قیدیوں کا موضوع اور نئے بہانے

ہفتہ وار تبصرہ قطر میں افغان مسئلے کےحل کی غرض سے طے پانے والے معاہدے کا ایک اہم حصہ بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہے، قیدیوں کے تبادلے کا مسئلہ معاہدے کی ابتدائی شرط کی حیثیت سے قرار پایا تھا۔ گذشتہ چند مہینوں میں بار بار رکاوٹوں کے باوجود تبادلہ کافی حد تک مکمل ہوا […]

ہفتہ وار تبصرہ

قطر میں افغان مسئلے کےحل کی غرض سے طے پانے والے معاہدے کا ایک اہم حصہ بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہے، قیدیوں کے تبادلے کا مسئلہ معاہدے کی ابتدائی شرط کی حیثیت سے قرار پایا تھا۔ گذشتہ چند مہینوں میں بار بار رکاوٹوں کے باوجود تبادلہ کافی حد تک مکمل ہوا ہے،مگر حال ہی میں ایک بار کابل انتظامیہ کے حکام نے تبادلے کے مکمل ہونے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سہارا لیا ہے۔

منگل کےروز کابل انتظامیہ کے وزیرخارجہ محمد حنیف اتمرنے  پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کابل انتطامیہ اس وجہ سے باقی قیدیوں کو رہا نہیں کرتی، ان کے مطابق دراصل عالمی برادری ان قیدیوں کی رہائی سے متفق نہیں ہے۔

اتمر کی بات ان بہانوں میں سے آخری بہانہ ہے،جو قیدیوں کے تبادلے کے عمل میں رکاوٹ کھڑی کرنیکی غرض سے صدارتی محل کے حکام اٹھارہے ہیں۔ اس سے قبل وہ کہتے کہ یہی قیدی بیرونی ممالک کے شہری ہیں۔  کبھی یہ بہانہ بناتے کہ وہ اسمگلنگ اور اغوا برائے تاوان میں ملوث ہیں۔ مگر جب ان کے وہ تمام بہانے غلط اور بےبنیاد ثابت ہوئے، تو اب کہہ رہے ہیں کہ عالمی برادری ان قیدیوں کی رہائی پر راضی نہیں ہے۔

کابل انتظامیہ کے حکام اس حال میں اس بہانے کی یادآوری کررہا ہے کہ اب تک دنیا کے کسی ملک یا تنظیم نے قیدیوں کی رہائی سے مخالفت ظاہر نہیں کی ہے۔ بلکہ عالمی برادری کو اس عمل سے مخالفت نہیں کرنا  چاہیے، جو ہمارے ملک کے تنازعہ کو حل اور ملک کو امن کی جانب لے جاتا ہو۔ واضح حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور دنیا کے اکثرممالک نے  قطر میں طے پانے والے معاہدے کی توثیق اور اس کا استقبال کیا ۔ چونکہ افغان مسئلے کا حل ملک اور دنیا کے مفاد میں ہے، تو لازمی ہے کہ تمام فریق اس عمل کی کامیابی کی راہ میں اپنی سہولتیات اور تعاون  فراہم کریں، ایسا نہیں کہ اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کریں۔

امارت اسلامیہ ایک بار پھر اصرار کرتی ہے کہ مخالف فریق معاہدے کے نفاذ کے عمل میں اپنی ذمہ داریوں کو درک اور ان پر عمل درآمد کریں۔ اس ضمن میں قیدیوں کے تبادلے کی تکمیل ایک اہم اور بنیادی مسائل میں سے ہے۔ اس کے علاوہ معاہدے کی وہ خلاف ورزیاں بھی روک دی جائیں، جن میں حالیہ دنوں میں اضافہ ہوا ہے۔

اگر کابل انتظامیہ کے حکام واقعی بین الافغان مذاکرات چاہتے ہیں، تو انہیں قیدیوں کے تبادلے کی تکمیل کے عمل میں اپنی ذمہ داری کو پوری کرنا چاہیے۔ کل انجام دینے والے کام کو آج ہی مکمل کرنا چاہیے، کیوں کہ اس ضمن میں تعلل اوربہانہ جوئی صرف ان کے امن مخالف فطرت کو بےنقاب کرتا ہے اور ان کے خلاف عوامی جذبات کی سطح  کو بلند کرتی ہے۔