کابل

قوش تیپہ کینال پر واویلا کیوں؟

قوش تیپہ کینال پر واویلا کیوں؟

تحریر: مستنصر حجازی
قوش تیپہ کینال افغانستان ہی نہیں آبی شعبے میں جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا میگا پروجیکٹ ہے۔ یہ ایسا منصوبہ ہے جو افغانستان کی تاریخ میں اس سے قبل کسی دور حکومت میں شروع ہوا اور نا ہی مستقبل قریب میں اس نوعیت کا منصوبہ شروع ہونے کا کوئی امکان ہے۔ اب تک اس منصوبے کے کئی پہلوؤں پر لکھا جا چکا ہے۔ کئی صحافیوں اور سیاحوں نے اس پروجیکٹ کا دورہ کرکے اس پر وی لاگز بھی بنا لیے ہیں۔ یہ منصوبہ سب سے پہلے سردار داود خان (1909 – 1978) کے دور حکومت میں منظور کیا گیا۔ مگر ملک میں مسلسل سیاسی عدم استحکام اور کئی عشرے تک افغانستان پر بیرونی جارحیت کے سبب یہ منصوبہ شروع نہ کیا جاسکا۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق تاجکستان دریائے آمو کا 62.5 فی صد، افغانستان 27.5 فی صد، ازبکستان 6.3 فی صد، کرغزستان 1.9 فی صد اور ترکمانستان بھی 1.9 فی صد پانی استعمال کر رہا ہے۔  دریائے آمو کے 27 فی صد پانی افغانستان سے گزرنے کے باوجود ماضی میں کبھی افغان حکومتوں نے اس سے خاطر خواہ استفادہ نہیں کیا۔ دیگر ممالک اس سے خوب مستفید ہوتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب کبھی دریائے آمو کے حوالے سے کوئی اجلاس منعقد ہوتا تو افغان حکومت کو مدعو ہی نہیں کیا جاتا جوکہ پوری قوم کے لیے سبکی اور شرمندگی کا باعث ہے۔ امارت اسلامیہ افغانستان نے اپنے وسائل پر حق خود ارادیت کے تصور کے تحت دریائے آمو کے پانی کو بروئے کار لانے اور اس سے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے قوش تیپہ کینال پر از سر نو کام کرنے کا عزم کیا۔ چناں چہ کابینہ سیشن کے بیسویں اجلاس میں  اس منصوبے کی منظوری دی گئی۔ اس منصوبے پر کام کرنے کے لیے امارت اسلامیہ افغانستان کے محکمہ انتظامی امور نے نیشنل ڈویلپمنٹ کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا۔ جس کے نتیجے میں 9 ستمبر 2022 کو اس منصوبے پر باقاعدہ کام کا آغاز کر دیا گیا۔

قوش تیپہ کینال کیا ہے؟

قوش تیپہ کینال 285 کلو میٹر طویل، 115 میٹر چوڑا اور 8.5 میٹر گہرا ہے۔ جو صوبہ بلخ کے ضلع کلدار سے شروع ہو کر صوبہ فاریاب کے ضلع اندخوئی تک پھیلا ہوا ہے۔ کینال کا 50 فی صد کام مکمل ہوچکا ہے۔ اس میں 150 کمپنیاں کام کر رہی ہیں جس میں چھے ہزار لوگوں کو کام کے مواقع مل گئے ہیں۔ قوش تیپہ کینال 60 ہزار ہیکٹر زمین کو سیراب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس منصوبے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں کام کرنے والے ملازمین سے لے کر انجینئر، نقشہ، سیمنٹ، سریا، بجٹ اور منصوبے کی نگرانی کرنے والے تک سب افغانی ہیں۔ اس میں کام کرنے والی مشینری بھی بیرون سے درآمد نہیں کی گئی، بلکہ اکثر وہی مشینری ہے جو کئی دہائیوں سے افغانستان میں موجود ہے اور درست طریقے سے کام کر رہی ہے۔
اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اسے تین مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلے مرحلے میں 108 کلو میٹر نہر کی کھدائی کی جائے گی۔ اس میں سے فاضل مٹی نکال کر نہر کے کناروں میں ان جگہوں پر ڈالی گئی جو دریائے آمو کے پانی کے نذر ہوگئی تھیں۔ ان جگہوں پر مٹی ڈالنے کے بعد سبزہ اور درخت لگائے جائیں گے۔ جس سے نہ صرف کینال کی خوب صورتی میں اضافہ ہوگا بلکہ ہوا کی صفائی ستھرائی کا سبب بھی بنے گا۔ 108 کلو میٹر کا یہ علاقہ صوبہ بلخ کے ضلع کلدار سے لے کر نہر شاہی اور ضلع دولت آباد سے گزرتا ہے۔ کینال کے نقطہ آغاز پر واٹر کنٹرول عمارتوں کی تعمیر، کینال کے ساتھ 108 کلو میٹر طویل مختلف مقامات پر پل اور دیگر عمارتیں بھی تعمیر کی جائیں گی۔ پہلے مرحلے کی تکمیل پر 16 ارب 67 کروڑ 80 لاکھ افغانی لاگت آئے گی۔ جس کا کام 75 فی صد تک مکمل ہوچکا ہے۔
دوسرا مرحلہ ضلع دولت آباد سے شروع ہوکر صوبہ بلخ کے شور تیپہ، خواجہ دوکوہ اضلاع سے ہوتے ہوئے صوبہ فاریاب کے چار اضلاع تک جاتا ہے۔
تیسرا مرحلہ کینال سے چھوٹی چھوٹی نہروں کی تعمیر و ڈیزائن پر مشتمل ہے۔ اس مرحلے میں زرعی زمینوں کے لیے آب پاشی کا بندوبست کیا گیا ہے۔ جس سے کاشت کار اپنی زرعی زمینیں سیراب کریں گے۔
نیشنل ڈویلپمنٹ کمپنی ہر ماہ کینال پر ہونے والے کام سے متعلق محکمہ انتظامی امور کو رپورٹ دیتی ہے۔
اس منصوبے کی تکمیل کے بعد ہزاروں ہیکٹر خشک اور بنجر زمین سیراب ہوجائے گی۔ جس سے پھل، غلہ اور سبزی جات کے فصلوں میں اضافہ ہوگا۔ ہوا صاف ہوجائے گی، نایاب نسل کے پرندوں می اضافہ ہوگا۔ وہ غریب زمین دار جو ٹیوب ویل لگانے کی استطاعت نہیں نہیں رکھتے ان کی زمین سیراب ہوکر قابل کاشت ہوجائے گی، غربت کی شرح میں کمی آئے گی، زراعت کے شعبے میں ہم خود کفیل ہوجائیں گے، مستقبل میں اس کینال پر پاور پلانٹ بنا کر بجلی بھی پیدا کیا جائے گا۔ جس سے رفتہ رفتہ توانائی کے شعبے میں بھی دوسرے ممالک پر ہمارا انحصار کم ہوتا جائے گا۔

قوش تیپہ کینال پر ازبک صدر کی تشویش:

اس کینال پر مختلف عالمی نشریاتی اداروں نے تفصیلی رپورٹس بنائی ہیں۔ کئی سربراہان مملکت نے اس پر رد عمل ظاہر کیا ہے۔ حالیہ دنوں ازبکستان کے صدر شوکت میر ضیایف نے بھی اس کینال پر اپنی تشویش ظاہر کی۔ ازبکستان کے صدر نے وسطی ایشیائی ممالک کے پانچویں سربراہی اجلاس میں قوش تیپہ کینال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: “آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ افغان حکومت بڑی سرعت کے ساتھ فعال طریقے سے ایک نہر بنا رہا ہے۔ اس نہر کے بن جانے سے وسطی ایشیا میں پانی کا توازن تبدیل ہوسکتا ہے۔” انہوں نے قوش تیپہ کینال پر افغانستان اور ازبکستان کے مشترکہ مفاہمتی ٹیم تشکیل دینے کی تجویز بھی دی۔
ازبکستان افغانستان کے ان پڑوسی ممالک میں سے ہے جن کے ساتھ موجودہ افغان حکومت کے بہتر تعلقات قائم ہیں۔ مگر قوش تیپہ کینال پر ازبک صدر شوکت میر ضیایف کی تشویش بلا جواز ہے۔ ایک تو قوش تیپہ کینال پر جس وقت کام شروع ہو رہا تھا اس وقت ازبکستان کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم آئی تھی۔ جس نے کینال کا دورہ کیا اور امارت اسلامیہ افغانستان کے حکام کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی۔ اس وقت نہ ٹیم کو کوئی قابل اعتراض نکتہ ملا اور نہ صدر صاحب کو اس پر کوئی تشویش ہوئی۔ اس سے 1958 میں افغانستان، تاجکستان، ازبکستان، کرغزستان اور ترکمانستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی بھی پاس داری ہوگئی، جس کی رو سے پانچوں ممالک باہمی افہام و تفہیم اور بات چیت سے دریائے آمو کے پانی سے استفادہ کرنے کے مجاز ہوں گے۔
اب ان پانچوں ممالک کے بھی دو گروپس ہیں۔ ایک گروپ وہ ہے جس کے پہاڑوں سے دریائے آمو بنتا ہے اور ان ممالک کے ایک بڑے حصے پر اسی دریا کا پانی بہتا ہے۔ ان میں تاجکستان اور افغانستان ہیں۔ دوسرا گروپ بقیہ تین ممالک کا ہے جس کی سر زمین پر دریائے آمو کا پانی بہتا ہے۔ ماضی میں دریائے آمو کے پانی سے افغان حکومتوں نے کوئی استفادہ نہیں کیا۔ جیسے دریائے ہلمند کا پانی مفت میں ایران میں بہتا تھا اسی طرح دریائے آمو کا پانی بھی کسی منصوبہ بندی کے بغیر ازبکستان، کرغزستان اور ترکمانستان میں بہتا تھا۔ اب نئی حکومت نے اس پانی کو اسٹور کرنے اور اسے اپنی ضرورت میں لانے کےلیے کوئی منصوبہ شروع کیا ہے تو اس پر کسی کو کوئی تشویش نہیں ہونی چاہیے۔ یہ دنیا کا مسلمہ قانون کہ کسی ملک کے وسائل پر سب سے پہلے اس ملک کے لوگوں کا حق ہے۔ دریائے ہلمند کے پانی کا جو معاہدہ ایران کے ساتھ طے پایا تھا اس میں صاف لکھا ہے کہ افغانستان کی ضرورت سے زائد پانی سے ایران استفادہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وسائل پر سب سے پہلے باشندگان ملک کا حق ہے بعد میں دوسرے ممالک کو بھی معاہدے کی صورت میں دیا جاسکتا ہے۔
یہاں دریائے آمو پر کینال بنانے پر تشویش بھی اس ملک کو ہے جو دریائے آمو کے پانی کے استحقاق کے حوالے دوسرے نمبر پر ہے۔ جہاں دریا بنتا نہیں بلکہ صرف بہتا ہے اور کینال بن جانے کے بعد بھی 6 فی صد پانی ازبکستان کو پہنچ ہی جائے گا۔