عوامی تنصیبات کی تباہی دشمن کی نئی سازش!

آج کی بات:   حالیہ جہادی فتوحات نے کابل کے غلام حکام کو اتنا حواس باختہ کر دیا ہے کہ اب وہ عوامی  فلاحی تنصیبات کی تباہی سے اپنی حفاظت کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ بزدل دشمن نے کل قندوز کا الچین نامی بڑا  پُل تباہ کر دیا ہے، تاکہ قندوز شہر میں مجاہدین کے […]

آج کی بات:

 

حالیہ جہادی فتوحات نے کابل کے غلام حکام کو اتنا حواس باختہ کر دیا ہے کہ اب وہ عوامی  فلاحی تنصیبات کی تباہی سے اپنی حفاظت کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ بزدل دشمن نے کل قندوز کا الچین نامی بڑا  پُل تباہ کر دیا ہے، تاکہ قندوز شہر میں مجاہدین کے داخلے کا راستہ روکا جا سکے۔

الچین پل قندوز کے مرکز شیرخان، امام صاحب، دشت آرچی اور قلعہ زال کو ملاتا ہے۔ اب اس پل کی تباہی سے مذکورہ اضلاع کا رابطہ مرکزی قندوز سے منقطع ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے علاقہ مکین شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

دشمن نے اپنی عادت بد کے مطابق پل کی تباہی کا الزام مجاہدین پر لگا دیا ہے۔ ہمیشہ سے غیر جانب داری کا دم بھرنے والے دجالی اور یہود غلام میڈیا نے یہ خبر  بریکنگ نیوز کے طور پر چلائی۔ لیکن افغان عوام اس بزدلانہ فعل کے عینی شاہد ہیں کہ پل کو امریکی طیاروں نے بمباری کر کے زمین بوس کیا ہے۔ دجالی میڈیا مجاہدین کے خلاف جتنا بھی پروپیگنڈا کر لے،     اس کے لیے ہرگز مفید نہیں ہو سکتا۔

گزشتہ ہفتے بھی دشمن نے مجاہدین  پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے لغمان میں ایک پل کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا ہے اور لوگر میں اسکول اور طبی مراکز بند کرنے کا حکم دیا ہے۔

امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس جھوٹے الزام کو سختی سے رد کرتے ہوئے ایک اعلامیہ جاری کیا تھا، جس میں واضح طور پر ان علاقوں کی نشان دہی کی گئی تھی، جہاں دشمن کے افراد نے اسکولوں کو نذرِ آتش کیا، طبی مراکز کو بند کیا تھا، پلوں کو تباہ کیا تھا اور عوامی تنصیبات کی دوبارہ تعمیر کے راستے میں رکاوٹ ڈالی تھی۔

چند دن قبل لغمان میں ایک پل کی تباہی کی خبر منظر عام پر آئی، جس کا الزام مجاہدین پر لگایا گیا۔ جب ہم نے علاقےمیں تحقیق کی تو وہ پل ظالم ملیشیا نے چھ ماہ قبل اس لیے اڑا دیا تھا، تاکہ مجاہدین علاقے میں داخل نہ ہو سکیں۔ جب بعد میں ایک  سماجی تنظیم نے پل کی تعمیر کے لیے ضروری سامان لایا تو وہ بھی ظالم اور وحشی ملیشیا لوٹ کر لے گئی۔

اسی طرح لوگر کے ضلع محمد آغا میں دشمن نے رپورٹ دی کہ مجاہدین نے اسکولوں اور طبی مراکز کو بند رکھنے کاحکم دیا ہے۔ جب مجاہدین نے علاقے میں تحقیق کی تو پتا چلا کہ علاقے میں ظالم ملیشیا نے  اسکولوں اور طبی مراکز کو بند رکھنے کا حکم دیا تھا۔ کیوں کہ وہاں کے عوام کا جرم یہ تھا کہ وہ مجاہدین کا ساتھ دیتے ہیں۔

مجاہد صاحب کی جانب سے دشمن کے الزامات کو رد کیے جانے کے بعد انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم نے ایک رپورٹ میں واضح طور پر کہا کہ کابل کی کٹھ پتلیوں نے متعدد اسکولوں میں چوکیاں بنائی ہوئی ہیں اور اشرف غنی کے اسلحہ بردار اہم کار اسکولوں کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کابل کے کٹھ پتلی اہل کاروں نے صرف صوبہ بغلان میں 12 اسکولوں میں فوجی چوکیاں بنا رکھی ہیں، جہاں اسکول انتظامیہ کو تعلیم کے عمل کو جاری رکھنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

قندوز اور بغلان میں حالیہ فتوحات نے دشمن کو بیش بہا نقصانات پہنچائے ہیں۔ غیرملکی غاصبوں کی فضائی مدد بھی کٹھ پتلیوں کو مجاہدین کے حملوں  سے بچانے مین ناکام رہی ہے۔ دشمن ہر دن بڑے بڑے مراکز اور فوجی اڈوں سے نکل کر قندوز کے مرکز کی طرف فرار ہو رہا ہے۔ دشت آرچی، امام صاحب، قلعہ زال، خان آباد اور چہار درہ میں مجاہدین کی شان دار فتوحات سے قندوز کے مرکز پر محاصرے کی کڑی تنگ ہوتی جا رہی ہے۔  مرکز سے ملحق چند علاقے اب بھی مجاہدین کے قبضے میں ہیں۔ دشمن نہایت خوف زدہ اور دفاعی پوزیشن میں آ گیا ہے۔

امارت اسلامیہ کے مجاہدین اللہ کی نصرت اور عوام کی بھرپور حمایت سے افغانستان کے طول و عرض میں جہادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ جس کے نتیجے میں مجاہدین کو بہت سی فتوحات نصیب ہوئی ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔  دوسری جانب کٹھ پتلی دشمن اپنے غیرملکی آقاوں کی بھرپور مدد کے باوجود اپنے مراکز چھوڑ کر فرار  ہو رہا ہے۔

عسکری میدان میں مکمل شکست کے بعد دشمن اب میڈیا کے ذریعے مجاہدین کے خلاف ابلاغی جنگ لڑنے لگا ہے۔ اور عوامی تنصیبات کو مسلسل نشانہ بنا رہا ہے۔ مجاہدین پر مختلف الزامات لگا رہا ہے۔ یہاں تک  کہ اپنے جرائم کو بھی مجاہدین کی طرف منسوب کرنے کی گھٹیا حرکت پر اتر آیا ہے۔ قندوز میں الچین پل کی تباہی اس کی واضح مثال ہے۔ لیکن اب  عوام عینی شاہدین کے طور پر  اچھی طرح جان چکے ہیں کہ ان کی عزت، مال اور جان کے محافظ اصل میں کون لوگ ہیں؟ مجاہدین یا غیرملکی جارحیت پسند اور ان کے کٹھ پتلی حکومت کے  بے مہار اہل کار۔