کابل

ماسکو فارمیٹ اجلاس سے افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کا خطاب

ماسکو فارمیٹ اجلاس سے افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کا خطاب

ماسکو فارمیٹ اجلاس سے افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کا خطاب
بسم الله الرحمن الرحیم
حامداً و مصلیاً و بعد،
سب سے پہلے میں روسی فیڈریشن اور جمہوریہ تاتارستان کی حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس اجلاس کے انعقاد کو ممکن بنایا اور امارت اسلامیہ افغانستان کی نمائندگی کے لیے ہمیں شرکت کی دعوت دی تاکہ افغانستان کی تازہ ترین سیاسی، سیکیورٹی اور معاشی پیش رفت پر اجلاس کے شرکا کے ساتھ ہمہ جہت تبادلہ خیال کیا جا سکے۔

معزز سامعین!
دو سال قبل 16 اکتوبر 2021 کو امارت اسلامیہ افغانستان کے ایک موقر وفد نے ماسکو فارمیٹ کے اجلاس میں ایسی صورت حال میں شرکت کی جب افغانستان میں نیٹو اور امریکی جارحیت ختم اور ان کی بیساکھی پر کھڑی کابل انتظامیہ تحلیل ہوگئی تھی۔ تب امارت اسلامیہ افغانستان کی حکومت کو کام شروع کیے ہوئے تازہ ترین ایام تھے۔ اس وقت مستقبل کی گورننس، حکومتی اداروں کی بحالی، خصوصا امن و امان کے قیام، وزارتوں کی دوبارہ فعالی اور منشیات کے حوالے سے گہرے خدشات اور سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھائے گئے تھے۔ ہمیں اللہ تعالی کی خصوصی نصرت، عوام کی حمایت اور اپنے پختہ عزم پر یقین تھا کہ بیرونی جارحیت ختم ہوتے ہی ہم ایک آزاد، پرامن اور خوش حال افغانستان کا سنگ بنیاد رکھیں گے اور الحمد اللہ یہ کام ہوگیا اب اس کے استحکام پر کام کیا جا رہا ہے۔
گذشتہ دو سالوں سے اس فارمیٹ اور دیگر فارمیٹس میں ہم نے افغانستان کی سیکیورٹی صورت حال کے بارے میں خطے اور دنیا کو اطمینان دلایا کہ امارت اسلامیہ افغانستان ایک ذمہ دار حکومت کے طور پر ایسے کسی گروہ کو اجازت نہیں دے گی کہ وہ افغانستان کی سر زمین دنیا، خطے اور خصوصا پڑوسی ممالک کی سلامتی کے خلاف استعمال کرے۔ امارت اسلامیہ افغانستان نے یہ وعدہ اچھی طرح نبھایا ہے۔
گذشتہ دو سالوں میں اپنی حکومت کی سیاسی، سیکیورٹی اور اقتصادی بنیادوں کی تعمیر نو کرنے کے ساتھ ہم نے بیرونی غاصبین کے سائے میں تربیت پانے والے جنگجو گروپوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم کیا اور انتہائی پیشہ ورانہ طریقے سے پورے ملک میں داعش کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ہم نے افغانستان سمیت پورے خطے کی سلامتی کے خلاف ایک بڑی سازش کی آخری کوشش ناکام بنا دی۔

معزز سامعین!
پچھلی نصف صدی میں افغانستان کو بہت سے سیاسی، سیکیورٹی، اقتصادی، سماجی اور خاص طور پر حکومتی قانونی حیثیت کے بحران کا سامنا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ علمی اور عملی تجربے سے معلوم ہوا کہ بحران کی اصل جڑ افغانستان کے اندرونی مسائل کے حل کے لیے بیرونی تجربات، بیرونی تہذیب اور بیرونی احکامات کا اطلاق تھا۔ جس میں ہمارے جغرافیہ، تاریخ، ثقافت، مذہبی اور سماجی اقدار کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا تھا۔ ہمارے اس دعوے کی مثال ہماری حکومت کے دو سال ہیں۔ ہم نے بغیر کسی بیرونی مدد اور تعاون کے جنگ کا خاتمہ کرکے امن و امان کے قیام کو یقینی بنایا، پورے افغانستان میں ایک مرکزی حکومت کا قیام ممکن بنایا، بجٹ کو خود مختار بنایا، افغانستان سے کسی ملک کی سالمیت کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیا، منشیات کے خلاف مؤثر جنگ لڑی، سرکاری اور نجی شعبوں میں ملازمتوں کے مواقع بڑھائے، انصاف تک رسائی کو ہر ضلع اور گاؤں تک بڑھایا، تجارت، ٹرانزٹ اور سرمایہ کاری کے لیے سہولیات پیدا کیں، ملک کے مختلف حصوں میں تعمیر نو کے منصوبوں کا آغاز کیا اور عوام کے محروم طبقات کو خدمات کی فراہمی میں شفافیت کو یقینی بنایا۔ یہ سب کامیابیاں گذشتہ دو عشروں میں نام نہاد جامع جمہوری حکومت لاکھوں ملکی اور غیر ملکی فوجیوں، جدید ہتھیاروں، وسیع مالی امداد اور خطے اور مغربی ممالک کی سیاسی حمایت کے باوجود حاصل نہیں کرسکی۔ جس کی بنیادی وجہ بیرونی احکامات ماننے کے نتیجے میں عوام کے سامنے حکومت کی قانونی حیثیت کا بحران تھا جس کے خلاف عوام نے علم بغاوت بلند کیا۔ اس لحاظ سے ہم نے افغان عوام کے دینی، تاریخی، ثقافتی اور خاص طور پر سیاسی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایسی حکومت قائم کی ہے جو گڈ گورننس کے ساتھ ساتھ مذہبی اور قومی جواز بھی رکھتی ہے۔
مجھے امید ہے کہ خطے اور دنیا کے دیگر ممالک بھی ان حقائق پر مہر تصدیق ثبت کریں گے، کیوں کہ گذشتہ 45 سالوں میں غیر متعین جامع حکومت  سمیت کسی بیرونی نسخے نے افغانستان کے مسائل کو حل نہیں کیا۔
جس طرح ہم دوسرے ممالک کو طرز حکمرانی کے مشورے نہیں دیتے، دنیا خصوصا پڑوسی ممالک سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ طرز حکمرانی کا مشورہ دینے کی بجائے امارت اسلامیہ افغانستان کے ساتھ ہر شعبے میں رسمی تعلقات کو فروغ دیں۔ تاکہ ایک طرف افغانستان سے شرپسند عناصر کی امیدیں ختم ہوں دوسری جانب دنیا کی ستر فی صد آبادی، زیادہ تر دولت اور ایک تہائی توانائی رکھنے والے یورو ایشیا کے خطے سے علاقائی استحکام اور خوش حالی کے لیے استفادہ ممکن ہو۔

معزز سامعین!
آخر میں چند اہم امور کی جانب خصوصی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔
1: اب جب کہ افغانستان میں جارحیت کا خاتمہ ہوچکا، امن و امان بحال ہوچکا اور ایک مضبوط سیاسی عزم موجود ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان پر مرکوز علاقائی کنیکٹیویٹی کے منصوبوں پر عمل درآمد کیا جائے۔ معیشت پر مبنی خارجہ پالیسی کی بنیاد پر ہم علاقائی رابطوں کے لیے تمام ضروری سہولیات فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں، چاہے وہ ٹرانسپورٹ ہو یا توانائی کی ترسیل۔  نئی سیاسی پیش رفت کے بعد اب پہلے سے کہیں زیادہ حالات “شمالی و جنوبی تجارتی راہ داری” کے نفاذ کے لیے موزوں ہیں۔ یہاں ہم روسی فیڈریشن کے وزیر اعظم مسٹر میخائل میشوسٹن کے ان بیانات کی تائید اور خیر مقدم کرتے ہیں، جس میں انہوں نے کہا کہ “روس افغانستان اور جنوبی ایشیا سمیت یورو ایشیا کے خطے میں تجارتی راستوں کی ترقی پر توجہ دینے کے لیے تیار ہے۔” خطے کے ممالک کے لیے بھی اپنے مفادات کا تحفظ اور مواقع سے استفادہ کرنے کو ترجیحی بنیادوں پر اہمیت دینا چاہیے۔
2: افغانستان میں اقتصادی تعاون، تجارت اور سرمایہ کاری کی مضبوط صلاحیت ہے اور ہم انفراسٹرکچر کے منصوبوں، توانائی، کان کنی، زراعت، مواصلاتی لائنوں خصوصا ریلوے لائن کے لیے بغیر کسی تفریق کے تیار ہیں جو پورے خطے کو افغانستان کے راستے سے ملاتی ہے، اس سلسلے میں ہم ضروری سہولیات فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
3: ہم اسمگلروں اور دیگر تخریبی عناصر کی نقل و حمل روکنے کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدی تعاون کے شعبے میں اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اجتماعی تعاون کی ضرورت ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں مؤثر کوششیں کی ہیں اور ہم نے منشیات کی کاشت اور اسمگلنگ کو صفر کی شرح پر لانے کے لیے جدوجہد کی ہے۔  لیکن اسمگلنگ کے شعبے میں چوں کہ دو طرفہ تعاون کی ضرورت ہے، اس لیے ہمیں متعلقہ ممالک کے تعاون کی ضرورت ہے۔
4: گذشتہ دو سالوں کے دوران افغانستان نے بہت سے ممالک خصوصا خطے کے ممالک کے ساتھ وسیع سیاسی اور سفارتی بات چیت کا آغاز کیا ہے۔ اس سلسلے میں خطے کے ممالک نے پیش قدمی کی جس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ ہم اسے خطے کے ممالک اور دنیا کے ساتھ سفارتی تعلقات کا ایک نیا باب سمجھتے ہیں۔ مثلا عوامی جمہوریہ چین نے سفارتی آداب کے مطابق امارت اسلامیہ افغانستان میں اپنا سفیر تعینات کردیا ہے۔  ہم امید کرتے ہیں کہ چین کا یہ اقدام دوسرے ممالک کے لیے اچھی مثال بنے گی اور ہمارا سفیر بھی قبول کریں گے تاکہ باہمی مفاد کے پیش نظر موثر روابط کی بنیاد فراہم ہوسکے۔

5: دنیا کے مختلف ممالک سے سیاح، سفارت کار، امدادی کارکن، صحافی اور محقق پورے اعتماد کے ساتھ افغانستان آتے ہیں اور پورے ملک میں آزادانہ گھومتے ہیں۔ اس لیے ہم ایک بار پھر اعلان کرتے ہیں کہ جس کو بھی افغانستان میں سکیورٹی یا منشیات کی فکر ہے وہ خود سازشی عناصر کے پروپیگنڈوں پر کان دھرنے اور اس خود غرضانہ پروپیگنڈے پر مبنی ردعمل کا اظہار کرنے کی بجائے خود ہی افغانستان آ جائیں، وفود بھیجیں اور سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ تاکہ ان کی تشویش دور اور اطمینان حاصل ہوں۔
آخر میں اس اقدام پر روسی فیڈریشن کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ، ایک بار پھر پڑوسیوں اور خطے کے ممالک سے مطالبہ کرتا ہوں کہ افغانستان ان سب کے ساتھ مشترکہ جائز مفادات کی بنیاد پر مثبت بات چیت کے لیے تیار ہے اور ہمیں امید ہے کہ تمام ممالک اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس موقع سے استفادہ کریں گے۔
توجہ کے لیے شکریہ!