فوج دُم دبا کر بھاگ رہی ہے!

آج کی بات: پینٹاگون کے ترجمان ’ایڈم اسٹیمپ‘ نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اشرف غنی کی ماتحتی میں دیے گئے اُن کے درجنوں افغان اہل کار اپنی تربیت گاہوں سے فرار ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 44 افغان اہل کار اس وقت لاپتا ہوئے، جب انہیں تربیت […]

آج کی بات:

پینٹاگون کے ترجمان ’ایڈم اسٹیمپ‘ نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اشرف غنی کی ماتحتی میں دیے گئے اُن کے درجنوں افغان اہل کار اپنی تربیت گاہوں سے فرار ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 44 افغان اہل کار اس وقت لاپتا ہوئے، جب انہیں تربیت کے لیے امریکا لے جایا گیا تھا۔ دوسرے ممالک کے اہل کار بھی کبھی کبھار بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن  اتنی بڑی تعداد میں فرار صرف افغان اہل کاروں کا فرار حیران کن ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ افغان اہل کاروں کے فرار کا راستہ روکنے کے اقدامات کریں گے۔

بات چوالیس اہل کاروں کے فرار کی نہیں، بلکہ امریکا کو اصل تشویش اس بات پر ہے کہ وہ پندرہ سال کے دوران بیش بہا ڈالروں کے اخراجات کے باوجود افغان قوم کو ذہنی طور پر غلام بنانے میں ناکام کیوں رہا ہے؟ اس کے باوجود کسی کو فکری طور پر غلام بنایا ہو تو ان غلاموں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن مجموعی طور پر افغان قوم غیرملکی جارحیت پسندوں سے دشمنی کا تعلق رکھتی ہے۔ افغان فطری طور پر ایسی قوم نہیں، جو جارحیت پسندوں کے مظالم  پر آنکھیں بند کیے بیٹھی رہے اور ذہنی طور پر ان کی غلامی قبول کر لے۔

اب امریکی جارحیت پسند اور ان کے اتحادی اچھی طرح جان چکے ہیں کہ ان کی دولت اور طاقت کا استعمال اور اپنے ہزاروں فوجیوں کی جانیں قربان کرنا سب بے سود ہی رہا ہے۔ کیوں کہ غیرملکی جارحیت پسند اور ان کی کٹھ پتلیوں کو روزانہ کی بنیاد پر اپنے  65 سے 75 فوجیوں کے عسکری میدان سے فرار ہو کر مجاہدین کے سامنے سرنگوں ہونے کے حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ البتہ جو فوجی جنگ میں جان ضایع کروا بیٹھتے ہیں، مجاہدین کے ہاتھوں گرفتار ہو جاتے ہیں یا میدانِ جنگ سے بھاگ جاتے ہیں، ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ جس کی تفصیلات کئی تحریروں میں واضح کی جا چکی ہیں۔

غیرملکی جارحیت پسندوں کے مضبوط انٹیلی جنس سسٹم کے باوجود ان کی تربیت یافتہ افغان کٹھ پتلی فوج میں بے شمار مجاہدین گھس گئے ہیں اور کٹھ پتلی فوج کے درمیان سے غیرملکی جارحیت پسندوں اور ان کے غلاموں پر حملے کرتے ہیں ۔اس مسئلے نے پینٹاگون کو پہلے ہی حواس باختہ کر رکھا تھا۔ اب جب کہ کٹھ پتلی انتظامیہ کے درمیان باہمی اعتماد کا فقدان عروج پر ہے، اس لیے یہ تو حتمی ہے کہ وہ اپنی شکست، مایوسی اور ذہنی پریشانی کا اظہار کریں گے۔ جس میں 44 فوجی اہل کاروں کا فرار ایک چھوٹی سی مثال ہے۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی قندوز، بغلا ن، جوزجان، فراہ، ہلمند اور مختلف علاقوں میں کٹھ پتلی فورسز کے سرنڈر ہونے کی مختلف ویڈیوز اس حقیقت اور جارحیت پسندوں کی گھبراہٹ کو مزید واضح کر دیتی ہیں۔ گزشتہ دن دشمن کے اہل کاروں کے ’طوفان‘ نامی ایک کمانڈر نے مجاہدین کے سامنے سرنڈر ہونے کے دوران کہا کہ: مَیں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اس راہ کی ہدایت دے، جو حق ہو۔ بالآخر اللہ تعالی نے میرے دل میں یہ بات بٹھا دی کہ مجھے کفار کی صف چھوڑ کر مجاہدین کے ساتھ مل جانا چاہیے۔ اس لیے مَیں نے اپنے درجنوں ساتھیوں سمیت مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ مَیں سچ کہہ رہا ہوں کہ کفار کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ مَیں زندگی کی آخری سانس تک مجاہدین کے شانہ بہ شانہ کفار اور ان کے حواریوں کے خلاف جہاد میں حصہ لوں گا۔ ان شاء اللہ