ماہنامہ شریعت کے کالم نگار جناب اکرم تاشفین سے خصوصی گفتگو

ماهنامه شریعت کی کامیابی کی وجہ  اس کی متوازن پالیسی ہے ۔ تین سال کی قلیل مدت میں بڑے میڈیا ذرائع میں جگہ بنا چکا ہے ۔جاندار مستقل وغیر مستقل مضامین سے بہت سے اخبارات استفادہ کرتے ہیں ۔ اس سال پرنٹ اشاعت میں ہزاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔ انٹر ویو: مولوی محمد […]

ماهنامه شریعت کی کامیابی کی وجہ  اس کی متوازن پالیسی ہے ۔

تین سال کی قلیل مدت میں بڑے میڈیا ذرائع میں جگہ بنا چکا ہے ۔جاندار مستقل وغیر مستقل مضامین سے بہت سے اخبارات استفادہ کرتے ہیں ۔

اس سال پرنٹ اشاعت میں ہزاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔

انٹر ویو: مولوی محمد فاروق

سوال: جناب تاشفین صاحب! حالیہ شمارے کے ساتھ ماہنامہ شریعت کی مسلسل کامیاب اشاعت کے تین سال مکمل ہو رہے ہیں۔ جب سے ماہنامہ شریعت کا آغاز ہوا ہے، اب تک کاسفر آپ کے سامنے ہے۔ تین سالہ اس سفر کو آپ کیسے محسوس کرتے ہیں؟ میگزین کے مضامین اور مستقل سلسلوں کے حوالے سے آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟

جواب: شکریہ! گزشتہ تین برسوں  میں آغاز سے اب تک کے ارتقا کا سفر بہت کامیاب جا رہا ہے۔ کسی بھی رسالے یا اخبار کا معیار پرکھنے کے لیے ہم عصر میگزینز سے تقابل کے ساتھ ساتھ اس کے انتظامی شعبے اور سیاسی حالات کا پس منظر جاننا بھی نہایت ضروری ہوتا ہے۔ ماہنامہ شریعت اپنی ظاہری شکل وصورت سمیت کاغذ اور بائنڈنگ کے لحاظ سے بھی اپنے ہم عصر میگزینز میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ میگزین کے مضامین اور مستقل سلسلے اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے کے بعد آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس میں ملک بھر کی صورت حال اور مجاہدین کی کارروائیوں کی تفصیل موجود ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص افغانستان کی عمومی صورت حال یا مجاہدین کی کارروائیوں کے حوالے سے کچھ جاننا چاہتا ہے تو یہ میگزین کافی حد تک اس کی تشنگی دور کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی عالمی صورت حال پر طالبان کا مؤقف، امیرالمؤمنین کے پیغامات اور ذبیح اللہ مجاہد یا مرکزی شوری کے اعلامیہ جات… سب کچھ شریعت کے صفحات کی زینت بنتا رہتا ہے۔ کرنٹ افیئرز میں اندرون ملک کے علاوہ عمومی طور پر عالم اسلام کے سلگتے مسائل کے بارے میں کافی شافی معلومات ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اہم چیز متوازن تبصرے ہیں، یقینا وہ بھی شامل اشاعت ہوتے ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں اب تک ماہنامہ شریعت اپنے مقاصد میں کامیاب جا رہا ہے۔

سوال: بین الاقوامی میڈیا میں ماہنامہ شریعت کا کردار کتنا متاثر کن ہے اور اس حوالے سے کیا تبدیلی سامنے آئی ہے؟

جواب: اپنی اصول پسندانہ پالیسی اور معیاری مؤقف کے باعث شریعت نے تین سال کے کم ترین عرصے میں بڑے بڑے میڈیا اداروں اور صحافتی شخصیات سمیت عالمی شہرت رکھنے والے ممتاز علمائے کرام، صاحبِ قلم دانشوروں اور عالمی سیاسیات کے مبصرین کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ جن جن ممالک اور خطوں میں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، وہاں سے مختلف صحافی شخصیات اور علمائے کرام نے مختلف مواقع پر اپنی تحریروں میں ماہنامہ شریعت کے مضامین اور رپورٹس کے حوالے پیش کیے ہیں۔ ایڈ من کے مطابق فیڈ بیک میں موصول ہونے والے سیکڑوں برقی خطوط میں لوگوں نے نیک خواہشات اور تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔ شریعت کے مضامین اور مستقل سلسلوں کو پسند کیا گیا ہے۔ ماہنامہ شریعت کے شکریہ کے ساتھ یا بغیر حوالے کے بہت سی ویب سائٹس اور میگزینز نے شریعت کے مضامین شایع کیے ہیں۔ جن میں بہت سے مؤقر اخبارات اور معیاری تحقیقی مجلے شامل ہیں۔ ماہنامہ شریعت کی بعض رپورٹس سے لی گئی معلومات کئی بڑے اخبارات میں رپورٹ کی شکل میں شایع کی جاتی ہیں۔ قابل قدر فکری اور تحقیقی حلقوں تک اپنی آواز پہنچانا ماہنامہ شریعت کی اہم ترین کامیابی ہے۔ مَیں آپ سے ایک بات کہنا چاہوں گا کہ بہت سے صاحب علم لوگوں نے براہ راست ہمیں اپنی عقیدت ومحبت کے پیغامات بھیجے ہیں اور بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ ہم یہ رسالہ شروع سے آخر تک پڑھتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ شریعت ہی کی خاصیت ہے کہ لوگ اسے اول تا آخر پڑھتے ہیں۔ اس خصوصیت سے بڑے بڑے اخبارات اور رسائل محروم ہیں۔

سوال: ماہنامہ شریعت کی پالیسی کے حوالے سے آپ کا خیال کیا ہے؟

جواب: شریعت کی وہی پالیسی ہے، جو امارت اسلامیہ کی ہے۔ مَیں ذاتی طورپر اپنے ساتھیوں سے کہا کرتا ہوں کہ آج کے دور میں دنیا بھر میں جتنی چھوٹی بڑی آزادی اور دفاع کی تحریکیں چل رہی ہیں، ان میں سب سے بہتر، متوازن ، بے جا شدت اور افراط وتفریط سے پاک پالیسی امارت اسلامیہ کی ہے۔ تمام عسکری تحریکوں کو امارت اسلامیہ کی تقلید کرنی چاہیے۔ اپنے مقصد اور ہدف پر ہر حال میں توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے۔ دشمن کے قیدیوں یا ان کے ہتھیار ڈالنے والے فوجیوں کے ساتھ قرآن کریم کے احکامات کی روشنی میں رحم دلی کا سلوک، مقابل فریق کے لیے شدید منافرت کے الفاظ تک کے استعمال سے پرہیز، خواتین، بچوں اور ضعیف حضرات کا خصوصی خیال رکھنا، عوام کے ساتھ تعاون اور ہمدردی کا سلوک، عوامی املاک کا تحفظ وغیرہ، اپنے زیر کنڑول علاقوں میں مثالی امن وامان کا قیام، انتقامی جذبات اور اپنے مؤقف کے حوالے سے ہٹ دھرمی سے احتراز امارت اسلامیہ کی وہ خصوصیات ہیں، جنہوں نے اسے دنیا بھر میں ایک مثالی مقام دیا ہے۔ گزشتہ دو عشروں سے مسلسل حالت جنگ اور ہر طرح کی شدید ترین آزمائشوں کے باوجود امارت اسلامیہ دنیا کے سامنے ایک اصولی مؤقف لیے کھڑی ہے۔ امارت کی قیادت ہر طرح کے انسانیت کش مظالم سہنے کے باوجود آج بھی انتقام سے احتراز کر رہی ہے۔ آج بھی اپنے دشمنوں کومعاف کرنے کے اسلامی جذبات سے سر شار ہے۔ دنیا بھر میں جتنی بھی اسلام پسندوں یا مظلوم اقوام کی حمایت کی تحریکیں چل رہی ہیں، امارت اسلامیہ شرعی طورپر جائز اور قانونی امور میں ان کی حمایت کرتی ہے۔ ان کا قانونی حق انہیں ملنا چاہیے۔ امارت اپنے پڑوسی ممالک سمیت دنیا بھر سے دوطرفہ احترام کی بنیاد پر اچھے تعلقات کی بحالی چاہتی ہے۔ اگر آج بھی امریکا افغانستان سے نکل جاتا ہے اور بے گناہ مسلمانوں پر مظالم یا دنیا پر تسلط کا خواب چھوڑ کر پُرامن طورپر رہتا ہے تو امارت اسلامیہ آج بھی اس کا احترام کرے گی۔ اس سے بہتر تعلقات کی بحالی چاہے گی۔

ماہنامہ شریعت نے اسلامی اور سیکولر جمہوری ممالک سمیت تمام ممالک میں اپنے جائز حقوق کے لیے کوشاں اسلامی تنظیموں کی حمایت کی ہے۔ جس طرح شریعت مطہرہ خواتین، بچوں یا بے گناہ عوام کے قتل کی اجازت نہیں دیتی، ماہنامہ شریعت نے بھی ہمیشہ اس کی مذمت کی ہے۔ جہاں بھی مظلوم مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ہے، امریکا نے دنیا بھر میں جہاں بھی بلاواسطہ یا بالواسطہ نہتے لوگوں پر ڈرون بمباریاں کیں یا طیاروں سے براہ راست لوگوں کو بمباری کا نشانہ بنایا ہے، ماہنامہ شریعت نے ہر قدم پر مظلوم کی حمایت اور امریکی مظالم کی مذمت کی ہے۔ بے جا طور پر کسی ملک کے معاملات میں مداخلت نہیں کی ہے۔ نان ایشوز کو ہم نے کبھی ایشو بنا کر نہیں اٹھایا۔

سوال: ماہنامہ شریعت کے مضامین میں ایسا کیا ہے، جو اب تک نہیں ہے، لیکن ہونا چاہیے؟

جواب: میرے خیال میں آج کی وسیع تر دنیا میں الیکٹرانک میڈیا کے شعبے نے بہت ترقی کی ہے۔ پرنٹ میڈیا کے معیارات میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں، مگر شریعت نے اب تک جو کارکردگی دکھائی ہے، بجا طورپر امید رکھی جانی چاہیے کہ ماہنامہ شریعت خود بہ خود ایک اچھے اور بہترین مستقبل کی جانب بڑھے گا۔ میرے خیال میں شریعت کو سیاسی مزاج سے زیادہ فکری مزاج دینا چاہیے۔ کرنٹ افیئرز پر رپورٹس اپنی جگہ ضروری ہیں، مگر امارت کو اپنی فکر اور سوچ دنیا کے سامنے واضح کرنے کے لیے رسالے کو فکری مزاج بھی دینا چاہیے۔ افغان عوام میں اسلام کی گہریں جڑیں، افغان ثقافت میں اسلامی اقدار کا نفوذ، افغان تاریخ میں اسلام کا کردار، قبل از اسلام اور بعد از اسلام افغانستان کی صورت حال، امارت اسلامیہ کا اسلامی مزاج اور فکری مآخذ، سرمایہ داریت اور مادہ پرستی کا شکار ہوئے بغیر جدید دور میں نفاذ اسلام کی صورت گری، موجودہ دور میں نبوی طریقے پر خلافت کی عملی شکل، ریاستی شیرازہ بندی کی جدیدشکل کے مطابق اسلامی خلافت کا ڈھانچہ اور اسی طرح افغانستان اور افغان طالبان کے حوالے سے فکری مضامین اس میگزین میں شامل اشاعت کیے جانے چاہییں۔ ماہنامہ شریعت میں امارت اسلامیہ کی رہبری شوری یا دیگر رہنماؤں کی جانب سے شایع ہونے والے اعلامیہ جات، پیغامات اور مضامین سیاسی صورت حال کے حوالے سے ان کے متوازن مؤقف پر مشتمل ہوتے ہیں، لیکن اگر سیاسی حالات اور کرنٹ موضوعات پر گفتگو کے ساتھ ساتھ علمی اور فکری انداز میں امارت اسلامیہ کے مقاصد اور اہداف کی وضاحتیں بھی اپنے پیغامات میں شامل کریں تو یہ آئندہ دور میں افغان عوام کے ساتھ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے دین کے مخلص داعیوں، خلافت اسلامیہ کے زعماء اور صاحب عزیمت مجاہد رہنماؤں کا ایک علمی اور فکری ورثہ ہوگا۔

سوال: امارت اسلامیہ کے میڈیا کمیشن کی جانب سے ہونے والی نشریات میں کون سے ادارے شامل ہیں اور ان کا کردار کہاں تک متاثر کن ہے؟

جواب: امارت اسلامیہ کے میڈیا ونگ کی نشریات میں پرنٹ کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا کے شعبے میں ایک بڑی ویب سائٹ اور آڈیو ویڈیو میڈیا کا شعبہ بھی پوری طرح فعال ہے۔ ویب سائٹ خبروں کی ترسیل کا متاثر کن ذریعہ ہے۔ خبر سے لے کر امارت اسلامیہ کے ہفتہ وارانہ اعلامیہ جات اور تجزیوں تک سارا مواد ویب سائٹ پر نشر کیا جاتا ہے۔ ویب یہ چوبیس گھنٹے اپ ڈیٹ رکھی جاتی ہے۔ لمحے لمحے کی خبریں نشر کی جاتی ہیں۔ ویب سائٹ ایک محدود خطے کے لیے نہیں بنائی گئی، بلکہ دنیا بھر کے لوگ اور میڈیا اس سے استفاد کر سکتے ہیں۔ اسی لیے وہ پشتو، فارسی، اردو، عربی اور انگلش سمیت پانچ زبانوں میں ہر وقت فعال رہتی ہے۔ آڈیو شعبے میں ریڈیو ’’صدائے شریعت‘‘ کی نشریات۔ جب کہ ویڈیو میڈیا میں افغانستان میں ہونے والی مجاہدین کی روزانہ کی کارروائیوں سے لے کے بڑے فدائی آپریشنوں تک کی کارروائیوں کی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ ہر صوبے کی کارروائیوں پر مشتمل الگ الگ البم نشر کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ علمی اور فکری بنیادوں پر دعوتی جہادی فلمیں بھی نشر کی جاتی ہیں۔ یہ فلمیں ناخواندہ لوگوں تک امارت اسلامیہ کا پیغام پہنچانے کا سب سے کامیاب ذریعہ ہیں۔

سوال: موجودہ دور میں میڈیا کی اہمیت سے شاید ہی کوئی ناواقف ہو، مگر رواں افغان جہاد میں میڈیا ذرائع کی اہمیت کے حوالے سے آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟

جواب: امریکی جارحیت کے خلاف جاری حالیہ جہاد میں عسکری جنگ کے بعد سب سے قابل توجہ شعبہ ”میڈیا جنگ” کا ہے۔ آج کے دور میں جتنی لڑائی عسکری میدان میں لڑی جاتی ہے، اس سے بڑھ کر ٹی وی اسٹوڈیو اور اخبارات کے صفحات پر لڑی جاتی ہے۔ اسی لیے امارت اسلامیہ کی واحد فعال ویب سائٹ کے خلاف بھی دن رات امریکی ہیکرز سرگرم رہتے ہیں۔ یا تو ہیک کرکے اسے بند کردیا جاتا ہے یا اس کا کھلنا مشکل ہو جاتا ہے کہ گھنٹوں انتظار کے بعد بھی ویب سائٹ نہیں کھل پاتی۔ مختلف تکنیکی مشکلات پیدا کی جاتی ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں خود امریکا اور مغرب میں اربوں ڈالر مالیت کے بڑے بڑے میڈیا ادارے کام کررہے ہیں۔ جہاں سے دن رات دہشت گردی کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں امن وامان کا قیام اور یہاں سے جارحیت کے خاتمے کے لیے مجاہدین کا ساتھ دینا ہر افغانی اور ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ اسی لیے تمام مسلمان بھائیوں سے گذارش ہے کہ کم از سوشل میڈیا پر امارت اسلامیہ کا مؤقف اور مجاہدین کی خبریں پھیلانے میں الامارہ میڈیا کی مدد کریں۔

سوال: مستقبل میں ایسے کون سے پروگرام ہیں، جن پر میڈیا کے حوالے سے کام ہونا چاہیے؟

جواب: میڈیا کے حوالے سے موجودہ حالات میں جتنا کچھ ممکن ہے، وہ سب تو کیا جارہا ہے۔ البتہ اگر ریڈیو صدائے شریعت کے حوالے سے انتظامیہ سے عرض کردیا جائے کہ افغانستان کے مفتوحہ علاقوں میں ایف ایم ریڈیوز کے ذریعے صدائے شریعت کی نشریات شروع کی جائیں تو اس کا اندرون افغانستان اور باہر کی دنیا میں بھی اچھا اثر پڑے گا۔

اکرم تاشفین صاحب! اپنی مصروفیات میں سے ہمارے لیے وقت نکالنے کا بہت شکریہ۔