غزنی جیل پر حملے کے متعلق صوبائی ذمہ دار سے گفتگو

غزنی جیل: چار مجاہد شہید، 450 رہا   انٹرویو: حبیب مجاہد 14 ستمبر 2015 کو امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے ایک تکنیکی حملے میں صوبہ غزنی کی مرکزی جیل توڑ دی اور وہاں موجود تمام مجاہدین کو رہائی دلائی۔ غزنی جیل کا واقعہ عزم آپریشن کی کارروائیوں میں سے ایک اہم کارنامہ ہے۔ اس واقعے […]

غزنی جیل: چار مجاہد شہید، 450 رہا

 

انٹرویو: حبیب مجاہد

14 ستمبر 2015 کو امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے ایک تکنیکی حملے میں صوبہ غزنی کی مرکزی جیل توڑ دی اور وہاں موجود تمام مجاہدین کو رہائی دلائی۔ غزنی جیل کا واقعہ عزم آپریشن کی کارروائیوں میں سے ایک اہم کارنامہ ہے۔ اس واقعے کے حوالے سے اس صوبے کے صوبائی گورنر مولوی محمد قاسم صمیم مجاہد سے گفتگو ہوئی، جو قارئین کی نذر کی جاتی ہے۔

سوال: محترم جناب مولوی محمد قاسم صاحب! سب سے پہلے ہم غزنی جیل کے متعلق جاننا چاہیں گے۔ یہ کہاں واقع ہے  اور اس کی اہمیت کیا ہے؟

جواب: غزنی کی صوبائی مرکزی جیل غزنی شہر کے جنوب مشرق میں ’’خدائیداد‘‘ کے علاقے میں واقع ہے۔ جو یہاں کے صوبائی سیکرٹریٹ کی عمارت سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر  ہے۔ یہ جیل ملک بھر کی مشہور جیلوں میں سے ایک ہے۔ یہاں سکیورٹی بہت سخت ہے۔ ارد گرد بہت سی چیک پوسٹیں قائم ہیں۔

سوال: غزنی جیل توڑنے کے لیے کیا منصوبہ ترتیب دیا گیا تھا اور اس کی تیاری کیسے کی گئی؟

جواب: ہمارا شروع سے ارادہ تھا کہ اسے توڑا جائے۔ تقریبا دس ماہ سے ہم اس منصوبے پر کام کررہے تھے اور یہ سلسلہ بہ تدریج آگے بڑھ رہے تھا۔ یہاں تک کہ منصوبے کی تمام تر تیاریاں مکمل اور حتمی ہوگئیں۔ بالآخر اس پر عمل درآمد کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں 450 مجاہدین دشمن کے چنگل سے آزاد ہوگئے۔ منصوبہ یہ تھا کہ کارروائی میں 10 فدائی اور 300 دیگر مضبوط طاقت وَر مجاہدین حصہ لیں گے۔ ان مجاہدین میں سے 40 مجاہدین وہ تھے، جنہیں پہلے سے جیل پر حملے کے منصوبے سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ انہیں خصوصی ہدایات دی گئیں۔ ان کی ذمہ داری تھی کہ یہ لوگ بذات خود منظم طریقے سے جیل پر حملہ کریں گے۔ وہاں داخل ہوں گے اور قیدیوں کو پنجروں سے نکالیں گے۔

منصوبہ یہ تھا کہ پہلے 2 فدائی مجاہد، جنہیں 82 ملی میٹر توپ چلانے میں خصوصی مہارت حاصل تھی، ان کے ذمہ یہ تھا کہ رات کے ایک بجے جیل چھاؤنی کے پہرے دار کے مورچے اور ایک نگران برج پر 62 راکٹ کا گولہ فائر کریں گے۔ اس کے فورا بعد کار بم، جس میں 10 ٹن دھماکہ خیز بارودی مواد موجود ہوگا، جیل کے قریب پہنچایا جائے گا۔  اس کے ساتھ ساتھ دیگر مجاہدین جیل کے آس پاس تمام چیک پوسٹوں پر حملہ کر کے اُنہیں مصروف رکھیں گے۔ کاربم دھماکے کے بعد 40 مجاہدین اور چند فدائی مجاہدین، جو اب تک جیل کے قریب ایک نہر میں ’مخصوص اشارے‘ کے منتظر ہوں گے، جیل کے دروازے پر پہنچیں گے۔ ان کا کام دشمن کی باقی ماندہ قوت کا خاتمہ کرنا تھا۔ اگر دشمن سے سامنا نہ ہو تو سیدھا جیل میں گُھس جائیں۔ وہاں سے  قیدیوں کو نکال کر جیل کے قریب کھڑی بڑی گاڑیوں کے ذریعے غزنی کے مضافاتی علاقے میں محفوظ مقامات تک لے جائیں گے۔

منصوبے پر عمل درآمد اسی طرح ہوا، جیسا بنایا گیا تھا۔ چھاؤنی کو نشانہ بنانے اور کاربم دھماکے کے بعد فورا کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔ جیل کے آس پاس 7 مورچے، اسی طرح غزنی شہر کے قریب قلعہ قاضی کی چیک پوسٹ، ہیک سلیمان زئی کی چیک پوسٹ، زرگر پوسٹ اور ملانوح بابا کے علاقے کی چیک پوسٹ کو بیک وقت حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ غزنی پولیس ہیڈ کوارٹر، کوئیک رسپانس فورس کے کیمپ اور پی آر ٹی پر گولے برسائے گئے۔ یوں دشمن کو ہر جگہ مصروف رکھا، تاکہ کچھ پتہ نہ چلے کہ اصل ہدف کیا ہے اور کہاں حملہ کرنا اصل مقصد ہے؟ اس دوران جیل کے مخصوص چالیس مجاہدین، نو فدائیوں کے ساتھ جیل پر حملہ آور ہوئے۔ ایک فدائی نے جیل سپریڈنٹ کے دفتر پر جا کر دھماکہ کر دیا۔ دوسرے نے رات کی تاریکی میں ایک اور بڑے ہدف کو نشانہ بنایا۔ ایک فدائی مجاہد، جو صبح شہید ملا، اس کی جیکٹ نہیں پھٹ سکی تھی۔ محسوس ہوتا ہے، وہ لڑتے ہوئے یا اپنے دستی بم سے شہید ہوگیا تھا۔ اس جنگ میں کل یہی چار فدائی مجاہدین شہید ہوئے، جن میں سے ایک کاربم دھماکے میں تھا۔ مجاہدین جیل میں داخل ہوئے اور پہلے مجاہدین قیدیوں کو نکالا اور انہیں محفوظ مقام کی طرف منتقل کردیا۔ اس کے بعد کرائم بلاک میں بند انتہائی شدت پسند اربکیوں کو، جو مختلف جرائم کی وجہ سے حکومت ہی کی جیل میں بند تھے، انہیں گرفتار کرکے اپنے ساتھ لایا گیا۔ اس طرح مجاہدین نے تمام قیدیوں کو خصوصی گاڑیوں میں پورے اطمینان سے غزنی شلگر کے علاقے ’’کلا خیلو‘‘ پہنچایا اور وہاں سے انہیں ضلع ’گیرو‘ منتقل کیا گیا۔

سوال: اس لڑائی میں جیل توڑنے کے علاوہ دشمن کو اور کیا نقصانات پہنچے اور مجاہدین کو کتنا  نقصان ہوا؟

جواب: جیل پر کارروائی کے دوران آس پاس غزنی کے پی آر ٹی دفتر اور کوئیک رسپانس فورس کے اہل کار مدد کے لیے اس علاقے کی طرف آرہے تھے۔ وہ راستے مجاہدین کے حملے کا شکار ہوگئے۔ انہیں شدید نقصانات اٹھانا پڑے۔ ایک اَور جگہ دشمن کی ایک گاڑی بارودی سرنگ کا نشانہ بنی۔ اس کے علاوہ تمام مقامات پر کارروائیوں کے دوران دشمن کو بہت نقصانات اٹھانا پڑے۔ ہیک سلیمان زوئی  چیک پوسٹ، جو ایک مستحکم جگہ قائم تھی اور بڑا علاقہ ان کے شر سے محفوظ نہ تھا، وہ بھی اسی رات کو فتح ہوئی۔ اس میں کئی فوجی ہلاک ہوگئے۔ جیل کے دروازے پر ہونے والے بم دھماکے میں ان کے چالیس سے زیادہ فوجی ہلاک ہوگئے۔ جب کہ اس جنگ میں ہمارے چار فدائی شہید ہوئے ہیں۔ دیگر مجاہدین میں صرف 2 ساتھی سرسری زخمی ہوئے، جن میں سے ایک کو بازو پر گولی لگی اور دوسرا تیز چلتے ہوئے بیلنس نہ رکھ سکا اور پاؤں کے جوڑ ہل گئے۔ اس کے علاوہ ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ الحمد للہ!

سوال: جیل سے رہا ہونے والے قیدی کون تھے اور دشمن نے انہیں دوبارہ کیوں گرفتار نہیں کیا؟

جواب: جیل سے رہائی پانے والے اکثر مجاہدین تھے۔ کچھ لوگ ایسے تھے، جو مجاہد میں سے نہیں تھے، مگر حامی ضرور تھے، جنہیں دشمن نے رشوت کی خاطر قید کیا تھا۔ آپ جانتے ہوں گے دشمن کے رشوت خور ججوں نے لوگوں کی گرفتاری کو اب ایک کاروبار بنا دیا ہے۔ بے گناہوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور پیسوں کے بدلے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ الحمد للہ! غزنی کے واقعے میں مجاہدین کے سیکڑوں مجاہد ساتھیوں اور مسلمانوں کو ان مظالم سے نجات دلائی گئی۔آزاد ہونے والے فوجیوں میں اکثر غزنی، پکتیا، پکتیکا، زابل اور میدان وردگ کے تھے۔ وہ سب کے سب اپنے علاقوں کو پہنچادیے گئے۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی دشمن گرفتار نہیں کرسکا۔

سوال: غزنی جیل کے علاوہ رواں سال کچھ اور بھی بڑی کاروائیاں کی گئی ہیں، آپ ان کے حوالے سے کیا بتانا پسند کریں گے؟

جواب: غزنی میں رواں سال عزم آپریشن کے سلسلے میں قابل ذکر کارروائیاں کی گئی ہیں، جنہیں چند حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ مجاہدین نے دشمن کے بڑے آپریشن ناکام بنائے۔ دشمن کی چیک پوسٹیں فتح کیں اور  دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا۔ اس سال دشمن نے موسم بہار میں آپریشن کا آغاز غزنی کے ضلع ’’دہیک‘‘سے کیا تھا۔ تین اطراف سے علاقے میں فوج بھیجی گئی اور دہیک میں 7 دن جنگ جاری رہی۔ بالآخر دشمن نے اپنے شدید نقصانات کا اعتراف کیا اور علاقے سے فرار ہوگیا۔ دہیک کے بعد غزنی کے ضلع ’’اندڑ‘‘ میں وسیع پیمانے پر آپریشن کیا گیا۔ یہاں بھی شدید مزاحمت کی گئی۔ 4 ٹینک اور ایک گاڑی تباہ ہوئی۔ پیدل افواج کو بھی بھاری نقصان پہنچا۔ بالآخر بغیر کسی کامیابی کے آپریشن کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا اور وہ ناکام لوٹ گئے۔

اندڑ میں ناکام ہونے کے 15 دن بعد مقر، گیلان اور ناوہ کے اضلاع میں بہت بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ ان کاروائیوں میں دشمن کا ہدف یہ تھا کہ ناوہ کا مفتوحہ علاقہ طالبان سے چھین لیا جائے۔ اس علاقے میں مجموعی طورپر بیس دن جنگ جاری رہی۔ دشمن نے اپنی پوری قوت استعمال کی، مگر مجاہدین سے کوئی علاقہ نہ چھین سکے۔ باوجود اس کے کہ ’ناوہ‘ کا مرکز مختصر عرصے کے لیے دشمن کے قبضہ میں چلا گیا، مگر یہاں ان پر شدید دھماکے ہوئے اور انہیں سخت نقصان پہنچا، جس کی وجہ سے بالآخر مجبور ہوکر اپنی فوج یہاں سے نکال لی۔ دشمن کے ان آپریشنوں کا مقابلہ اور انہیں ناکام  کرنا رواں سال کا سب سے اہم کارنامہ تھا، جو مجاہدین نے کرڈالا۔ رواں سال غزنی شہر کے قریب ضلع خوگیانو مکمل طورپر فتح ہوگیا۔ یہ رشیدانو، زنہ خان اور ناوہ کے اضلاع کے بعد چوتھا ضلع ہے، جو مکمل مجاہدین کے تصرف میں ہے۔ واغز اور گیرو کے اضلاع میں بھی بار بار آپریشن ہوئے۔ اللہ تعالی سے امید ہے کہ یہ اضلاع بھی فتح ہوجائیں گے۔

اس کے علاوہ گزشتہ چند ماہ میں گیلان، آب بند، قرہ باغ، اندڑ اور دہیک میں دشمن کی بہت سی چیک پوسٹیں بھی فتح ہوگئیں۔ جن میں سے قرہ باغ کے شاغلو کا اہم کیمپ بھی ہے۔ اندڑ میں اربکیوں کے اہم رہنما مارے گئے، اب ان کی قوت بہت کمزور ہوگئی ہے۔ غزنی شہر میں 45 ٹارگٹ حملے ہوئے، جس میں دشمن کے اہم افراد مارے گئے۔ ان تمام کاروائیوں میں دشمن سے بڑی مقدار میں اہم وسائل اور اسلحہ غنیمت میں ملا۔ اسی طرح گزشتہ موسم بہار کے بعد سے اب تک چند ماہ کے دوران غزنی کے مختلف علاقوں میں دشمن فوج کے 120 اہل کار زمینی حقائق سمجھنے کے بعد دشمن کی صف سے الگ ہوگئے۔ دعوت وارشاد کمیشن کے سامنے اپنی ندامت کا اظہار کرنے کے بعد انہیں ضمانتی کارڈ فراہم کیے گئے۔ اس طرح انہیں طالبان کی جانب سے مکمل امن فراہم کیا گیا۔

سوال: آخر میں میگزین کے توسط سے قارئین کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں؟

جواب: مجاہدین کے لیے پیغام یہ ہے کہ امارت اسلامیہ کی متحد صف کو اپنے لیے غنیمت اوراللہ کی جانب سے ایک نعمت سمجھیں۔ یہ متحد صف نہ ہوتی تو ہم بھی ایسے ہی انتشار اور فتنے کا شکار ہوتے، جیسا سابقہ جہاد کے بعد ہوا تھا۔ اس لیے اپنے دین اور جہاد کی خاطر اور اس آزردہ حال عوام کی خاطر، جو شرعی اور متحد نظام کی امید پر ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، مجاہدین آپس کے اختلافات اور فتنوں سے بچنے کی کوشش کریں۔ چاہے وہ امارت کے اپنے لوگ، جو الگ جہادی صف کی باتیں کرتے ہیں یا باہر کے لوگ، جیسے داعش یا کوئی بیرونی فتنہ!  چوں کہ دشمن اس طرح کی باتوں کو بہت ہوا دیتا ہے۔ روزانہ میڈیا پر اس کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس سے بچنا بہت ضروری ہے۔ افغان عوام سے درخواست ہے کہ اپنے مجاہدین کی مضبوط حمایت کریں۔ جہاد کو الہی فریضہ سمجھیں اور اسے صرف طالبان کی ذمہ داری نہ سمجھیں۔ ان شاء اللہ! اب وہ وقت قریب ہے کہ دشمن دم دباکربھاگ جائے گا اور ہمارے ملک میں اسلامی نظام نافذ ہو جائے گا۔