قیدیوں کیساتھ ناروا سلوک کے حوالے  سے اقوام متحدہ اور نیٹو تنظیم کی قیادت کو مظلوم قیدیوں کے خاندانوں کی جانب سے کھلا خط

افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد افغان حکام اور ان کے بیرونی حامیوں کی جانب سے ایسے ہزاروں افغان گرفتار کرہوئے، جن پر ان کے والد، بھائی، دوست اور رشتہ دار کے مجاہد ہونیکا شک اور الزام تھا۔  جیلوں میں انہیں کسی قسم کی انسانی حقوق کی سہولیات فراہم نہیں کی گئی اور ان کے […]

افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد افغان حکام اور ان کے بیرونی حامیوں کی جانب سے ایسے ہزاروں افغان گرفتار کرہوئے، جن پر ان کے والد، بھائی، دوست اور رشتہ دار کے مجاہد ہونیکا شک اور الزام تھا۔  جیلوں میں انہیں کسی قسم کی انسانی حقوق کی سہولیات فراہم نہیں کی گئی اور ان کے انسانی کرامت مسلسل پامال ہوتے رہے۔

جارحیت کے ابتداء سے تاحال قیدیوں پر تشدد، عقوبت خانوں میں اسکے ساتھ ظالمانہ سلوک کیاجانا اور  انہیں پراسرار طور شہید کرنا جاری ہے۔پندرہ سالوں کے دوران عالمی اداروں نے مصدقہ رپورٹیں شائع کیں، مگر کابل ظالم رژیم اور امریکی وحشیانہ سلوک میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہ کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظمیں اور عالمی ذمہ دار جہت ان کا اعمال کا مشاہدہ کررہا ہے اور غیرجانبدار  رہتے ہیں۔ قیدیوں پر تشدد کرنے والے مزید ہمت کرتے ہیں اور ایک منظم پروگرام کی رو سے مظلوم قیدیوں کیساتھ وحشیانہ سلوک عروج کو پہنچا ہے۔

یہ کہ انسانی کرامت کو احترام اور لاچار افراد کے حقوق کا رعایت ایک تسلیم شدہ اقدار ہے، جو جنگی حالت اور سیاسی مناسبت کا قربانی نہ ہوجائے۔ ہم اقوام متحدہ اور نیٹو تنظیم کی قیادت کو یاد دلاتے ہیں کہ قیدیوں کے بارے میں کابل انتظامیہ کی ظالمانہ اور غیرقانونی اعمال کا روک تھام کریں  اور اس بارے میں چھپ نہ رہے۔ ابھی بھی ملک کے جیلوں میں متعدد ایسے قیدی موجود ہیں، جن کے قید کی قانونی مدت پوری ہوئی ہے اور یا ناقابل قید ہے، مثلا کم عمر قیدی اور یا وہ افراد جو لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ اسی طرح ملک کے مختلف علاقوں میں کابل انتظامیہ سے منسلک ایسے ظالم کمانڈروں کو ذمہ داری دی گئی ہے،جن کے ذاتی ٹارچر سیلیں ہیں اور مختلف الزامات اور شکوک کے بنیاد پر طلبہ، کاسب، کسان اور تاجر کو گرفتار کرکے وہاں پابندسلاسل کرتے ہیں، اس کے بعد کافی رقم کی ادائیگی میں رہا  اور یا پراسرار طور پر قتل کیے جاتے ہیں، جن میں سے اکثر کی اجساد ایسے حالت میں ملتے ہیں ، جن پر تشدد کے آثار دور دور سے معلوم ہوتے ہیں۔ کابل انتظامیہ اور امریکی سپیشل فورس اہلکاروں کی جانب سے اغواء، قتل، تشدد، ذاتی عقوبت خانے اور حتی جیلوں سے قیدیوں  کو نکالنے اور پھر انہیں شہید کرنے کی مصدقہ ثبوت موجود ہے۔ اس بارے میں ان کے اعمال عین جرمنی نازیوں کے اعمال سے مشابہہ ہیں۔ اس نوعیت کی بعض واقعات ریڈکراس ، انسانی حقوق کی مقامی اور عالمی اداروں کے پاس بھی ثبت ہیں۔

قیدیوں کے خاندان اس ملت کے مظلوم قیدیوں کے ورثا کے  طور پر اپنے قیدی رشتہ داروں کے لیے اسلامی اور انسانی اصولوں کی روشنی میں انسانی سلوک کے طلبگار ہیں  اور تمام حقوق کی رعایت کی پرزور مطالبہ کرتی ہے۔

نہتے قیدیوں کیساتھ کابل انتظامیہ کا اس نوعیت برا سلوک ہمیں کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے  اور اسے انسانی معاشرے کی پیشانی پر ایک سیاہ دھبہ سمجھتے ہیں، جو انسانیت کے خلاف چند لاچار انسانوں کیساتھ ایسا وحشت دہرایا جاتا ہے۔ انسانی کرامت کا مذاق اڑا یا جاتا ہے اور عالمی انسانی معاشرہ اس کے خلاف کسی قسم کی ذمہ داری کا احساس نہیں کرتا۔

اقوام متحدہ اور خاص کر یوناما اور نیٹو جس نے کابل انتظامیہ کی ڈھانچہ کو  جنم دی اور سیاسی و فوجی امور اس کے  فنڈنگ، حمایت اور  انتظامی امور سرانجام دے رہیں،ان تمام مظالم کی ذمہ دار ہے اور یہ ان کی ایک انسانی ذمہ داری ہے کہ اس بارے میں وضاحت پیش کریں اور قیدیوں کیساتھ ہونے والے غیر انسانی اور غیر قانونی سلوک کے متعلق اپنی خاموشی توڑ دیں۔ انسانی حقوق سیاست کی قربانی نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی کسی کو اتنا موقع دیا جائے، جو  سیاسی  اور ذاتی اہداف کے لیے انسانی حقوق اور  انسانی اقدار کو پامال کریں۔

کابل انتطامیہ کا خیال ہے کہ اس نوعیت  وحشت سے افغان عوام کی خودمختاری کے جاری جدوجہد اور مزاحمت کو کمزور کریں، لیکن گذشتہ پندرہ سالوں نے ثابت کردی کہ  افغان زور اور وحشت کے طریقے سے اپنے برحق داعیہ سے کسی طور پر ہٹنے والے نہیں ہیں۔ اگر وحشت کے ذریعے افغان عوام سرنڈر ہوتے، تو کیمونسٹوں کے ظلم و بربریت کے سامنے سرخم کرلیتے۔ اس حقیقت کو کابل انتظامیہ کے وہ بیرونی حامی بھی سمجھ لے، جو تاحال طاقت آزمائی اور تشدد کے ذریعے  اپنے کامیابی کے بےتعبیر خواب دیکھ رہے ہیں۔

افغانستان میں مظلوم قیدیوں کی خاندانوں کی جانب سے

یکم شعبان المعظم 1437ھ بمطابق 08/ مئی 2016ء