندھار میں شرپسند عناصر اور خانہ جنگی کے خلاف امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی قیادت میں کم تعداد میں طلبہ نے شرعی انقلاب کی بنیاد ڈالی تو ملک کے دیگر جید علماء کے ساتھ ساتھ مولوی عبدالہادی اخندزادہ بھی شریک ہوئے۔ صوبہ پروان اور کاپیسا کے علماء و طلبہ کی جانب سے ایک مضبوط اور بااثر سیاسی اور اجتماعی شخصیت کے طورپر ابھرے۔ انہوں نے اسلامی تحریک طالبان کی حمایت کا اعلان کیا۔ خیبرپختونخوا کے سرحدی علاقوں میں بڑے بڑے جلسے منعقد کرائے۔ لوگوں کو اس تحریک کی اہمیت اور ضرورت سے آگاہ کیا۔ اس کے بعد صوبہ کاپیسا اور پروان کے علماء اور طلبہ کے ساتھ مل کر پہلے خوست کے راستے لوگر اور پھر قندھار گئے۔ اس سفر سے لوٹنے کے بعد پروان اور کاپیسا کے دیگر 200 مجاہدین کو لے کر چہار آسیاب اور کارتہ سیاہ کے خط اول پر گئے۔ وہاں ملا بورجان شہید اور ملا یار محمد شہید رحمہما اللہ سے ملے۔ یہاں احمد شاہ مسعود نے چال چل کر طالبان کو شدید نقصان پہنچایا، جس کی وجہ سے مجاہدین کو وہ علاقہ عارضی طورپر چھوڑنا پڑا۔ اس واقعے میں طالبان مجاہدین بڑی تعداد میں شہید، زخمی اور قیدی ہوگئے۔ پروان اور کاپیسا کے ساتھیوں میں سے بھی بہت سے قیدی اور زخمی ہوگئے۔ ان زخمیوں میں سے بھی بہت سے مجاہدین دشمن کے ہاتھ لگے۔ بعد ازاں یہ تمام قیدی ہرات میں قیدیوں کے بڑے تبادلے میں رہا ہوگئے تھے۔ اس وقت سے اب تک مولوی صاحب اور ان کے ساتھی منظم اور متحد شکل میں طالبان تحریک میں جہاد، خدمت اور قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔ کوئی ایسی جنگ پیش نہیں آئی، جس میں ان کے ساتھیوں نے قربانی نہ دی ہو۔ان کے ساتھی زخمی اور شہید نہ ہوئے ہوں۔ الحمد للہ! ابھی تک ان کے ساتھی امارت اسلامیہ کی صفوں میں بڑی قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔ ان کی شان دار خدمات پر امارت اسلامیہ کی قیادت بجا طور پر فخر کرتی ہے۔

جب قندھار میں 1500 جید علماء اور طلبہ نے اسلامی تحریک کے سربراہ ملا محمد عمر مجاہد کے ہاتھ پر بیعت کی، اس اجتماع میں مولوی صاحب نے پروان اور کاپیسا کے بہت سے علماء کے ہمراہ شرکت کی اور امیرالمؤمنین رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ جب ملک کے جنوبی صوبوں کی فتوحات جاری تھیں، اس کی فتح میں مولوی صاحب اور قاری بریال (کاپیسا میں امارت اسلامیہ کے موجودہ گورنر) کی قیادت میں مجاہدین نے بے انتہا قربانیاں دیں۔ صوبہ کنڑ کی فتح کے بعد ملا بورجان اور ملا محمد ربانی کے مشورے پر عالی قدر امیرالمؤمنین رحمہ اللہ نے صوبہ کنڑ کے معاملات کاپیسا اور پروان کے مجاہدین کے حوالے کردیے۔ مولوی عبدالہادی اخندزادہ کو کنڑ کا گورنر اور قاری بریال کو کنڑ کا پولیس چیف مقرر کیا۔ جب ملا بورجان کنڑ کی فتح مکمل کرکے ننگرہار کی جانب رخ کرنے لگے تو انہوں نے کنٹر کے تمام سول اور عسکری عہدوں کے لیے ذمہ داران کے تعین کا حکم دیا۔ ان کے حکم کے مطابق مولوی صاحب نے تمام انتظامی معاملات پر ذمہ داران کا تعین کیا۔ بہت کم عرصے میں صوبائی سیکرٹریٹ سمیت 18 اضلاع میں حکومتی نظم ونسق بحال کردیا۔ بلدیاتی امور، تعلیمی ادارے، کالج اور مدارس کھولے۔ ٹرانسپورٹ کے معاملات منظم کیے۔ حکومتی ٹیکسوں کا نظام نافذ کیا۔ جنگلات کے خاتمے کی روک تھام کی۔ پاکستان کی جانب لکڑیوں کی غیر قانونی برآمد پر پابندی عائد کردی۔ شاہراہوں اور دروں میں سکیورٹی مضبوط کردی۔ لوگوں کے تحفظ کی خاطر دن رات مجاہدین گشت کرنے لگے۔ جنگ جُو عناصر کا اس خطے سے خاتمہ ہوگیا۔ معاشرتی انصاف کا بول بالا ہوا۔ تمام تاجروں نے ایک بار پھر بولدک چمن کے راستے تجارت کا راستہ اختیار کیا۔ اس حوالے سے ان تاجروں کو افغان حکومت اور عوام کے قومی مفادات سمجھائے گئے، جس کے بعد تمام لوگوں نے بولدک کے راستے سامان کی منتقلی کی اس رائے کی حمایت کی۔

کنڑ میں جہادی اور سیاسی کامیابی:

طالبان کے لیے کنڑ کو کنٹرول کرنا اور اس پر حکومت قائم رکھنا انتہائی مشکل کام تھا۔ خوش قسمتی سے اللہ تعالی نے مولوی صاحب مرحوم کو مسائل کے حل اور حکومتی معاملات کے نظم ونسق اور افہام وتفہیم کا بہترین ملکہ عطا کیا تھا۔ یہی وجہ تھی انتہائی کم عرصے میں نورستان مرکزی اور شرقی سمیت 18 اضلاع میں امارت اسلامیہ کی حکومت قائم ہوگئی۔ یقینا جنگ کے بغیر کئی اضلاع فتح کرنا آسان نہ تھا، مگر یہ سب اضلاع جنگ کے بغیر کامیاب حکمت عملی، مذاکرات، عوام کو اطمینان دلاکر فتح کیے گئے۔ یہاں تک کہ مرکزی نورستان سے لے کر پنجشیر تک امارت اسلامیہ کی حکومت قائم ہوگئی۔مشرقی نورستان میں صوبہ بدخشان کی حدود تک تمام علاقے جنگ کے بغیر محض عوام سے افہام وتفہم کے ذریعے فتح ہوئے۔ ان کی تدبیر اور بصیرت کا کمال اور اللہ کی نصرت تھی کہ بڑے علاقے فتح ہوئے اور ایک مجاہد کو ہلکی خراش تک نہ آئی۔

بیماری اور وفات:

کچھ عرصہ قبل انہیں شوگر اور بلڈ پریشر کی بیماری لاحق ہوگئی تھی۔ جس کی وجہ سے ان کی صحت ٹھیک نہیں تھی۔ کبھی زبان پر شکوہ نہیں لایا۔ کچھ عرصہ بعد ان کی نظر بھی کمزور ہوتی چلی گئی۔ آہستہ آہستہ دیگر جسم بھی متاثر ہونے لگا۔ علاج کے لیے خود بھی کوشش کی اور قاری بریال صاحب نے بھی اپنی کوششوں میں بخل سے کام نہیں لیا اور ہمیشہ ان کی خدمت میں رہے۔ وفات سے قبل بہت عرصے تک ان کی صحت کافی ٹھیک تھی۔ نظر بھی کچھ ٹھیک ہوگئی تھی۔ مگر موت کا معین وقت نہیں بدل سکا۔ یہاں ساری تدبیریں ناکام ہوجاتی ہیں۔ بالآخر 30 اکتوبر 2014 کو بروز جمعرات صبح اشراق کی نماز ادا کرنے کے بعد ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ وہ ہمیشہ کے لیے اس فانی دنیا سے منھ موڑ گئے۔ صدقہ جاریہ میں انہوں نے سیکڑوں شاگرد چھوڑے۔ جن میں علماء، طلبہ اور مجاہدین شامل ہیں۔ ان کے جنازے میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ان کا جسد خاکی کوہاٹ غلام بانڈی میں مہاجرین کے ایک قبرستان میں دفن کیا گیا۔ انا لله وانا الیہ راجعون