قیدی سیاسی مقاصد کے لیے قربان نہ کیے جائیں

آج کی بات: کابل انتظامیہ کی جانب سے جیلوں میں قیدیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جاتے ییں۔ ذاتی رنجش اور مجاہدین کے ساتھ تعاون کے شبہ میں سیکڑوں قیدی عدالتی حکم کے بغیر سالہا سال سے جیلوں میں پڑے ہیں اور پھر ان کے پراسرار طور پر شہید ہونے کی اطلاع ملتی ہے۔ کابل […]

آج کی بات:

کابل انتظامیہ کی جانب سے جیلوں میں قیدیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جاتے ییں۔ ذاتی رنجش اور مجاہدین کے ساتھ تعاون کے شبہ میں سیکڑوں قیدی عدالتی حکم کے بغیر سالہا سال سے جیلوں میں پڑے ہیں اور پھر ان کے پراسرار طور پر شہید ہونے کی اطلاع ملتی ہے۔

کابل انتظامیہ کے جیلوں میں قیدی مختلف بیماروں کے شکار ہیں۔ انہیں بھوک، افلاس، نفسیاتی مسائل اور جسمانی تشدد کا سامنا ہے۔ ان جیلوں میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ کابل انتظامیہ اور قابض قوتوں کے جیلوں میں قیدیوں کو غیرانسانی سلوک کا سامنا ہے۔ افغان اہل کاروں اور امریکی افواج نے بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں، جو کہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔

جن قیدیوں کے قید کی مدت پوری ہو چکی ہے، انہیں بھی رہا نہیں کیا جا رہا۔ اب بھی کابل انتظامیہ کے مخلتف جیلوں، بالخصوص بگرام، قندھار اور پل چرخی میں ہزاروں مظلوم قیدی اذیت ناک صورت حال میں ناجائز طور پر سزا کاٹنے پر مجبور کیے گئے ہیں۔

کابل انتظامیہ کے جیلوں میں بیشتر قیدیوں کو مجاہدین کے ساتھ تعاون کے شبہ میں گرفتار کیا گیا ہے یا ان پر الزام ہے کہ ان کے باپ، بھائی، دوست اور رشتہ دار امارت اسلامیہ کی صف میں کھڑے ہیں۔ ان قیدوں کے ساتھ بگرام جیل کے ڈائریکٹر میرصاحب گل اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل صفی کی جانب سے ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔

کابل انتظامیہ کے کچھ جرنیلوں اور کمانڈروں نے نجی جیلوں کو قائم کر کے غیرقانونی طور پر ان میں لوگوں کو قید کیا ہوا ہے۔ ان جیلوں میں کسی قسم کے قانون اور انسانی عظمت کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ مختلف بے جا الزامات اور شبہ میں طالب علموں، کاری گروں، کسانوں اور تاجروں کو مہینوں اور سالوں تک جیلوں ڈال کر ناکردہ گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے۔ آخرکار  بھاری رسوت کے بدلے انہیں رہا کیا جاتا ہے، جب کہ بہت سے قیدی تشدد سے جاں بحق بھی ہو جاتے ہیں۔

نجی جیلوں کے علاوہ کابل انتظامیہ کے بعض حکام اور کمانڈروں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مختلف صوبوں میں قائم جیلوں سے عدالتی کارروائی کے بغیر قیدوں کو اٹھا کر ان پر بہیمانہ تشدد کریں اور ان میں سے بہت سارے قیدوں کو سخت تشدد کے دوران شہید کیا گیا ہے۔ جنوب مغربی صوبے ہلمند میں جنرل عبدالرازق ہیں۔ مصدقہ معلومات اور قندھار جیل کے حکام کے اعتراف کے مطابق جنرل عبدالرازق کے اہل کار قندھار کے سب جیلوں سے ہر رات دس سے پندرہ قیدیوں کو اٹھا کر ان پر تشدد کرتے ہیں، بعدازاں ان شہدا کی لاشیں کسی ویرانے میں پڑی ملتی ہیں۔

کابل انتظامیہ کا خیال ہے کہ اس طرح کی وحشت اور سربریت سے افغان عوام کو آزادی کی جدوجہد سے روک پائیں گے۔ ان کی مزاحمت ختم کر دیں گے، لیکن گزشتہ پندرہ سال کی تاریخ نے یہ ثابت کر دیا کہ افغان عوام کو جبر، وحشت اور ظلم کے ذریعے اپنی جائز جدوجہد سے دست بردار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ظلم و ستم کے ذریعے افغان عوام کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جاتا تو کمیونسٹوں کی سربریت اور ظلم کے سامنے لوگ ہتھیار ڈال کر سر جھکا لیتے، لیکن ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔

کابل انتظامیہ کے جیلوں میں مظلوم قیدوں پر تشدد قابل مذمت ہے اور یہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے، لیکن وہ اس پر خاموش ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور کمیونٹی کے لوگوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان انتظامیہ کے جیلوں میں موجود قیدوں پر تشدد اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینا چاہیے۔ مجرموں کے خلاف جنگی جرائم کے قوانین کے مطابق کارروائی پر زور دیاجائے۔ انسانی حقوق کی علم بردار تنظیمیں سیاست کی بھینٹ چڑھیں اور نہ ہی کسی کو یہ اجازت دی جائے کہ وہ انسانی حقوق اور انسانی اقدار کو سیاسی و ذاتی مقاصد کے لیے پامال کرے۔