قندوز کے عسکری کمیشن کے رکن مولوی رحمت اللہ صاحب سے خصوصی گفتگو

کابل انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے والے سول یا عسکری ملازمین اور این جی اوز کے تمام کارکنوں کے لیے عام معافی کا اعلان ہے ۔ لوٹ مار اور بدامنی کی خبریں دشمن کا جھوٹا پروپیگنڈا ہے ۔ عوام مجاہدین کی آمد پر بہت مطمئن اور خوش ہیں  جس کا ثبوت ان کی جانب سے […]

کابل انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے والے سول یا عسکری ملازمین اور این جی اوز کے تمام کارکنوں کے لیے عام معافی کا اعلان ہے ۔

لوٹ مار اور بدامنی کی خبریں دشمن کا جھوٹا پروپیگنڈا ہے ۔ عوام مجاہدین کی آمد پر بہت مطمئن اور خوش ہیں  جس کا ثبوت ان کی جانب سے مجاہدین کا بھرپور استقبال ہے ۔مجاہدین کی جانب سے تمام اداروں میں کام کرنے والے لوگوں کو بھرپور اعتماد دلایا گیا ہے کہ اپنی پوری توجہ کام پر رکھیں ، ان کو تحفظ دینا امارت اسلامیہ کی ذمہ داری ہے ۔

فتح برقرار رہی توامن وامان کے ساتھ ساتھ بہت جلد یہاں ترقیاتی کاموں کا آغاز کریں گے انشاء اللہ ۔

 

انٹرویو:  ابو عابد

نوٹ :الامارہ ویب سائٹ نے اس سے قبل ماہانہ انٹرویوز کے سلسلے میں قندوز کے عسکری کمیشن کے رکن مولوی رحمت اللہ صاحب سے قندوز کی صورتحال کے حوالے سے گفتگو کی تھی جو ماہنامہ شریعت کے اس شمارے میں شامل اشاعت کی جارہی تھی قندوز کی فتح کے بعد ادارے نے ان سے خصوصی رابطہ کیا اور قندوز کی تازہ ترین صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی ہے ۔ تازہ ترین صورتحال پر گفتگو ضمیمہ کے عنوان سے انٹرویو کا حصہ بنادیا گیا ہے  ۔ اب قارئین فتح سے پہلے اور فتح کے بعد کے حالات پر ان کی تفصیلی گفتگو یہاں پڑھ سکتے ہیں ۔ادارہ ماہنامہ شریعت

محترم قارئین

صوبہ کندز افغانستان کے شمال  میں واقع ہےجس کے  مشرق میں  تخار، جنوب میں بغلان، مغرب میں بلخ اور شمال میں ہمسایہ ملک  تاجکستان واقع ہے۔ 8040 مربع کلو میٹر پر پھیلے  اس علاقے کی آبادی  ایک آخری سروے  کے مطابق 8 لاکھ افراد پر مشتمل تھی۔

صوبہ  کندز مرکزی شہر امام صاحب سمیت چھ اضلاع  چار درہ، قلعہ زال، علی آباد، خان آباد اور   دشتِ ارچی پر مشتمل ہے۔ کندز  کے  باسی  پشتون، تاجک، ازبک، ترکمن، عرب، ایماق اور   ہزارہ افغان قبائل ہیں۔  صوبہ کندز کا مرکز {کندز شہر} مزار شریف کے بعد افغانستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔

رواں سال عزم آپریشن کے سلسلے میں صوبہ کندز میں دوسرے صوبوں کی نسبت  مجاہدین کو  انتہائی  اہم کامیابیاں  ملی ہیں جہاں  مجاہدین  نے صوبے کے  اہم اضلاع فتح کر  لئے ہیں اور دشمن کو پسپائی اختیار کرنے  پر مجبور کیا ہے۔ ان فتوحات کے  بارے  میں ہم  نے  اس صوبے  کے ایک مسئول   مجاہد سے تفصیلی گفتگو کی   ہے  جو نذرِ قارئین ہے۔

سوال:  سب سے  پہلے شریعت  کے  قارئین کو  اپنا تعارف کرائیں۔

جواب:   میرا نام مولوی  رحمت اللہ ہے امارت اسلامی افغانستان  کی  تشکیلات میں صوبہ کندز کی فوجی کمیشن کے مسئول کے طورپر جہادی  خدمت کی  انجام دہی  میں مصروف ہوں۔

سوال:    رواں سال  مجاہدین نے کندز میں بڑی فتوحات حاصل کی ہیں اور بہت سے  علاقے مجاہدین کے  قبضے میں  آگئے ہیں اس  بارے میں ہمارے قارئین کو  کچھ معلومات  دیں۔

جواب:  عزم آپریشن  کے دوران  اس سال  چار علاقوں  میں مجاہدین کو بڑی فتوحات ملی ہیں، جن میں اس  صوبے کے مرکز سے ملحق گورتیپے کا علاقہ،تولکہ اور شرکت نامی علاقے مجاہدین  نے  فتح کر لئے ہیں ۔دو  اضلاع دشتِ ارچی اور چہار درہ مکمل طور پر طالبان  کے قبضے میں  آگئے ہیں، ضلع امام  صاحب  میں بھی وسیع علاقوں پر  طالبان کا کنٹرول ہے۔

۶ رجب المرجب ۱۴۳۶ھ کو  مجاہدین  نے  اللہ تعالیٰ کی  نصرت سے کندز کے مرکز سے ملحقہ سب  سے  اہم اور  گنجان آباد علاقہ ” گورتیپہ” مکمل طور پر  فتح  کیا اور دشمن کو اس علاقے سے  دم دباکر بھاگنے پر مجبور کیا۔

گورتیپہ  میں دشمن  کے 21 چیک پوسٹ مکمل طور پر فتح، 4 ٹینک ایک رینجر گاڑی ، ایک کرولا کار 100 عدد سے زیادہ چھوٹے اور بڑے ہتھیار،ہزاروں کلاشنکوف  کی گولیاں اور  مختلف النوع اشیاء  غنیمت کے  طور مجاہدین کے ہاتھ لگیں۔

اس کاروائی میں دشمن کے درجنوں فوجی، پولیس اور  قومی ملیشیاء کے اہلکار ہلاک ہوئے  جن میں  اہم کمانڈرز  بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دشمن کے 55 اہلکاروں  کوبھی   کو  طالبان  نے گرفتار لیا۔

سوال:    جزاک اللہ خیرا۔۔۔۔گورتیپہ کی  فتح  واقعی ایک  عظیم فتح تھی کیونکہ  اس وقت میڈیا  پر بھی یہ شور  سنائی دینے لگا کہ  مجاہدین صوبے کے مرکز سے صرف  چار کلومیٹر کے فاصلے  پر ہیں جس سے دشمن  کو اوسان خطا ہوگئے لیکن  اس فتح کے  بعد چہار درہ اور  دشتِ ارچی میں قابلِ ذکر فتوحات دیکھنے میں آئیں ، ان دونوں فتوحات کا آپس  میں کیا  تعلق ہے؟

جواب:    دیکھیں گورتیپے کی سقوط کے بعد دشمن کے   اہلکار  گھبرا گئے، مجاہدین  نے ان کی بزدلی کا  فائدہ اٹھاتے ہوئے کندز کے اہم ضلع  چہار درہ پر آپریشن کا آغاز  کیا، اور رمضان   المبارک کی تیسری تاریخ  تک مجاہدین نے ضلع چہار درہ کا  مرکز اور اس کے  ارد گرد 12 چیک پوسٹ مکمل  طور پر فتح  کر لئے۔ اس  طرح یہ  اہم ضلع بھی  مجاہدین کے  قبضے میں آگیا۔

چہار درہ کے آپریشن میں  دشمن کے 24 پولیس  اہلکار ہلاک اور 19  زخمی ہوئے جبکہ 25 اہلکار طالبان کے  ہاتھوں  زندہ گرفتار ہوئے۔

اس جھڑپ میں  بھاری تعداد میں غنائم جن میں 4 ٹینک،  4  رینجر گاڑیاں، درجنوں کی  تعداد میں  چھوٹے اور بڑے ہتھیار، ایک بڑی بکتر بند گاڑی جو اسلحے سے بھری ہوئی تھی  مجاہدین کے ہاتھ  آئیں اور اس  طویل جھڑپ  کے نتیجے میں 2 مجاہدین شہادت کے بلند مقام پر فائز ہوئے۔ جبکہ 4 مجاہدین زخمی بھی ہوئے ۔

چہار درہ کی فتح کے دو دن بعد  رمضان المبارک کی  پانچویں  رات کو امارت اسلامی کے  مجاہدین  نے  ایک  بڑے  آپریشن کے  نتیجے میں کندز کا  ایک اور وسیع علاقہ ضلع  دشتِ  ارچی میں دشمن کے 14 چیک پوسٹ فتح کر کے یہ  ضلع بھی فتح کر لیا۔

دشتِ  ارچی  کے آپریشن میں جہاں  دشمن کے درجنوں  اہلکار واصلِ جہنم   ہوئے  وہاں مجاہدین  نے دشمن  سے 8 ٹینک، 12 رینجر گاڑیاں، 3 کرولا کار ،130 ہلکے اور بھاری ہتھیار اور بڑی  مقدار میں جنگی  ساز و سامان بھی غنیمت کے  طور پر حاصل کیا۔ واضح رہے کہ  دشتِ ارچی کے آپریشن میں  2 مجاہدین شہید  اور 6  زخمی ہوئے۔

سوال:   دشتِ ارچی اور چہادرہ کے اضلاع جنگی نقطہ نظر  سے کتنی اہمیت کے حامل ہیں۔ اور کیا آپ اسے دشمن کیلئے ایک بڑی شکست سمجھتے ہیں؟

جواب:    چہار درہ  انتہائی اہمیت کا حامل  علاقہ ہے کیونکہ ایک تو  یہ علاقہ کندز کا  ایک  گنجان آباد علاقہ ہے ،جو بڑی تعداد میں دیہات  پر مشتمل ہےاور یہاں  سے  مجاہدین مختلف جہادی  خدمات انجام دے سکتے ہیں ۔دوسری یہ کہ یہ علاقہ کندز مرکز کے  بہت قریب  واقع ہے اور یہاں سے  مجاہدین کندز کے مرکز،کندز کا ہوائی اڈہ جو شمالی افغانستان میں دشمن کا  ایک  اہم ہوائی  اڈہ ہے اور  دشمن کے  متعدد اہم  مراکز کو آسانی سے   نشانہ  بنا سکتے ہیں۔

مختصر یہ کہ جب تک   چہاردرہ اور کندز کے دوسرے مفتوحہ  علاقے  مجاہدین کے قبضے میں ہوں دشمن صوبے کے مرکز میں  غیر محفوظ ہے اور  انشاء اللہ  انہی مفتوحہ علاقوں  سے استفادہ کرتے ہوئے مجاہدین صوبہ کندز کا مرکز  بھی کٹھ پتلی حکومت سے چھین  لیں گے۔

اسی  طرح دشتِ ارچی اور امام صاحب کے  اضلاع جن کے  اکثر علاقے فتح ہوچکے ہیں کندز کے بڑے اور وسیع علاقے ہیں اور ان  علاقوں کی  فتح ملک کی آزادی اور شر و فساد کے خاتمے کے مشن کیلئے ایک  اہم کامیابی  ہے۔

سوال:     حالیہ  فتوحات کو دیکھتے ہوئے صوبہ کندز میں مجاہدین اور دشمن کے تسلط کا موازنہ آپ کیسے کریں گے؟ موجودہ حالات میں مجموعی طور پر کس کا پلڑا بھاری ہے؟

جواب:     کندز کے دو اہم  اضلاع جیسا پہلے  بتا چکا ہوں  مفتوحہ  علاقے ہیں دوسرے  اضلاع میں ضلع امام صاحب  کا  90 فیصد علاقہ مجاہدین  کے قبضے میں ہےصرف ایک بڑا ہوائی بیس جس میں سینکڑوں فوجی تعینات ہیں فتح نہیں ہوا ،اگر یہ  مرکز فتح ہوجائے تو ضلعی مرکز  آسانی سے مجاہدین کے قبضے میں آسکتا ہے۔

ضلع خان آباد  کا 70  فیصد  علاقہ مجاہدین کے کنٹرول میں ہے۔ علی آباد میں صرف اس سڑک پر دشمن کے چیک  پوسٹ موجود ہیں جو  کندز سے بغلان  کی  طرف جاتی ہے اور اس صوبے کو دارالحکومت کابل  سے  ملاتی ہے اس کے   علاوہ یہ  علاقہ مکمل طور پر آزاد ہے۔ اور   مجاہدین آزادانہ طور پر بغلان کے” شہر کہنہ”  سے  علی آباد اور چہار درہ  تک  سفر کر سکتے ہیں۔ صوبہ کندز کے مرکز میں بھی شہر کے علاوہ بہت سے علاقے مجاہدین کے کنٹرول میں ہیں یہاں  تک کے مجاہدین شہر تک بھی پہنچ گئے ہیں۔ کندز میں فی الحال دو علاقوں میں دشمن کا کچھ اثر رسوخ نظر آتا ہے، جو  ضلع قلعہ زال کے کچھ علاقے اور دوسری ضلع خان آباد کا علاقہ اختاش ہے جہاں کچھ قومی ملیشیاءکے ارکان  موجود  ہیں۔ اس کے علاوہ الحمد اللہ پورے کندز سے دشمن کا صفایا ہوچکا ہے اور مستقبل میں  ان شاء اللہ ہم مزید فتوحات کی  خوشخبری    دیں گے۔

سوال:     جو علاقے  مجاہدین  نے فتح کئے ہیں کیا دشمن نے اس کے دوبارہ حصول کی کوشش نہیں کی؟ اور  اگر کی  ہے  تو  نتیجہ کیا  نکلا؟

جواب:      دشمن نے مذکورہ علاقوں کے حصول کی  متعدد بار کوشش کی ہے لیکن  کامیاب نہیں ہوا۔ اصل میں مجاہدین کی کا میابی کا    ایک  راز یہ  بھی  ہے کہ  لوگوں کا  حکومت سے اعتماد اٹھ گیا تھا۔ اب لوگوں کو  نہ  حکومت کا خوف ہے اور نہ  حکومت کے ساتھ کسی قسم کے  تعاون کیلئے  تیار ہوتے ہیں۔ بلکہ   عوام حکومت کے خلاف مجاہدین کا ساتھ  دے  رہے ہیں ایسے وقت میں جب   ساری عوام مقابلے کیلئے اٹھ  کھڑی ہو پھر حکومت کیلئے ان علاقوں پر قبضہ کرنا محال ہے۔

کندز شہر کے قریب “تولکی، شرکت اور چہار درہ”  کے  علاقے بہت اہمیت کے حامل  ہیں۔ دشمن نے ان کے حصول کیلئے بہت کوششیں کیں۔ ملکی  اہلکاروں کی  حوصلہ افزائی کیلئے کندز ہوائی اڈے  تک جرمنی کے سفیر بھی آئے۔ قومی ملیشیاء کے اہلکاروں کو  لاکھوں روپے صرف اس  مشن کیلئے  دئیے تاکہ وہ ان علاقوں پر دوبارہ اپنا قبضہ بر قرار رکھ سکیں ۔ اس  مقصد کیلئے قومی ملیشیاء  کے اہلکاروں اور پولیس نے مل کر کئی آپریشن کئے لیکن  ہر مرتبہ بھاری جانی اور مالی نقصانات اٹھانے کے بعد شکست ان کا مقدر بنی اور کوئی کامیابی  انہیں حاصل نہیں ہوئی۔

سوال:    آخری سوال یہ   ہے کہ مفتوحہ علاقوں میں حالات کیسے ہیں؟ کیا مجاہدین  نے  اس علاقے کے  بنیادی مسائل حل کرنے کی صلاحیت  حاصل کرلی ہے؟

جواب:     جی  ہاں ۔۔ الحمدللہ مفتوحہ علاقوں میں حالات معمول پر آگئے ہیں  لوگوں نے  سکھ  کا سانس لیا ہے۔ علاقے میں بنیادی خدمات جیسے عدلیہ، تعلیم،صحت اور  امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے  شعبے اپنی خدمات کی  انجام دہی میں مصروف ہیں۔ مجاہدین  نے   علاقے کی ترقی کو مدِ نظر  رکھتے ہوئے متعدد پراجیکٹ پر کام کا آغاز کر دیا ہے۔ اسی  طرح کندز میں جہادی تربیت کے کام پر بھی خاص توجہ دی جارہی ہے اور یہ کام بھی  احسن طریقے سے جاری ہے۔ وہاں مجاہدین  نے منظم معسکر آباد کئے ہوئے ہیں۔ اور مجاہدین کو مختلف دوروں کے تحت جنگی اور تربیتی نصاب پڑھایا جاتا ہے، اسی طرح صحت کے شعبے میں بھی قابلِ   ذکر کام ہوا ہے۔ اور الحمد للہ کندز کے مجاہدین اب اس میدان میں  خود کفیل ہو چکے ہیں۔  مجاہدین  اپنے  زخمیوں کا علاج   اب اپنے  ہی  علاقوں  میں کرتے ہیں اور یہاں ہر قسم کے علاج و معالجے اور آپریشن کی سہولیات موجود ہیں۔  عصری  تعلیم کیلئے سکول و مکتب  کے کام  اچھے اور  منظم  انداز میں جاری ہیں۔ سکولوں اور کالجوں میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری  ہے۔ اس کے  ساتھ دینی مدارس میں بھی   دینی علوم  سیکھنے  کا عمل  جاری ہے۔ مجاہدین نے رواں سال  عُشر کا ایک  حصہ دینی مدارس کی بہتری اورنئے مدارس کے قیام کیلئے مختص کیا ہے تاکہ اس  شعبے میں تعلیم کا سلسلہ مزید بہتر انداز میں جاری  رہے۔

ضمیمہ

سوال :    طالبان نے رواں ہفتے میں اپنی ایک بے مثال کارروائی میں ایک دن کی لڑائی کے بعد قندوز فتح کرڈالا اس حوالے سے کچھ روشنی ڈالیں۔

جواب :   جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہمارے مجاہدین تقریبا چند ماہ پہلے ہی کچھ علاقے فتح کرکے قندوز شہر کے قریب پہنچ چکے تھے ۔ ہم اس وقت بھی قندوز شہر میں داخل ہوسکتے تھے ۔ ہم شہر سے صرف چار کلومیٹر کے فاصلے پر تھے ۔ مگر اس وقت ہماری قیادت نے ہمیں شہر کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ۔ اس بار ہم نے قیادت کو اطمینان دلایا کہ اللہ جل جلالہ کی نصرت سے ہم شہر فتح کرسکتے ہیں اس لیے قیادت نے قندوز پر آپریشن کی اجازت دے دی۔

سوال :    مولوی صاحب اس جنگ میں آپ کے نقصانات کتنے رہے اور دشمن کو کتنا نقصان ہوا۔ غنیمت کے حوالے سے بھی کچھ بتادیں۔

جواب :    اس دن الحمد للہ ہمارے صرف دو افراد شہید ہوگئے ۔ کچھ دیگر زخمی ہوگئے ۔ اور اس کے بعد اگلے روز امریکی طیاروں نے بمباری کی جس میں 5 مجاہدین شہید اور 7 زخمی ہوگئے ۔ ان تین دنوں کے لڑائی میں دشمن کے 80 کے قریب فوجی مارے گئے ہیں ۔ رہی بات مال غنیمت کی تو ہم نے پورا صوبہ فتح کیا ہے ۔ ماشاء اللہ سب کچھ بھر پور حد تک موجود ہے ۔ 140 کے قریب لینجر گاڑیاں اور کئی بکتر بند گاڑیاں اور ٹینک اور چھوٹی گاڑیاں ہاتھ آگئی ہیں ۔ چھوٹی گولیاں اور اسلحہ تو اتنا زیادہ ہے کہ دو سال تک ہمارے کام آسکتا ہے ۔

سوال :    کہا جاتا ہے کہ قندوز میں طالبان کے داخلے کے بعد وہاں کچھ بدامنی ہوئی اور کچھ صرافوں یا بینکوں کو لوٹا گیا ہے ۔

جواب :     اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ۔ کابل انتظامیہ کے پاس اب پروپیگنڈے کے سوا کچھ رہا ہی نہیں ۔ ہم نے پہلے ہی روز شہر کے تحفظ کے لیے مجاہدین کا ایک گروپ متعین کیا تھا ۔ لوگوں کا ایک روپیہ بھی ادھر ادھر نہیں ہوا ۔ہمارے اس بات کا ثبوت قندوز کی جانب سے رکن پارلیمنٹ انجینیئر کمال کی وہ گفتگو بھی ہے جو انہوں نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کی ۔ انہوں نے پوری وضاحت کے ساتھ کہا کہ میں قندوز کے نمائندہ کی حیثیت سے ہر طرح کے لوٹ مار کی تردید کرتا ہوں ۔ طالبان کے لیے عوام کے دلوں میں ہمدردی ہے ۔ ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر عام گردش کررہی ہے ۔ اس حوالے سے حکومت طالبان کے خلاف جھوٹ بول رہی ہے ۔

سوال :    قندوز میں حکومت کے سابق ملازمین ، نیشنل آرمی کے اہلکاروں اور این جی اوز کے کارکنوں کے ساتھ آپ کا سلوک کیا ہوگا؟

جواب :    اس حوالے سے امارت اسلامیہ کے امیر ملا اختر محمد منصور صاحب کا پیغام بھی آچکا ہے ۔ انہوں نے اس شرط پر کہ دوبارہ کابل انتظامیہ کے ساتھ کام نہیں کریں گے سب کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا ہے ۔ ہماری طرف سے بھی ان سب کے لیے معافی کا اعلان ہے ۔ آجائیں ہمارے شانہ بشانہ وطن کے دفاع  اور آزادی کے لیے ہمارے ساتھ کھڑے ہوجائیں ۔ ہم نے کبھی  انتقامی جذبہ سے کام نہیں لیا ۔ ہمارا جہاد صرف اور صرف اللہ تعالی کے دین کی سربلندی اور وطن کے دفاع کے لیے ہے ۔

سوال :   طالبان کی آمد پر عوام کا رد عمل کیا تھا ؟ انہوں نے طالبان کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟

جواب :    مجاہدین کی آمد پر عوام انتہائی مطمئن اور خوش نظر آرہے تھے جس کا ثبوت ان کی جانب سے مجاہدین کا بھرپور والہانہ استقبال  ہے ۔یہ میرا دعوی نہیں ہے  سوشل میڈیا تک تو آج کل ہر شخص کی رسائی ہے یہ چیزیں ہر وہ شخص جانتا ہے جو کسی نہ کسی حد تک میڈیا  سے وابستہ ہے ۔ مجاہدین اور عوام آپس میں گھل مل گئے ۔ آپس میں کوئی فاصلہ اور دوری نہیں رہی ۔ ہنستے مسکراتے رہے اور خوشی سے تکبیر کے نعرے لگاتے رہے ۔ قندوز کے عام نوجوان ،طالبان مجاہدین کی باہوں میں باہیں ڈالیں ان کے ساتھ محو گفتگو نظر آئے ۔ یہ منظر ہمارے بہت اطمینان اور خوشی کا باعث تھا ۔ ہر مجاہد نوجوانوں اور بڑے بوڑھوں کی محبت پر خوشی سے سرشار نظر آیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے عوام کی مجاہدین سے محبت پر میں آبدیدہ ہوگیا۔

سوال :   رفاہی اداروں کے کارکنوں اور ملازمین سےمجاہدین کا رویہ کیسا رہا؟

جواب :    رفاہی ادارے یعنی ہسپتالوں وغیرہ میں تو مجاہدین نے جاتے ہی سب کو اپنا اعتماد  دلایا ۔ وہاں کے ڈاکٹروں اور ملازمین سے کھل کے گفتگو کی اور انہیں اطمینان دلایا کہ ان کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے ۔ وہ اپنا کام ہر حال میں جاری رکھیں ۔ ہسپتال میں موجود مریضوں کی عیادت کی اور وہاں موجود مریضوں سے حسب استطاعت مالی تعاون بھی کیا ۔

سوال :    چار دن سے قندوز پر طالبان کا قبضہ ختم نہیں ہوا ۔ آگے کس حدتک آپ کو یقین ہے کہ یہ قبضہ برقرار رہے گا؟

جواب :   ہم نے گذشتہ تین دن سے دشمن کی بہت سی فوج کو پسپا کیا ہے ۔ کابل سے آنے والی فوج کو ہم نے بغلان ہی میں گھیر کر مارا اور پسپا کردیا ۔ امریکی طیاروں کی بمباری سے بھی دشمن اپنی کوشش میں ناکام رہا ۔ اس دوران کابل انتظامیہ اور بذات خود اشرف غنی نے دعوی کیا کہ انہوں قندوز پر سے قبضہ چھڑالیا ہے تو وہ سب جھوٹ ثابت ہوچکا ہے ۔ آگے کا علم تو اللہ کو ہے کہ ہم کب تک یہاں قبضہ برقرار رکھیں گے ۔  جنگوں میں الٹ پھیر ہوتی رہتی ہے۔ قندوز کی فتح سے ہم نے چار اہداف حاصل کرلیے ہیں :

1۔ کابل انتظامیہ ، امریکا اور پوری دنیا کو معلوم ہوجائے کہ طالبان اب اتنے مضبوط ہوچکے ہیں کہ وہ کبھی بھی پورا  ایک صوبہ  فتح کرسکتے ہیں ۔ اور کابل انتظامیہ کا مورال  نیچے آکر آخری انتہاوں کو چھو رہا ہے ۔

2۔ یہاں کی جیل میں موجود سینکڑوں مجاہدین کی رہائی ایک بڑا مقصد تھا جو پورا ہوچکا ۔

3۔  بڑیے پیمانے پر اسلحہ ، گاڑیاں ، خصوصا بکتر بند گاڑیاں اور ٹینکوں کا مال غنیمت میں  حصول، جس سے آگے اور بہت سے علاقے فتح کیے جاسکتے ہیں ۔

4۔ لوگوں کے درمیان سے دشمن کے پروپیگنڈے سے پیدا کردہ اس خوف کا خاتمہ کرنا کہ اگر طالبان دوبارہ آگئے تو ان کا عوام کے ساتھ سلوک کیا ہوگا۔ ان کے جان ومال کو تحفظ ملے گا یا نہیں ۔ وہ بھی الحمد للہ پورا ہوچکا ۔

سوال :  قندوز کی فتح پر کیا پیغام دینا چاہتے ہیں عوام ، مجاہدین یا عام مسلمانوں کو؟

جواب:   تمام مسلمانوں کے لیے میرا پیغام ہے کہ آج الحمد للہ مجاہدین نے ثابت کردیا ہے کہ ہم اپنے وطن کی مکمل آزادی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔ اس راہ میں جو تکلیفیں ہم پر گذریں سو گذرگئیں اس پر ہم اللہ تعالی سے اجر کے خواستگار ہیں ۔ ابھی جب منزل قریب تر ہے تو دشمن میڈیا کی دو چار خبریں پڑھ کر مجاہدین کی مخالفت نہ کرنے لگو۔ امارت اسلامیہ افغانستان نے شروع دن سے اپنے وطن کی آزادی اور اسلام کی سربلندی کے لیے قدم اٹھا یا تھا آج بھی اسی عزم پر قائم ہے ۔ اپنی ہمدردیاں اور وفاداریاں مجاہدین کے ساتھ رکھو۔

افغان عوام کے لیے پیغام ہے کہ آپ  کو دنیا میں حریت پسند، باعزت  اورآزاد وخود مختاراقوام کی صف میں جگہ دلانے کے لیے امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے اپنی قیمتی جانیں قربان کیں ۔ آج بھی آپ کا تحفظ اور باعزت زندگی گذارنے کا حق دلانا امارت اسلامیہ اپنا فریضہ سمجھتی ہے ۔ قندوز میں جس طرح عوام نے مجاہدین کا حسن سلوک دیکھ کر ان کا استقبال کیا ہے آپ بھی دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر نہ ہوں بلکہ آگے بڑھ کر مجاہدین کا ساتھ دیں ۔ اب بہت ہوچکا ۔ یہ ملک مزید تباہیاں سہنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ اپنے وطن کو غیروں کے غلاموں کی غلامی سے نجات دلاکر خود اس کی تعمیر وترقی میں حصہ لیں ۔

مجاہدین کے لیے پیغام یہ ہے کہ عوام سے دلی محبت رکھو ۔ اس قوم نے جہاد کی محبت میں بہت دکھ اٹھائے ہیں ۔ یہ نہتے لوگ دشمن کے خوف سے اظہار نہیں کرپاتے وگرنہ قندوز کی طرح ہر جگہ عوام مجاہدین کے لیے نگاہیں فرش راہ کیے ہوئے ہیں ۔  جہاد کی راہ میں تکالیف کو عوام پر احسان نہ سمجھو بلکہ اس پر اللہ سے خصوصی اجر طلب کرو۔ دشمن کے اہلکاروں کو بھی جہاں تک ہوسکے معاف کرو اور احسان کرکے انہیں امارت اسلامیہ کا تابع فرمان بناو۔ کبھی بھی شدت سے کام نہ لو کیوں کہ شدت بغاوت کو جنم دیتی ہے ۔ انسان احسان کا غلام ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی تمھاری سعی قبول فرمائے ۔

  • مولوی صاحب بہت شکریہ
  • آپ کا بھی بہت بہت شکریہ