قاري فیض محمد سجادشہید (رحمہ الله) حیات مستعار تا حیات جاودان

تحریر: عبدالروف حکمت تاریخ ایسی لازوال داستانوں سے بھری پڑی ہے کہ جب بھی کسی حق گومجاہدنے حق کاعلم بلندکرتے ہوئے حق کی بات کہی،جوکج کلاموں کی رعونت سے الجھا،وقت کے خداؤں سے ٹکرلیا،ان کاوجودظلم وبربریت کے خلاف برق تپاں رہا۔دنیاامتحان کامیدان ہے،لاتعدادمخلوقات میں مکلف مخلوق انسان ہے،انسان کوپابندبنایاگیاہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکام […]

تحریر: عبدالروف حکمت

تاریخ ایسی لازوال داستانوں سے بھری پڑی ہے کہ جب بھی کسی حق گومجاہدنے حق کاعلم بلندکرتے ہوئے حق کی بات کہی،جوکج کلاموں کی رعونت سے الجھا،وقت کے خداؤں سے ٹکرلیا،ان کاوجودظلم وبربریت کے خلاف برق تپاں رہا۔دنیاامتحان کامیدان ہے،لاتعدادمخلوقات میں مکلف مخلوق انسان ہے،انسان کوپابندبنایاگیاہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکام کے مطابق زندگی گزارے،تاکہ اللہ تعالی کی رضاحاصل کرے۔

احادیث نبویہ کے مطابق بہترانسان وہ ہے جواللہ تعالی کی مخلوق سے نیک سلوک کرے،امام بہیقی رحمہ اللہ نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہﷺ کافرمان ہے : الخلق عیال اللہ واحب الخلق الی اللہ من احسن الیٰ عیالہ۔

لوگوں کی مثال اللہ تعالی کے کنبہ کی طرح ہے،ان میں اللہ تعالی کامحبوب وہی ہے کہ جوا س کے عیال سے اچھاسلوک کرے ۔

اس حدیث کی روشنی میں جوشخص اچھااورنیک قراردیاگیاہے جس کاہرکوئی مدح کرتاہے،اس کے اچھے اخلاق کی صفت کی جاتی ہے،کسی کواس سے شکایت نہ ہو،یہ اللہ تعالی کانیک اورمحبوب بندہ شمارکیاجاتاہے کیونکہ جس سے اللہ تعالی کی مخلوق راضی ہوتواس کامطلب ہے کہ اللہ تعالی بھی اس سے راضی ہوگا۔

میراموضوع بھی آج ایک ایسا ہی نیک اورپارساشخص ہے جنہیں اللہ تعالی نے اس صفت سے نوازاتھا،قاری فیض محمدسجادجہادی شخصیت اورجہادی رہنماوں میں اعلی کردارکے حامل انسان تھے،ان کے اہلخانہ،رشتہ دار،جہاداورمدرسے کے ساتھی،جیل اورسفرکے دوست بلکہ مخالفین سب ہی ان کے نیک برتاو اوراچھے اخلاق کے معترف ہیں،سب ان کے حسن خلق کاتذکرہ کرتے ہیں،اسلام میں حسن خلق کے حامل افرادکابہت بڑامقام ہے،اسلام میں معیارحسن خلق ہے،ایک حدیث میں حضورﷺ ارشادفرماتے ہیں کہ ولاحسب کحسن الخلق۔رواہ البہیقی۔

قاری فیض محمدسجاد:

قاری فیض محمدبن ایماندادبن ملاعبدالوہاب ۱۳۸۵ھ بمطابق 1965ء صوبہ قندہارضلع تختہ پل کے ملایدگاوں میں پیداہوئے،اچکزئی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ بچپن ہی سے محنتی تھے،والدین کی خدمت کرتے تھے،اپنے والدمحترم کے ساتھ کام کاج میں بھرپورحصہ لیتے تھے،جب شعوری زندگی میں قدم رکھاتودینی علوم کے حصول کے لئے اپنے علاقے میں ایک عالم دین سے پڑھناشروع کیااوررفتہ رفتہ افغانستان اورپاکستان  کے مختلف مدارس میں تعلیمی سفرجاری رکھا۔

پاکستان کے شہرکوئٹہ،پشاوراورلاہورکے مختلف مدارس میں علم حاصل کرتے رہے،قرآن پاک کی قرآت اورتجویدکی تعلیم لاہورمیں ایک دینی مدرسے سے حاصل کی،جب کمیونزم کے خلاف جہادکامیاب ہوااورملک کمیونسٹوں سے آزادہواتوقاری صاحب مزیدحصول علم کے لئے قندہارکے ضلع خاکریزتشریف لائے،دورہ حدیث شروع کرنے سے قبل طالبان کی اسلامی تحریک کاآغازہوا،وہ بھی تحریک کے سپاہی بنے،اورتعلیم کاسلسلہ ٹوٹ گیا۔

جہاداورامارت اسلامیہ میں خدمات:

جب افغانستان میں کمونزم کے خلاف جہادکامقدس عمل شروع ہواتواس وقت قاری صاحب نوجوان تھے،انہوں نے قندہارکے مختلف علاقوں میں کمونسٹوں کے خلاف جہادمیں حصہ لیا،ان کی جہادی کارروائیوں میں قندہاراورزابل کی شاہراہ پرکمیونسٹ کمانڈرجبارکے ساتھیوں کے ساتھ معرکے کوتاریخی اہمیت حاصل ہے،اس معرکے میں مخالف سمت کے تمام جرائم پیشہ عناصرمارے گئے،قاری صاحب نے اس معرکے میں ایک فعال اورمتحرک مجاہدکے طورپرکرداراداکیا۔

کمیونسٹی نظام کے انہدام کے بعدقاری صاحب نے ہتھیارپھینک کرقندہارکے ضلع خاکریزمیں ایک بارپھرحصول علم پرتوجہ مرکوزرکھی،لیکن جب جہادی تنظیموں کی جانب سے فسادعروج کوپہنچاتوطالبان نے ایک بارپھرفسادکے خلاف مسلح جہادکے مقدس فریضہ کاآغازکیا،قاری صاحب بھی ان محدودمجاہدین میں شامل تھے جنہوں نے قندہارکے میوندمیں ملامحمدعمرمجاہدکی قیادت میں تحریک کاآغازکیا،انہوں نے بتدریج قندہاراورپھرپوراافغانستان کوفساداورجرائم پیشہ عناصرسے آزادکیا۔

قندہارمیں مشہورظالم کمانڈرصالح کے خلاف طالبان نے جنگ کاآغازکیا،قاری صاحب اس میں شریک تھے،کمانڈرصالح فرارہوگئے،طالبان نے علاقے کوفتح کرنے کے بعداسی علاقے کی قیادت قاری صاحب کے سپردکی۔قندہارکوفتح کےبعدطالبان زابل اورغزنی صوبوں کوفتح کرگئے اورصوبہ میدان وردگ پہنچ گئے،اس دوران ملامحمدعمرمجاہدکی جانب سےقاری صاحب کو میدان وردگ جانے کاحکم ملا،وہ 32مجاہدین کے ہمراہ وہاں گئے،اسی دوران انہوں نے نہ صرف میدان شہراورکابل کے چہاراسیاب کی جنگوں میں حصہ لیابلکہ کچھ عرصے کے لئے میدان وردگ کے ضلع سیدآبادکے گورنربھی رہے۔

سیدآبادکے مثالی گورنر:

قاری فیض محمد سنہ۱۴۱۶ھ ق میں 8ماہ میدان وردگ کے ضلع سیدآبادکے ضلعی گورنرکی حیثیت سے تعینات رہے،انہوں نے اس عرصے میں وہ مثالی خدمات انجام دیں جوآج تک لوگ انہیں نیک القاب سے یادکررہے ہیں اوران کے اعلی کردارکاتذکرہ کررہے ہیں۔

یہ وہ مرحلہ تھاجب افغانستان بدنظمی اورانتشارکی حالت سے نکل رہاتھا،طالبان کی تحریک نئی سیاست اورحکومت کے طورپرابھری،اس وقت تحریک میں بھی نظم کافقدان تھا،لیکن تمام ترمشکلات کے باوجودانہوں نے سیدآبادمیں عدل انصاف پرمبنی نظام قائم کیااوراداروں کومنظم اورفعال بنایا،عوام نے ان پربھرپوراعتمادکااظہارکیا،آج تک وہاں کے عوام طالبان کے ساتھ بھرپورتعاون کررہے ہیں اوران کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔

مولوی حیات اللہ ان کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے،انہوں نے بتایاکہ قاری صاحب نے گورنرکی حیثیت سے عدل وانصاف کااعلی معیارقائم کیا، حزب اسلامی کے کمانڈرمسلم ان کے نیک سلوک کی وجہ سے آزادانہ طورپرعلاقے میں نقل وحرکت کرتے تھے،وہ کہتے ہیں کہ مجھے یادنہیں کہ قاری صاحب نے کسی پرظلم کیاہو،کسی مخالف کوانتقام کانشانہ بنایاہو،کسی کی توہین کی ہوبلکہ وہ اپنے ساتھیوں کوڈانٹ پلاتے کہ کسی پرظلم نہ کریں اوربدتمیزی سے اجتناب کریں۔

مولوی حیات اللہ کہتے ہیں کہ ایک بارمیں اورملافضل باری سیدآبادکے ایک معروف کمانڈرجوپہلے ہمارے مخالف تھے،کے پاس گئے،اوران سے کہاکہ آپ نے مجاہدین کی گاڑی اورکچھ سامان اپنے پاس رکھا ہے، وہ ہمیں واپس کردیں۔ جب ہم قاری صاحب کے پاس آئے، تواس سے قبل وہ کمانڈران کے پاس آیاتھا،اورکہانی سنائی تھی،جب ہم پہنچے توقاری صاحب ہم پربرس پڑے اورہم سے کہاکہ آپ ازخودایسے غلط کام نہ کریں،آپ چھوٹے ہیں،کل مدارس سے آئے ہیں اوراللہ تعالی نے ایک اچھاموقع فراہم کیاہے،اب نہ مجاہدین کی عزت کرتے ہواورنہ ہی کسی بڑے کااحترام کرتے ہو،ان کے ساتھ حساب کرتے ہو،یہ پرانے مجاہدین ہیں،کمانڈرزہیں،انہوں نے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے،سوویت یونین کی طاغوتی قوت کوشکست سے دوچارکیا،ان کی قدرکرنی چاہیے۔اگران کے پاس گاڑی ہے توانہوں نے اپنی غیرت سے بطورمال غنیمت حاصل کی ہے،آپ کوکیاضرورت ہے کہ ازخود دوسروں سے حساب کرتے ہو۔آئندہ ایسانہیں ہوناچاہیے۔

مولوی حیات اللہ کے مطابق کمانڈرمسلم جواس وقت طالبان کے شدیدمخالف تھے اوراب کرزئی حکومت میں سیدآبادکے ضلعی گورنرہیں، قاری صاحب کے نیک سلوک سے متاثرہوکرعوام کوطالبان کی صف میں شمولیت اختیارکرنے کی دعوت دیتے تھے اورایک باروردگ کے ضلع جلگہ میں ایک جلسے میں طالبان کے حق میں مدلل خطاب کیا۔

ملک کے ممتازکالم نگاراحسان اللہ آرینزی کا سنہ ۱۳۷۴ھ ش میں ہفت روزہ شریعت میگزین نمبربارہ میں ایک کالم شائع ہواجس کاعنوان تھا[سیدآبادکے شرعی محکمہ میں دائرکیس کی سماعت]،احسان اللہ آرینزی کے والدنے سیدآبادمیں حاجی خلیل نامی شخص سے زمین خریدی تھی لیکن بعدمیں حاجی خلیل نے تنظیمی اثرورسوخ کی وجہ سے اسے زمین دینے سے انکارکیااوردس سال تک اس کی فصل خودلیتےرہے،جب قاری صاحب گورنربنے تواحسان اللہ کے والدنے ان سے اپنی شکایت درج کرائی،قاری صاحب نے دستاویزات،شواہداورگواہوں کی روشنی میں عدالت کے ذریعے دس سال سے غصب شدہ زمین کاحق اسے واپس دیدیا۔

یہ واقعہ کالم نگاراحسان اللہ آرینزی نے بڑے دلچسپ اندازمیں بیان کیاہے،قاری صاحب کوایک پرامن شخص قراردیاگیاہے،وہ عوام کی شکایات بڑے انہماک سے سنتے تھے،کالم نگارنے کالم کے آخرمیں لکھاہے کہ سیدآبادکاضلع طالبان کی دورحکومت میں چندسال بعدپھرمنظم اورفعال ضلع کے طورپرابھرا،اگرچہ ضلع کے مختلف محکموں اوراداروں کے دفاترمیں میزیں،کرسیاں اورفرنیچرکاسامان موجودنہیں تھالیکن تقوی کااعلی معیارقائم تھا،میں نے اپنے کیس کی سماعت کے لئے ہربارآتے ہوئے سیکڑوں لوگوں کودیکھااورکسی سے یہ بات نہیں سنی کہ مجھ سے سے رشوت لی گئی،رشوت اوربدعنوانی کاخاتمہ ہوا،فیصلے عدل وانصاف پرہوتے رہے اورعوام کوانصاف ملا۔

جہادی مدرسے کے مہتمم:

آٹھ ماہ تک گورنرکی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعدعالی قدرامیرالمومنین نے انہیں قندہارطلب کرلیا،مولوی حیات اللہ عینی شاہدکے طورپرکہتاہے کہ جس دن قاری صاحب سیدآبادسے روانہ ہوئے تواسی دن وہاں کے بوڑھے اورقومی عمائدین رورہے تھے،وہ کچھ عرصہ قندہارکے باغ پل علاقے میں مدرسہ مظہرالعلوم کے سرپرست رہے اورجب قندہارکابڑاجہادی مدرسہ قائم ہواتوانہیں اس مدرسے کا مہتمم مقررکردیاگیاجہاں آپ امریکی یلغارتک چارسال مسلسل خدمات انجام دیتے رہے۔

قندہارکاجہادی مدرسہ ایک تعلیمی اورجہادی ادارہ تھاجس میں وہ طالبان رہائش پذیرتھے جوعام حالت میں دینی تعلیم حاصل کرتے تھے جبکہ ضرورت کے وقت جنگ کے محاذپربھیجے جاتے تھے۔قاری صاحب اس مدرسے کے مہتمم تھے۔وہ مدرسے کااہتمام سنبھالنے کے ساتھ ساتھ عملی جہادمیں بھی حصہ لیتے تھے،وہ کابل کی شمالی طرف کے علاوہ قندوز،تخاراورسمنگان میں اپنے مدرسے کے طالبان مجاہدین کے ہمراہ جہادی خدمات اورفریضہ جہادکے امورانجام دے چکے ہیں۔

قندہارمیں جہادی مدرسہ اوردیگرمدارس کی ذمہ داریاں اورجہادی مصروفیات ایک مشکل کام تھالیکن قاری صاحب نے احسن طریقے سے یہ ذمہ داریاں نبھائیں،انہوں نے اخلاص،تقوی اورحسن تعامل کی بناء پرچارسال تک مسلسل مدرسے میں ڈھائی ہزارطالبان کی رہنمائی نہایت اچھے اندازسے کرتے رہے،مدرسے کانظم مثالی بنایاگیاتھا،نظم وضبط کے ایک اچھے ماحول کوپروان چڑھایاتھا،ہزاروں طالبان نے ان سے تربیت حاصل کی۔

جہادی مدرسے کااہتمام سنبھالنے کے علاوہ امیرالمومنین کے ساتھ بھی ان کے قریبی روابط اورتعلقات تھے،امیرالمومنین ان پراعتمادکااظہارکرتے تھے،وہ ان کے قریبی ساتھیوں میں سے شمارہوتے تھے،وہ اعلی استعدادکے مالک تھے،اللہ تعالی نے انہیں بیش بہاصلاحتیوں سے نوازاتھا،ملاخلیل احمدکہتے ہیں کہ اکثراوقات ملامحمدعمرمدرسہ تشریف لاکرقاری صاحب کواپنے ساتھ گاڑی میں لے جاتے تھے اورمغرب کی نمازکے فورابعدواپس مدرسہ پہنچادیتے جوامیرالمومنین کے ساتھ ان کے اچھے روابط اورتعلقات کاواضح ثبوت ہے۔

شمال کاگھیراو اورقیدکی صعوبتیں:

جب امریکہ افغانستان پرحملہ کررہاتھااس وقت قاری صاحب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذکے لئے شمالی افغانستان صوبہ تخارمیں جہادی فریضہ انجام دے رہے تھے،امریکہ نے افغانستان پریلغارکی،وہ اپنے ہزاروں سمیت قندوزمیں محصورہوگئے،پھرجب جنرل دوستم کے ساتھ معاہدہ ہواجس میں طالبان کوقندہارتک رسائی کی ضمانت دے دی گئی لیکن دوستم نے تاریخی غداری کاارتکاب کرتے ہوئے پہلے طالبان کوغیرمسلح کردیاپھرانہیں کنٹینروں میں ڈال کربلخ اورشبرغان کی جانب لے گئے،قاری صاحب بھی ان میں شامل تھے جوقندوزسے شبرغان تک کنٹینرمیں لے جانے کے باجودزندہ رہ گئے،پھرانہیں شبرغان کی جیل میں ڈال دیاگیا،جب دوستم کے جرائم پیشہ اورسی آئی اے کے اہلکاروں نے شبرغان جیل میں طالبان کے سرکردہ رہنماوں کی تلاش شروع کی توقاری صاحب کی شناخت بھی سرکردہ رہنماکے طورپرہوئی اس لئے انہیں پہلے قندہارکی جیل اورپھرکیوباکے بدنام زمانہ جیل میں قیدی  بنالیا گیا ۔

گوانتاناموبے میں ڈیڑھ سال کاعرصہ گزارنے کے بعددوسرے قیدیوں کے ساتھ انہیں بھی رہائی ملی،وہاں دوران حراست انہوں نے قرآن پاک کے بیس پارے بھی حفظ کرلئے،جبکہ باقی دس پارے رہائی کے بعدحفظ کرلئے اوریوں وہ قرآن پاک کے حافظ بنے۔

امریکہ کے خلاف جہاداورشہادت:

گوانتاناموبے سے رہائی کے بعدایک بارپھرامریکہ کے خلاف مسلح جہادکاراستہ اپنایا،امریکی یلغارکے تین سال بعدجہادی مدرسے کے پرانے ساتھیوں کے ہمراہ قندہارکے ضلع معروف میں جہادی کارروائیوں کاآغازکیاپھرآرغسان،شاولیکوٹ اورمیانشین اضلاع تک جہادی کارروائیوں کووسعت دی،اسی دوران انہوں نے جنوب کے لئے عسکری کمیشن کے سربراہ کے طورپر گرانقدرخدمات انجام دیں،اورعسکری کارروائیوں میں نظم وضبط پیداکردیا۔

قندہارکے مذکورہ اضلاع میں انہوں نے ایک مشہورجہادی کمانڈر،رہنمااوررہبرکی حیثیت سے نہایت گران قدرخدمات انجام دیں،مجاہدین کی صفوں کوازسرنومنظم کردیااوربڑی تعدادمیں مجاہدین کودوبارہ جہاداورمزاحمتی تحریک میں سرگرم کرنے میں اہم کرداراداکیا،شاولیکوٹ میں دوسال تک خدمت انجام دینے کے بعدقیادت کی جانب سے صوبہ روزگان میں عسکری کارروائیوں کے نگران تعینات ہوئے،انہوں نے روزگان میں تمام علاقوں کادورہ کیا،جہادی کارروائیوں میں نظم ونسق پیداکرکے مجاہدین کوپھرسے فعال کردیا،اسی سلسلے میں سنہ ۱۴۲۸ھ ق ماہ رجب کی گیارہویں رات بدھ کی شام جام شہادت نوش کرگئے،وہ روزگان ضلع روزگان کے شالی ناوہ علاقے میں مغرب کی نمازکے بعدساتھیوں سے خطاب کررہے تھے کہ دشمن کافضائی حملہ ہواجس میں وہ شہادت کے اعلی مقام پرفائزہوئے، اناللہ واناالیہ راجعون

وہ سوگواران میں پانچ بیٹے چھوڑگئے،جن کے نام محمد،احمد،حسن،عبدالرحمن اورسعد ہیں،سعدان کی شہادت سے کچھ عرصہ قبل پیداہوا،انہوں نے ٹیلیفون کے ذریعے اپنے اہلخانہ کواطلاع دی کہ نومودبچے کا نام سعدرکھاجائے،لیکن وہ دنیامیں لخت جگرکونہ دیکھ سکے کیونکہ وہ اسی جہادی سفرہی میں شہیدہوئے،اللہ تعالی روزمحشرانہیں جنت الفردوس میں اس کی ملاقات نصیب فرمائے۔

قاری فیض محمدسجادکی شخصیت:

قاری صاحب اپنے دوستوں اورساتھیوں کے درمیان غیرمتنازع شخص تھے،میں نے آج تک ان کے متعلق کوئی ایسی بات نہیں سنی ہے جوان کی شخصیت پراثراندازہو،ان کے تمام ساتھی ان کی اچھی شخصیت،نیک سلوک اوردیانت کی صفات بیان کررہے ہیں۔

مولوی حیات اللہ ان کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے،وہ کہتے ہیں کہ قاری صاحب نیک اورپارساانسان تھے،وہ دینداراورعبادت گزارعالم تھے،وہ مجاہدتھے،طریقت سےبھی وابستہ تھے،تبلیغ سے بھی لگاوتھا،وہ سہ روزہ پربھی جاتے تھے،اورکبھی کبھی  دعوت وتبلیغ کے سلسلے میں چارماہ کے لئے بھی جاتے تھے ،وہ حضراورسفرمیں کتابوں کامطالعہ کرتے تھے،قاری صاحب کہتے تھے کہ اسلام کے تمام شعبوں میں ہمیں عملی طورپرکام کرناچاہیے،اسلام کوصرف جہاداورعلم تک محدودنہ رکھاجائے،بلکہ تمام شعبوں کواہم سمجھ کرہمیں خدمت کرنی چاہیے۔

مولوی حیات اللہ کامزیدکہناہے کہ قاری صاحب نہایت متقی انسان تھے،دنیاکی پرتعیش زندگی سے وہ کوسوں دورتھے،وہ نفلی روزے رکھتے تھے،جب وہ جہادی مدرسے سے جہادی سفرکرتے تھے توامارت کی جانب سے انہیں کئیں گاڑیاں دی جاتی تھیں لیکن جب وہ واپس لوٹ جاتے توگاڑیوں کومتعلقہ محکموں کے حوالے کرتے،وہ امین اوردیانتدارتھے۔اپنی ضرورت کے لئے بھی گاڑی نہیں رکھتے تھے، مدرسہ میں ایک عام طالب جیسے سادہ زندگی بسرکرتے تھے۔امارت اسلامی کی حکومت میں ہرات کے سابق گورنرمولوی احمداللہ مطیع کاکہناہے کہ قاری صاحب اللہ تعالی سے نہایت ڈرتے تھے،وہ دیانتدارانسان تھے،وہ تحمل مزاج،محنت کش اوربااستعدادعالم تھے بلکہ سچ یہ ہے کہ ان کی مثال نہیں ملتی۔

ملاخلیل احمدکہتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح یادہے کہ جب ہم گاڑی میں سفرکرتے تھے تووہ سریلی آوازمیں قران پاک کی تلاوت کرتے تھے جس سے ہم بھی محظوظ ہوتے تھے، اورحضر میں بھی وہ قران پاک کی تلاوت کے پابندتھے۔

مولوی حیات اللہ جوامریکہ کے خلاف جہادکے دوران قاری صاحب کے ساتھ قریب رہے کاکہناہے کہ قاری صاحب جہادی زندگی میں ایک خاص پروگرام رکھتے تھے،وہ ساتھیوں کوفضول باتوں سے منع کرتے تھے،دن میں تین باروعظ اوربیان کرتے تھے،وہ ساتھیوں کی تربیت پرخاص توجہ رکھتے تھے،صبح اورشام کے اذکارکوساتھیوں سے یادکراتے،جب مجاہدین کسی بلندمقام پرچڑھتے تووہ بلندآوازسے کہتے کہ اللہ اکبرپڑھیں اورجب نیچے اترتے توسبحان اللہ کا وردکرتے تھے۔اسی طرح روٹی سے قبل اوربعد،سونے سے قبل اورہرقسم اذکارنہایت اہتمام سے کرتے تھے،وہ ساتھیوں کوبھی ذکرواذکارکااہتمام کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔طالبان پرزورریتے تھے کہ علم تجویدحاصل کریں،نمازصحیح طریقے سے پڑھنے کی دعوت دیتے تھے۔ساتھیوں کوآداب سکھاتے تھے،آداب مجلس،آداب روٹی،بڑوں اورچھوٹوں کے ساتھ معاملات اورآداب سکھاتے تھے،مسنون اذکار،حسن خلق،آداب کے پابندانسان تھے اورساتھیوں کوبھی اس حوالے متوجہ کرتے تھے۔

قاری صاحب کایہ اصلاحی پروگرام ایک موثرطریقہ تھا،وہ نرم خوانسان تھے،سلیقے سے ساتھیوں کوسمجھاتے تھے،ایک شفیق رہنماتھے،وہ نصیحت کرتے تھے توتمام ساتھی توجہ سے سنتے تھے،کوئی ساتھی اسے بوجھ نہیں سمجھتاتھا،بہت سارے علماء اورمدرسین جوعلم اورعمرمیں ان سے بڑے تھے ان سے استفادہ کرتے تھے،ان کی رفاقت پرفخرکرتے تھے،کیونکہ قاری صاحب کی رفاقت میں صرف جہادکاعمل نہیں تھابلکہ ایک اصلاحی پروگرام شامل تھا،ان کے ساتھی تربیت یافتہ اورممتازتھے۔

ان کے ساتھیوں کی تعدادبھی زیادہ تھی،ہرایک ساتھی سے نام،اہلخانہ کے افرادکے نام،اس کی ذاتی زندگی سے متعلق پوچھتے تھے،جب کوئی نیاساتھی ان کے پاس آتاتھاتومشفق کی طرح اس کی دلجوئی کرتے تھے،اس کی خیریت دریافت کرتے تھے،آج کل ساتھیوں میں ایسااہتمام کم دیکھنے کومل رہاہے۔مولوی حیات اللہ قاری صاحب کی زندگی اورشخصیت کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں،ہمارے صفحات کم ہیں اس لئے اس پراکتفاکریں گے کہ وہ نبیﷺکے طریقے کے مطابق جہادمیں اعمال اورعبادات کااہتمام کرتے تھے،وہ سنت طریقے کے مطابق جہادکرتے تھے،جب وہ ہتھیارخریدنے کے لئے قیادت کوخط لکھتے اوررقم کامطالبہ کرتے  تواس میں مسواک کی رقم بھی لکھتے تھے،وہ ساتھیوں پرمسواک تقسیم کرتے تھے تاکہ مجاہدین اس مسنون عمل سے محروم نہ رہے۔آپ یقین کریں کہ میں نے جب قاری فیض محمدسجادکی شخصیت کے حوالے سے ان کے ساتھیوں کی باتیں سنیں توغیراختیارطورپرمیری آنکھوں سے آنسوبہہ گئے، کالم نگاری کے عرصے کے دوران میں پہلی بارآبدیدہ ہوا،سبحان اللہ،اس پر فتن دور میں دیانت کی ایسی مثال قائم کرناکہ سخت دل پربھی اثرکرکے آنکھوں سے آنسوبہہ جائے۔پھرمیں نے یہ کہاکہ

این سعادت بہ زوربازونیست

تانہ بخشدخدائے  بخشندہ

ہم دعاکرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اورتمام مجاہدین پررحم فرماکراخلاص،دیانت اورصبرنصیب فرمائے،تاکہ ہمیں دنیااورآخرت میں کامیابی نصیب ہو۔

رحمہ اللہ تعالی