کابل

قوشتیپہ کینال کا پہلا مرحلہ اپنی مدت سے آٹھ ماہ قبل مکمل

قوشتیپہ کینال کا پہلا مرحلہ اپنی مدت سے آٹھ ماہ قبل مکمل

رپورٹ: الامارہ اردو
قوش تیپہ کینال افغانستان میں جاری ان منصوبوں میں سے ہے جو افغانستان کو زراعت کے شعبے میں خود کفیل بنا سکتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ منصوبہ تین مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا مرحلہ صوبہ بلخ کے ضلع کلدار سے لے کر حیرتان سے ہوئے ضلع دولت آباد تک پہنچتا ہے۔ یہ کل 108 کلو میٹر ہے جو اپنی مدت سے 8 ماہ قبل پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس مرحلے پر کل 16 ارب، 67 کروڑ 80 لاکھ افغانی لاگت آئی۔ بدھ کے روز اس منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوکر دوسرے پر کام کا آغاز کر دیا گیا۔ اس افتتاحی پروگرام میں نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبد الغنی برادر اخند، نائب وزیر اعظم برائے انتظامی امور مولوی عبد السلام حنفی، وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب، نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی کے علاوہ دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔ ملا عبدالغنی برادر اخند افتتاحی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ افغانوں کے پسینوں کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے جو افغانستان کو زراعت کے شعبے میں خود کفیل بنائے گا۔ انہوں نے کہا یہ منصوبہ عشروں سے افغانوں کے خوابوں کی تکمیل ہے۔ یہ منصوبہ کسی پڑوسی ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے نہیں بنایا گیا، بلکہ دریائے آمو کے پانی کو اپنے استعمال میں لانے کا ایک منصوبہ ہے جو افغانستان کا حق ہے۔ اس پروگرام سے صوبہ بلخ کے گورنر حاجی محمد یوسف وفا، وزیر پانی و توانائی ملا عبد الطیف منصور اور نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے بھی خطاب کیا۔ شیر محمد عباس ستانکزئی نے خطاب کے دوران کہا: “ہم پانی پر اپنے حق کا استعمال کر رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی پڑوسیوں خصوصا شمالی ممالک کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم کسی دوسرے ملک کا حو غصب نہیں کر رہے، ہمیں دو طرفہ تعلقات کو مستحکم بنانے چاہیے۔ ایک مستحکم و مضبوط افغانستان پڑوسیوں کے حق میں ہے۔ انہوں نے کہا: “تاریخ میں افغانستان نے دریائے آمو کے پانی کو اپنے استعمال میں نہیں لایا جوکہ افغانستان کا حق ہے۔ انہوں نے کہا امات اسلامیہ افغانستان ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان کے تشویش کو سفارتی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ نائب وزیر اعظم برائے انتظامی امور مولوی عبد السلام حنفی نے کہا کہ ماضی میں افغانستان میں قوش تیپہ کینال کی طرح بڑے منصوبے شروع نہیں کیے گئے۔ وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد نے کہا: “پروسی ممالک کو قوش تیپہ کینال پر تشویش نہیں ہونی چاہیے۔ امارت اسلامیہ افغانستان کسی پڑوسی ملک کا حق نہیں چھیننا چاہتی۔ ہم اپنے حق کو استعمال کر رہے ہیں اس سلسلے میں کسی کو رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔ وزیر داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ افغانستان کا موجودہ بجٹ قوش تیپہ جیسے بڑے منصوبوں کی اجازت نہیں دیتا۔ تاہم غیر متزلزل عزم و ہمت کی بدولت یہ منصوبہ شروع کیا گیا جس کا ایک مرحلہ کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔
یاد رہے کہ اس کینال کا پہلا مرحلہ اپنی مدت تکمیل سے آٹھ ماہ قبل مکمل کیا گیا۔
افغانستان ایک زرعی ملک ہے۔ یہاں کے 80 فی صد افغان عوام زراعت کے شعبے سے ہی منسلک ہیں اور 55 فی صد آبادی کا مکمل ذریعہ آمدن بالواسطہ اور بلاواسطہ زراعت ہے۔ بد قسمتی سے یہاں پانی اور زمین کی کمی، زراعت کے لیے مناسب میکانزم نہ ہونے، مسلسل خشک سالی اور مناسب منڈی کا فقدان وہ چیلنجز ہیں جن کی وجہ سے افغانستان اب بھی اناج میں برآمدات پر انحصار کرتا ہے، ایسی صورت حال میں قوش تیپہ کینال اس سلسلے میں مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔