غلام انتظامیہ کے باہمی اختلافات لڑائی میں تبدیل

آج کی بات:   مجاہدین کے فاتحانہ حملوں کے بعد جان کیری کے کابلی ادارے میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اب مذکورہ ادارے کے افراد اعلانیہ طور پر ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔ ایک طرف گلم جم ملیشیا کے سربراہ دوستم مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ مجھے اپنا حق […]

آج کی بات:

 

مجاہدین کے فاتحانہ حملوں کے بعد جان کیری کے کابلی ادارے میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اب مذکورہ ادارے کے افراد اعلانیہ طور پر ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔ ایک طرف گلم جم ملیشیا کے سربراہ دوستم مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ مجھے اپنا حق نہیں ملا۔ دوسری جانب عبداللہ عبداللہ اشرف غنی کے خلاف الزام لگاتے ہیں کہ اشرف غنی میری رائے کو بالکل چارہ نہیں ڈالتے۔ جب کہ میری اجازت کے بغیر اپنے دوستوں اور یاروں کو نوازنے میں مگن ہیں۔ بندوق بردار عسکری کمانڈرز کا حال بھی اِن سے کم نہیں ہے۔وہ بھی مفادات کی جنگ میں  آپس میں ہمیشہ دست و گریبان رہتے ہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ کٹھ پتلی انتظامیہ کے اختلافات کی نوبت باہمی مسلح جھڑپوں تک پہنچ چکی ہے۔ وہ کئی ایک مواقع پر ایک دوسرے کے خلاف فائرنگ کا تبادلہ بھی کر چکے ہیں۔

جب گزشتہ دن ‘پچاس فیصد کٹھ پتلی’ اشرف غنی کابل، جب کہ بقیہ پچاس فیصد کٹھ پتلی عبداللہ عبداللہ وزارت دفاع کے دفتر میں الگ الگ پروگرامز میں غیرملکی آقاؤں کی موجودگی میں  آزادی  کا جشن منا رہے تھے، عین اس وقت کابل شہر میں  انتظامیہ کی پولیس اور ایک مسلح جنگجو  کمانڈر ’دین محمد‘ کی ملیشیا  کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ جاری تھا۔ کہا جاتا ہے اس باہمی تصادم میں چار پولیس اہل کار ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔

کابل شہر کے حلقہ  نمبر 15 میں ایک غیرملکی ہوٹل کے دروازے پر جنرل دین محمد کے محافظوں نے  پولیس پر فائرنگ کر دی، کیوں کہ وہ انہیں ہوٹل میں داخل ہونے سے روک رہے تھے۔  یاد رہے، یہ پہلا موقع نہیں کہ کابل کے مسلح جنگجو آپس  میں لڑ پڑے ہوں، بلکہ  اس سے قبل بھی پارلیمنٹ  ارکان نے کئی بار پولیس پر فائرنگ کی ہے۔ ان پر تشدد کیا ہے اور انہیں بُری طرح زخمی کیا ہے۔

جب کابل میں کٹھ پتلی ادارے کے  حکام کی یہ حالت ہو کہ ان کے حکمران علیحدہ علیحدہ  حریفانہ طور پر اپنے آقاؤں کے سامنے  یوم آزادی کے بہانے  منعقد پروگرام میں  اپنی غلامی کا ثبوت فراہم کر رہے ہوں،  تاکہ مستقبل میں بھی ان کے آقاؤں کا ان پر اعتماد برقرار رہے  اور شہر  کے مختلف حصوں میں ان کے مسلح جنگجو ایک دوسرے  کی موت کے پیاسے بن رہے ہوں تو کیا اس قسم کے  نااہل حکمران کی یہ حیثیت ہے کہ انہیں افغان عوام صرف ایک  لمحے کے لیے بھی صدر تسلیم کر لیں؟! کیا  یہ ناعاقبت اندیش غلام اس قابل ہیں کہ افغان قوم پر حکمرانی کریں؟ کیا  ان کرپٹ عناصر کی پشت پناہی  کرنا بین الاقوامی  دنیا کے لیے شرم کا مقام نہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو اپنی غلامی میں قبول کر لیتے ہیں، جو آپس میں بھی ایک دوسرے کی جان لینے کے درپے ہیں۔