کابل

قوش تپہ کینال، ایک روشن مستقبل کی نوید

قوش تپہ کینال، ایک روشن مستقبل کی نوید

 

تحریر: سیف العادل احرار
ملک کے اہم میگا پروجیکٹ قوش تپہ کینال کے پہلے مرحلے کا کام بہت تیزی اور کامیابی سے مکمل کیا گیا۔ یہ عظیم الشان نہر 285 کلومیٹر طویل ہے، جو صوبہ بلخ کے ضلع کلدار میں دریائے آمو سے شروع ہو کر صوبہ فاریاب کے ضلع اندخوئی میں ختم ہوتی ہے۔ یہ نہر 650 کیوبک میٹر پانی فی سیکنڈ منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس سے تقریباً5 لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کیا جا سکتا ہے۔

18 ماہ قبل نائب وزیراعظم ملا بردار اخوند اور دیگر حکام نے اس کا افتتاح کیا تھا جس کو تین مرحلوں میں مکمل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا، پہلا مرحلہ دو سال میں مکمل کرنے کا منصوبہ تھا تاہم نہر میں کام کرنے والی ٹیم کی شبانہ روز محنت اور کوششوں کے نتیجے میں پہلا مرحلہ 108 کلو میٹر مقررہ وقت سے چھ ماہ قبل مکمل کیا گیا۔

گزشتہ روز امارت اسلامیہ کے اعلی حکام نے دوسرے مرحلے کا افتتاح کیا، صوبہ بلخ میں منعقدہ افتتاحی تقریب میں نائب وزیراعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی بردار، نائب وزیراعظم برائے انتظامی امور مولوی عبدالسلام حنفی، وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد، وزیر داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی، نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی سمیت دیگر وزراء اور حکام نے شرکت کی۔

ملا بردار اخوند نے مقررہ مدت سے چھ ماہ قبل پہلے مرحلے کی تکمیل پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ملکی سطح پر اتنا بڑا پروجیکٹ پر کام جاری ہے جس کی تمام تر لاگت قومی بجٹ سے ادا کی جارہی ہے اور اس کے انجینئرز اور تمام عملہ افغان ہیں، ماضی میں یہ تصور عام تھا کہ بیرونی امداد اور انجینئروں کے بغیر ہم میگا پروجیکٹ پر کام کرنے کے متحمل نہیں ہیں، آج ہم نے عملا ثابت کر دیا کہ ہم خود ہی ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتے ہیں، اس کے لئے اخلاص اور جذبے کی ضرورت ہے۔

دوسرے مرحلے کی لمبائی 177 کلومیٹر ہے جو بلخ کے دولت آباد سے شروع ہو کر صوبہ جوزجان کے ضلع آقچہ سے گزر کر صوبہ فاریاب کے ضلع اندخوئی تک پہنچتی ہے۔ تیسرا مرحلہ زرعی زمینوں پر ذیلی نہروں کی تقسیم کا ہے، پہلے مرحلے کی تکمیل کے لیے دو سال اور بقیہ دو مراحل کے لیے پانچ سال کی مدت مقرر کی گئی ہے۔ تاہم پہلہ مرحلہ مقررہ وقت سے چھ ماہ پہلے مکمل کرنے سے اب یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ دیگر دو مراحل بھی مقررہ وقت سے پہلے مکمل ہوجائیں گے۔

اس منصوبے کا اہم پہلو یہ ہے کہ تمام فنی اور تکنیکی کام افغان انجینئرز اور کمپنیاں انجام دیتے ہیں۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اس بڑے اور قومی منصوبے کو بغیر کسی بیرونی امداد کے مکمل کیا جارہا ہے۔ اس منصوبے کے پہلے حصے کی تکمیل نے ثابت کر دیا کہ موجودہ اسلامی حکومت قومی مفادات کے لیے کس قدر پرعزم ہے اور ملک کی تعمیر کے لیے کس حد تک کوشاں ہے۔

اس عظیم منصوبے کے پہلے مرحلے کی تکمیل سے پوری افغان قوم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور ان کی بہتر اور روشن مستقبل کی امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس منصوبے کے حوالے سے پوری افغان قوم کا زندہ احساس اور حمایت قابل ستائش ہے، سب نے متفقہ طور پر اس کام کو ملک کی تعمیر و خود ارادیت کے میدان میں منفرد قرار دیا اور امارت اسلامیہ کی کاوشوں اور عزم کو سراہا۔

درحقیقت قوش تپہ کینال منصوبہ بہت اہم اور ناگزیر ہے، اس کی تعمیر سے افغانستان زراعت اور خوراک کی پیداوار کے شعبوں میں خود کفیل ہو جائے گا جب کہ اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل سے زراعت جدید خطور پر استوار ہو جائے گی اور اس کی بدولت بہت سے معاشی فوائد حاصل کئے جا سکیں گے۔ افغان قوم کے لیے قوش تپہ کینال کے پہلے مرحلہ کی تکمیل حوصلہ افزا امر ہے، پورے ملک میں اس کینال کے چرچے ہیں اور ہر سمت سے اس پر اطمنان کا اظہار کیا جارہا ہے، نوجوانوں کو امید ہے کہ اگر اسی رفتار سے ترقی کا سلسلہ جاری رہا تو وطن عزیز افغانستان کچھ عرصہ بعد خطے میں معاشی طور پر ایک مضبوط ملک کے طور پر ابھرے گا جس سے ہمارے مصیبت زدہ عوام کو ابدی خوشحالی نصیب ہوگی۔