فرقہ وارانہ حملے دشمن کی سازش ہیں

آج کی بات: محرم الحرام کی گیارہویں تاریخ کو پہلے کابل اور پھر بلخ میں عاشورا کے مراسم پر حملے ہوئے، جس میں درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہو گئے۔ یہ حملے جس گروہ نے جس نام کے تحت بھی کیے ہوں، قابل مذمت ہیں۔ کیوں کہ اس کا سب سے زیادہ نقصان افغانستان کے […]

آج کی بات:

محرم الحرام کی گیارہویں تاریخ کو پہلے کابل اور پھر بلخ میں عاشورا کے مراسم پر حملے ہوئے، جس میں درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہو گئے۔ یہ حملے جس گروہ نے جس نام کے تحت بھی کیے ہوں، قابل مذمت ہیں۔ کیوں کہ اس کا سب سے زیادہ نقصان افغانستان کے مجاہد عوام کو ہوا ہے۔

افغانستان میں شیعہ اور سنی کئی صدیوں سے آباد ہیں۔ دونوں معاشرتی طور پر ایک دوسرے کے دکھ اور خوشی  میں شریک ہوتے ہیں۔ افغانستان پر غیرملکی جارحیت کے بعد شیعہ سنی نے مشترکہ طور پر بیرونی کفار کا مقابلہ کیا ہے۔ یہاں تک موجودہ امریکی جارحیت کے دوران جہاں کچھ اہل تشیع کے نام نہاد کمانڈرز امریکا کی کاسہ لیسی میں مصروف ہیں تو دوسری جانب بامیان، دائی کنڈی اور ہزارہ جات کے اہل تشیع عوامی تعاون کے تناظر میں غیرملکی کفار کے خلاف رواں جہاد میں مجاہدین کا ساتھ دیتے ہیں۔

غیرملکی جارحیت پسندوں کی خواہش یہی ہے کہ افغانستان میں شیعہ سنی فسادات کو ہوا دے کر ان کے درمیان اختلافات اور جنگ کی آگ بھڑکا دی جائے، تاکہ کفار اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ غیرملکی جارحیت پسندوں کی افغانستان پر جارحیت سے قبل عاشورا کے مراسم پر کبھی حملے نہیں ہوئے، لیکن کفار کی آمد سے اس قسم کے حملوں میں آئے روز اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ چندسال قبل ابوالفضل کے مزار پر حملہ اور اس سال کے حملے اس کی واضح مثالیں ہیں۔ یہ حملے جس نے بھی کیے ہیں، ان کا مقصد افغانستان میں شیعہ سنی فسادات کی راہ ہموار کرنا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لی جائے کہ اس قسم کے حملوں کا سب سے زیادہ فائدہ کفار کو ہوتا ہے اور اس کا سب سے زیادہ نقصان افغانستان کے غریب عوام کو اٹھانا پڑے گا۔

شیعہ سنی فسادات سے افغانستا ن پر کی جانے والی غیرملکی جارحیت پر نقاب ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ وہ افغانستان میں آرام سے بیٹھ کر اسے ایک محاذ کے طور پر اپنے تزویراتی اور سیاسی اہداف حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکیں۔ مشرق وسطیٰ میں حالیہ خونی لہر انہی شیعہ سنی فسادات کا نتیجہ ہے، جس کی ڈرریاں کفریہ اور یہودی ممالک کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ ان ممالک کو باہمی جنگوں میں الجھا کر خود تماشا دیکھ رہے ہیں۔

افغانستان کے مجاہد عوام کو دشمن کی اس سازش کو ناکام بنانا ہوگا، تاکہ دشمن کا یہاں بھی عراق، شام اور یمن کی طرح کے فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکانے کا خواب پورا نہ ہو سکے۔ اسلامی ممالک میں فرقہ وارانہ، علاقائی اور لسانی بنیادوں پر ہونے والے جھگڑے دشمن کی وہ خطرناک سازش ہیں، جن کی وجہ سے مسلمانوں کی طاقت اصل دشمن کے خلاف استعمال ہونے کے بجائے باہمی جھگڑوں کی نذر ہو رہی ہے۔ اس لیے افغانستان میں کسی طرح بھی اس قسم کے حملوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس طرح کے حملے اسلام کے نظریۂ امن و اخوت اور خونِ مسلم کی حرمت کی پاس داری کے تناظر میں سراسر بے وقوفی سمجھے جاتے ہیں۔ اس طرح کی کارروائیاں شدت پسندی کے جراثیم سے آلودہ ذہنیت کی کارستانی ہیں، جو اسلام کے مزاج سے یکسر مختلف ہیں۔ اس لیے مکمل کوشش کی جائے گی کہ شدت پسندی کے مرض میں مبتلا دماغوں کے جراثیم پھیلنے نہ پائیں۔ اور اس کے لیے ہر ممکن وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔